موت کی ٓاغوش میں۔۔۔۔۔

ایک روز میرا لاہور سے فیصل آباد کیلئے ٹرین میں جانے کا اتفاق ہوا ۔ میرے پاس کافی سامان بھی تھا ۔ جب گاڑی اسٹیشن پر پہنچی تو میں ٹرین سے اترا اور سامان کیلئے کسی کلی کو تلاش کرنے لگا۔ لیکن مجھے کوئی کلی نظر نہ آیا۔ کسی نے مجھے بتایا کہ تمام کلی ہڑتال پر ہیں ۔ تھوڑی دور تک نظر دوڑائی تو مجھے ایک کلی نظر آیا میں اس کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ بھائی جان آپکی بڑی مہربانی ہو گی اگر آپ میرا سامان اٹھا کر باہر گاڑی تک چھوڑ دیں۔ جب میری نظر اس کلی پر پڑی تو میری آنکھیں ششدر رہ گئیں۔ مجھے اپنے دیکھنے پر یقین نہیں آ رہا تھا میرے سامنے وہ شخص موجود تھا جو فیصل آباد میں میرا محلے دارہوا کرتا تھا۔ اس کا نام اسلم تھا اور وہ نشے کی وجہ سے کلی بننے پر مجبور ہو چکا تھا۔ اسلم نے بتایا کہ اس نشے کی وجہ سے اسکی بیوی بچے اسے چھوڑ کر جا چکے تھے اور نشے کی غرض سے اس نے اپنا گھر تک فروخت کر دیا تھا اور آج نشے کی عادت کو پورا کرنے کے لئے اسے لوگوں کا سامان اٹھانا پڑتا ہے۔ میں اسے اپنے ساتھ لاہور لے آیا اور اب اس کا علاج چل رہا ہے۔ اکیلا اسلم نہیں ایسے لاکھوں لوگ جوکہ چند پل جینے کی خاطر ہر پل مر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے میرا دل چاہا کہ لوگوں کی آگاہی کی خاطر لکھوں۔

پاکستان کا کردار پوری دنیا میں ویسے ہی ٹھیک نہیں اور بیس پچیس سال سے منشیات کا نام بھی جڑ گیا ہے۔ صحت مند جسم اللہ تعالٰی کی خاص نعمت ہے۔ لیکن کچھ عوامل ایسے بھی ہیں جو کہ قدرت کی اس نعمت کو خراب کر رہے ہیں ۔ منشیات ایک لعنت سے کم نہیں ہے جو کہ ہر ہی ملک کا اہم مسئلہ ہے ۔ذرا سوچئے کہ وہ ملک کیا ترقی کرے گا جس کا ہر نوجوان بزرگ اسی مرض کا حصہ ہو۔

پاکستان میں منشیات کی مرض مردوں اور عورتوں میں دن بدن بڑھ رہی ہے۔ عام طور پر یہ سگریٹ نوشی سے شروع ہوتی ہے اور پھر ہیروئن اور چرس تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ کسی بھی تندرست و توانا جسم کو کمزور کر دیتی ہے ۔ یہ مسئلہ صرف غریب بے بس اور لاچار انسان کا نہیں بلکہ پرھا لکھا ،امیر طبقہ بھی اس مرض کا حصہ بن چکا ہے ۔ منشیات کا نشہ بہت پیچیدہ اور سنگین مسئلہ ہے اور اس سے جان چھڑانے کے لئے سب سے پہلے احساس کی ضرورت ہے ۔ اس مرض کی وجہ سے ہماری زندگی بے قابو ہو جاتی ہے۔

پاکستان میں منشیات کی شرح تشویشناک ہے اور ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عام طور پر یہ مرض اسکول کے بچوں اور پریشان حال کے لوگوں کو اپنے گھیرے میں لے لیتا ہے۔منشیات فروخت کرنے والے لوگ چند پیسے کمانے کی خاطر کسی بھی قوم کی ترقی میں زہر گھول دیتے ہیں۔

افیون کی کاشت کاری انیسویں صدی کت آخر میں شمال مغربی سرحدی صوبے کے دور دراز پہاڑی علاقوں میں شروع ہوئی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد اس کی کاشت میں کافی تیزے آ گئی۔ پہلی جنگ عظیم میں جرمنی نے اپنے فوجیوں کے زخم بھرنے کے لئے ہیروئن کا استعمال کیا۔ لیکن اس وقت افیون کو صرف ادویات کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔

