منہ میں پانی اور بھر کر رہ جاتے ہیں تجارتی میلہ کے شائقین

کیا کوئی یقین کرسکتا ہے کہ جیب میں پیسے اور میلہ میں کھانے پینے کی اشیاءمیسر ہونے کے باوجود شائقین منہ میں پانی بھر کر رہ جاتے ہوں؟ لیکن 14 نومبربروز پیرسے ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں واقع پرگتی میدان میں ایسا ہی ہورہا ہے ۔ ملک کے اولین وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی پیدائش دن کے موقع پرشروع ہوئے 31 واںبین الاقوامی تجارتی میلے میں اشیائے خوردونوش کے ہوشربانرخوں نے عوام کوترسارکھا ہے جبکہ ملک کی وزارت عظمیٰ پر طویل ترین زمانے تک حکمرانی کرنے والی آنجہانی اندرا گاندھی کے 94ویں یوم پیدائش پراسے عوام الناس کیلئے بھی کھول دیا گیا ہے۔کم و بیش 6000 اسٹالوں پر مشتمل اور تقریبا 15 لاکھ ناظرین اپنی بھوک پیاس مٹانے کیلئے منہ مانگے پیسے دیں یا تڑپتے پھریں‘ اس سے انتظامیہ کو کیا لینا دینا‘وہ تو14 دن تک چلنے والے اس میلے کا افتتاح مرکزی وزیر خزانہ پرنب مکھرجی اور مرکزی تجارت اور صنعت کے وزیر آنند شرماکے ہاتھوں کروا کے’ تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو‘ کا پرتو بنی ہوئی ہے۔مرکزی تجارتی وزارت اور ہندوستانی تجارتی تنظیم نئی دہلی کے پرگتی میدان میں اس میلے کا انعقادشاید اسی لئے کرتے ہیں کہ یہاں آس پاس کوئی رہائشی کالونی نہیں ہے جہاں جاکر لوگ اپنے پیٹ بھرنے اور حلق تر کرنے کے مسئلے کو حل کر سکیں جبکہ یہ یہ ملک کا سب سے بڑا اور عظیم الشان میلہ ہے جس میں تاجروں اور صارفین دونوں کی ضرورت کے مصنوعات کی نمائش لگتی ہے۔ میلے کے پہلے 5دن یعنی 14 نومبر سے 18 نومبر تک کاروباری لوگوں کیلئے مخصوص تھے جبکہ 19 نومبر سے یہ میلہ عام لوگوں کے لئے کھل گیا ہے۔اس مرتبہ میلے میں دیگر ممالک کو کنارے کرکے 2ہندوستانی ریاستوں مغربی بنگال اور جھارکھنڈ کے ساتھ شراکت اور بہار اور اوڈیشہ کے فوکس کے باوجودگرانی شباب پرہے جبکہ آئی ٹی پی او کے صدر اور منیجنگ ڈائریکٹر راجیو کھےر نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اس مرتبہ اسٹالوں کی تعداد پہلے سے زیادہ رہے گی۔ اس بار میلے کا تھیم ہے ’بھارتی دستکاری - ہاتھوں کی عجیب کاریگری کا سب سے بڑا اظہار کھانے پینے کی اشیاءپر ہورہا ہے جبکہ میلے میں 26 ممالک کے 230 اداروں ، 27 ہندوستانی ریاستوں ، 31 مرکزی وزارتوں اور 260 نجی کمپنیوں کی مصنوعات کی نمائش لگائی گئی ہے۔ میلے میں آنے والے لوگوں کو ملک کے مختلف پکوانوں کو چکھنے کی دعوت دیکر پہلے ہی ان کی آتش شوق کو بھڑکا دیا گیا تھا۔ میلے کے سلسلے میں بین الاقوامی اداروں کے جوش کا پتہ اس بات سے چلتا ہے کہ جنوبی افریقہ کا کاروبار اور صنعت کے شعبہ میں 19 اسٹالوں کی پیش گوئی کردی گئی تھی۔لیکن میلے میں آنے والے لوگوں کی تعداد اور لگائے جانے والے ا سٹالوں کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے بین الاقوامی تجارتی میلے میں شائقین کو سبھی ریاستوں کے کھانے میسر ہونے کے دعوے جھوٹے ثابت ہورہے ہیں جبکہ پہلے کے منتظمین نے د عویٰ کیا تھا کہ یہاں ہر علاقے کی ڈشیں موجود ہوںگی۔’بھارت کا کھانا‘کے نام سے بنائے گئے ’فوڈ کورٹ‘میں محض 4یا5ریاستوں کے کھانے ہی دستیاب ہیں جبکہ ان ڈشوں کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتوں نے کریلے کو نیم پر چڑھا دیا ہے۔کھانا تورہی دور کی بات عوام کی پریشانیوں کا یہ عالم ہے کہ پانی کی کمی کی وجہ سے میلہ دیکھنے آئے ہوئے شائقین کو مجبوراً پانی کی مہنگی بوتلیں خریدنی پڑ رہی ہیں۔’فوڈ کورٹ‘ میں پاکستان کے لاہوری فوڈ اسٹال پر ضرورتمندوں کا جم غفیر دیکھا جا سکتاہے۔

