یوپی مدرسہ بورڈ کی لاپروائی اور بے حسی

جہاں اعلٰی اورمعیاری تعلیم کے تئیں ملک کے بیدارا مغز اورعلم دوست افراد غو رو خوض کررہے ہیں ، وہیں یوپی مدرسہ بورڈ کے اراکین تعلیمی نظام میں شفافیت اور اسے مستحکم کرنے کی پیش رفت کرتے نظرآ رہے ہیں ۔ تبدیلی نصاب اور تعلیمی سال میں تغیر وتبدل کو معیاری تعلیم کے تناظر میں ایک خوش آئند قدم تصور کیا جارہا ہے ، مگر بدقسمتی کی بات ہے کہ اقدامات اورلائحہ عمل کے ہر محاذ پر وہ ڈھلمل یقین ہی ثابت ہورہے ہیں ، ان کی ہر کوشش اور تبدیلی میں بدنظمی اور لا پروائی واضح نظر آرہی ہے ۔

یوپی مدرسہ تعلیمی بورڈ کی روایت چلی آرہی تھی کہ کسی متعینہ تاریخ پر امتحانات بہت ہی کم ہو پاتے تھے ۔ تاریخ متعین ہونے کے باوجود بھی دوتین مرتبہ تقدیم وتاخیر ضروری ہوگئی تھی ۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ سامنے آتا تھا کہ نتائج کا اعلان بھی صحیح وقت پر نہیں ہوپا تاتھا ، چنانچہ اعلٰی تعلیم کے لئے کالج و یونیورسٹی میں داخلہ کے تعلق سے طلباء کو نت نئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ تا تھا ، بسا اوقات ان کے سال بھی ضائع ہوجاتے تھے ۔ 2011-12کے سالانہ امتحان میں بھی بورڈ کی تمام تر فعالیت اورانتظامات مغلوب ہوگئے اور30اپریل سے 4مئی تک جو امتحان ہونا تھا ، نہیں ہوسکا ۔ اس متعینہ تاریخ کے کوئی ایک ماہ بعد کی تاریخ طے ہوئی اورامتحان ماہ جون میں ہوسکا ۔ ان وجوہات کے مدنظر سال2012-13کے سالانہ امتحان کے لئے ماہ اکتوبر 2011سے ہی اقدامات ہونے لگے تھے ، تاکہ طلباءصحیح وقت پر امتحان دے سکیں اورنتائج کا اعلان بھی ایسے وقت ہوکہ انہیں اعلٰی تعلیم کے لئے داخلہ میں پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ گزشتہ 12اکتوبر کو ہوئی مدرسہ تعلیمی بورڈ کی میٹنگ میں سالانہ امتحانات کے تئیں انتہائی فکرمندی دکھائی گئی تھی اور یہ طے پایا تھا کہ 15اکتوبر تک ریاست کے تما م سرکاری مدارس میں امتحان فارم دستیاب ہو جائے گا ، اسے جمع کرنے کی آخری تاریخ 31اکتوبر اورلیٹ فیس کے ساتھ 15نومبر تک رہے گی ، مگر تاریخ کی تعین اوراعلان کے بعد بھی مدارس میں فارم متعینہ تاریخ تک دستیاب نہیں ہوسکا اور نہ ہی مدرسہ بورڈ کی ویب سائٹ upmsp.org.inپر ۔ جس سے طلباءکو کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 24اکتوبر کو فارم کی اشاعت کا عمل پایہ تکمیل تک پہونچا ۔ اسی اثنا میں دیوالی اور عیدالاضحی کی تعطیلات ہوگئی ، چنانچہ فارم جمع کرنے کی تاریخ 25نومبر طے پائی ، مگر اس مدت میں توسیع کرنے بعد 30نومبر اور تاخیر فیس کے ساتھ 5ستمبر کردی گئی ۔

