کیوں آرہی ہے مخلوط تعلیم کے رجحان میں کمی؟

ایک طرف توسعودی عرب میں مخلوط تعلیم کی مخالفت کرنیوالے مفتی کو برطرفی کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ دوسری جانب ایک اسرائیلی اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل میں بچوں کو مخلوط تعلیمی اداروں کی بجائے صنفی بنیاد پر الگ تھلگ اسکولوں میں تعلیم دلوانے کا رحجان بڑھ رہا ہے۔اس سے قبل سعوی عرب کے فرمان روا شاہ عبداللہ کیطرف سے ایک یونیورسٹی میں مخلوط نظام تعلیم متعارف کرانے پر سخت تنقید کرنے والے مفتی شیخ سعاد الشیتھری کیخلاف کاروائی کرتے ہوئے انہیں سعودی علما کے اعلیٰ کونسل کی رکنیت سے نکال دیا گیا تھا۔ مفتی موصوف نے سعودی شاہ کیطرف سے عبد اللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں لڑکے اور لڑکیوں کو ایک ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے طریقہ کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے مخلوط طریقہ تدریس کی شدید مخالفت کی تھی لیکن اب نظام تعلیم پھر سے صحیح ڈگر کی جانب گامزن نظرآرہا ہے۔معروف اسرائیلی اخبار ہیریٹز میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق ریاست کے دینی اداروں میں شروع کیے جانے والے اس اقدام کے نتیجے میں اب ملک کے دیگر حصوں میں بھی بچوں اور بچیوں کو الگ الگ اسکولز میں درس و تدریس فراہم کرنےکا سلسلہ فروغ پا رہا ہے۔ وزارت تعلیم کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل کے پرائمری اسکولز میں صنفی بنیادوں پر تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی شرح 65 فیصد ہے جبکہ ایک دہائی قبل یہ شرح صرف 25 فیصد تھی۔ اسرائیلی حکومت تین قسم کے تعلیمی اداروں کو فنڈز فراہم کرتی ہے۔ ان میں ریاست کی زیر نگرانی چلنے والے تعلیمی ادارے ، قومی دینی ادارے اور کٹر قدامت پسند تعلیمی ادارے شامل ہیں۔

ریاست کی نگرانی میں چلنے والے تعلیمی اداروں میں مخلوط درس و تدریس کا نظام رائج ہے جبکہ کٹر قدامت پسند اداروں میں صنفی بنیادوں پر تعلیم دی جاتی ہے۔ محکمہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق حالیہ دو برسوں میں پرائمری سطح کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی شرح کٹر قدامت پسند اسکولوں میں28.9 فیصد ، قومی دینی اداروں میں 18.5 فیصد جبکہ ریاست کے زیر نگرانی چلنے والے تعلیمی اداروں میں 52.6 فیصد رہی۔ اسی طرح ثانوی سطح کے تعلیمی اداروں میں یہ شرح بالترتیب 20.2 فیصد، 17.3 فیصد اور 62.5 فیصد رہی ہے۔

اخبار کے مطابق صنفی بنیادوں پر تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اسرائیل کو لاکھوں ڈالرز زائدخرچ کرنے پڑ رہے ہیں کیونکہ بچوں اور بچیوں کی الگ الگ درس و تدریس کیلئے اسکولوں میں کلاس روم معمول کے مقابلے میں کافی چھوٹے سائز کے تعمیر کئے جاتے ہیں۔ یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جبکہ اسرائیل میں خواتین کے حقوق اور ملک میں کٹر قدامت پسند کمیونٹی کو حاصل اختیارات کے حوالے سے بحث جاری ہے۔عورتوں کے حقوق کیلئے سرگرم کارکنوں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی کٹر قدامت پسند کمیونٹی عورتوں پر اپنی ثقافتی روایات مسلط کرنا چاہتی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اس سلسلے میں سیاسی شخصیات بشمول دارالحکومت یروشلم کے میئر بھی ان کاروائیوں کے سدباب میں بےبس نظر آتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے بھی اسرائیل میں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیلی میڈیا رپورٹوں کے مطابق امریکی وزیر خارجہ نے یہودی ریاست میں صنفی بنیادوں پر وضع کئے گئے ٹرانسپورٹ کے نظام پر بھی افسوس کا اظہار کیا ہے۔جس کے نتیجے میں باطل مزاج کے حامل تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیمی نظام کا رواج عروج پکڑتا نظر آرہاہے ۔جو نئی درسگاہ معرض وجود میں آتی ہے اِسی نطام کے تحت تعلیم دینا پسند کرتی ہے ۔کچھ فتنہ پسند عناصر اس کی تعریف میں رطب السان نظر آتے ہیں اور اس کی حمایت میں دلیلیں دیتے نہیں تھکتے ۔ان کے خیال میں مخلوط تعلیمی نظام کی وجہ سے لڑکے اور لڑکیاں تعلیم میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اور دلجمعی سے تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اسکولوں میں گھر جیسا ماحول بن جاتا ہے لڑکیوں میں احساس محرومی ختم ہوتا ہے۔ لڑکے ایسے ماحول میں خوش رہتے ہیں جہاں لڑکیاں بھی موجود ہوں وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ دوسری جانب حق پرست سوچ کی حامل خواتین اور حضرات اسے تعلیمی نظام کیلئے زہر قاتل گردانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تمام ایسے تعلیمی ادارے جہاں مخلوط تعلیم دی جاتی ہے‘ انہیں اِس بات کا پابند کیا جائے کہ کم از کم ایسے اداروں میں لڑکے اور لڑکیوں کو ایک ساتھ بِٹھانے کے بجائے علیحدہ علیحدہ کلاسوں کا اھتمام کیا جائے لڑکوں کے لئے مَرد اساتذہ اور لڑکیوں کے لئے خواتین ٹیچر کا انتظام کیا جانا چاہئے۔

