کیا کینسر کے مریض کومل سکے گی بخار کی دوا سے شفا؟

عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں پر اقوام متحدہ کے زیر اہتمام بین الاقوامی کانفرنس پولینڈ کے شہر پوزنان میں جاری اقوام متحدہ ماحولیاتی کانفرنس کی ڈور اب ایک فنڈ سے جا کربندھ گئی ہے۔ ابھی کہنا مشکل ہوگا کہ یہ ڈور کتنی مضبوط رہے گی اور اس کی گرہ ٹھیک سے لگ بھی سکے گی یا نہیں۔اس بین الاقوامی کانفرنس میں 185 ممالک کے 9 ہزار مندو بین شر کت کر رہے ہیں جبکہ کانفرنس12 دسمبر تک جاری رہے گی۔ 2020 تک دنیا کے 37ممالک کو اپنی گرین گیسوں کے اخراج کو مزید کم کرکے 1990کی سطح پر لانے کیلئے غوروفکر جاری ہے۔ اس کے علاوہ کانفرنس میں غریب ممالک کو عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کیلئے فنڈ کے قیام سے متعلق بھی اہم فیصلے کئے جانے ہیں۔اس فنڈ کا نام ہے ’گرین کلائمٹ فنڈ‘ یعنی سبز ماحولیاتی فنڈ۔ اس کی تجویز گزشتہ سال کان کن کانفرنس میں رکھی گئی تھی۔ طویل بحث و مباحثہ کے بعد نہ صرف یہ کہ فنڈبھی قائم ہو گیا بلکہ یہ بھی طے ہوا کہ ترقی پذیر ممالک کو آلودگی کے مسائل کے تدارک کیلئے اس فنڈ سے براہ راست ادائیگی ہوگی۔اس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ عالمی برادری 2024تک افغانستان کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔ یہ وعدہ ہے افغان کانفرنس میں شریک دنیا کے 85 سے زائد ممالک کے نمائندوں کا۔ اس حوالے سے یہ بات خاصی اہم ہے کہ مالیاتی بحران کے دور میں امیر صنعتی ممالک کی اقتصادی صورتحال بھی بہت زیادہ حوصلہ افزاءنہیں ہے تو افغانستان کو مالی امداد کس طرح فراہم کی جائے گی؟2024تک کون سا ملک کتنی رقم فراہم کرے گا، اس بات کا فیصلہ اگلے برس ٹوکیو میں ہونے والی ڈونر کانفرنس میں ہو گا۔ ایک دلچسپ امر بون کانفرنس میں یہ سامنے آیا کہ کسی بھی ملک نے افغانستان کے حوالے سے ان مشکلات پر بات نہیں کی، جو آئندہ برسوں کے دوران اس ملک کو گھیر سکتی ہیں۔