یوپی مدرسہ تعلیمی بورڈ کے کارکنا ن وذمہ دارن کی لا پروائی کی کہانی یہیں تک بس نہیں ۔ چونکہ اس سال نصاب میں بھی تبدیلی ہوئی ہے ، لہذا ہر مدرسہ میں شورو غوغا ہے کہ امتحان جدید نصاب کے مطابق ہوگا یا قدیم کے ؟کیونکہ راتوں رات نصاب مرتب کیا گیا ، نصاب مرتب کرنے میں مدارس کے اساتذہ اورریاست کے ماہرین تعلیم کی خدمات بھی حاصل نہیں کی گئی ، کوئی مشاورتی میٹنگ تک نہیں ہوئی ، صرف اورصرف اقتدار میں بیٹھے آقاؤں کی خوشنودی کے حصول کے لئے ایک ایسا نصاب تیار کردیا گیا ، جس کی اطلاع کسی کو نہیں ۔ ارباب ِ مدارس بھی اس سے غیر آشنا ہیں تو طلباءوا ساتذہ بھی۔ مگر 14 اکتوبر کے رجسٹرار آرڈر کے دفعہ 10 میںکہا گیا تھا کہ ریگولر طلباءجدید نصاب اور پرائیویٹ قدیم نصاب کے مطابق امتحان دیں گے ۔ لیکن 27نومبر کی خبر ہے کہ حکومت کے ایما پر بورڈ کا فیصلہ ہے کہ نئے نصاب کا ہی امتحان ہو گا ۔ اس کے لئے دوبارہ فارم پر کئے جائیں گے ، ریگولر اورپرائیویٹ کی کوئی تفریق نہیں ہوگی ، سب نئے نصاب کی تیاری کریں ۔بورڈ کی گزشتہ ڈھلمل یقینی اورارباب مدارس کی رائے زنی سے ایسا نہیں لگتا ہے کہ بوڑد کا یہ فیصلہ ہی قطعی ہو ۔بیشتر مدارس کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ قدیم نصاب کا امتحان ہونا چاہئے ،مگر جدید نصاب کے مطابق امتحان کی باتیں بھی باز گشت کررہی ہیں ۔ بس اب دیکھنا ہے کہ آگے آگے کیا ہوتا ہے ۔

سوال یہ پیداہوتا ہے کہ آخر جس نصاب سے ارباب مدارس ،اساتذہ اورطلباءناواقف ہوں ، اس کا سالانہ امتحان کیسے ہوگا ؟طلباءکو یہ نہیں معلوم کہ نصاب کیا اورکہاں ہے تو تیاری کیسے کریں گے ؟جس نصاب کی تعلیم پورے سال نہیں ، اس کا سالانہ امتحان چہ معنی دارد ؟؟کیابورڈ کے قیام کا منشاءفقط امتحان ہے او ر تعلیم نہیں ؟کیا نصاب مرتب کرنا چند افراد کا ہی کام ہے کہ راتوں رات نصاب مرتب کرلیا جائے ؟یہ بھی ایک سوال ہے کہ ریگولر اورپرائیویٹ طلباقدیم و جدید نصاب کے حصار میں کیوں رہیں ؟قدیم نصاب میں کہیں نہ کہیں کمی محسوس کی جاتی ہے تبھی تو اس میں حذف وترمیم سے جدید نصاب مرتب کیا جاتاہے ، چنانچہ اس بورڈ کے قدیم نصاب میں بھی کمی محسوس کی گئی اور جدیدنصاب مرتب کیا گیا ، اب پرائیویٹ طلباءاس نصاب کا امتحان کیوں دیں ، جس میں کمی محسوس کی گئی ؟اگر واقعی ریگولر اور پرائیویٹ کی تفریق کرنی ہے تو قدیم نصاب میں جدید طور دونوں کے لئے الگ الگ ترمیم و تنسیخ کی جائے ۔ دونوں کے امتحانات بھی الگ الگ ہوں ۔

