انقلاب 1857 کا جہادی پہلو

1857ٰء كے جنگ كے مطالعه سے يه حقيقت منكشف هوتي هے كه غير ملكي انگريزوں كے پيهم ظلم و ستم ، جارحيت و سفاكيت، قتل و غارت گري اور مذهبي مداخلت كے ردِ عمل ميں 11 مئي1857ئ سے شروع هوكر(1) 21 ستمبر كو ختم هونے والي(2)انقلاب 1857ئ كي تحريك ميں جس چيز نے روح پھونكي تھي ، وه علامه فضلِ حق خير آبادي اور اس وقت كے ديگر اكابر علما كا وه معركه آرا فتويٰ تھا جسے جنرل بخت خاں كے 26 مئي 1857ئ كو دهلي ميں ورود(3)اور حضرت علامه سے مشوره كے بعد جامع مسجد ميں مرتب كيا گيا تھا۔ اس فتويٰ كے شائع هوتے هي پورے ملك ميں سورش برپا هو گئي۔ صرف دهلي ميں نوے هزار سپاهي جمع هو گئے تھے ۔ اس فتويٰ پر حضرت علامه كے علاوه پانچ اور علما كے دستخط تھے۔(4)يه فتويٰ هميں دستياب نهيں هو سكا ليكن اسي طرز كا ايك فتويٰ جو حضرت علامه كے ورودِ دهلي سے پهلے مرتب هو كر شائع هو چكا تھا(5)اور بقول مولوي ذكائ الله جس كا چرچا شهر ميں بهت كم تھا (6)هميں ملا هے، هم اسے ذيل ميں نقل كرتے هيں۔:


٫٫كيا فرماتے هيں علماے دين اس امر ميں كه اب جو انگريز دلي پر چڑھ آئے اور اهلِ اسلام كي جان و مال كا اراده ركھتے هيں۔ اس صورت ميں اب اس شهر والوں پر جهاد فرض هے يا نهيں؟ اور اگر فرض هے تو وه فرضِ عين هے يا نهيں؟اور اوپر لوگ جو اور شهروں اور بستيوں كے رهنے والے هيں ان كو بھي جهاد چاهيے يا نهيں؟بيان كرو، الله تم كو اجر دے۔٬٬


جواب: در صورت مرقومه فرض عين هے، اوپر تمام اس شهر كے لوگوں كے اور استطاعت ضرور هے اس كي فرضيت كے واسطے، چناں چه اس شهر والوں كو طاقت مقابله اور لڑائي كي هے بسبب كثرت اجتماع افواج كي، اور مهيا اور موجود هونے آلات حرب كے ، تو فرض عين ميں كيا شك رها اور اطراف و حوالي كے لوگوں پر جو دور هيں، باوجودخبر كے فرض كفايه هے۔ هاں اگر اس شهر كے لوگ باهر هو جائيں مقابله سے يا سستي كريں اور مقابله نه كريں تو اس صورت ميں ان پر بھي فرضِ عين هو جائے گا اور اسي طرح اور اسي ترتيب سے سارے اهلِ زمين پر شرقاً اور غرباً فرض عين هوگا اور جو عدو اور بستيوں پر هجوم اور قتل اور غارت كا اراده كريں تو اس بستي والوں پر بھي فرض هو جائے گا ، بشرط ان كي طاقت سے۔٬٬ (7)


اس فتوے كے مجيب مولانا نور جمال هيں، ان كے علاوه 35 اور علماے كرام كے دستخط اس فتوے پر ثبت هيں۔(8)اور حضرت علامه كے مركزي فتويٰ كي بنياد هي پر 1857ئ كي جنگ٫٫جهاد٬٬ قرار پائي اور اس كے جاں نثاروں كو ٫٫شهيد٬٬ اور ٫٫مجاهد٬٬كے لقب سے ياد كيا جاتا هے۔


جنگ 1857ئ كي جهادي حيثيت كي جانكاري صرف اهلِ علم، اربابِ افتا اور شاهي دربار سے وابسته افراد هي تك محدود نه تھي بلكه اس جنگ ميں شريك ادنيٰ سے ادنيٰ شخص بھي اس بات سے واقف تھا اور اسي وجه سے وه بڑا سے بڑا خطره بھي مول ليتا تھا۔ كيوں كه اسے اس كا يقين تھا كه يه كوئي عام جنگ نهيں بلكه ايك مقدس جهاد هے ، جس ميں اگر اسے موت بھي حاصل هوتي هے تو وه هزاروں دنياوي زندگي سے بدرجها بهتر هے۔ ذيل ميں نقل كرده واقعات سے هماري بات كي صداقت سامنے آتي هے:


٫٫گرانڈ جيكب نے يه واقعه بيان كيا هے كه جب باغيوں كو توپ سے اڑايا جا رها تھا تو ان ميں سے ايك ايسا تھا جو صرف زخمي هوا، ليكن اس كے باوجود وه فخر سے سينه تان كر ، دوسرے راو نڈ كے ليے توپ كے سامنے كھڑا هو گيا۔ يه ديكھ كر جيكب اس كے قريب گيا اور كها كه مجھے تم پر رحم آتا هے ، شايد دھوكا دے كر تمھيں بغاوت ميں پھنسا ديا گيا هے۔ اگر تم سركار كي مدد كرو اور باغي سرداروں كے نام بتادو تو تمھاري جان بچ سكتي هے ۔ ليكن يه زخمي شخص اپنے زخم كي تكليف سے جھكا ، خاموش رها، ميري طرف ترش روئي اور حقارت سے ديكھا اور برملا كها٫٫ميں نے جوكيا ٹھيك كيا٬٬ يه كهه كر اس نے منه پھير ليا اور دليري سے توپ كے سامنے كھڑا هو گيا۔(9)


گوري شنكر جو انگريزوں كا ايك مخبر تھا ، اس نے 7 ستمبر1857ئ كو انقلابيوں كے متعلق جو رپورٹ بھيجي اس كے الفاظ ملاحظه هوں:


٫٫دو دن هوئے تقريباً چار سو غازيوں كا ايك دسته گواليار سے پهنچا تھا ۔ يه لوگ بالكل كنگال هيں۔ نواب محمد مير خاں كے صاحب زادے مياں بڈھن نے ان سے دريافت كيا، ان كے پاس خوراك وغيره كا بندوبست هے، انھوں نے جواب ديا كه وه لوگ شهادت كے ليے وهاں پهنچے هيں ، ان كو خوراك وغيره كي ضرورت نهيں۔٬٬(10)


