تحفظ کے علمبردار مولانا ابوالکلام آزاد

جنگ آزادی کے عظیم رہنما اور مسلمانوں کے حقوق و اختیارات کے تحفظ کے علمبردار مولانا ابوالکلام آزاد

مولانا ابوالکلام آزادکا شمار ہمارے ملک کی ان ممتازشخصیتوں میں ہے جن کے وقار، تمکنت، علم وادب میں بلندی، سیاست میں فراست، دینی ودنیوی امور میں تبحّر اور دانشوری کی وجہ سے ان کا نام صفحہ تاریخ پردرخشاں ستارے کی طرح چمکتا رہے گا۔

مولانا آزاد اسلامی تعلیمات کے ماہر تھے۔آپ کو علم حدیث، فقہ، تفسیر، فلسفہ اور مشرقی علوم پرکافی عبور تھا۔ آپ بہت ہی ذہین و فطین تھے۔ جمالیات کا ایسا ذوق تھا کہ کائنات کی خوبصورتی ان کے تصور میں مقید تھی۔ کلام میں ایساجادو تھا کہ سننے والوں پرسکتہ طاری ہوجاتاتھا۔ قلم میں وہ روانی تھی کہ انگریز شہنشاہوں کے حواس اڑجاتے تھے۔ صحافت میںوہ مقام تھا کہ آپ کی تحریرات دیکھ کر حکومت کا دل دہل جاتا تھا۔ آپ کی سیاست و فراست کا اہل مغرب لوہا مانتے تھے۔ آپ کا شوق وجذبہ ایسا تھا کہ دریائے تند وتیز کی طرح ہر رکاوٹ کو خس وخاشاک کی طرح بہالے جاتا۔ غرض وہ ایک عجیب شخصیت تھی بقول مولانا علی میاں ندوی ؒ ٬٬ہمارے بزرگ عزیز مولانا کے کچھ ایسے معتقد نہ تھے، لیکن وہ مولانا کی غیر معمولی ذہانت ، حاضر دماغی ، انشا پردازی اور اس کے ساتھ ان کی خو دداری اور نظافت و لطافت کے قصے اس طرح مزے لے لے کر سناتے تھے کہ یہ محسوس ہوتا تھا کہ ہم یونان کے حکماءو فلاسفہ اور الف لیلہ کی خیالی شخصیتوں کے قصے سن رہے ہیں، ان سے یہ ثابت نہیں ہوتا تھا کہ وہ مولانا کو معیاری اور مثالی انسان سمجھتے ہیں، جو ہر طرح کے نقص یا تنقید سے بالا تر ہو کر بلکہ کچھ معاصرانہ تنقیدی اشارے بھی ہوتے تھے، لیکن ان سب کا ان کی غیر معمولی ذہانت، خدا داد حافظہ اور خود داری و خود اعتمای کے نمایاں وصف پر اتفاق تھا۔،،