2011-12کے سالانہ امتحان اوراس کے نتائج کے تعلق سے بورڈ کے ذمہ داران فعال نظر آرہے تھے ۔ صحیح وقت پر نتائج کے اعلا ن کے تئیں ان کے بڑے بڑے وعدے تھے۔ مگر متعینہ تاریخ (30اپریل سے 4مئی)پر امتحان نہیں ہو سکا اور نتائج کے اعلان کی تاریخ میں کئی مرتبہ تبدیلی کی گئی کہ ایک مراسلہ نگار کو لکھنا پڑا ”اب رہنے دو “، یعنی دو برس کے نتائج ایک ساتھ ہی دیں ۔ گزشتہ امتحان بورڈ کی لاپروائی اوربے توجہی کی وجہ سے برسوں یا د کیا جائے گا ۔ امتحان گاہ کی تعین میں بھی بے توجہی برتی گئی کہ جن جن مقامات کو امتحان گاہ منتخب کیاگیا تھا ، وہاں جگہ کی انتہائی قلت تھی ، امس بھری گرمی میں پنکھے کا انتظام تھا اور نہ ہی پینے کے پانی کا ، اسی طرح بیٹھنے کے لئے ٹیبل کرسی تو درکنا ر دری چادر تک نہیں تھی ۔ جگہ کی قلت یا کسی اور وجہ سے بہت سے امتحان گاہ سے طلباءکو آناً فاناً میں دوسرے غیر مقامات بھیجا گیا ، جہاں وہ کسی طرح امتحان دے سکے ۔ زمانہ امتحا ن میں یہ بھی سننے میں آیا تھا کہ داخلہ کارڈ پر لکھے امتحان گاہ کے مطابق جب طلباءاپنے امتحان گاہ پہونچے تو بروقت کہاگیا کہ آپ کا سینٹر فلاں جگہ منتقل ہوگیا ہے ،لہذا وہاں پہونچ کر امتحان میں شریک ہوں۔ یہ امتحان اس لحاظ سے بھی یاد رکھا جائے گا کہ لکھنو میںبنے 8امتحان گاہوں میں سے دوپر اڑن دستہ نے طالبا ت سے بدتمیز یاں کی، ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ، جس سے پریشان ہوکر کئی طالبات روپڑیں ۔ اڑن دستہ کے اس بہیمانہ سلوک پر بورڈ کے ارکان نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا ۔

سوال یہ ہوتا ہے کہ امتحان گاہ کی تعین سے قبل بورڈ اپنے نمائندگان کو ان مقامات پر جائزہ کے لئے کیوں نہیں بھیجتا ہے ، جنہیں امتحان گاہ بنانا ہے ؟اگر بورڈ کے ارکان امتحان سے قبل جائزہ لے لیں تو عین امتحان کے دن افراتفری کا ماحول نہیں ہوگا۔ آ ناً فاناً میں امتحان گاہ تبدیل کرنے سے طلباءکس ذہنی انتشار کے شکارہوتے، وہ وہیں بتاسکتے ہیں ۔ ظاہر بات ہے کہ ذہنی انتشار کی صورت میں بآسانی امتحان دینا ممکن نہیں ہوسکتاہے ، جس سے نتائج بھی متاثر ہو سکتے ہیں ۔ کیا اڑن دستہ کے رویہ پر بورڈ کے ذمہ داران کو کسی ردعمل اظہار نہیں کرنا چاہئے تھا ، ان کی طرف سے کسی رد عمل کا اظہار نہ ہو نا جفاﺅ کی تائید ہے ۔ منچلے اوباشوں کی ہمت افزائی ہے اور ان کے کردا ر کی تائید بھی
ارے او جفاؤ پہ خاموش رہنے والوں !