1857ئ كي جنگ ايك جهاد، مظلوم هندستانيوں كي جائز صداے احتجاج اور ناله برحق تھي۔ يه اس وقت كے دانش ور اور حالات پر گهري نظر ركھنے والے علماے كرام كا ٫٫شرعي فيصله٬٬ هے ليكن اسي دور ميں علما كا ايك چھوٹا سا گروپ(11)اس فيصلے كو غلط قرار ديتا تھا اور اس كے بر عكس اپني ٫٫راے٬٬ ركھتا تھا۔ ان كے كهنے كے مطابق ان حالات ميں انگريزوں كے خلاف مسلمانوں پر جهاد كا فرض هونا تو دركنار، جائز بھي نهيں تھا۔ اس كے پيچھے ان علما كے كيا مقاصد تھے ، هم ان سے بحث نهيں كريں گے۔ همارا مقصد صرف اتنا هے كه 1857ئ هي ميںجنگ 1857ئ كي معروف عام، تحقيق سے ثابت اور حالات كے عين مطابق جهادي حيثيت سے انكار كرنے والا ايك گروه پيدا هو چكا تھا، جس كا ثبوت هميں ذيل كے واقعات سے ملتا هے۔ ايك واقعه كے بارے ميں مولانا وحيد الدين خاں لكھتے هيں:


٫٫1857ئ كے زمانے ميں جب علما نے انگريزوں كے خلاف جهاد بالسيف كا فيصله كيا، اس وقت ديوبند ميں ايك بڑے عالم مولانا شيخ محمد صاحب تھے۔ مولانا كي راے دوسرے عالموں كے بالكل برعكس تھي۔ ان كا كهنا تھا كه انگريزوں كے خلاف جهاد كرنا هم مسلمانوں پر فرض تو دركنار موجوده احوال ميں جائز هي نهيں۔ چناں چه ديوبند ميں ايك مشاورتي اجتماع هوا۔ اس ميں دوسرے علما كے ساتھ مولانا رشيداحمد گنگوهي مولانا قاسم نانوتوي بھي شريك تھے۔ اس واقعه كي تفصيل بتاتے هوئے مولانا حسين احمد مدني لكھتے هيں:


٫٫اس اجتماع ميں جهاد كے مسئله پر گفتگو هوئي، حضرت نانوتوي نے نهايت ادب سے مولانا شيخ محمد صاحب سے پوچھا كه حضرت كيا وجه هے كه آپ ان دشمنانِ دين و وطن پر جهاد كو فرض بلكه جائز بھي نهيں فرماتے۔ تو انھوں نے جواب ديا كه همارے پاس اسلحه اور آلاتِ جهاد نهيں هيں، هم بالكل بے سر و سامان هيں ۔ مولانا نانوتوي نے عرض كيا كه كيا اتنا بھي سامان نهيں هے جتنا كه غزوه بدر ميں تھا۔ اس پر مولانا شيخ محمد صاحب نے سكوت فرمايا۔٬٬(12)


دوسرا واقعه مولوي ذكائ الله كي زباني سنيے:


٫٫مولوي رحمت الله اس ٹوه ميں آئے كه دهلي ميں جهاد كي كيا صورت هے۔ وه بڑے عالم فاضل تھے، عيسائي مذهب كے رد ميں صاحبِ تصنيف تھے، وه قلعه كے پاس مولوي محمد حيات كي مسجد ميں اترے۔ اس دانش مند مولوي كے نزديك دهلي ميں جهاد كي كوئي صورت نه تھي بلكه ايك هنگامه فساد برپا تھا۔٬٬(13)


آج بھي چند جدت پسند ٫٫مفكرين٬٬ اور بزعمِ خويش مجتهدين اسي چھوٹے سے گروه كے فكري اثاثے كو بنياد بنا كر 1857ئ كي جنگ كو جهاد كهنے سے گريز كرتے هيں اور اسے بغاوت اور غدر كا نام ديتے هيں۔


1857ئ كے اقليتي علما كو كن باتوں نے جنگ كے عدم جواز كا فتويٰ دينے پر مجبور كيا تھا، هم ان كے بيان سے صرف اس ليے بچنا چاهتے هيں كه ايك دوسري بحث نه پيدا هو جائے اور پھر ان باتوں كو 1857ئ كي تاريخ سے تھوڑا سا بھي شغف ركھنے والا شخص بھي جان سكتا هے، بشرطے كه مطالعه ميں غير جانب دارانه پهلو كو اپنائے۔ ليكن انقلاب 1857ئ كے حوالے سے مفكرين نے جو اپني راے بنائي هے، اس كي اصل بنياد 1857ئ كي جنگ كي ناكامي پر هے۔ اگر يهي جنگ فتح سے هم كنار هوتي تو يهي نام نهاد مفكرين اس كو جائز، برحق اور جهاد ثابت كرنے ميں ايڑي چوٹي كا زور لگا ديتے۔


اب تك كے بيان سے همارا مقصد يه تھا كه شروع هي سے 1857ئ كي جنگ كے شرعي پهلو كے تعلق سے دو نظريے رهے هيں۔ ايك نظريه جمهور علماے كرام كا هے اور دوسرا ايك چھوٹے سے گروپ اور اس كے هم نواو ں كا۔ اب هميں اس بات كا تفصيل سے جائزه لينا هے كه كون سا نظريه درست هے اور يهي همارا اصل موضوع هے۔ اس سلسلے ميں سب سے پهلے جهاد كا مفهوم، اس كے شرائط اور نصب العين جاننے كي ضرورت هے تا كه هميں ايك معيار مل جائے، جس كي روشني ميں هم بحث كو خوب سے خوب انداز ميں سمجھ سكيں۔


جهاد كا مفهوم:جهاد عربي زبان كا لفظ هے، جس كے معنيٰ هيں محنت كرنا، مشقت اٹھانا اور كوشش كرنا۔ اصطلاحِ شرع ميں جهاد كا مطلب هے،الله كے راستے ميں جنگ ميں پوري توانائي صرف كرنا۔