مولانا آزاد مغرب کی سیاسی روح کو پہچانتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ مغرب کا پیغام جبر ہے،اقتدار ہے، استبدادہے، قوت ہے، طاقت ہے یہ کبھی توپ کی نلی سے حاصل کی جاتی ہے اور کبھی حکمت عملی سے۔ توپ کی نلی آخر میں آتی ہے جب کہ حکمت عملی کے سارے نشانے خالی جاتے ہیں۔ ہندوستان میں حکمت عملی یہ تھی کہ دو فرقوں کو لڑاؤ اور اپنا مطلب نکالو۔کبھی اس نواب کو اس نواب سے لڑاؤ اورکبھی اس راجہ کو کواس راجہ سے لڑاؤ۔ اس سے بہتر یہ ہے کہ نواب اور راجہ کو کبھی ملنے نہ دو۔ ایک طریقہ کی پالیسی کبھی نہ اختیار کرو۔ کبھی اتنا مارو کہ سسکتے رہ جائیں اور کبھی اتنارحم برتو کہ لوگ مطیع ہوجائیں۔ گولہ بارود ہمیشہ گرم رکھو مگر مرہم پٹی کے لئے ہسپتال بھی کھولو۔ مزدور کا خون بھی چوسو مگر سرمایہ دار سے کلب میں دوستی بڑھاؤ۔ کالج میں آزادی کا سبق دو، دفتر میں ہندوستانی کو غلام بنا کے رکھو۔ بے ضرورت آسائش کا چسکا عوام میں بٹھادوتا کہ یوروپ کا مال کھپے۔ یہاں کامال سستا خریدو اور اپنا مال مہنگابیچو۔ فوج میں بھرتی سوچ سمجھ کر کروتا کہ وہاں بھی ذات پات کا توازن برابر رہے۔ سرکاری نوکریوں کا وقار آسمان تک چڑھاؤ تا کہ پڑھا لکھا طبقہ اس میں کھپ جائے اورغیر ضروری حریت کا جذبہ ان میں نہ ابھرے۔ملک میں تفرقوں کی بہتات بڑھاؤ۔ کہیں زمینداروں کا حلقہ، کہیں اقلیت کاحلقہ، کہیں اچھوتوں کا حلقہ، کہیں مسلمانوں کا حلقہ، کہیں تاجروں کا، کہیں دستکاروں کا، کہیں سرمایہ داروں کا اور ان میں ایسی کشیدگی بڑھاؤ کہ ہر ایک دوسرے کا حریف ہو۔ غرض ساحران مغرب کے زہریلے پھندے دیکھنے میں ایسے خوشنما تھے۔جیسے کا غذی پھول- چند بے سمجھ ہندوستانی ان پر جان چھڑ کتے تھے مگر یہ حقیقت تھی کہ انسان نوع انسانی کا شکاری بن گیا تھا۔ مولانا آزاد نے مغربی چال کی پول کھول کر رکھ دی۔ یہی الہلال والبلاغ کا سب سے بڑا کارنامہ تھا۔

مولانا آزاد اس بات کے قائل تھے کہ ایک مسلمان پکا مسلمان ہونے کے باوجود سچا محب وطن بھی ہوسکتا ہے۔ اسلام اور قومیت میں تضاد نہیں ہے۔ مذہب اسلام انسانیت کاوہی سبق دیتا ہے جو سبھی سچے مذہبوں کا تقاضہ ہے۔ اس ملک میں ہندو ومسلمان صدیوں ساتھ ساتھ رہتے چلے آرہے ہیں۔ مشتر کہ تہذیب کی بنیاد ڈالی تھی۔ رہن سہن، عادت واطوار، طور طریقہ، رسم ورواج، میل جول، دکھ سکھ، خوشی غمی، غرض زندگی کے ہر موڑ پروہ برابر کے شریک رہے تھے۔غیر ملکی اقتدار، پرائی تہذیب، اجنبی اصول، تفریقی قدریں اور خود غرضانہ احساسات، سبھی کچھ یوروپ سے درآمد کیا ہوا مال ہے۔ اس کی ہمیں ضرورت نہیں۔ ان کو نکال پھینکنے میں ہی ملک کی بھلائی ہے۔ یہ مولانا آزاد کا خیال تھا اور وہ آخر تک اسی مہم میں لگے تھے کہ کسی طرح نفاق کازہر دلوں سے نکلے۔ملک کاشیرازہ نہ بکھرے۔ ہند ومسلم مل جل کر رہیں۔ اور اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔

لیکن افسوس مولانا ملک کی وحدانیت بر قرار رکھنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔اس کے باوجود مولانا آزاد کا وقار آزادی کے بعد کئی گناہ زیادہ ہوگیا۔وہی مسلمان جو آزادی سے قبل انہیں کانگریس کا مہرہ سمجھتے تھے بعد میں ان کے ایسے معتقد ہوئے کہ ان کی دوراندیشی کی داد دینے لگے۔ ان کی تائید کے خواہاں بنے اور ان کی قیادت کو تسلیم کرنے لگے۔ مگر پانی سر سے اونچا ہوگیا تھا۔ قسمت کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ ملک بٹ گیا تھا۔ انسانیت الگ ہوچکی تھی۔ مولانا آزاد نے قوم کی غلطیوں کا کافی کفارہ اپنی ذات سے اداکیا۔ کم از کم انہوں نے اور دیگر چند نیشنلسٹ مسلمانوں نے ملک کی وحدانیت کے لئے اپنا تن من دھن قربان نہ کیا ہوتا تو سارے بھارت کی مسلم اقلیت کا حشر جو ہوتا وہ قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ آزاد کی سیاسی رہنمائی بہتوں کو آب حیات کے مصداق مفید ثابت ہوئی۔