جبکہ تجربہ بتا رہا ہے کہ مخلوط تعلیم کی وجہ سے لڑکے لڑکیاں تعلیم میں دلچسپی لیں یا نہ لیں جوں جوں سن بلوغت کے قریب پہنچتے ہیں ایک دوسرے میں دلچسپی لینا ضرور شروع کر دیتے ہیں جسکی وجہ سے جوانی آنے سے قبل ہی جوان ضرور ہوجاتے ہیں اور پھر بات اسکول تک محدود نہیں رہتی بلکہ قربت دوستی میں بدل جاتی ہے درسگاہیں معاشقی کا اڈہ بن جاتے ہیں ۔عشق مجازی میں بندے کا جو حال ہوتا ہے اسکا ادراک وہی کرسکتا ہے جسے اِسکا تجربہ ہوا ہو یا جس نے اِس کی تباہ کاریاں دیکھی ہوں مجنوں کو لیلیٰ کوتعلیم تو کجا کھانہ کھانے دینا بھی اچھا نہیں لگتا یہاں تک کہ جِن ماں باپ کی شفقت کے ہر گھڑی گیت گائے جاتے تھے اگروہ اِس امر سے روکیں یا ٹوکیں تو وہی والدین دشمن لگنے لگتے ہیں۔ وہ ماں باپ جو بھیڑچال کا نشانہ بنے تھے اگر سختی کریں تو یہ ماں باپ کی عزت کو روند کر گھر سے بھاگ جانے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور پھر جو رسوائی مقدر ہوتی ہے تو ماں باپ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ الہی ہمیں ایسی اولاد کیوں دی ؟جبکہ غلطی تو نظام تعلیم کی تھی جس کے تحت آگ اور پٹرول کو ساتھ رکھا گیا۔لہذا آتشزدگی کا خطرہ تو رہے گا نا؟’کو ایجوکیشن‘ ہمارے معاشرے کا ایسا ناسور ہے جسکی بدبو سے تمام معاشرہ میں تعفن پھیلتا جارہا ہے ویسے بھی آج سائنسدانوں کی تحقیق بتا رہی ہے کہ لڑکیوں اور لڑکوں کی ذہنی سطح میں بڑا تضاد ہے۔ لڑکیوں کی ذہنی سطح تعلیم حاصل کرنے کیلئے پھولوں کی طرح نرم ماحول کی متقاضی ہے جبکہ لڑکوں کے ذہنی ٹشوز سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں دباؤ اور سختی کا ماحول درکار ہوتا ہے۔ حضرت امام محمد بن غزالی علیہ رحمتہ الوالی، ارشاد فرماتے ہیں اللہ کریم نے عورت اور مرد میں ایسی حس پوشیدہ رکھی ہے کہ اگر ایک جنس دوسری جنس کو چھپ کر بھی دیکھے تو دوسری جنس کو جسم میں چبھن سی محسوس ہوتی ہے اور اسے اِس بات کا ادراک ہوجاتا ہے کہ کوئی مجھ کو دیکھ رہا ہے جبکہ یہ خوش فہمی عام ہے کہ یہ دونوں باہم بھی رہیں گے اور اور ایک دوسرے میں دلچسپی بھی نہ لیں گے۔ہر وہ کام جِو اللہ عزوجل اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند ہو کسی غیرت مند مسلمان کو پسند نہیں ہوسکتا۔ اپنی بچیوں کو لڑکوں کیساتھ پڑھوانا روشن خیالی نہیں بے غیرتی کا ثبوت ہے جبکہ ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ دیوث جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ اب فیصلہ سرپرستوں پرموقوف ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ علم مومن کی گمشدہ میراث ہے جہاں سے مِلے حاصل کرلے۔ زیادہ عرصہ نہیں گذرا جب اس طرح کے مخلوط تعلیمی نظام کا کوئی تصور بھی نہ تھا۔دنیا بھر میں علم میں مسلمانوں کا کوئی ہم پلہ بھی نہ تھا۔دنیائے اسلام کی عظیم درسگاہیں جو کہ مصر ترکی شام اور عراق میں موجود تھیں ۔دنیا بھر کے غیر مسلم بھی حصو ل علم کیلئے یہیں سے استفادہ کیا کرتے تھے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کہ جہاں تعلیم حاصل کرنا ایک اعزاز مانا جاتا ہے‘ کے بانی اور سرپرست مسٹر راجر بیکن نے بھی اِنہی مسلم یونیورسٹیوں سے عربی میں تعلیم حاصل کی یہاںتک کہ مسلم علماءکے جبہ سے متاثر ہو کر جب انگلینڈ پہنچاتو گاؤن پہننا شروع کردیا جسکی وجہ سے متعصب عیسائیوں میں مشہور ہوگیا کہ راجر بیکن نے مذہب تبدیل کرلیا ہے اور اسے راجر بیکن کی بجائے طنزیہ محمد بیکن کہنے لگے۔ ایک وہ دور تھا کہ مسلمان نت نئے تجربات اور ریاضت کی وجہ سے علمی میدان کے ایسے شہسوار تھے جنکا دور دور تک کوئی مدمقابل نہ تھا اور آج یہ حال ہے کہ فرنگی تخیلات کے گھوڑوں پہ سوار ارباب اختیار کو اپنا تعلیمی نظام فرسودہ نظر آتا ہے ۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 115824 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More