اسلام كے نظريه جهاد كا فقهي مطالعه يه واضح كرتا هے كه وه اصلاً بے قصوروں پر بے سبب هونے والے ظلم و ستم اور جبر و تشدد كي دفاعي كارروائي كا نام هے۔ عام حالات ميں وه فرض كفايه هے۔ متعلقه خطے كے مكلف مسلمانوںنے اسے انجام دے ديا تو سبھي اس فريضه جهاد سے بري هو جائيں گے۔ هاں اگر حالات ايسے هو جائيں كه كفار كي شرارت سے تمام اهلِ اسلام متاثر هوں اور مقابلے كے ليے مد مقابل كے عام لوگ بھي اٹھ كھڑے هوں اور دشمن اسلامي سرزمين كي حدود ميں داخل هو كردندناتا پھرے تو ايسے موقع پر هر صاحبِ تكليف اور سچے مسلمان پر جهاد فرض هو جاتا هے، جو بنفس نفيس شركت كر سكتا هے ، وه شريك هو، جس كے سامنے شركت ميں رُكاوٹيں هوں وه دوسرے ذريعوں سے تعاون كرے، جهاد ميں حصه لينا بهر حال سب پر ضروري هے۔ ايسي هي صورتِ حال كو فقها٫٫نفير عام٬٬ سے تعبير كرتے هيں اور اس كے بارے ميں فقها نے يهاں تك لكھا هے كه اگر مشرق ميں كسي خاتون پر دست درازي هو تو مغرب كے مسلمان پر بھي اس كا تحفظ و تعاون لازم هے۔ هدايه ميں هے:


٫٫الجھاد فرض علي الكفايۃ اذا قام به فريق من الناس سقط عن الباقين الا ان يكون النفير عاماً و حينئذ يصير من فروض الاعيان ٬٬(14)


اسي ميں هے:


٫٫فان ھجم العدو عليٰ بلد و جب علي جميع الناس الدفع ٬٬


اگر دشمن شهر پر حمله آور هو جائيں تو اس كا دفاع تمام لوگوں پر واجب هے۔


جهاد كے شرائط:


1 جهاد اسي حالت ميں فرض هے جب كه مسلمانوں كے پاس خليفه يا سلطان هو اور وه اپنے امرا و حكام اور علماے كرام كے مشوره سے اعلانِ جهاد كرے۔


2 مسلمانوں كے پاس مقابلے كي استطاعت هو اور فوج كي ايك بھاري تعداد هو، ورنه سلطانِ اسلام اگر يه سمجھے كه كفار زائد هيں تو ايسي حالت ميں ان سے قتال ناجائز هے۔ھذا اذا غلب علي ظنه انه يكافئھم و لا فلا يباح قتالھم ﴿رد المحتار﴾


3 آلاتِ حرب كافي مقدار ميں هوں۔


4 مسلمانوں كا مفاد يقيني هو يا يه كه اس كا ظن غالب هو۔


5 جهاد كي فرضيت كے ليے لازم اور مطلوب حالات موجود هوں جيسے كوئي شوريده سر جماعت مسلمانوں كے وجود اور عزت و وقار پر حمله آور هو اور ان كے مذهبي معاملات ميں مداخلت كرنے لگے، لوگوں كا سكون و چين تباه و برباد كر دے اور اپنے مادي مفادات كے حصول اور ترجيح ميں ظلم و عداوت كا ايسا طوفان كھڑا كرے كه آدمي كا دين و ايمان اور جان و مال محفوظ رهنا مشكل ترين مسئله بن جائے۔


جهاد كا نصب العين:جهاد كا مقصد حصولِ اقتدار و دولت يا ذاتي غيظ و غضب اور انتقام كي آگ بجھانا نهيں هے بلكه غلبه دينِ حق، قيامِ امن، انسدادِ ظلم اور استيصالِ فتنه و دفع شر هے۔


جهاد كے مفهوم، شرائط اور نصب العين سے آگاهي كے بعد اب هم 1857ئ كے حالات كا جائزه ليں گے اور ان ميں شرائطِ جهاد كو ڈھونڈنے كي كوشش كريں گے۔ اگر هماري يه كوشش كاميابي سے هم كنار هوتي هے، تب تو 1857ئ كے جمهور علما كا فتواے جهادصحيح، برحق اور بر محل هوگا اور اس كي ضرورت و صداقت كے سامنے سرِ تسليم خم كرنا هوگا، ورنه هم بھي يه كهنے ميں حق بجانب هوں گے كه يه ان كا جذباتي، جنون خيز، نا عاقبت انديشانه اور پوري قوم كو هلاكت و تباهي كے غار ميں دھكيلنے والا اقدام تھا۔


1857ئ اور اس سے قبل كے ظالمانه حالات:هم حالات ميں چھوٹي چھوٹي سرخيوں كے ذريعه صرف ان چيزوں كو بيان كرنے كي كوشش كريں گے جو جهاد كي فرضيت كے ليے لازم و مطلوب هيں، كيوں كه يهاں ديگر احوال كا بيان فائده سے خالي هوگا۔


كاشت كاروں كا استحصال:كسانوں كا استحصال كرنے كے ليے انگريزوں نے ايك تباه كن اور بھاري شرح مال گزاري ان كي فصلوں پر مقرر كر ركھي تھي۔ شمالي هندستان ميں 1822ئ كے ريگوليشنviiكے دفعات كے ماتحت مال گزاري زمين كي كل پيداوار كا 80في صد مقرر كي گئي تھي۔ (15)يه سياه اصول بھي صرف كاغذ پر تھا ورنه عملي طور پر جو مال گزاري وصول كي جاتي تھي وه پيداوار كے تناسب سے كهيں اونچي هوتي تھي۔(16)اس استطاعت سے باهر مال گزاري نے زرعي ترقي كو روك ديا تھا اور كاشت كار بد ترين مفلسي اور عدم وسائل كا شكار هو گئے تھے۔


اس بھاري مال گزاري كے ساتھ انگريزوں كي دوسري ظالمانه كارروائي يه تھي كه وه كاشت كاروں كو مجبور كرتے تھے كه وه وهي فصل اگائيں جس سے ان كا فائده هو، خواه وه كاشت كاروں كے ليے نفع مند هو يا نه هو، مثلاً دھان كے موسم ميں اگر انھيں افيون سے غير معمولي نفع حاصل هونے كي توقع هوتي تو وه كسانوں كو افيون كي فصل اگانے پر مجبور كرتے (17)۔


