یوم سقوط ڈھاکہ کا سبق ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سولہ دسمبر یوم سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے خصوصی تحریر

میجر خلیل احمد مرزا لکھتے ہیں کہ ”شام سات بجے کے قریب یونٹ کی طرف سے حکم ملا کہ تمام کمپنیاں پیچھے آجائیں،لڑائی ختم ہوگئی ہے، جنرل نیازی نے ہتھیار ڈالنا منظور کرلیا ہے،چنانچہ پنجاب رجمنٹ کے کمپنی کمانڈر اور میں نے مل کر فیصلہ کیا کہ اپنے ہتھیار دشمن کے حوالے نہیں کریں گے، ہم نے اپنی رائفلیں اور ایمونیشن ایک بوری میں لپیٹ کر ایک بڑے درخت کے نیچے گڑھا کھود کر دبادیا،اس وقت میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔ہمیں یہ ذلت بھی دیکھنا تھی،دل و دماغ میں ایک طوفان سا اٹھ رہا تھا کہ یہ کیا ہوگیا۔۔۔۔۔ہماری آئندہ نسلیں ہمارے متعلق کیا خیال کریں گی،پاکستان کا ایک حصہ دشمن نے ہم سے علیحدہ کردیا۔۔۔۔۔۔تاریخ میں ہندوستان کی کامیابی اور ہماری ناکامی کا ذکر ہوگا“ قارئین محترم ! سولہ دسمبر 1971ءکو آج 40 برس ہونے کو آئے ہیں لیکن محب وطن پاکستانیوں کے دلوں میں میجر خلیل احمد مرزا کی طرح سقوط ڈھاکہ کے زخم آج بھی تازہ ہیں،سانحہ مشرقی پاکستان ہماری قومی زندگی کا ایک ایسا المیہ ہے،جسے 40 سال گزرنے کے بعد بھی پاکستان کے غیور اور باشعور عوام اپنے ذہنوں سے بھلا نہیں پائے، ان کے سینوں میں اپنے مشرقی بازو کی علیحدگی کاغم ایک لاوے کی طرح دہک رہا ہے۔

سولہ دسمبر 1971ء کا دن اپنے پیچھے ایک ایسی لمبی داستان رکھتا ہے،جس میں اپنوں اور بیگانوں کی سالوں کی پلاننگ اور وہ سازشیں پوشیدہ ہیں،جنھوں نے مشرقی پاکستان کے مسلمانوں میں تعصب،محرومی اور احساس کمتری کو اِس حد تک پروان چڑھایا کہ اُس کے نتائج سقوط ڈھاکہ پرمنتج ہوئے،گو کہ اِس المیے کے کئی تکلیف دہ پہلو ہیں،لیکن دو پہلو سب سے زیادہ کربناک تھے،ایک تو یہ کہ ہمیں ہندو_ بنیے کے ہاتھوں ایک ایسی فوجی شکست( جس میں ہماری 90ہزار فوج کو ہتھیار ڈالنا پڑے) کا سامنا کرنا پڑا ،جس کی مثال دوسری جنگ عظیم کے بعد نہیں ملتی اور دوسرے پاکستان کی نصف سے زیادہ آبادی والا حصہ ہم سے علیحدہ ہوگیا،یوں پاکستان اپنے قیام کے 24سال بعد ہی دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا، تاریخ اسلام میں ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا کہ ایک سلطنت ٹوٹ کر دو علیحدہ علیحدہ مملکتوں میں تقسیم ہوئی ہو۔

