کہاں جائیں یوگا کے مارے؟

ہندومت کی روایات کے مطابق جسمانی اور روحانی نظم و ضبط پر مبنی طریقہ ورزش یوگا یایوگ ایک مرتبہ پھر تنازعات میں گھر گئی ہے۔حالانکہ مغربی دنیا کو’یوگ‘ اور ’دھیان‘ سے متعارف کرانے والے ہند نژاد روحانی گرو۔مہا رشی یوگی نے یوگ اور دھیان کے ذریعہ بہتر صحت اور روحانی تعلیم کے وعدے کے ساتھ یوگ کی دنیا میں قدم رکھا اور ان سے بڑی تعداد میں مشہور شخصیتیں منسلک ہوئیںلیکن فی زمانہ دیار غیر میں ہی نہیں بلکہ اپنے وطن میں بھی اسے شک کی نظروں سے دیکھا جارہا ہے۔ممبئی کے ماہر آرتھوپیڈک سرجنز کا کہنا ہے کہ یوگا گھٹنوں کیلئے شدید نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ طبی ماہرین کا ماننا ہے کہ ذہنی و جسمانی صلا حیت پر مثبت اثرات مر تب کرنے اور انہیں پرسکون بنانے کیلئے اپنائی جانے والی یوگا مشقیں ہڈیوں کے جوڑ اور خصوصا بیٹھنے کے انداز کے باعث گھٹنوں کیلئے انتہائی مضر ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ وہ اب تک کئی یوگا ماہرین کے گھٹنے بھی تبدیل کرچکے ہیں۔اس انکشاف سے دنیا بھر میں بسے ہوئے وہ ہزاروں افرادجو ذہنی و جسمانی سکون اور تھکاوٹ سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے یوگا مشقیں اپناتے ہیں‘سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کیا کریں جبکہ مذہبی حلقوں میں بھی اس کے تعلق سے کوئی صحت مند نظریہ سامنے نہیں آیا ہے۔لندن سے موصولہ ایک اہم کیتھولک پادری کے دعویٰ پر یقین کریں و یوگا شیطانی اور گمراہ کن عمل ہندو مت کی تعلیمات پر مبنی ہے۔یہ دعویٰ ویٹیکین کی شیطانوں سے نمٹنے کی ٹیم کے سربراہ پادری گیبرئیل امروتھ نے کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یوگا کی مشقیں شیطانی عمل ہیں اس سے شیطان کو طاقت ملتی ہے۔ان کے بقول شیطان پوشیدہ رہ کر یہ کوشش کرتا ہے کہ ہم اس موجودگی کو تسلیم نہ کریں۔

