کون بھگت رہا ہے لاپروائیوں کا خمیازہ؟

ریلوے بورڈ کی ہدایت پر جواب ریلوے کے نظام الدین اسٹیشن پر گزشتہ بدھ کو ٹرین سے کٹ کر کوٹہ کے تاجر بھگوان پوروال کی دردناک موت کی تحقیقات شروع ہو گئی ہیں۔اس جانچ کو پوری کرنے میں کم سے کم ایک ہفتے کا وقت لگے گاجبکہ زیادہ سے زیادہ کی کوئی قید نہیں بتائی گئی ہے۔کہا جارہا ہے کہ اس کی جانچ معاون منڈل سیکورٹی کمشنر کر رہے ہیں۔ یہ رپورٹ ڈی آرایم کو سونپی جائے گی۔بھگوان پوروال انٹرسٹی ایکسپریس میں چڑھتے وقت پھسل کر ٹریک اور پلیٹ فارم کے درمیان پھنس گئے تھے۔ تقریبا ڈیڑھ گھنٹے تک وہ بے سہارااور بے بس ہو کر تڑپتے رہے۔ وقت پر امداد نہ ملنے کی وجہ سے اس شخص کی موت ہو گئی۔ اس حادثے سے ریلوے کے حفاظتی انتظامات پر سوالیہ نشان قائم ہو گیا ہے۔

کوٹہ راجستھان کے رہنے والے کپڑے کاکاروبارکرنے والے اس تاجرنے دہلی میں رات کو تقریبا سوا دس بجے پہنچے قدم رکھا تھا۔انہیں نظام الدین سے اندور کے درمیان چلنے والی انٹر سٹی ایکسپریس پکڑنی تھی۔آہستہ آہستہ چل رہی ٹرین پر جیسے ہی انہوں نے چڑھنے کے لئے جیسے ہی پیر رکھا ، پائیدان کی بجائے ان کا پیر ٹرین اور پلیٹ فارم کے درمیان کی خالی جگہ میں پھنس گیا۔ چلتی ٹرین انہیں گھسیٹنے لگی۔اس دوران پلیٹ فارم پر گھسٹتے کاروباری کو دیکھ لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا۔لوگوں کو چلاتے ہوئے دیکھ کر ٹرین روک دی گئی لیکن اس وقت تک یہ کاروباری شخص کئی میٹر تک گھسٹ چکا تھا۔ انہیں کئی جگہ سے خون رواں تھا۔اسٹیشن پر موجود لوگوں اور سکیورٹی اہلکاروں نے انہیں نکالنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ بری طرح سے ٹرین اور پلیٹ فارم کے درمیان پھنسے ہوئے تھے۔ بعد میں کٹر سے ٹرین کو کاٹ کر انہیں باہر نکالا گیا لیکن اس وقت تک کافی خون بہہ چکا تھا۔ انہیں ایمس لے جایا گیا۔ جہاں انہیں ڈاکٹروں نے مردہ قرار دے دیا۔