لیکن وطن عزیز پاکستان کی دو حصوں میں تقسیم اِس لئے ناقابل فہم اور تکلیف دہ اَمر تھی کہ یہ سرزمین دنیا میں ریاست مدینہ کے بعد اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی پہلی سرزمین تھی جو مسلمانان برصغیر کی طویل،صبر آزما کٹھن جدوجہد اور بے پناہ قربانیوں کے بعد حاصل کی گئی تھی اورجس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی،قیام پاکستان کی کہانی ایک ایسی لہو لہو دستاویز ہے جس کا ہر صفحہ غیرت مند بوڑھوں، حریت سندنوجوانوں،معصوم بچوں اور عفت مآب ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کے خون سے رنگین ہے، گنگا، جمنا، گھومتی،گھاگرا، نربدا، ستلج، بیاس، راوی،چناب سے لے کرجہلم تک وہ کون سا دریا تھا جو مسلمانوں کے خون سے لہو رنگ نہیں تھا،ہرطرف آگ تھی،شور تھا،آہ بکا اور چیخ و پکار تھی،چشم فلک آج بھی گواہ ہے کہ کس طرح لاکھوں مسلمان چھوٹے بڑے ڈیروں میں حفاظت اور سلامتی کے خاطر سکڑے سمٹے بیٹھے تھے،یا پر آشوب راستوں پر خاک و خون میں لتھڑے ہوئے اپنی نئی منزل پاکستان کی جانب اُس وقت بھی گامزن تھے،جب ہندو اور سکھ بلوائی چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ ”جو مانگے کا پاکستان ،اس کو ملے گا قبرستان“لیکن پھر بھی یہ قافلہ آگ و خون کے دریا عبور کرکے14اگست 1947ءکو قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں اپنی منزل مراد پاکستان تک پہنچ ہی گیا۔

اَمر واقعہ یہ ہے کہ تخلیق پاکستان کو ہندووں اور مسلمانوں نے اپنے اپنے مخصوص نظریئے سے دیکھا،مسلمانوں کے نزدیک پاکستان کا قیام ایک عظیم کامیابی کی حیثیت رکھتا تھا،جبکہ اِس موقعہ پر ہندووں کا ردعمل ذلت و شکست اور توہین و اہانت کے احساسات سے مملو تھا،ہندووں کی یہی کوشش تھی کہ ہندوستان تقسیم نہ ہو اور سارے خطے پران کی حکمرانی ہو،جبکہ مسلمانوں کے دل احساس تشکر اور طمانیت کے جذبوں سے سرشار تھے کہ ان کی جدوجہد بار آور ثابت ہوئی،مگر ہندو تاریخ کے اِس فیصلے کو کسی طور بھی قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے،وہ اِس نقصان کا ازالہ کرنے کا تہیہ کرچکے تھے،چونکہ پاکستان جغرافیائی لحاظ سے ایک وحدت نہیں تھا،یہ دنیا کا واحد منفرد ملک تھا جس کے دونوں بازوں کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا،درمیان میں دشمن کا علاقہ واقع تھا اور سوائے مذہب اور مشترکہ جدوجہد آزادی کے دونوں کے درمیان کوئی قدر مشترک نہیں تھی،صرف ایک دین اسلام ہی تھا جو دونوں بازوں کو ایک وحدت،ایک لڑی اور ایک زنجیر میں باندھ سکتاتھا اور پاکستانی قوم کو یک جہتی و استحکام دے سکتا تھا،ہمارادشمن اچھی طرح جانتا تھا کہ جب تک یہ تعلق یہ رشتہ مضبوط ہے پاکستان توانا و مضبوط اور متحد و مستحکم رہے گا،جہاں یہ رشتہ کمزور ہوا پاکستان کمزور ہوجائے گا،چنانچہ پاکستان دشمنوں نے قیام پاکستان کے بعدسے مشرقی پاکستان میں نسلی،لسانی اور صوبائی و علاقائی نفرت و عصبیت کو پروان چڑھانا شروع کردیا،رہی سہی کسر ہمارے حکمرانوں کی ناعاقبت اندیش پالیسیوں نے پوری کردی،بقول زیڈ اے سلہری ”ان(حکمرانوں) کی پالیسیوں نے ملک کو افسوسناک طور پر تقسیم کردیا“ جس کا منطقی نتیجہ متحدہ پاکستان کے خاتمے کی شکل میں ہمارے سامنے آیا۔