مولانا آزاد جہاں مسلمانوں کی سیاسی قیادت کرتے وہیں مذہبی رہنمائی بھی کرتے تھے۔ ان کی پیدائش مکہ معظمہ میں ہوئی۔ ان کی تعلیم شام، عراق اور حجاز میں ہوئی۔ ان کا سارا ابتدائی ماحول خالص اسلامی، مذہبی تھا۔ان کی تعلیم خاندانی ورثہ میں بھی ملی تھی۔ نوجوانی تک ان کے ذہن پر مغرب کی پرچھائیں بھی نہ پڑی تھی۔اسلامی تہذیب کا سنہرا باب ان کے دل ودماغ پر نقش تھا۔ فقہ، حدیث، تصوف اور تفسیر سے گہری واقفیت اور خود اپنے دماغ کی تخلیقی قوت اور تخیلی پرواز سے اسلامی علوم کا وہ سرچشمہ ان کے ذہن میں موجزن تھا جو انہیں بیسویں صدی کے صف اول کے عالم دین کہلانے کا شرف بخشتا تھا۔ ایسے جید عالم، خطیب، ادیب، مفسر، محقق ومفکر تھے کہ ان کی ذات سے کئی علمی، ادبی اور تہذیبی خدمات سرانجام پائیں۔ جہاں سیاست میں ناکامی ہوئی اس کا کافی تدارک تہذیبی امور میں نظرآتا ہے۔

غرض مولانا آزاد ہماری عظیم المرتبت ہستیوں کے صف اول میں تھے۔ان کی صحبت علم کا سرچشمہ ہوتی تھی، ان کی مجلس سیاست کا ایوان ہوتی تھی۔ ان کا کلام اخلاق کا دیوان ہوتا تھا۔ ان کا قلم حریت وآزادی، مذہب وملت، اتحادواتفاق، انسانیت وہمدردی کے لئے بے تاب تھا۔ ملک کی وحدت کے وہ پر ستار تھے۔ انگریزوں کے وہ سخت حریف تھے۔اسلامی عظمت کے علمبردار تھے۔اخلاق و تمدن کے دلدادہ ، پاکیزگی ونفاست، متانت وسنجیدگی، وقاروتمکنت، طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ علم کی وسعت کا یہ عالم تھا کہ سورہ فاتحہ کی تفسیر تین سو صفحات پر بکھیر دی۔ سیادت و قیادت ، فراست و امامت کی مثال ملنا مشکل ہے۔ خطابت میں وہ جادو بیانی، انداز تخیل کی پرواز اور معلومات کا ذخیرہ کہ مجمع بے قابو ہوجائے۔ آپ میںحق وانصاف، راست بازی و ایمانداری، بے تعصبی ورواداری کا جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا۔

غرض مولانا آزاد کی شخصیت اس عہد کی ایسی معزز و معتبر تھی کہ ہر کوئی آپ کو اپنا امام،قائد ، رہبر تسلیم کر نے کے لئے تیا ر تھا۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی مولانا کو قدرواحترام کی نظر سے دیکھاجاتا ہے۔ کسی نے شاید آپ ہی کے بارے میں کہا تھا۔
ہر ایک کے ذکر کو ہر گز بقا حاصل نہیں ہوتی
صداقت جس میں ہوتی ہے وہی بنتا ہے افسانہ
Abdullah Salman Riaz Qasmi
About the Author: Abdullah Salman Riaz Qasmi Read More Articles by Abdullah Salman Riaz Qasmi: 12 Articles with 35143 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.