تاجروں پر ظلم و ستم:بنگال ميں سياسي طاقت سنبھالنے كے بعد انگريزوں نے ملك كي تجارتي كاروائيوں پر بھي اپني اجاره داري قائم كر لي ۔ اس اجاره داري كے نتيجے ميں نجي تاجروں كي چيزيں بالخصوص مغلوں﴿مسلمانوں﴾ يا هندوو ں كي ملكيت والي اشيا عام سڑكوں پر روك كر، كرايه وصول كرنے والے گودام تك لے جائي جاتي تھيں۔ ان اشيا كے مالكان كو اكثر مجبور كيا جاتا تھا كه وه اپنے سامانوں كے ساتھ ايسے جهازوں پر سوار هوں جن كے بارے ميں ان كي راے اچھي نهيں هوتي تھي اور ايسے سفر پر روانه هوں جس كي منزل اور جس كا انتظام ان كي تجارتي اسكيم كے خلاف هوتا تھا ۔ راستے كے باهر اور نامانوس بندرگاهوں پر چھوڑ ديے جانے سے سامان كا نقصان هو جاتا تھااور كبھي كبھي وه ضائع بھي هو جاتا تھا۔(18)


انگريزوں نے كسٹم ڈيوٹي اور مال كو ايك جگه سے دوسري جگه لے جانے كے ليے مقرر محصول كي شرحوں ميں بهت زياده اضافه كر ديا تھا اور ان چيزوں پر بھي كسٹم ڈيوٹي لگا دي تھي جو ابھي تك اس سے بري تھيں اور نئے نئے محاصل در آمد و بر آمد اور چنگي كي حد بندياں كھڑي كر كے تاجروں كو طرح طرح كي مشكلات ميں ڈال ديا تھا۔(19)


صنعت كاروں كے ساتھ ناروا سلوك:اسٹيم كي طاقت اور مشينري كے استعمال كي بدولت انيسويں صدي كي اول دهائيوں ميں انگلستان اس قابل هو گيا تھا كه وه يورپ كے بازاروں ميں هندستان كے سامانوں كا مقابله كر سكے۔ اس ليے برطانيه نے اپنے تيار كرده سامانوں كے ليے موافق فضا پيدا كرنے كي غرض سے هندستاني اشيا كي در آمد پر بهت هي زياده بھاري ٹيكس لگا ديے تاكه هندستاني اشيا كي در آمد نه هو سكے اور اس چيز نے هندستاني صنعت كاروں كي كمر توڑ دي تھي۔(20)


ولسن لكھتا هے:


يه ضروري هو گيا هے كه موخر الذكر﴿برطانوي كاري گروں﴾ كي حفاظت يا تو هندستاني مال كي قيمت پر 70 80في صد ٹيكس لگا كر يا مال كا داخله بند كر كے كي جائے۔(21)


هندستانيوں كا مال خريدنے كے ليے كمپني نے جو طريقه اختيار كيا تھا وه بھي نهايت ظالمانه اور غريب جولاهوں كا حق مارنے كے مترادف تھا۔ ايسٹ انڈيا كمپني نے مال خريدنے كے ليے بھاري تنخواه پر كچھ ايجنٹ ركھے تھے جن كو گماشته كها جاتا تھا۔ هر گماشته كے ساتھ ايك كلرك اور ايك خزانچي هوتا تھا۔ يه سب مقرره اوقات پر گاو ں ميں خريداري كرنے جاتے تھے اور پورے طور پر اپني مرضي سے خريداري كرتے تھے۔ اس ميں غريب جولاهوں كي مرضي كا كچھ بھي خيال نهيں كيا جاتا تھا۔ گماشتے جهاں چاهتے تھے ان سے دستخط كرا ليتے تھے اور جو رقم جولاهوں كو دي جاتي تھي اس كے لينے سے اگر وه انكار كرتے تو انھيں هاتھوں پيروں اور كمر سے باندھ ديا جاتا تھا اور كوڑے لگانے كے بعد هي چھوڑا جاتا تھا۔ (22) گماشتے سامانوں كا جو دام مقرر كرتے تھے وه كم از كم پندره في صد اور بعض حالات ميں چاليس في صد اس سے كم هوتا تھا جو عام بازار ميں آزادي سے فروخت كرنے پر ملتا تھا۔(23)


اس كے علاوه انگريزوں كا ايك ظلم يه تھا كه انھوں نے كچھ مال كے دام حد سے زياده بڑھا ديے تھے تاكه هندستاني دست كار انھيں خريد نه سكيں اور اس طرح هندستاني صنعت زوال پذيرهو جائے۔(24)


اس وقت هندستان ميںعموماً يهي تين طرح كے لوگ تھے اور هر كوئي اپنے اپنے دائرے ميں انگريزوںكے ظلم و ستم اور جبر و تشدد كا نشانه بنا هوا تھا۔ اور اس طرح شهرت، دولت اور طاقت حاصل كرنے كے تمام ذرائع هر خانے اور هر سطح كے لوگوں پر مسدود كر ديے گئے تھے اور اس كے ساتھ ظلم بالاے ظلم يه تھا كه انگريزوں نے عوامي اعزاز حاصل كرنے ، حكومت كي اعليٰ ملازمتوں اور اعتماد و آمدني كے بلند عهدوں پر فائز هونے كے حقوق سے بھي هندستانيوں كو يكسر محروم كر ركھا تھا۔ انھيں صرف ان جگهوں پر ملازمت كرنے كا اهل سمجھا جاتا تھا جهاں ان كے بغير كام نه چل سكے۔(25)


يه تو عام لوگوں كي صورتِ حال تھي۔ انگريزوں نے امرا يهاں تك كه سلطانِ وقت كو بھي نهيں بخشا تھا۔ چناں چه انقلاب كے اسباب كا تاريخي تجزيه كرتے هوئے مولانا امداد صابري لكھتے هيں:


٫٫چارلس مٹكاف ريزيڈينٹ دهلي نے نهايت هي هوشياري سے شاهي اختيارات كا خاتمه كر ديا، جس كي قدرے تفصيل اس طرح هے:


1 دهلي ميں طويل قيد يا قصاص كے احكام پر بادشاه سے منظوري لي جاتي تھي۔ يه رسم موقوف كر دي گئي، جس سے بادشاه كي ملكيت كا جو اثر باقي تھا وه سرے سے ختم هو گيا۔