یہ حقیقت ہے کہ” جو قوم اپنی تاریخ کو فراموش کردیتی ہے،اس کا جغرافیہ اسے فراموش کردیا ہے “زندہ قومیں اپنے ماضی اور حال پر تنقید کرکے مستقبل کو روشن کو کرتی ہیں،کسی قوم کے ذہنی طور پر بالغ ہونے کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو اپنے ماضی اور حال کو تنقید کا موضوع بنائے اور اگر خود میں کوئی خامی نظر آئے تو اس کی ذمہ داری دوسرے افراد یا کسی دوسری قوم پر ڈالنے کے بجائے یہ معلوم کرنے کوشش کرے کہ اِس شکست و ریخت میں خود اُس کا اور اُس کی قوم کے دیگر افراد کا کیا کردار ہے،زندہ قومیں اِس قسم کے تجزیئے اور تنقید سے اہم نتائج اخذ کرتی ہے اور ماضی و حال کی خامیوں اور غلطیوں سے آگاہ ہوکر اپنے مستقبل کیلئے صحیح راستے تلاش کرتی ہیں،وہ کوشش کرتی ہیں کہ اگر تاریخی عوامل نے انہیں شکست و زوال کی منزل پر کھڑا کر بھی دیا ہے تو مزید تباہی و بربادی کا راستہ اختیار نہ کیا جائے بلکہ قومی سلامتی و بقاءکی نئی راہیں تلاش کی جائیں،تاریخ گواہ ہے کہ سمجھدار قومیں اپنی ناکامیوں کو حرز جان نہیں بناتیں بلکہ ان کے اسباب و علل کو ہمیشہ سامنے رکھتی ہیں اور ا_ن سے سبق سیکھتے رہنے کا داعیہ ان میں کبھی بھی ختم نہیں ہوتا۔

یہی ایک زندہ اور توانا قوم کی شناخت و علامت ہے ،آج 40 برس گزر جانے کے بعد اِس بحث سے قطع نظر کہ ہم نے اپنی ناکامی کے اسباب سے کتنا سبق سیکھا ہے،کتنا نہیں،ہم اِس حقیقت کبریٰ کے اصولی و عملی تقاضوں کو ہرگز ہرگز فراموش نہیں کر سکتے کہ پاکستان اسلام کے نام پر اور اسلام کی خاطر حاصل کیا گیا تھا،یہ مملکت خدا داد خالصتاً جمہوری جدوجہد کے بعد اِس مقصد کیلئے حاصل کی گئی تھی کہ یہاں مسلمان دین اسلام کے عملی تقاضوں کی روشنی میں اپنی زندگی بسر کریں گے اور اقتصادی ومعاشی ترقی و خوشحالی کی منزلیں طے کریں گے،یہی وہ واضح اور بنیادی فرق تھا، جس کی اساس تاریخ ،جغرافیے اور معدنی وسائل کی تقسیم پر نہیں بلکہ دو قومی نظریئے کے منفرد نظریاتی تشخص پر رکھی گئی تھی،جسے ہمارے ارباب اختیار آج پھولوں کے ہاروں سے مٹانے کی یک طرفہ سعی ناکام کر رہے ہیں،وہ بھول رہےہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے 1948ء میں اسلامیہ کالج پشاور کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے قیام پاکستان کے اصل محرک کو واضح کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ”ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرناچاہتے تھے،جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو نافذ کرسکیں۔“

