اپنے ایک پاؤ گوشت کیلئے دوسرے کی بھینس ذبح کرنے والے

اگر ہم آفاق و انفس کا جائزہ لیں تو ہمیں اس کائنات میں واحد متحیر کرنے والی کوئی حقیقت نظر آتی ہے تو وہ انسان ہے۔بے بال و پر کی حامل کمزور ترین مخلوق کی تشکیل و تخلیق بڑے واضح اور متعین انقلابی نظام کے طور پر کی گئی ہے،جب حضرت انسان خلد بریں سے اس خشک و تراورگرم و سرد زمین پر وارد ہوا تو اُس کیلئے موجود تو ہر شے تھی مگر اُس نے ان عناصر کو ترتیب و تشکیل دے کر اک جہان نو پیدا کرنا تھا،انسان کو اس زمیں پر آئے کتنا عرصہ گزر چکا…؟کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔الہامی و ربّانی کتب کا نقطہ نظر ہو یا جدید سائنس کا نظرئیہ ارتقائ،انسان نے شعوری سفر طے کرتے ہوئے اس خطہ ارضی کو اپنے لئے جنت بھی بنایا ہے اور دہکتی ہوئی دوزخ بھی،اُس نے اس کائنات کی اربوں نوری سالوں پر پھیلی ہوئی مسافتوں کا ناپ تول اورطاقتور ترین مگر سادہ سی یک خلوی مخلوق کا بھی پوسٹ مارٹم بھی کر دیا ہے۔اس سب کے باوجود وہ من کا راجہ اوردلوں کی ملکہ کا سٹیٹس حاصل کرنے کی منزل طے نہیں کر سکا ہے کیونکہ…انسان کسی کو تسلیم نہیں کرتا،کبھی یہ فرعون بن کر خدائی کا دعویٰ کرتا ہے،سکند ر کی طرح فاتح عالم بننا چاہتا ہے اور کبھی برطانوی،فرانسیسی، ولندیزی وغیرہ کا دیو استبداد بن کر آزاد پیدا ہونے والے انسانوں کو غلام بنا دیتا ہے اور ریڈ انڈینز کو روندنے کے بعد کبھی وہ ویتنام، کبھی عراق اور کبھی افغانستان میں اپنے جیسے انسانوں کی تکا بوٹی کر دیتا ہے، تسلیم کرنے پر آئے تو ہر اُس چیز اور شے کے سامنے بھی ماتھا ٹیکنے میں بھی کوئی باک محسوس نہیں کرتا جو اس کی دسترس سے باہر ہو، وہ انسانی و الٰہیاتی حسن کو لکشمی اور ڈیانا کے وجود میں ڈھونڈتاہے،اسی انسان نے ہی اپنی اس فطرت کو …ہے کبھی جاں اور کبی تسلیم جاں ہے زندگی…قرار دیا ہے۔

قدرت کا ازل سے یہ اصول ہے کہ آج کے چھ ارب سے زائد زندہ انسانوں کے جینیوم میں پوشیدہ باڈی انجینئرنگ ہر انسان اپنی فطرت،عادات،طرز معاشرت ومعیشت،لائف سٹائل،ذہانت،بدنی تشکیل اور سب سے بڑھ کر چہرے مہرے سے منفرد،علیٰحدہ،اور جداگانہ اوصاف کا حامل بناتی ہے،دنیا میں آنے کے بعد وہ انسانی جنگل جسے معاشرہ بھی کہتے ہیں اپنی داخلی قوتوں،صلاحیتوں اور قابلیتوں کا اظہار کرتااور سماج سے اچھی بری،دلکش و جذباتی اقدار حاصل کرتا ہے،یوں تو ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت الٰہیہ کا پرتو ہوتا ہے،ماحول اگر اچھا مل گیا،پڑھنے لکھنے اور استفادہ کرنے کے اچھے مواقع میسر آگئے تو عہد عتیق کے حمو رابی،بخت نصر وغیرہ اور آج کے عہد میں ایدھی اور مدر ٹریساورنہ اس کے ایام نا موافق حالات کے تحت پروان چڑھے تو وہ کبھی نمرود،کبھی شداد،کبھی فرعون،کبھی ہلاکو و چنگیزاور عہد جدید میں ہٹلر کا روپ دھار کر لیتا ہے،وہ وسائل کہ جو انسانی ترقی میں مہمیز کا کام دیتے ہیںوہ اپنے جیسے انسانوں کی فنا کیلئے کام میں لاتا ہے…اوّل الذکر قدّوسی جبکہ بعد کے خونخوار بھڑئیے انسانیت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ بن جاتے ہیں۔