2 ايك موقع پر لارڈ اهر ڈسٹ گورنر جنرل نے صاف الفاظ ميں اكبر ثاني كو تحرير كر ديا كه آپ كي بادشاهت صرف نام كي هے اور محض اخلاقاً آپ بادشاه كے نام سے ياد كيے جاتے هيں۔


3 1832ئ ميں قديم دار السلطنت دهلي پر بادشاه كي براے نام بھي ملكيت ختم كر دي گئي اور دهلي كو ممالك مغربي و مشرقي ميں شامل كر ديا گيا۔


4 1835ئ ميں دهلي كے بادشاه كے سكے كے بجاے سكه كمپني بهادر رائج كر ديا گيا۔٬٬(26)


هندستانيوں كا غربت و افلاس:درج بالا حالات نے لوگوں كو نادار اور محتاج بنا ديا تھا ۔ هزاروں لوگ بے روزگاري، فاقه كشي اور بھوك مري ميں مرتے تھے۔ لوگ اس قدر محتاج هو گئے تھے كه آنه ڈيڑھ آنه يوميه پر انگريزي فوج ميں ملازمت كے ليے آماده هوجاتے تھے۔ سر سيد احمد خاں نے لكھا هے:


٫٫اهلِ حرفه كا روزگار بسبب جاري اور رائج هونے اشياے تجارت و ولايت كے بالكل جاتا رها تھا۔ يهاں تك كه هندستان ميں كوئي سونے بنانے اور ديا سلائي بنانے كو بھي نهيں پوچھتا تھا۔ جولاهوں كا تار بالكل ٹوٹ گيا تھا۔٬٬(27)


انگريزوں كے دورِ اقتدار ميں اهلِ لكھنو جس بے چيني اور بے اطميناني، مفلسي اور معاشي ابتري سے دوچار تھے، اس كي جھلكياں هميں اس دور كے اخبار، ٫٫سحر سامري٬٬ كے درج ذيل تراشے ميں نظر آتي هيں۔ يه تراشه ملاحظه كيجيے اور حالات كي ابتري كا اندازه لگائيے:


٫٫ان دنوں غلے كي گراني هے، گراني خاطر ارزاني هے۔ اس قدر مهنگا اناج هے، آسياے فلك بھي دانے كي محتاج هے۔ جور فاقه سے افاقه نهيں۔ بے معاشي نے هر قماش كے آدمي كا اطمينان كھو ديا، جس نادان و دانا نے حال بربادي كو سنا، رو ديا۔ايك تو معاش نهيں، جائے تلاش نهيں۔ دوسرے وفورِ غم سے گندمي رنگ هر بشر نيلا هوا، گويا مفلسي ميں آٹا گيلا هوا۔ خونِ دل بجاے شراب هے،لختِ جگر كباب هے۔ بد حواسي سے زوال اعتدال مزاج هوا۔ هر غريب و مسكين روٹي كے ٹكڑے كا محتاج هوا۔ چكني چپڑي باتوں سے تدبير نهيں چلتي، بهت سر پٹكتے هيں دال نهيں گلتي، حاكم اس طرف عنانِ توجه موڑتا نهيں، بس كيا كريں اكيلا چنا بھاڑ پھوڑتا نهيں۔٬٬(28)


انگريزوں كي مذهبي مداخلت:جب پورے هندستان ميں انگريزوں كي عمل داري قائم هو گئي تو انھيں يه احمقانه بات سوجھي كه سارے هندستاني ان كے هم مذهب هو جائيں۔ اس كے ليے انھوں نے طرح طرح كے طريقے اپنائے۔ عيسائي پادريوں كو كھلي چھوٹ دے دي ۔ وه عيسائي مبلغ اسكولوں ميں، بازاروں ميں، شفا خانوں ميں، جيل خانوں ميں، غرض جس جگه موقع ملتا تبليغ كرنے لگتے تھے۔ بعض اضلاع ميں پادريوں كے ساتھ تھانے كے چپراسي بھي جاتے تھے۔ اور يه پادري غير مذهب كے مقدس لوگوں اور مقدس مقاموں كو بهت برائي سے اور هتك سے ياد كرتے تھے جس سے سننے والوں كو نهايت رنج اور دلي تكليف پهنچتي تھي۔(29)


اس حوالے سے علامه فضل حق خير آبادي لكھتے هيں:


٫٫انھوں نے تمام باشندگانِ هند كو كيا امير، كيا غريب، چھوٹے بڑے، مقيم و مسافر، شهري و ديهاتي، سب كو نصراني بنانے كي اسكيم بنائي۔ ان كا خيال تھا كه ان كو نه تو كوئي مدد گار و معاون نصيب هو سكے گا اور نه انقياد و اطاعت كے سوا سرتابي كي جرا ت هو سكے گي۔٬٬(30)


اسي ميں آگے لكھتے هيں:


٫٫ان سازشوں كے علاوه ان كے دلوں ميں اور بھي بهت سے مفاسد چھپے هوئے تھے۔ مثلاً مسلمانوںكو ختنه كرانے سے روكنا، شريف و پرده نشين خواتين كا پرده ختم كرانا، نيز دوسرے احكامِ دين مبين كو مٹانا، وغير ذالك۔٬٬(31)


٫٫نور مغربي٬٬1857ئ كا ايك هفت روزه خبر نامه تھاجو حوض قاضي﴿دهلي﴾ سے شائع هوتا تھا۔ اس كي ايك رپورٹ ملاحظه كريں:


٫٫اخبارات كلكته سے ديكھا گيا هے كه مقامِ مذكور ميں گوروں نے بهت سر اٹھا ركھا هے۔ سرِ بازار هر ايك سے دنگا فساد كرتے هيں اور مسجدوں اور گھروں ميں گھس جاتے هيں، باعث اس كا يه هے كه قرار واقعي سزا نهيں ملتي۔٬٬(32)


انگريزوں كي ايك دوسري مذهبي مداخلت يه تھي كه انھوں نے مسلمان فوجيوں كو سور كي چربي لگے هوئے كارتوسوں كو دانت سے كاٹنے پر مجبور كر ديا تھا۔ چناں چه سر سيد احمد خاں لكھتے هيں:


٫٫ايك اور بات سنو كه يه تمام بغاوت جو هوئي تھي ، بنا اس كي وه كارتوس تھا جس پر سور كي چربي لگي هوئي تھي۔٬٬(33)