مقصد واضح تھا تحریک پاکستان کے رہنماوں اور مفکروں کے ذہن و فکر میں کوئی الجھن نہ تھی،ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کے دل و دماغ میں کوئی ابہام نہیں تھا،لیکن آج 64 برسوں کے بعد بھی ہم پاکستان کو اسلامی نظام کی تجربہ گاہ اور قرآن و سنت کی روشن تعلیمات کی آماجگاہ نہیں بناسکے،منطقی نتیجہ سقوط ڈھاکہ کے دلدوز سانحے کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے،ہماری اسی کمزوری کا فائدہ آج دشمن ایک بار پھر اٹھانا چاہتا ہے، وہ بلوچستان،سرحداور آزاد قبائلی علاقوں میں قومی،لسانی اور علاقائی عصبیت کو فروغ د ے کر پاکستان کی وحدت اور سا لمیت کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے،وہ بلوچستان میں وہی کھیل کھیل رہا ہے جو بنگلہ دیش بننے کا محرک بنا تھا،اِس وقت ملک کی مجموعی صورتحال یہ ہے کہ ہم نوع بہ نوع مسائل میں گھرے ہوئے ہیں،نائین الیون کے بعد امریکہ کا ساتھ دینے کے باعث قوم مایوس،شکستہ دلی اور مردنی کا شکار ہے،ایٹمی طاقت اور بہترین جغرافیائی محل وقوع رکھتے ہوئے بھی ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارے اناج پر زندہ رہنے والا افغانستان جیسا ملک ہم پر در اندازی کے الزامات لگاتا اور ہم پر حملے کی دھمکیاں دیتا ہے،پورا ملک امریکی کالونی بنا ہوا ہے،امریکی عمال حکمرانوں کیلئے احکامات و ہدایت نامے لیے دندناتے پھرتے ہیں،بات بات پربھارت ہمیں آنکھیں دکھاتا ہے،کھلے عام ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی کی جارہی ہے،امریکہ،اسرائیل اور اُس کے حواریوں کی سرپرستی میں بھارتی قیادت کے جارحانہ بیانات،اُس کی جنگی تیاریاں،اُس کے خطرناک عزائم کی نشاندہی کررہے ہیں۔

لیکن ہمارے حکمراں ہیں کہ بھارت جیسے ازلی دشمن سے محبت کی پنگیں بڑھارہے ہیں،دوستی اور پسندیدہ ملک قرار دینے کے راگ الاپ رہے ہیں اور ملک کو قوم کو دھوکہ دینے کیلئے ”بھارت سے کوئی خطرہ نہیں،ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے،بیرونی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا گا۔“ جیسے زبانی بیانات کے گولے داغ رہے ہیں،دوسری طرف ہمارے مدارس،مذہبی تنظیمیں،دینی شخصیات اور ہمارا مذہبی تشخص ہر سنگ اور تیر دشنام کا نشانہ بنا ہوا ہے،مغربی تہذیب و اقدار کو سرکاری سرپرستی دی جارہی ہے اور استعماری دباؤ پر مدارس،رفاعی اور فلاحی اداروں پر پابندی لگائی جارہی ہے،حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا یہ منظر نامہ کسی طور پر بھی خوش آئند نہیں،آج وہ پاکستان گہری دھند میں لپٹتا جارہا ہے،جس کے خدوخال 64 سال پہلے قربانیوں کی لازوال تاریخ رقم کرنے والوں کی آنکھوں کو لو دیتے تھے،لیکن اہل ایمان مایوس نہیں ہیں،پاکستان پر اللہ کریم کا خصوصی فضل و کرم تھا،ہے اورانشاءاللہ ہمیشہ رہے گا،پاکستان ہمیشہ قائم و دائم رہے گا،صرف ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ ہمارے رہنما، سیاسی قائدین، پالیسی ساز ادارے اور حکمران اِس حقیقت کا احساس کرلیں کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ریاست کو اپنی سلامتی و بقا ءاور استحکام کیلئے اسلامی نظام کی کارفرمائی درکار ہے،یہی وہ حقیقت ہے جس کا ادراک ارض ِپاک کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرنے والے مجاہدوں اور مسلمانان برصغیر کی تمناؤں کے چراغ کو روشن رکھ کرموجودہ پاکستان کو مزید تقسیم سے بچاسکتا ہے،ہمیشہ قائم و دائم رکھ سکتا ہے اور دشمنان ِدین و ملت کے ناپاک مذموم عزائم کو خاک میں ملا سکتا ہے۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 313662 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More