ہوشربا گرانی کی یہ عنایت 27نومبر تک جاری رہے گی کیونکہ گزشتہ روز جمعہ کوکاروباریوں کیلئے مخصوص 5روز پورے ہوچکے ہیںجبکہ میلہ انتظامیہ کے صدر راجیو کھیر نے اپنی پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ ’فوڈ کورٹ‘ میں نہ صرف تمام ریاستوں کا کھانا میسر ہوگابلکہ پینے کی پانی کی بوتل بازار سے زیادہ قیمت پر نہیں ملے گی لیکن ان کے دعوے ’فوڈ کورٹ‘ میں آکر جھوٹے اور لغو ثابت ہورہے ہیں۔ یہاں پر 12روپے والی پانی کی بوتل 20روپے میں مل رہی ہے۔ایسا نہیں ہے کہ یہ چوری چھپے ہورہا ہوبلکہ ’فوڈ کورٹ‘ کے’ مینو چارٹ‘ پر یہ قیمت درج ہے۔میلہ کے اس مقام پر پانی کی اتنی قلت ہے کہ میلہ دیکھنے والے یہی مہنگا پانی خرید نے پر مجبور ہیں۔میلہ انتظامیہ نے میٹرو اسٹیشن کے قریب ہال نمبر 12کے سامنے ’فوڈ کورٹ‘ بنایا ہے۔یہ جگہ پرگتی میلہ کے مقام کا ایک گوشہ ہے۔گیٹ نمبر ایک کے داخلہ دروازہ کے قریب کسی میلہ دیکھنے والے کو کھانا کھانا کی ضرورت ستائے تو اسے ’فوڈ کورٹ‘ کی طرف سے رجوع ہونا پڑ تاہے۔’فوڈ کورٹ‘ تک کی پیدل مسافت 15سے 20 منٹ کی سمجھی جاسکتی ہے۔’فوڈ کورٹ‘ میں بڑے اور رنگین ،مینوچارٹ، لگا ئے گئے ہیں۔کورٹ کے اندرتقریباً 100افراد کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا ہے۔تعداد بڑھ جانے پر ضرورت مندوں کو ’فوڈ کورٹ‘ کے باہر ادھر ادھردائیں بائیں لگائی گئی بنچوں پر بیٹھ کر کھانا کھانا پڑتاہے۔’فوڈ کورٹ‘ میں زیادہ تر دہلی کے باشندے سامان فروخت کررہے ہیں جو دیگر ریاستوں کی اشیائے خورد ونوش محض دکھاوے کے طور پر فروخت کررہے ہیں۔

’فوڈ کورٹ‘ میں راجستھانی کھانے کے اسٹال پربھیڑ دیکھی جاسکتی ہے لیکن یہاں پر کھڑے ہوئے شائقین کافی دیر تک ’مینو چارٹ‘ پر تحریر کردہ قیمتوں کو پڑھتے رہتے ہیں۔دراصل کھانوں کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتیں انہیں چکراکر رکھ دیتی ہیں۔بھوک اور پیاس کے ہاتھوں مجبور جس گاہک کو4تھالیاں خریدنی ہوتی ہیں2تھالیوں پر قناعت کرنے کیلئے مجبور ہوتاہے۔یہاں بر راجستھانی تھالی 250روپے، ملکا دال باری چورما200روپے، کیس سانگری 200روپے‘ مسی کی روٹی کی تھالی 200روپئے‘مونگ کی دال کی کچوری 60روپے،گٹا چاول 100روپے اور پچ میل دال کے ساتھ چاول100روپے میں مل رہے ہیں۔میلے میں جے پور سے آئے ہوئے ایک شخص راجو کا کہنا تھاکہ یہ سامان ان کے وطن میں ایک تہائی قیمت پر میسرہے۔