1857ئ اور اس سے قبل كے يه حالات بالكل جهاد كے متقاضي اور اس كي فرضيت كے محرك تھے۔ انھيں حالات كو فقها ٫٫نفير عام٬٬ سے تعبير كرتے هيں اور ايسے هي ناگزير حالات ميں هر سچے اور بهي خواهِ انسانيت كا اولين فرض هو جاتا هے كه وه ظلم و ستم اور سفاكيت و بربريت كے جن خوگروں نے يه حالات پيدا كيے هيں ، ان كے خلاف شمشير و سنان كي جنگ چھيڑے اور اس وقت تك دم نه لے جب تك كه خدا كي مخلوق كو اس كے كھوئے هوئے حقوق واپس نه مل جائيں اور سكون و قرار كي زندگي بحال نه هو جائے۔


1857ئ كے جهاد متقاضي حالات سے آگاهي كے بعد جهاد كے شرائط ميں تين چيزيں باقي ره جاتي هيں ۔ سلطانِ اسلام كا وجود، فوج كي تعداد اور ساز و سامان و آلاتِ حرب كي كثرت كا ثبوت۔ هم ان تينوں كو بھي ترتيب وار ذكركر رهے هيں۔


سلطانِ اسلام:بياسي سال كي عمر ميں 28 دسمبر 1837ئ كو اكبر ثاني اس دار فاني سے كوچ كر گيا اور اس كي جگه 30 دسمبر 1837ئ مطابق 29 جمادي الاخريٰ 1252ھ كو خاندانِ تيمور كا آخري نام ور شهزاده بهادر شاه ظفر سرير آراے سلطنت هوا۔ شاهي مسجد كے امام مولانا احمد علي نے رسمِ تاج پوشي ادا كي اور فوج و سپاه نے سلامي دي۔(34)


بهادر شاه ظفر ايك نيك كردار، روشن ضمير، باكرامت، نوراني اور صوفي منش بادشاه تھا۔(35) اور انگريزوں كا وظيفه خوار هونے كے باوجود اسے ايك مركزي حيثيت حاصل تھي اور هندستاني عوام كے ليے اس كي شخصيت قابلِ تعظيم تھي اور يه قدر و منزلت هندوو ں اور مسلمانوں دونوں كي نظر ميں يكساں تھي۔(36)


فوج كي كافي تعداد:هير نشا ايك برٹش رائٹر هے۔ اس نے اپني كتاب٫٫تاريخ كے اگر٬٬ ميں 1857ئ كے وقت برطانوي اور هندستاني فوجوں كي تعداد كے بارے ميں لكھا هے:


"There were in India at the time only 45000 British troops as against more than 250000 sepoys."


1857ئ كے زمانے ميں انڈيا ميں برطانوي فوجيوں كي تعداد صرف 45 هزار تھي جب كه هندستاني فوجيوں كي تعداد ڈھائي لاكھ سے زياده تھي۔(37)


ڈاكٹر وقار الحسن صديقي افسر بكار خاص رام پور رضا لائبريري لكھتے هيں:


٫٫جب جنگ كا آغاز هوا تو ايك لاكھ سے زياده مجاهدين اس ميں شامل تھے۔٬٬(38)


4 ستمبر 1857ئ كے روز نامچے ميں جيون لال نے چند مخصوص راجاو ں كے نام ارسال كرده شاهي مكتوب كے بارے ميں لكھا هے جس ميں فوج كي كثرت كا بھي ذكر موجود هے۔


٫٫شقه بنام راجگان جے پور و جودھ پور و بيكانير و الور و كوٹه بديں مضمون لكھے گئے كه شاه دهلي كے پاس جماعت كثير فوج كي هے اور دل سے چاهتے هيں كه انگريزوں كو نيست و نابود كر ديںمگر چوں كه همارے پاس كوئي مدد تدبير واسطے مملكت كے نهيں ، لهذا چاهتے هيں كه تم آكر انتظام ملك كا اپني قدرت ميں لو۔٬٬(39)


سيد عاشور كاظمي نے ٫٫غداروں كے خطوط٬٬ميں ٫٫گھر كے چراغ سے٬٬ كے عنوان سے انقلاب 1857ئ كي تاريخ پر ايك تفصيلي مضمون لكھا هے ، جس پر هندستاني جنگ جوو ں كے بارے ميں ان كا كهنا هے:


٫٫جنگ آزادي لڑنے والوں ميں مختلف فوجي دستے شامل تھے جن ميں ميرٹھ كے سپاهيوں كے علاوه ٹونك، نجف گڑھ، جھانسي، جھجر، حصار، سهارن پور، بريلي، نصير آباد اور بنارس تك كے دستے شامل تھے۔ گواليار كے فوجي دستے بھي راجا كي مرضي كے خلاف مجاهدين سے آملے تھے۔٬٬(40)


آلات كا اطمينان بخش ذخيره:31 جولائي 1857ئ ميں ايك نامعلوم غدار نے كسي انگريز افسر كے نام ايك خط لكھا تھا جس ميں اس نے علي پور كے ليے روانه هونے والي فوج كے پاس موجود اسلحوں كي تفصيل اور مسلمانوں كي اسلحه سازي كے بارے ميں جاسوسي كي تھي:


فوج كے پاس جو اسلحه موجود هے اس كي تفصيلات يه هيں:


توپ كے گولے : 50000


گولوں كے خول : 20000


گولے : 150


گول گولے : 255


انگور نما گولے : 150


بارود كے كنستر : 125


گولوں كو داغنے كے چارجرز: 200


اس كے علاوه ان كے پاس گھوڑوں سے كھينچي جانے والي باره توپيں، پياده فوج كي پانچ رجمنٹيں اور كيولري كي ايك رجمنٹ بھي هے۔ انھوں نے باغپت كے ليے چار اور توپيں بھيجنے كا بھي حكم ديا هے۔ ان كے پاس اس وقت گھوڑوں سے كھينچي جانے والي 31 توپيپں هيں۔ محاصره توڑنے والي توپوں كي تعداد تو انگريزوں سے بھي زياده هے۔ بارود اور كارتوس كے چارجرز بنانے كے ليے 250 مستري كام كر رهے هيں۔ ان كے پاس 400 من ديسي بارود كا ذخيره هے۔ جو بھي انگريزي بارود ان كے پاس بچا تھا وه اب سليم گڑھ ميں مقيم 74 ويں رجمنٹ كي تحويل ميں دے ديا گيا هے۔ كل جتنے بھي كارتوس بنے تھے وه آج فوج ميں تقسيم كر ديے گئے هيں۔