افیون کو نشہ آور ادویات کے طور پر اسی کی دہائی میں استعمال کیا جانے لگا۔ پاکستان اور اس کے ہمسایہ ممالک جن میں بھارت، بنگلہ دیش، بھوٹان، مالدیپ،سری لنکا ، افغانستان وغیرہ شامل ہیں۔افغانستان میں تقریباًً نوے فیصد کے قریب افیون کاشت کی جاتی ہے اور تقریباًً چالیس فیصد کے قریب پاکستان کے راستے دوسرے ممالک کو بھیجی جاتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پچاس ٹن افیون غیر قانونی طور پر پاکستان لائی جاتی ہے۔

اًسی کی دہائی میں افغانستان کے علاوہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کثیر رقبے پر افیون کی کاشت ہوتی رہی ہے اور قبائلی علاقوں میں ہیروئن تیار کرنے کی لاتعداد فیکٹریاں بھی موجود تھیں لیکن حکومت کی کوششوں سے نہ صرف افیون کی شرح میں کمی کی گئی بلکہ ان تمام فیکٹریوں کو بھی تباہ کر دیا گیا جو کہ اس مرض کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کر رہی تھیں۔

افغانستان دنیا میں سب سے زیادہ افیون کاشت کرتا ہے۔ طالبان کے دور حکومت میں افیون کی کاشت پر کافی قابو پا لیا گیا تھا اور ہیروئن کی تیاری کو بھی روک دیا گیا تھا لیکن طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد یہ کام پھر زور پکڑ گیا۔ قبائلی علاقوں اور صوبہ سرحد سمیت پورے ملک کا نشہ عرصہ دراز سے چل رہا ہے ۔ افیون کی کاشت اور تیاری میں حکومت کی کوششیں تاہم ناکام رہی ہیں ۔ حکومت اب تک منشیات کی روک تھام کے لئے کوئی قابل ذکر اقدامات نہیں کر سکی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ نشہ کے عادی افراد کی بحالی کے لئے اقدامات کرے۔ اگر کسی نے اس سلسلے میں تھوڑا بہت کام کیا ہے تہ وہ ہمارے ملک کے کاروباری ادارے اور NGO's ہیں۔

پاکستان میں اس وقت آٹھ ملین کے قریب لوگ نشے کا شکار ہیں۔ 1983ءمیں تقریباًً پانچ سو کے قریب لوگ نشے کی مرض میں مبتلا تھے اور 1989ءکی رپورٹ کے مطابق 3.1ملین لوگ اس لعنت کا حصہ بن چکے تھے ۔ ہیروئن کے بعد چرس کے عادی افراد کے درمیان پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان میں اینٹی نارکوٹکس فورس، سینٹرل ایکسائز اینڈ کسٹم، فرنٹئر کانسٹیبلری ، پراونشل ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، ائرپورٹ سیکیورٹی فورس، پولیس، پاکستان رینجرز، نے منشیات فروشی پر بہت سے قانون نافز کئے لیکن کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہو سکا۔

اگرچہ تقریباًً تمام جنوبی ایشیائی ممالک منشیات کی اسمگلنگ اور منشیات کے استعمال کے خلاف سخت قوانین نافذ کیے ہیں ۔ لیکن ان تمام کوششوں کے بہت مایوس کن نتائج رہے ہیں ۔ منشیات کی روک تھام میں ناکامی کی ایک وجہ کرپشن بھی ہے۔ اگر ہمارے ادارے بہت کوششوں کے باوجود کسی مجرم کو پکڑبھی لیتے ہیں تو معمولی سزا یا پھر رشوت لے کر باہر آ جاتے ہیں ۔ منشیات ک کاروبار کرنے والوں کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں اس لیے ہماری حکومت ساراکچھ جانتے ہوئے بھی ان کے خلاف کچھ نہیں کر سکتی۔ منشیات ہمارے ملک کا اہم مسئلہ ہے ۔حکومت کو چاہے کہ اس پر قابو پانے کے لیے مزید سخت اقدامات کرے۔ اور اس سے نمتنے کے لئے ہمیں حکومت کا ساتھ دینا ہو گا۔ اس طرح کے پروگرام تشکیل دئے جائیں کہ اس لعنت سے بچا جا سکے۔وقت آگیا ہے کہ معاشرہ اورحکومتیں مل کر اس کی روک تھام کے لئے کام کریں اور ایک ایسا معاشرہ قائم کیا جائے کہ اس طرح کا مرض دوبارہ کبھی داخل نہ ہو سکے۔
muhammad sajjad virk
About the Author: muhammad sajjad virk Read More Articles by muhammad sajjad virk: 16 Articles with 17712 views I am student of master in mass communication.. View More