اسی پر بس نہیں بلکہ ملیشیا میںتو یوگا پر پابندی بھی عائد کردی گئی ہے۔نیشنل فتویٰ کونسل کی مانیں تویوگا کی مشق اسلا م میں حرام ہے ، ہندوانہ عنصر مسلمانوں کو گمراہ کرسکتے ہیں ۔کوالالمپورکے اردوپوائنٹ اخبا رکے22نومبر2008 کی اشاعت کے مطابق ملیشیا میں یوگا میں جہاں جسمانی مشق کی جاتی ہے وہیں اس میں عبادت اور دیگر رسو م بھی شامل ہیں جسے مسلمانوں کیلئے حرام قرار دیدیاگیاہے۔یہ فتوی گذشتہ دنوں اسلام اسٹڈیز کے لیکچرار کی جانب سے یوگا کے خلاف آواز بلند کرنے کے بعد سامنے آیا جس میں ان کا کہناتھاکہ یوگا مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات سے دور لیجاسکتاہے۔یہی وجہ ہے کہ ملیشیاکی قومی فتویٰ کونسل نے یوگا کی ایسی مشقوں کو جن میںجسمانی ورزش کے ساتھ کے ساتھ پوجا پاٹھ اورجنتر منتریا اشلوک کا جاپ بھی شامل ہو‘ممنوع قرار دے دیا جبکہ کونسل کے چیئر مین داتو ڈاکٹر عبد الشکور حسین کا کہنا ہے کہ اگرچہ یوگا کو جسمانی ورزش کے طور پر کرنے میں بظاہرمذہب کی نظر میں تو کوئی حر ج نہیں ہے بشرطیکہ اس میں پوجا اور منتروںکاجاپ شامل نہ ہو لیکن اس سلسلہ میں دوسروں کو اپنی تقلید پر آمادہ کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔انہو ں نے کہاکہ ہندو فرقہ ہزاروں سال سے یوگا پوجا پاٹھ اور جنتر منتر کے جاپ کی آمیزش کے ساتھ کررہا ہے۔ اور ان کی اس عبادت کا مقصد اپنے آپکو بھگوان کے روپ میں ڈھالنا ہے۔ڈاکٹر عبد الشکور نے کہا ہندوؤں کے اس عقیدہ کے پیش نظر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کیلئے اس قسم کا یوگا کرنا قطعی نامناسب ہے۔ اسی لئے فتوی ٰ کونسل نے قرار دیا ہے کہ پوجا پاٹھ اور جنتر منتر کی جاپ کے ساتھ کیا جانے والا یوگا مسلمانوں کے لئے حرام ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ اس سلسلہ میں مسلمانوںکی قطعی حوصلہ ا فزائی نہیں کریںکہ وہ یوگا کو بطور ایک ورزش اپنائیں۔کیونکہ یوگا کے آسن لا محالہ طور پر اس قسم کی و رزش کرنے والو ں کو پوجا پاٹھ اور جنتر منتڑ کے جاپ کی جانب آماد ہ کرتے ہیں۔ اور یہ چیزیں یقیناًً خلاف اسلام ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسلام کسی شخص کواس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی کے عقیدہ کوخراب کرے، یا مذہب میں بگاڑ پیدا کرے۔ ڈاکٹر موصوف کی مانیں تو یوگاکومحض جسمانی ورزش کے طور پر ادا کرنے سے بھی کسی شخص کے،مذہب پر اس کے ایمان و اعتقاد میں خلل پڑسکتا ہے۔چنانچہ مسلمانوں کو یوگا پر عمل کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔ان کا کہنا تھا کہ اسلامی فتویٰ کونسل کے سامنے جب یہ مسئلہ اٹھایا گیا کہ مسلمانوں میںیوگا پر عمل کرنے کے بارے میں بڑی تشویش پائی جاتی ہے کہ آیا یہ اسلامی ہے یا غیر اسلامی؟ تو اس سلسلہ میں ملشیا کی اسلامی فتویٰ کونسل نے فتوی ٰ جاری کرکے مسلمانوں پریوگاکرنے کی ممانعت کردی۔دریں اثناءملیشیا کی کیبن گسان یونیورسٹی کے اسلامک اسٹڈیز سینٹر کے پروفیسر زکریا اسٹاپا نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ اگر وہ یوگا پر عمل کرہے ہیں تو فوری طور پرترک کردیں کیونکہ خدشہ ہے کہ اس طرح وہ اسلامی تعلیمات سے برگشتہ ہوجائیں گے۔

ڈاکٹر عبدالشکورکے بقول یوگا کو حرام قرار د ینے کا فتویٰ کونسل کے ارکان نے گذشتہ ماہ تفصیلی غور وخوض کے بعد جاری کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ کونسل کے ارکان یوگا کے مقاصد اور خصوصاً تاریخی تناظر میں اس عمل کا جائزہ لیتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچے کہ یوگا کا اصل مقصدبھگوان جیسا ہوجانا ہے۔ چنانچہ کونسل نے یہ فیصلہ دیا کہ مسلمانوں کا یوگا کو اختیار کرنا حرام ہے کیونکہ اس سے مسلمانوں کے عقائد متاثرہوسکتے ہیں جبکہ غیر مسلموں کے یوگا کرنے پرکوئی قدغن نہیں۔ یوں بھی فتویٰ کا اطلاق ہمیشہ مسلمانوں پر ہی ہوتا ہے۔اس لئے غیر مسلموں کو اس بارے میں کوئی سوال کرنے یا بحث کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘وہ جو چاہیں کرنے کےلئے آزاد ہیں‘ البتہ مسلمان اس فتویٰ کے پابند ہیں۔