كارتوسوں كي ٹوپياں بنانے كے ليے كها جا رها هے كه بارود كے كارخانے كے ايك ملازم كلو مستري نے اعليٰ نمونے كي ٹوپياں تيار كي هيں۔ اس طرح شهر كے ايك داروغه مظهر علي نے لوگوں كو داغنے كا مساله تيار كرنے كے ليے اپني خدمات پيش كي هيں۔٬٬(41)


قلعه كے اند ر ايك بڑا بارود خانه تھا جس ميں 520 بارود بنانے والے تھے۔(42)مولوي رجب علي جنگ شروع هوتے هي اپني چرب زباني اور عياري سے بادشاه كي مشاورتي كونسل كا ركن اور بارود خانے كا داروغه بننے ميں كامياب هو گيا تھا۔(43)يه رجب علي انگريزوں كا جاسوس بھي تھا۔ اس نے 7 اگست1857ئ كي شام كو بارود خانه تباه كر ديا ، جس ميں سارے بارود ساز هلاك هو گئے۔(44)


بازار خانم جو ايك بارونق بازار تھا، يهاں بھي ايك بهت بڑا بارود خانه تھا۔ جنگ كے دوران ميں يهاں كے باشندوں نے آلات حرب كي تياري كي ذمه داري اپنے سر لے لي تھي اور دست كاري ميں اپنے كمال كا مظاهره اس طرح كيا تھا كه توپ كا گوله، بندوق كي ٹوپي اور تفنگ كو بالكل انگريزوں جيسا بنا ديا تھا۔ انقلاب 1857ئ كے بعد انگريزوں نے اپنے انتقام كي آگ ٹھنڈي كرنے كے ليے اس بازار كو تباه و برباد كر ديا تھا۔(45)


عبد اللطيف 2 ذي قعده 26 جون1857ئ كي روداد ميں لكھتا هے:


٫٫حافظ نديم الدوله بهادر محمد داو د خاں نے عرض كيا كه كوچه چوڑي سازاں كا هر شخص سرگرداں و پريشان هے، كيوں كه ان كا كوچه موت كي نشاني بن گيا هے اور وه اس وجه سے كه اس كوچه كے ايك مكان كو بارود خانه بنا ديا گيا هے۔ جب آبادي ميں بارود بنائي جائے تو وهاں كے باشندوں كو آگ لگنے اور جل جانے كا انديشه كيوں نه هو؟ بادشاه نے مرزا مغل كو حكم ديا كه رعيت كا خيال كرو اور بارود بنانے كے ليے بستي كے باهر كوئي جگه پسند كر لو۔٬٬(46)


علي پور جو فوج بھيجي جا رهي تھي اس كي تاريخ 31 جولائي 1857 ئ تھي، جب كه جنگ كا آغاز 11 مئي1857ئ كو هو چكا تھا۔ اس وقت اتنے سارے اسلحه جات كے ساتھ فوج كو روانه كرنا اس بات كي دليل هے كه هندستاني افواج كے پاس ساز و سامان و آلاتِ حرب كي قلت نه تھي بلكه يه وافر مقدار ميں اور متعدد انواع ميں موجود تھے جيسا كه درج بالا تاريخي اقتباسات سے معلوم هوا۔ هاں جنگ كے آخري دنوں ميں قلعه كے بارود خانه كے جل جانے اور جنگ كے طول پكڑنے كي وجه سے ان سامانوں كي قلت ضرور هو گئي تھي، جس كا ذكر روز نامچوں ميں بھي ملتا هے، ليكن اس سے فتواے جهاد پر كوئي حرف نهيں آتا هے، كيوں كه آغازِ جنگ ميں فوج كي جو تعداد اور آلات كا جو ذخيره تھا وه نهايت هي اطمينان بخش تھا اور ظاهري اسباب كے طور پر جنگ ميں غلبه حاصل كرنے كا مكمل ضامن تھا۔


انقلاب 1857كا نصب العين:جهاد كے ليے ضروري هے كه اس سے مقصد حصولِ اقتدار و دولت نه هو بلكه الله تعاليٰ كي زمين پر اس كي حاكميت قائم كرنااور فتنه و فساد ختم كر كے اس دھرتي كو امن و سكون اور عدل و انصاف كا گهواره بنانا هو۔ اس ليے يهاں ضروري هے كه انقلاب 1857ئ كا مقصد معلوم كريں۔ جهاد كے نصب العين سے اس كي هم آهنگي يا غير هم آهنگي كا پته چل سكے۔ اس كے ليے بهادر شاه ظفر كا بيان سند كي حيثيت ركھتا هے، اس ليے هم بادشاهِ وقت كے دو بيان كو نقل كرتے هيں۔


بهادر شاه ظفر نے واليانِ رياست كے نام جو خط بھيجا تھا ، اس ميں اس نے لكھا تھا:


٫٫انگريزوں كو ملك سے نكال دينے كے بعد ميرا مقصد هندستان پر حكومت كرنے كا نهيں۔ اگر تمام راجے دشمن كو ملك سے نكالنے كے ليے تلوار نيام سے نكال ليں تو ميں شاهي اختيارات اور طاقت سے دست بردار هونے كے ليے رضا مند هو جاو ں گا۔٬٬(47)


منشي جيون لال 2 جولائي1857ئ كي روداد ميں لكھتا هے:


٫٫شاه دهلي نے فرمايا كه ميري منشا يه هے كه انگريز نيست و نابود هو جائيں اور شهر كي لوٹ موقوف كي جاوے۔٬٬(48)


شاهي فرمان و بيان كے علاوه ايك اور بيان ملاحظه كريں جس سے صاف طور پر ثابت هوتا هے كه روزِ آغاز هي سے اس جنگ كا مقصد تحفظ مذهب اور خلقِ خدا كو امن و سكون كي خوش گوار فضا فراهم كرنا تھا۔ اس كے بيان كرنے والے پنڈت سندر لال جي هيں جو تاريخ هند كے ايك لائق و مستند اور مانے هوئے مبصر هيں، جن كي مشهور كتاب٫٫بھارت ميں انگريز ي راج٬٬ كو ظالم انگريزوں نے ضبط كر ليا تھا اور پنڈت جي كو فيض آباد جيل ميں بند كر ديا تھا۔ ايك دن چند قيديوں سے گفتگو كے دوران پنڈت جي نے ايك راز سے پرده اٹھايا اور كها:


٫٫مولوي علي احمد فيض آبادي جو عربي اسكول ميں پڑھاتے تھے وه روٹياں اور كنول كا پھول تقسيم كيا كرتے تھے، جس كا مقصد يه تھا كه هونے والي جنگ روٹي كے ليے هے اور كنول كے پھول كا مطلب يه هے كه مذهب بچاو ۔ لهذا يه هونے والي جنگ ان دونوں مقاصد كے ليے لڑي جائے گي۔٬٬(49)


يه مضمون الله كے فضل سے پايه تكميل كو پهنچا۔ آخر ميں ٫٫دانش مندانِ وقت٬٬ سے عرض هے كه 1857ئ كے ظلم و ستم اور جبر و تشدد پر مبني يه حالات ، جهاں شرائطِ جهاد اپنے پورے كوائف كے ساتھ موجود تھے، ايسے سنگين اور جهاد متقاضي وقت ميں كيا يه دانش مندانه اور حكيمانه اقدام هوتا كه علماے كرام حالات سے چشم پوشي كرتے هوئے هاتھ پر هاتھ دھرے بيٹھے رهتے اور انسان نما شيطانوں كو مظلوم انسانوں كي زنده لاشوں پر اپني تجارت و سياست كا شيش محل تعمير كرنے كے ليے آزاد چھوڑ ديتے۔ ذرا آج كے دانش مند سر جوڑ كر سوچيں اور پھر بتائيں۔


يه حق هے كه 1857ئ كے سياه، سخت گير اور ابتر سے ابتر حالات چيخ چيخ كر جهاد كي ضرورت كا اعلان كر رهے تھے، جس كو اس وقت كے دانش ور اور زمانه شناس علما نے سمجھ ليا تھا اور جهاد كا فتويٰ صادر كيا تھا۔ اگر وه ايسا نه كرتے تو يه تعاون در باب ظلم و عدوان هوتا جو سراسر ناجائز هے۔


حوالے و حواشي




(1) مضمون سيد عاشور كاظمي، غداروں كے خطوط,ص:37


(2) مضمون ڈاكٹر خليق انجم﴿حرف آغاز﴾ غداروں كے خطوط،ص:310


(3) روز نامچه عبد اللطيف مرتبه خليق احمد نظامي،ص:129


(4) مضمون عبد الشا هد خاں شيرواني﴿سوانح علامه﴾ باغي هندوستان، ص:215


(5) ايضاً،ص:264 (6) ايضاً،ص:266


(7) اخبار الظفر سے منقول بحواله تاريخ جنگ آزادي هند اٹھاره سو


 ستاون، تاليف: سيد خورشيد مصطفي رضوي،ص:347 348


(8) ايضاً


 (9) Jacob: Western India, Savarkar,p:500-501


(10) غداروں كے خطوط، تاليف :سيد عاشور كاظمي، ص:182 183


(11) علما اور دورِ جديد، وحيد الدين خاں،ص:20


(12) نقشِ حيات،1954ئ، جلد دوم،ص:42بحواله علما اور دورِ جديد،


 وحيد الدين خاں،ص:20


(13) تاريخ عروجِ سلطنتِ انگلشيه، مولوي ذكائ الله ، بحواله روز نامچه


 عبد اللطيف مرتبه خليق احمد نظامي،ص:192


(14) هدايه، جلد:2،ص:559


(15) تاريخ تحريك آزاديِ هند، تارا چند،ص:442




(16) ايضاً،ص:443 (17) ايضاً،ص:465


(18) ايضاً،ص:467 (19) ايضاً،ص:468


(20) ايضاً،ص:456 (21) ايضاً،ص:458


(22) ايضاً،ص:460 (23) ايضاً،ص:461


(24) ايضاً (25) ايضاً،ص:419


(26) بحواله جنگ آزادي اور وطن كے جاں باز، عبد المالك مصباحي،ص:48


(27) رساله اسباب بغاوت هند، سر سيد احمد خاں،ص:36


(28) اخبار سامري، لكھنو ، مورخه 15 دسمبر1856ئ بحواله جنگ


 آزادي اور وطن كے جاں باز، عبد المالك مصباحي،ص:49


(29) مقدمه1857ئ كا تاريخي روز نامچه ، از خليق احمد نظامي،ص:20


(30) باغي هندوستان، علامه فضل حق خير آبادي،ص:31


(31) عربي سے ترجمه ، ايضاً


(32) نور مغربي، جلد:5،شماره:13،خبر كلكته 28 مارچ 1857ئ بحواله


 غداروں كے خطوط،ص:31


(33) اسباب بغاوت هند،سر سيد احمد خاںبحواله مراد آباد تاريخ جد و جهد


 آزادي، محبوب حسين،ص:119


(34) جنگ آزادي اور وطن كے جاں باز، عبد المالك مصباحي،ص:49


(35) روز نامچه عبد اللطيف مرتبه خليق احمد نظامي،ص:115، اس ميں


 عقيدت كا رنگ غالب هے، ليكن اسے صرف بهادر شاه ظفر كي


 نيك نيتي اور مذهبي لگاو كو بتانے كے ليے نقل كيا گيا هے۔


(36) مقدمه سرگزشت دهلي، از: درخشاں تاجور،ص:11


(37) F.G.C. Hearenshaw, The Ifs of History,


 P-156-157


(38) پيش لفظ تاريخ جنگ آزادي هند اٹھاره سو ستاون، از: وقار الحسن


 صديقي،ص:16


(39) سرگزشت دهلي، مرتبه: درخشاں تاجور،ص:250


(40) غداروں كے خطوط، تاليف و تدوين :سيد عاشور كاظمي، ص:37


(41) غداروں كے خطوط، تاليف و تدوين :سيد عاشور كاظمي، ص:114


(42) روز نامچه عبد اللطيف مرتبه خليق احمد نظامي،ص:162


(43) مضمون سليم قريشي، غداروں كے خطوط،ص:17


(44) ايضاً (45) ايضاً،ص:149


(46) ايضاً،ص:141 (47) جاں باز مرزا،ص:122


(48) سرگزشت دهلي﴿ روز نامچه جيون لال﴾، مرتبه:درخشاں تاجور


(49) مراد آباد تاريخ جد و جهد آزادي، محبوب حسين سبز واري،ص:101
 
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1302077 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.