راجستھان کے کوٹہ ضلع کے بھگوان پوروال کی غلطی محض اتنی تھی کہ انہوں نے جلدبازی میں حضرت نظام الدین ریلوے اسٹیشن سے چلنے والی اندور انٹرسٹی ایکسپریس میں چڑھنے کی کوشش کی۔ اس افراتفری میں وہ پھسل گئے اور ڈبے اور پلیٹ فارم کے درمیان کی خالی جگہ میں گر کر پھنس گئے۔اگلے ڈیڑھ گھنٹے تک اسی حالت میں چیختے رہے۔ حتی کہ لاپروائی کی وجہ سے آخر کار ان کی جان چلی گئی۔ نظام الدین اسٹیشن پر دو سو سے زیادہ حفاظتی اہلکار تعینات ہیں لیکن موقع پر وہ ندارد تھے۔ البتہ دوسرے مسافروں نے بھگوان کو نکالنے کی ناکام کوشش کی۔ اسٹیشن کے انتظام کے پاس وسائل کے نام پر شاید صرف ہتھوڑے تھے جن سے پلیٹ فارم اور ڈبے کے پائیدان کو توڑنے کی کوشش کی گئی۔ عجیب و غریب صورتحال تو یہ ہے کہ جس اسٹیشن پر ٹرینوں کے رکھ رکھاؤ کے لئے ایک مکمل نظام ہے ، وہاں گیس کٹر منگوانے میں آدھا گھنٹے سے زیادہ وقت لگ گیا۔ اس کے علاوہ ، وہاں ہنگامی طبی نظام کی جو حالت سامنے آئی وہ انتہائی قابل رحم ہے۔ اگر ابتدائی علاج سے زیادہ کی ضرورت ہو تو اسٹیشن پر ڈاکٹر یا طبی کمرہ کا انتظام نہیں ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہاں اس وقت ایمبولینس بھی میسر نہیں تھی اور دوسری ایمبولینس فون کرنے کے گھنٹے بھر بعد پہنچی۔ اسٹیشن کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ اس کے پاس چار اسٹریچر ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھگوان کو انتہائی سنگین حالت میں سامان ڈھونے والے ٹھیلے پر لاد کر باہر کھڑی ہوئی ایمبولنس تک لے جایا جا سکا۔ اس دوران زخموں سے چورلہولہان پردیسی مسافر بھگوان کے جسم سے بہت زیادہ خون بہہ چکا تھا اور ایمس کے ٹراما سینٹر لے جانے تک پہنچتے ہوئے بھگوان کی سانسیں ٹوٹ چکی تھیں۔راجستھان کے مہاویر نگر میں جیسے ہی بھگوان کی لاش پہنچا۔ خاندان کے لوگوں کے ساتھ دیگر لوگ بھی رو پڑے۔گذشتہ روز دوپہر کے وقت بھگوان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔بھگوان کی شادی پانچ ماہ پہلے ہی ہوئی تھی۔ ان کی اہلیہ کو اب تک حادثے میں زخمی ہونے کی ہی اطلاع دی گئی تھی۔ان کی بیوی سنیتا گذشتہ 2 راتوں سے سوئی بھی نہیں تھی اور بار بار بھگوان کے پاس جانے کی ضد کر رہی تھیں۔ علی الصبح تین بجے لاش آنے سے کچھ گھنٹے پہلے ہی انہیں موت کی اطلاع دی گئی تھی۔ یہ ہے دہلی کے ایک ایسے ریلوے اسٹیشن کی حالت ہے جہاں روزانہ تقریبا ڈیڑھ لاکھ لوگ آتے جاتے ہیں۔

ممتا بنرجی جب ریلوے وزیر تھیں تو انہوں نے اپنے بجٹ میں مسافروں کو طبی سہولت مہیا کرانے کا وعدہ کیا تھالیکن یہ یقین دہانی محض کاغذی ہی ثابت ہوئی۔ اب انہی کی پارٹی کے کوٹے سے وزیر ریل بنے ہوئے دنیش ترویدی نے نظام الدین اسٹیشن کی تازہ واقعہ کو افسوسناک ضرور بتایا مگر لوگوں کے ڈسپلن توڑنے والوں کے خلاف ذو معنی بیان جاری کرکے ایک طرح سے ریلوے کی لاپروائی سے پلہ جھاڑ لیا۔عجیب بات تو یہ ہے کہ نیوز چینلوں پر وزیر موصوف کا عذر لنگ پورا ملک دیکھتا رہا لیکن کسی سیاسی قائد تو دور کی بات حقوق انسانی کے شیدائیوں کو بھی اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ وزیر موصوف کی گرفت کرلیتے۔ یہ صحیح ہے کہ لوگوں کو ٹرین میں چڑھتے اور اترتے وقت احتیاط برتنی چاہئے مگر’ ڈسپلن‘ کی دلیل سے کیا حادثے کے اصل اسباب اور اس کے بعد سامنے آنے والی انتظامی خامیوں کو چھپایاجا سکتا ہے؟ سچائی یہ ہے کہ دہلی کے ریلوے اسٹیشنوں پر ہنگامی حالت ‘حادثہ یابیماری کی صورت میں ابتدائی طبی امداد کی سہولت ملنی بھی مشکل ہے جبکہ تقریبا دو سال پہلے دہلی ہائی کورٹ کی طرف سے تشکیل کردہ ایک کمیٹی نے اپنی سفارشات میں نئی دہلی ‘ پرانی دہلی ، نظام الدین سمیت دارالحکومت کے اہم ترین ا سٹیشنوں پر چوبیس گھنٹے ایمبولینس ‘ڈاکٹروں کی ایک ٹیم اور اسٹرےچر کیساتھ ساتھ ابتدائی علاج سے متعلق تمام ضروری طبی آلات اور ادویات کی دستیابی کو یقینی بنانے کی سفارش کی تھی لیکن ان خامیوں کو دور کرنے کی بجائے ریلوے نے اسے محض ایک ’مالیاتی معاملہ‘ قرار دیکر سپریم کورٹ میں کہا کہ عدالت اس میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ معاملہ اب بھی زیر سماعت ہے۔ کیا عدالت کو ایک بار پھر ریلوے کو اس کے فرض کی یاد دلانی ہوگی! ریلوے وزارت دہلی کے اہم ریلوے اسٹیشنوں کو عالمی پیمانے بنانے کا دم بھرتا رہا ہے لیکن یہ دعوے اب تک کھوکھلے ہی ثابت ہوئے ہیں۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 116499 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More