واضح رہے کہ ملیشیا کوئی واحد ملک نہیں ہے جہاں یوگا کو حرام قرار دیا گیا ہے بلکہ یوگا کے خلاف سنگا پور اور مصر میں بھی ایسے ہی فتاویٰ جاری ہوچکے ہیں۔ یوں بھی اسلام سختی سے اس بات کی تلقین ہی نہیں کرتا ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے بلکہ صحت مندطرز زندگی اختیار کرنے پر زور دیتا ہے، نماز پنجگانہ کی روزینہ ادائیگی اس کی بہترین مثال ہے۔آسن کا نعم البدل نماز میں سجدہ ہے جس میں نقصان تو کوئی نہیں لیکن مذکورہ فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں کیونکہ سجدے کی حالت میں بھی خون کا بہاﺅ سر کی طرف ہوتا ہے مطلب نماز میں سرش آسن کے فوائد بغیر کسی نقصان کے حاصل کرلیتا ہے۔اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جسے جس ترازو میں تولا گیا تو یہ الحمدللہ پورا اترا‘ مسلمان اس لئے نماز نہیں پڑھتا کہ اس میں سائنسی تحقیق کے مطابق فوائد ہیں‘ روزہ اس لئے نہیں رکھتا کہ میڈیکل سائنس نے اس کے بے شمار فوائد بتائے بلکہ مسلمان تو ہر حکم کو اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر کرتا ہے۔ لیکن یہ تو حق ہی کا خاصہ ہے کہ جو اسے اپناتا ہے اسے دنیاو آخرت دونوں میں کامیاب کردیتا ہے۔ احکام اسلام کے سائنسی فوائد کے موضوع پر بے شمار کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ آج علم یکسوئی کا ایک ادنیٰ طالب علم احکام اسلام میں یکسوئی کی چند جھلکیاں ڈھونڈ کر لایا ہے تو سب سے اسلام کی بنیادی رکن نماز کا ذکراہم ہوگا۔

ماہرین علم یکسوئی بتاتے ہیں کہ ارتکاز توجہ کی کوئی بھی مشق کرنی ہو تو اس سے پہلے سانس کی مشق یا لمبی لمبی سانس لینی چاہئے جس سے انسان یکسو ہوجاتا ہے۔ گویا یکسوئی کی مشق کرنے سے پہلے مشق کیلئے یکسو ہونا چاہئے۔ غور کیا جائے تو اسلام نماز سے پہلے وضو کا حکم دیتا ہے اور یہ سائنسی تحقیق سے ثابت ہوچکا ہے کہ وضو سے انسان یکسو ہوجاتا ہے۔ گویا ایک مسلمان یکسوئی کی ایک مشق کرنے سے پہلے یکسوئی حاصل کرنے کے قانون سے صدیوں پہلے آگاہ ہوچکا ہے اب دوسرا مرحلہ نماز کا آتا ہے نماز تو سبحان اللہ یکسوئی کا مکمل نصاب ہے۔ارتکاز توجہ یایکسوئی کے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کامیاب مشق وہی ہے جس میں انسان اپنی نگاہ کے ساتھ ساتھ توجہ وخیال کو بھی ایک نقطہ پر مرکوز کرے۔ مثلاً مشق شمع بینی کی ہو آئینہ بینی کی ہو یا سورج بینی اس میں شمع سورج یا آئینہ پر ٹکٹکی باندھ کر آنکھیں جھپکنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی ممانعت ہے کہ توجہ ادھر ادھر بھٹکی نہ ہو اب غور کیا جائے تو کامیابی کا یہ قانون نماز سے اخذ شدہ ہے۔ نماز میں قیام کی حالت میں نگاہ سجدے کی جگہ پر مرکوز کی جاتی ہے اور رکوع میں پاﺅں کی پشت کو دیکھا جاتا ہے اور سجدے میں ناک کو اور اس کے ساتھ ساتھ تمام تر توجہ نمازی نماز پر مرکوز کردیتا ہے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے۔