خموشی بھی جفاؤں کی تائید ہے

2010میں مرکزی حکومت نے ایک حکم جاری کیاتھا ، جس کے مطابق بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ کے وسطانیہ کی ڈگری کو سی بی ایس ای 8ویں ، فوقانیہ کو 10ویں اورمولوی کی سند کو12ویں کے مساوی تسلیم کیاگیا ۔ چھتیس گڑھ مدرسہ بورڈ رائے پور اردو ادیب ، اردو ماہر ،اردو معلم ، ہائی اسکول مراسلاتی و فاصلاتی کو رس کو 10ویں اورادیب ہائر سکنڈری کو 12ویں درجہ کے مساوی تسلیم کیا گیا ۔ جہانتک مدھیہ پردیش کے مدرسہ بورڈ کا تعلق ہے تو اردو ماہر اوراردو معلم کو 8ویں ، مولوی اورمادھیمک امتحان کو 10ویں اورعالم کو 12ویں کے برابر مانا گیا ۔اسی طرح اترپردیش مدرسہ تعلیمی بورڈ کے منشی ومولوی کو 10ویں اورعالم کو 12ویں کے مساوی تسلیم کیا گیا ۔ اترپردیش کے مولوی اورمنشی کو برابر مانتے ہوئے 10ویں کے مساوی تسلیم کیا گیا اور مولوی کے بعد کے امتحان عالم کو 12ویں کے مساوی ۔ مگر منشی کے بعد کے امتحان کامل کو 12 ویں کے مساوی تسلیم نہیں کیا گیا ، آخر ایسا کیوں ؟ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جس طرح مولوی اورعالم 10+2ہے اسی طرح منشی اورکامل بھی ہو، لیکن ایسا نہیں ۔ اترپردیش کے کالج اور یونیورسٹی منشی کی ڈگری 10ویں کی مساوی مانتے ہے اورکامل کو بی اے کے مساوی ۔ سوال یہ ہوتا ہے کہ منشی 10ویں اورکامل بی اے کے مساوی ہے تو ان دونوں میں انٹر یعنی 12ویں کون ہے؟۔ واقعی اگر یوپی مدرسہ تعلیمی بورڈ،جو پہلے عربی فارسی بورڈ الہ آبادتھا ،فعال ہوگیا ہے تو کیوں نہیں اس معمہ کے حل کی جانب توجہ مبذول کررہا ہے ؟کیوں نہیں 10+B.Aکو سلجھانے کی کوشش ہورہی ہے ۔ اسی طرح یہ مسئلہ بھی انتہائی حساس ہے کہ مدارس کی ڈگریاں جب مساوی مانی جاتی ہے ، مدارس کے فضلاءان مساوی ڈگریوں کی بنیاد پر اعلٰی تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں ، ان کی محنت رنگ لاتی ہے کہ ممتاز نمبرا ت سے کامیاب بھی ہوتے ہیں مگر روزگارکی دنیا میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بھی وہ ناکا م ہی رہتے ہیں ۔ وہاں ان ڈگریوں کو کالعدم قراردے دیا جاتاہے ۔ گزشتہ چند دنو قبل کی بات ہے کہ بی ٹی سی کا فارم بھرا جارہاتھا ، مدارس کے ان فضلانے بھی فارم بھرے جنہوں نے مساوی ڈگریوں کی بنیادپر اعلٰی یونیورسٹیوں سے گریجویشن کی سند حاصل کی تھی ، کاؤنسلنگ کے دوران اعلٰی نمبر ہونے کے باوجود انہیں ڈارپ کر دیاگیا کہ ہائے اسکول او رانٹرمیڈیٹ کے لئے مدارس کی مساوی ڈگریاں نا منظور ہیں ۔ لہذا کوئی منظور شدہ ڈگری لائیں یا واپس جائیں ۔ 2010میں مرکزی وزرات ریل نے پانچ ریاستی مدرسہ بورڈوں کے فضلا کو مزدہ جانفرا ںسنا یا تھا کہ وہ ریلوے کے گرو پ سی میں ملازمت حاصل کرسکتے ہیں ۔ گروپ سی کے لئے بارہویں کی ڈگری تسلیم کی جاتی ہے ،لہذا اترپریش ، بہار ، مغربی بنگال ، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش کے ان ڈگری یافتہ حضرات کو ریلوے میں ملازمت کا موقع دیا گیا تھا، جن کی ڈگریاں 12ویں کی مساوی ہوں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محکمہ ریل نے مدارس کی اسنا د کو صرف گروپ سی کے لئے کیوں منظوری دی؟