ڈربن کانفرنس میں اب اس فنڈ پر مزید مذکرہ چل پڑا ہے۔ یہ بات حامی ممالک کی میٹنگ میں بھی ایجنڈے میں ہے اور فنڈ کیلئے الگ سے ایک کمیٹی بھی سرگرم ہے۔ اس کمیٹی کی تشکیل یوں توکان کن میں ہی ہو گیا تھا۔ اس میں کل چالیس رکن ہیں ؛ پچیس ترقی پذیر ممالک کے اور پندرہ صنعتی ممالک کے۔ اس کے علاوہ بارہ بارہ ارکان دونوں طرف کے حوالے سے ایک آپریشن کمیٹی بھی تشکیل دی گئی کر دی گئی ہے۔اس بے حد اہم معاملے میں طے یہ ہونا ہے کہ اس فنڈ سے ادائیگی کا عمل کیا ہوگا۔ یعنی پیسہ کن ممالک کو دیاجائے گا۔ یہ تو صاف ہے کہ یہ ادائیگی ترقی یافتہ ممالک کو نہیں دیجائے گی لیکن ترقی پذیر ممالک میں بھی کس کام کیلئے ، کس نام پر کب اور کتنی دی جا سکے گی‘ کیا مسقبل میں ہونے والے حادثوں کی نازک گھڑی میں یہ فنڈ کام کرے گا؟ اس طرح کے کئی پہلوؤں پر ممالک اپنے طورپر سے بحث کر رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اس فنڈ کیلئے رقم کہاں سے آئے گی؟ دراصل مذکورہ معاہدے میں یہ بات شامل تھی کہ ترقی یافتہ ملک اپنی ’کرنی کی بھرنی‘ یا کفارہ کے طور پر ترقی پذیر ممالک کو اقتصادی مدد دیں گے لیکن ان کانفرنسوں میں ایسے معاہدے اپنی رفتار سے ہی شکل اختیار کرتے ہیں۔ ادائیگی کے اس سلسلے میں 1997 کے کوتو معاہدے پر عمل 2009 کے کوپن ہیگن اجلاس میں ہی ممکن ہو سکا‘ وہ یہ کہ اس طرح کے صنعتی ملک 2020 سے ہر سال ایک کھرب ڈالر کی مدد ترقی پذیر ممالک کو دیں گے۔اب اس نظام میں پیچیدگی یہ ہے کہ کان کن میں طے ہوئے سبز فنڈ کیلئے کچھ اورمدوں کو جانے کے ساتھ آخرکارپیسہ تو اسی ایک کھرب کی رقم میں سے ادا کیا جائے گا ۔ پھردوسرے یہ کہ 2020 کے دوران اس رقم کی حقیقی ویلیوکم و بیش ایک تہائی ہی رہ جائے گی۔ڈربن میں اس پہلو پر طویل دلائل در دلائل‘ بحث و مباحثہ کا سلسلہ چلاہے۔ ترقی پذیرممالک امید وبیم کے شکار ہیں بالخوص افانستان جیسا باہ حال ملک ‘لیکن دیکھناتو یہ ہوگاکہ کیا کانفرنس میں اس معاملے میں پوری رضامندی قائم ہو سکے گی یا نہیں؟

ماحولیات کے کارکنوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک کھرب ڈالر کی رقم آج کے دور میں ہی بہت اوچھی اور قلیل نظر آتی ہے۔شرد جوشی نے کہا کہ پاکستان میں جو دریائے سندھ میں سیلاب آیاتو اس میں تیس ارب ڈالرمالیت کی بربادی ہوئی۔ ایسی صورتحال میں پوری دنیا کے ترقی پذیر ممالک کیلئے محض ایک کھرب ڈالر کیا معنی رکھتے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ عالمی بینک کی ایک رپورٹ آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ موثر نتائج کیلئے ہر سال پانچ سے چھ کھرب تک کی مدد بہم پہچانی ہوگی جبکہ ترقی یافتہ ممالک تو ایک کھرب کو بھی زیادہ بتاتے ہیں!

واضح رہے کہ سبز فنڈ کی ادائیگی ترقی پذیر ممالک کو اس کی ادائیگی سے الگ ہوگا جو کلین ڈویلپمنٹ منیجمنٹ اسکیم کے تحت پہلے سے دیا جا رہا ہے۔ اسے کاربن ٹریڈنگ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے یعنی ترقی یافتہ ملک اپنا آلودگی اگر کم نہیں کر پاتے تو ان کے یہاں ترقی پذیر ممالک میں آلودگی بچانے والے اداروں (جیسے پنجسالہ منصوبوں ، نئی ٹیکنالوجی والی میٹرو ٹرینوں ، کم دھواں اڑانے والے کارخانوں کی ’بچت‘پیسہ دے کر خرید لی جائے۔ اس سے ترقی پذیر ملک آلودگی سے پاک اداروں کی طرف مڑے ہوئے ہوں گے اور ادائیگی کر کے خریدی گئی بچت ترقی یافتہ ممالک کے آلودگی کم کرنے کے حساب میں شامل کر لی جائے گی۔

کان کن معاہدے کے ایک اور پہلو پر بھی ڈربن میں گرم بحث جاری ہے۔ طے ہوا تھا کہ ملک رضاکارانہ طور آلودگی کنٹرول کا اپنا ہدف یقینی کر اسے مکمل کرنے کا وعدہ کریں اور اس کا جائزہ لیں (پلیج اینڈ ریویو)۔ سائنسی شعبہ کے سومیہ دتہ کہتے ہیں کہ یہ پر فریب طریقہ دریافت کیا گیا ہے ۔بالکل اسی طرح جیسے کینسر کے مریض کو پیراسٹیٹامول دے دی جائے اوراس سے کہا جائے کہ باقی علاج فی الحال مہنگا ہے!
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 116377 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More