اسمبلیوں کے ٹوٹنے کا وقت آگیا؟

متعدد لوگوں کی طرح مجھے بھی اللہ کی ذات سے پورا یقین ہے کہ پاکستان کے اچھے دن بس شروع ہونے والے ہیں،پیپلز پارٹی کی حکومت کے بارے میں ان کے اپنے لوگوں کی بڑھتی ہوئی مخالفت کے باعث اس کی بے چینی ، متحدہ قومی موومنٹ کی بوکھلاہٹ ، ان کی صفحوں میںتشویش اوران کے کارکنوں میں پائی جانے والی غیر یقینی کی کیفیت،عمران خان اور تحریکِ انصاف کی اچانک غیر معمولی مقبولیت اور سب سے بڑکر عسکری قیادت کی سرگرمیاںاس بات کی نوید سنارہی ہے کہ ملک کے برے دن ختم ہونے والے ہیں۔

اگر چہ امیر جماعت اسلامی پاکستان منور حسن نے کہا ہے کہ وسط مدتی انتخابات کا وقت گزر چکا اور اب کل مدتی انتخابات کا انعقاد بھی مشکوک ہے جبکہ چند روز قبل بلاول ہاﺅس کراچی میں اپنی پارٹی کے سینئر کارکنوں اوراراکین اسمبلی سے گفتگو کرتے ہوئے کہاتھا کہ انتخابات وقت مقررہ پر ہی ہونگے نہ ایک دن پہلے اور نہ ایک دن بعد ہونگے۔

لاہورمیں 30 اکتوبر کو ہونے والے تحریکِ انصاف کے جلسے کے بعد پیپلز پارٹی کو اس وقت شدید دھچکا لگاجب سابق وفاقی وزیر خارجہ اور پیپلز پارٹی کے دیرینہ لیڈر مخدوم شاہ محمود قریشی نے پیپلز پارٹی سے علیحدگی اور تحریکِ انصاف یا مسلم لیگ نواز میں شامل ہونے کا اشارہ دیا۔پیپلز پارٹی کی حکومت سے قوم کو ایک دو دن نہیں بلکہ ساڑھے تین سال سے زائد عرصے میں مایوسی ہوئی لوگوں کو اگرچہ اس حکومت سے آصف زرداری کے صدر بننے کے بعد سے کوئی خاص توقعات بھی نہیں تھی لیکن اس قدر مہنگائی ، بیروزگاری ،امن و امان کی خراب صورتحال اورسیلابی کرپشن کی صورتحال نے انہیں بے انتہا مایوس کیا جس کے نتیجے میں لوگ نئی قیادت کی طرف دیکھنے لگے اور قیادت کی تبدیلی کی امنگ اس قدر بڑی کہ کل کے کرکٹر عمران خان سے وہ توقعات لگا بیٹھے جو کسی انقلابی لیڈر سے ہوتی ہے ،پھر لاہور میں ہونے والے تحریکِ انصاف کے جلسے میں بڑی تعداد میں شرکت کرکے لوگوں نے عمران خان سے محبت سے زیادہ موجودہ حکمرانوں سے نفرت اور مایوسی کا واضع اظہار کیا ۔

یہ ہی حقیقت ہے کہ یہ جلسہ حکمرانوں کے اقدامات کے خلاف لوگوں میں پائے جانے والے غصے کا ردِعمل ہی تھا لوگوں نے جمہوری انداز میں ہر قوت کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اب تبدیلی چاہتے ہیں۔

اگر ہم یہاں امیر جماعت اسلامی کے خدشات کی بات کریں تو اس کے امکانات بھی ہیں کیونکہ ماضی میں آصف زرداری نے جو بات زور دیکر کی وہ بات پوری نہیں کی،ان کا یہ کہنا کہ انتخابات شیڈول سے ایک دن پہلے نہ ہی ایک بات ہونگے لیکن جو قوت ان کی اس حکومت کو عوام کی شدید مخالفت کے باوجودسہارہ دیتی رہی بلکہ غیر معمولی طور پر سپورٹ کرتی رہی اس اہم ترین عنصر کو بھی بدنام کرنے کے لئے آصف زرداری اور ان کی ٹیم سرگرم نظر آئی تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ جمہوریت کے نام پر اس حکومت کو مزید برداشت کیا جائے گا؟ مجھے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی دو دن کے دوران آصف زرداری اور وزیر اعظم گیلانی سے دو ملاقاتوں سے بھی اس بات کا اندازہ ہورہا ہے کہ آرمی چیف اس بات سے شدید ناراض ہیں کہ حکومت کی امریکہ میں مقرر کردہ شخصیت نے مبینہ طور پراپنی حکومت کے تحفظ کے لئے ملک کے اہم ترین ادارے کو بلاوجہ گھسیٹنے کی کوشش کی اور اس کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔

حالانکہ چند ماہ قبل وزیر اعظم یوسف گیلانی یہ بھی انکشاف کرچکے ہیں کہ پہلی بار اسٹبلشمنٹ اور موجود حکومت کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہے۔

ملک میں جو حالات ہیں جن میں خاص طور پاکستان نژاد تاجر و صحافی منصور اعجاز اور پاکستان میں امریکی سفیر حسین حقانی سے جڑے معاملات ، ذوالفقار مرزا کے ملک کے خلاف کی جانے والی سازشوں کے انکشافات ، ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن اوربڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ چند روز میں صدر اسمبلیاں توڑنے پر ” مجبور“ ہوجائیں گے اور اسمبلیاں توڑکر نئے انتخابات کی تاریخ اور عبوری حکومت کے قیام کا اعلان ازخود صدر آصف زرداری کرینگے۔

ایسا اس لئے نہیں ہوگا کہ فوج اور حکومت کے درمیان ہم آہنگی ہے بلکہ اس لئے ہوگا کہ عسکری قیادت ہر گز جمہوری نظام کو ختم کرنے کا الزام اپنے سر نہیں لینا چاہتی اور نہ چاہے گی۔

بہرحال اسی طرح پاکستان کے اچھے دنوں کی شروعات ہوجائے گی۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 152756 views I'm Journalist. .. View More