مدارس کی جو ڈگریاں بی اے یا ایم اے کی مساوی ہیں ، ان کی بنیاد پر مدارس کے فضلا کو گروپ اے اوربی کے لئے منظوری کیوں نہیں دی گئی ؟ مساوی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شعبہ تعلیم میں وہ مساوی سمجھی جائے مگر روز گا ر کے معاملہ میں نہیں ۔ کیا مساوی یہی ہے کہ کالج او ریونیورسٹی تو تسلیم کرے مگر بی ٹی سی (جو ٹیچر ٹریننگ ہے)کے لئے قابل قبول نہیں ؟کیا مساوی ڈگریوں کی بنیادپر اعلٰی تعلیم یافتہ مدارس کے فضلا صرف اورصرف ریلوے کے گروپ سی کے ہی لائق سمجھے جائیں اور گروپ اے یا بی کے لئے نہیں ؟جب مرکزی حکومت نے مدارس کی ڈگریوں کو مساوی قراردیا ہے تو فرداًفرداً ہر محکمہ اور وزرات سے ان ڈگریوں کو مساوی تسلیم کروانا ضروری نہیں ، مگر محکمہ ریلوے نے جس طرح مدارس کی ڈگریوں کو قبول کیا ، اس سے ایسا لگتاہے کہ ہرمحکمہ اور شعبہ سے منظور کروانا مدارس کے فضلا کا کا م ہے ۔ویسے تو ہر مدرسہ بورڈ کے ذمہ دار ان کو مساوی کے معمہ کو حل کروانے کی کوشش کرنی چاہئے ، مگر جو بورڈ فعال ہے ، متحرک ہے فی الفور اس مدعے کو سامنے رکھے اور اسے حل کروانے کی کوش کرے ۔ اگر صر ف فعالیت کا ڈھنڈورہ پٹوائیں گے اور ایسے نازک مسئلہ کو سامنے نہیں رکھیں گے تو ”مساوی “کا نعرہ فقط کھوکھلا ہی رہے گا ۔

یہ حقیقت بھی دلخراش اورتلخ ہے کہ امتحان میں شفافیت اور نصاب میں تبدیلی کی جوڑ توڑ یا حکمت عملی ہورہی ہے ، مگربراہ راست اساتذہ پر شکنجہ نہیں کسا جارہا ہے کہ وہ یکسو ئی سے تعلیم و تربیت میں ہمہ تن منہمک رہےں ، اساتذہ کوا س کا پابند کیوں نہیں بنایا جارہا ہے کہ وہ مستعدی سے تعلیمی معیار کو بہتر بنائیں ۔ بالعموم گرانٹ یافتہ مدارس کی تعلیمی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے ۔ مسلمانوں کے لئے یہ کیسی بدقسمتی کی بات ہے کہ تعلیمی فروغ میں اہم کردار ادا کرنے والا مدرسہ بھی گرانٹ لسٹ میں شامل ہوتے ہیں بدنظری کا شکار ہو جاتاہے ، تعلیمی فروغ کو پس پشت ڈال دیتا ہے ، ادائے فرض منصبی میں کوتا ہ ہوجاتاہے ۔ طلباءکے مستقبل کو سنوانے کے بجائے انہیں اندرون سے کھوکھلا کرنے کی ٹھان لیتا ہے ۔ ایسے مدرسے کے اساتذہ درس وتدریس کی انجام دہی کے علاوہ درجوں میں خوش گپیوں کی محفلیں آراستہ کرتے ہیں ۔ تما م تر صورتحال سے حکومتی افراد اوربورڈو ں کے ذمہ داران خوب واقف ہوتے ہیں ، مگر مدارس پر کارروائی نہیں ہوتی ہے ، آخر ایسا کیوں ؟اس لئے تعلیمی صورتحال کے مدنظر یہ کہنے میں ذرابھی باک نہیں کہ حکومت کا منشا بورڈ کے نام پر بہت کچھ دے کر مسلم نوجوانوں کو تعلیمی اعتبار سے ”اپاہج“ کرنے کی سازش ہے ۔ مدرسہ بورڈ مسلمانوں کے ہاتھوں ”لالی پاپ“ہے ۔ اگربورڈ کے قیام میں حکومت نیک نیت ہوتی تو وہ بورڈ کے ذمہ داران کو اس معاملہ پر بھی فعالیت کا مظاہر ہ کرنے کے لئے آمادہ کرتی ۔ بورڈ کے ذمہ دارن امتحانات اورنصاب کے ساتھ ساتھ اس مدعے کو بھی سامنے رکھتے ، مگر ہائے بدقسمتی !!
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 92326 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More