جمہوریت یا طاقت ور گھوڑوں کا مقابلہ؟

آپ اپنے ایمان سے کہیے کہ جس ملک میں ننانوے فیصد افراد قوم کے وکلائ، تاجر، پروفیسرز، intelligentsia، پڑھا لکھا نوجوان، سائنٹسٹ، تعلیم یافتہ سفید پوش افراد یعنی جن طبقات کے پاس حرام کے ذرائع سے کمائے ہوئے کروڑوں روپے الیکشن میں جھونکنے کے لیے نہیں، وہ الیکشن میں کیسے حصہ لے سکتے ہیں؟ پھر ان موجودہ سیاسی جماعتوں میں خواہ وہ پیپلز پارٹی ہو یا درجنوں مسلم لیگز ہوں یا کوئی اور یہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے نظریاتی کارکنوں کو جو ایم۔ اے ہوں، PhDs ہوں، ماہر scientists ہوں، economists ہوں، social sciences میں ماہر ہوں، financial management میں ماہر ہوں، مگر ہوں بالکل متوسط سفید پوش طبقہ سے۔ بفرض محال ان کو ٹکٹ دے دیں تو کیا وہ الیکشن جیت سکیں گے؟ سادہ جواب ہے : No۔ جو جماعت بھی ان باکردار، تعلیم یافتہ کارکنوں کو سیٹوں کے لیے ٹکٹ دے گی وہ جماعت الیکشن ہار جائے گی۔ سوال پھر یہ پیدا ہوا کہ دشمن کون ہوا؟ جماعت یاelectoral system monopolistic ۔ اس الیکشن میں باکردار، سفید پوش اور تعلیم یافتہ آدمی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حالانکہ یہی لوگ اپنے علم، تجربے اور پلاننگ سے حقیقی طور پر اس ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ اس الیکشن کے نظام میں ایسا کوئی شخص انتخاب نہیں لڑسکتا۔

حقیقت یہ ہے کہ صالح اور نظریاتی کارکنوں کو مروجہ نظامِ سیاست قبول ہی نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے آپ جب سیاسی جماعتوں سے بات کرتے ہیں کہ آپ پھر انہی کو ٹکٹ دے رہے ہیں جن سے قوم مایوس ہے تو ہر سیاست دان یہی جواب دیتا ہے کہ ’کیا کریں ان کے بغیر الیکشن نہیں لڑا جا سکتا!‘ بس یہاں جا کر ساری کہانی ختم ہو جاتی ہے۔ یہی اس انتخابی نظام کی سب سے بڑی خرابی ہے۔ چنانچہ یہ نظامِ انتخاب ہی عوام کا سب سے بڑا دشمن ہے جس نے اسے سر سے پاؤں تک لوہے کی بیڑیوں سے جکڑ رکھا ہے۔ اس نظام میں جو جیتنے کے قابل ہیں ان کو winning horses کہتے ہیں، ان کو ہی put کریں گے تو آپ جیتیں گے۔ میں نے 1990ء میں بھی تعلیم یافتہ کارکنان پر مشتمل لوگ الیکشن کے لیے چنے تھے۔ جن میں ڈاکٹرز بھی تھے، لیکچررز بھی تھے پروفیسرز بھی تھے۔ PhDs بھی تھے اور وکیل بھی تھے۔ اور 2002ء میں بھی ایسے ہی بہترین صلاحیتوں کے حامل دیانت دار پڑھے لکھے لوگ ہمارے اُمیدوار تھے مگر کوئی نہیں جیت سکا۔ کیوں؟ اِس لیے کہ اُن کے پاس بڑی بڑی برادریاں نہیں تھیں۔ ان کے پاس کروڑوں کا سرمایہ نہیں تھا۔ ان کے پاس اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ نہیں تھی۔ ان کے پاس برادریوں کی بنیاد پر، دہشت گردی کی بنیاد پر، غنڈہ گردی کی بنیاد پر، پیسوں کی بنیاد پر ووٹ خریدنے کا اہتمام نہیں تھا۔ ایک پڑھے لکھے آدمی کے پاس کیا ہے؟ اُس کے پاس علم ہے، دیانت ہے، سفید پوشی ہے اور ملک و قوم کا درد ہے۔ اس کے پاس دماغ ہے، صلاحیت ہے، deliver کرنے کی capability بھی ہے یعنی وہ سارا کچھ ہے جس پر قوم فخر کر سکتی ہے۔ لیکن اس انتخابی نظام کے سامنے ان کی تمام صلاحیتیں صفر ہیں۔ حالانکہ اس ملک کی عوام میں talent کی کمی نہیں۔ اس میں امریکی قوم سے بھی بہتر talent ہے۔ خدا کا فضل ہے اس سرزمین پاکستان پر کہ یہاں کے ڈاکٹرز، انجینئرز، قانون دان، economists، sociologists وغیرہ مغربی اور یورپی اقوام سے کسی طرح پیچھے نہیں۔ میں مجموعی طور پر بات کر رہا ہوں، کسی شعبے میں ہم دنیا کی کسی قوم سے پیچھے نہیں لیکن نظام ہم سب کے پاؤں کی زنجیر بنا ہوا ہے۔ یہاں تو سیاست وہی کر سکتا ہے جس کے پاس طاقت ور گھوڑے یعنی winning horses ہوں۔ جہاں حکومت سازی کے لیے گھوڑوں کی سی مار دھاڑ پر مبنی طاقت درکار ہو وہاں دانش و حکمت اور علم و بصیرت وغیرہ کی کیا قدر ہوگی؟ فکر کی صلاحیت اور ذہنی قابلیت کو کتنا weight مل سکے گا؟