یکسوئی کی مشقوں میں ایک شرط اور بھی ہے وہ یہ ہے کہ عامل جس پوزیشن میں بیٹھ جائے تو کمر اورگردن ایک سیدھ میں ہونی چاہئے اور ہلنے جلنے کی ممانعت ہے اس لیے کہ اس سے اس کی توجہ میں خلل پڑ جاتا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی والدہ ام رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں ایک مرتبہ نماز پڑھ رہی تھی نماز میں ادھر ادھر جھکنے لگی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھ لیا تو مجھے اس زور سے ڈانٹا کہ میں (ڈر کی وجہ سے) نماز توڑنے کے قریب ہوگئی پھر ارشاد فرمایا کہ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جب کوئی شخص نماز میں کھڑا ہو تو اپنے بدن کو بالکل سکون سے رکھے۔ یہود کی طرح ہلے نہیں‘ بدن کے تمام اعضاءکا نماز میں بالکل سکون سے رہنا نماز کے پورا ہونے کا جز ہے۔ گویا کامیابی کا یہ قانون نماز سے اخذ شدہ ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ماہرین فن یکسوئی کے طالب علم کو مشقوں کے دوران مقوی دماغ اشیاءکھانے کی تلقین کرتا ہے کہ دماغ میں ضعف پیدا نہ ہو۔ اس کیلئے ماہرین یوگ نے ایک آسن بتایا ہے جس کا نام ہے سرش آسن۔ اس آسن میں انسان سر کے بل کھڑا ہوتا ہے اس آسن کے دو فوائد بتائے جاتے ہیں۔ایک تو اس میں انسانی دماغ میں واقع غدود پینل گلینڈ جسے چھٹی حس بھی کہا جاتا ہے پر دباﺅ پڑتا ہے جس کے نتیجے میں آہستہ آہستہ یہ غدود بیدار ہوجاتے ہیں کہ یکسوئی مشقوں کا مقصد ہی یہی ہے۔دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس آسن کے دوران خون کا بہاﺅ انسان کے سر کی طرف ہوجاتا ہے جس سے انسان کا دماغ طاقتور ہوجاتا ہے اس آسن کے اور بھی بہت سے فوائد ہیں لیکن یہ آسن جتنا فائدہ مند ہے اتنی ہی خطرناک بھی ہے کیونکہ اس میں ذرا سی بے احتیاطی سے انسان کی گردن کو نقصان پہنچ سکتا ہے اس لیے ماہرین یوگ یہ آسن چند سیکنڈ سے زیادہ کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔لیکن غور کیا جائے تو اس آسن کا نعم البدل نماز میں سجدہ ہے جس میں نقصان تو کوئی نہیں لیکن مذکورہ فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں کیونکہ سجدے کی حالت میں بھی خون کا بہاﺅ سر کی طرف ہوتا ہے مطلب نمازی نماز میں سرش آسن کے فوائد بغیر کسی نقصان کے حاصل کرلیتا ہے۔ اب نماز کے آخری ارکان دونوں طرف سلام پھیرنا پر غور کیا جائے تو یہ یکسوئی کیلئے حیرت انگیز فوائد رکھتا ہے مثلاً یکسوئی کی جتنی بھی مشقیں ماہرین نے ذکر کی ہیں ان تمام کا مقصد انسانی دماغ میں واقع دو غدودپینل گلینڈ جو کہ ہمارے ناک سے ایک انچ اوپر واقع ہیں اور پچوٹری گلینڈ جو کہ دماغ گمین بیچ میں واقع ہیں‘ بیدار کرنے کیلئے کی جاتی ہیں تو نماز میں صرف سلام پھیرنے ہی کو دیکھا جائے تو یہ چیز واقع ہوجاتی ہے جب نمازی دائیں طرف سلام پھیرتا ہے تو پینل گلینڈ پر دباﺅ پڑجاتا ہے اور جب نمازی بائیں طرف سلام پھیرتا ہے تو پچوٹری گلینڈ پر دباﺅ پڑتا ہے۔ نماز سے یہ تمام فوائد حاصل ہوسکتے ہیں بشرطیکہ ہم نماز کے حقوق کا خیال رکھیں۔نماز اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا حکم ہے باقی تمام احکام زمین پر اترے اور نماز کیلئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش پر بلایا گیا نماز کفر اور اسلام میں فرق واضح کرتی ہے۔ نماز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور روز قیامت سب سے پہلے نماز کے بارے میں پوچھا جائیگا۔

اتنے بڑے حکم سے صرف یکسوئی حاصل ہوجائے تو یہ بہت چھوٹی سی بات ہے۔ اس حکم کے تمام فوائد احاطہ تحریر میں لانا کسی کے بس کی بات نہیں۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 116332 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More