پنجاب کے فوڈ کے نام پر یہاں چند ڈشیں میسر ہیں۔یہاں کے ایک کاؤنٹر پر امرتسری قلچہ چنا120روپے،مکاکی روٹی سرسوں کے ساگ کے ساتھ120روپے میں فروخت ہورہی ہے۔چائینیز فوڈ کی یہاں پر چند آئٹمیں موجود ہیں۔فرائڈ رائس ود منچورین کی پلیٹ 120روپے میں، سموسہ 70روپے میں، نوڈلس70روپے میں اور چکن منچورین 150روپے میں میسر ہے۔

بنگال کے کھانوں کے نام پر یہاں محض 2یا3چیزیں ہی نظر آرہی ہیں۔یہاں پر گرلڈ فش 250روپے، بنگالی فرائیڈ فش 250روپے،چکن طلائی80روپے میں مل رہا ہے۔یہاں پر بنگال کی خصوصی چم چم، اورینج سیڈیش، رس گلہ، میٹھی دہی اور پتیش پتہ ندارد ہے۔ان کھا نوں کے چاہنے والے انہیں ڈھونڈتے ہی رہ جاتے ہیں۔بہارکے لٹی چوکھا ہرسال میلے میں خوب فروخت ہوتاتھا لیکن اس مرتبہ یہ ڈش ’فوڈ کورٹ‘ میں میسر نہیں ہے۔اس کے علاوہ بہار کے دیگر خصوصی کھانے مثلاً ستوپرانٹھے،بھوجا اور مکھن کی کھیر بھی’فوڈ کورٹ‘ سے غائب ہے۔مہاراشٹر کے کھانوں کے نام پر پرانی دہلی کا ایک دوکاندار بھیل پوری فروخت کررہا ہے۔اس کے علاوہ مہاراشٹر کے دیگر کھانے ’فوڈ کورٹ‘ سے ندارد ہیں۔گجرات کے کھانے بھی’فوڈ کورٹ‘ میں میسر نہیں ہیں۔گجرات کے ڈھوکلہ، شری کھنڈ،کھانڑوی، دال ڈھوکلی، کھاکرا،تھپیلااور بھاکری کے چاہنے والوں کی تعداد کسی طور پر بھی کم نہیں کہی جاسکتی لیکن ’فوڈ کورٹ‘ میں آکر انہیں مایوسی ہاتھ لگتی ہے۔اسی طرح مدھیہ پردیش کی کلسی، میٹھا، خورمہ، لیوانگ لتا کیشو برفی بھی ’فوڈ کورٹ‘ سے غائب ہے۔ گووا کا سویٹ پوٹیٹو کھیر، پناکا، سنم اور بھوگن چاول بھی یہاں کے معروف کھانے ہیں جو’فوڈ کورٹ‘ میں میسر نہیں ہیں۔

’فوڈ کورٹ‘ میں پرانی دہلی کے سیتارام بازار کے کھانوں کی قیمتیں بھی آسمان کی بلندیوں تک جاپہنچی ہیں۔میزبانی کاحق اداکرتے ہوئے یہاں دہلی والے چھولے بھٹورے کی قیمت 70روپے وصول کررہے ہیں جبکہ عام بازار میں یہ 25سے 30روپے کے درمیان میسر آجاتاہے ۔شاہی پنیر نان80روپے اور دال مکھنی نان 70روپے میں فروخت ہورہے ہیں۔میلہ دیکھنے والوں کی بھیڑ پاکستان کے ’لاہوری فوڈ‘ پر دیکھی جاسکتی ہے لیکن اس مجمع میں زیادہ تر شائقین کھانوں کے نرخ کامطالعہ کرتے ہوئے ہی دیکھے گئے۔یہاں ملائی ٹکہ کباب کی قیمت 180روپے ، چکن ٹکہ 180روپے،چکن لاہوری 250روپے، ہانڈی گوشت 220روپے، چکن تری 200روپے اور رومالی روٹی 20روپے کی مل رہی ہے۔گوشت خوری کے شائقین میں سے ایک گاہک کا کہنا تھا کہ یہاں کے کھانوں کا مزہ ہندستانی کھانوں کے جیسا ہی ہے۔فرق ہے تو بس قیمت کا !یہ جس قیمت پریہاں اشیاءخوردونوش میسر ہیں اس سے کافی کم قیمت میں یہ ہندستان کے شہروں میں بآسانی دستیاب ہیں۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 116797 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More