سمندر کی بیکراں موجیں ایک چوبی تختے کو ادھر سے اُدھر دھکیل رہی تھیں،یہ تختہ اپنی منزل کی جانب رواں دواں ایک بحری جہاز کا تھا جس پر نئے جوڑے اپنے مآل سے بے خبر اپنی اپنی امنگوں اور نئی ترنگ کے ساتھ محو سفر تھے کہ اچانک اپنے عہد کا یہ ٹائی ٹینک کسی سمندر میں موجود کسی آئس برگ سے ٹکرا گیا، کوئی بحری چٹان اُس کے آڑے آگئی یا کسی سونامی کے کُہمّن کہیر نے اس کا گھیرائو کر اسے پاش پاش کر ڈالا ،ایک حاملہ خاتون ایک تختے پر اٹک گئی اور وہیں اس نے ایک بچے کو جنم دیا اور ابھی اس نے نومولود کو اپنی چھاتی سے لگایا ہی تھا کہ وہ بھی بے جان ہو گئی ، وہ بے جان ماں کی چھاتی سے چمٹا زندگی کا آغاز کر رہا تھا…جبکہ چشم فلک عجیب سا نظارہ کر رہی تھی کہ…انسانوں کی زندگی اور موت کے فیصلے سنانے اور کلیم اللہ کے خدا کے مقابلے میں نازنینوں سے بھری جنت ارضی سجانے اور لوہے کو پگھلانے والی دھکتی آگ کے بپھرتے شعلے اُگلنے والی دوزخ کا خالق خدائی کے نشے میں مخمور تازی گھوڑے پر سوار دونوں مقامات کے افتتاح کیلئے آرہا تھا، اُس کے گھوڑے کا اگلا کُھر اندر اور پچھلے باہر تھے،اس فردوس ارضی کا پردہ اٹھنے ہی والا تھا کہ اس کے ارمانوں اور حسرتوں سے لبریز دل نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا اور گھوڑے سے نیچے آ رہا اور من کی مراد پائے بغیر ہی غرور و نحوت کا یہ پتلا اپنی خدائی سمیت پیوند خاک ہو گیا…قادر مطلق اور ربّ الارباب نے ایک بار موت سے ہر ذی روح کو ہمکنار کرنے والے اس ملک الموت سے پوچھ ہی لیا۔
"کبھی کسی کی روح قبض کرتے ہوئے تجھے کسی پر ترس بھی آیا ہے؟"
"یا الٰہی صرف دو بار…"عزرائیل نے خوف سے لرزتے ہوئے جواب دیا۔
بارگاہ ایزدی سے پھر آواز آئی"کب اور کہاں؟"
عزرائیل اپنی تمام قوت جمع کرتے ہوئے پھر بولا"ایک وہ نومولود جس کی ماں بحر بیکراں کے ایک تختہ پر لیٹی اسے دودھ پلا رہی تھی،اس ناتواں بے کس و بے بس بچے کا ماں کے سوا کوئی نہیں تھا،تیرے حکم پر اس کی روح قبض کرتے ہوئے خود پسینہ سے شرابور ہوگیاتھااور ایک وہ بادشاہ جو تشنہ تکمیل آرزوئوں اور ارمانوں سے بنائی سجائی اپنی جنت کو دیکھنا چاہتا تھا اس کے اسپ تازی کے اگلے کُھر اندر اور پچھلے باہر تھے تو میں نے اسے اُچک لیا تھا…بارگاہ ربانی سے ایک اور سوال نے پرواز کر کے عزرائیل سے پوچھ ڈالا۔
"وہ بحری جہاز کے تختے پر اپنی مردہ ماں کی چھاتیوں سے لپٹا نومولود ناتواں بچہ اور میری کبریائی کو چیلنج کرنے والا وہ مغرور بادشاہ کون تھا…؟"
عزرائیل اس منظر کا بھی عینی شاہد تھا جب آدم کوحکم ربانی کے تحت سجدہ سے انکار کی وجہ سے لعنت کا طوق اس کے سردار کے گلے میں سج چکا تھا اس لئے وہ عاجزی سے دست بستہ بولا"نہیں بار الٰہہ…!"
پھر آخری آواز آئی"اس بچہ کو میں نے بچایا،پروان چڑھایا۔عزت،شوکت، دولت اور اقتدار عطا کیا…اور…پھر وہ خود خدا بن بیٹھا…ہم نے اسے نیست و نابود کر ڈالا"…یہ شدّاد تھا۔

عہد عتیق کے میسوپوٹیمیا اور آج کے عراق کو سرزمین انبیاء بھی کہا جاتا ہے۔یہ ماضی میں بابل و نینوا جیسے عروسُ البلاد اور حمورابی اور بخت نصر جیسے حکمرانوں کی وجہ سے اپنے عہد کی سپر
پاور تھا، یہاں کی سرزمین دجلہ و فرات پر سمیریوں نے 5,000برس قبل مسیح میں زمین پر پہلی تہذیب کی بنیاد رکھی تھی،ان کے پیچھے پیچھے کلدانی، آرامی، سریانی، ثمود اور عمالیق بھی آئے مگر اپنی سرکشیوں اور خدائے عز و جلّ کی نا فرمانیوں کی وجہ سے اپنی جواں تہذیبوں سمیت پیوند خاک ہو تے گئے۔اس کے دارالحکومت بابل کو بھی اجڑے تین ہزار سال کا عرصہ بیت چکا،یہی وہ اجڑا شہر ہے جہاں قوم لوط لواطیت کا شکار ہو کر بحیرہ مردار کی خوراک بن گئی،یہاں ہی ہاروت و ماروت نے لوگوں کو جادو سکھایا، یہاں ہی رقص بسمل ہوتا تھا، یہی وہ سر زمین ہے جہاں حسین کا لاشا تڑپا اور ان کا قافلہ لُٹا تھا، اسی دھرتی پر یزید جیسے حکمران نے اپنی رٹ قائم کرنے کیلئے کربلا کوآل رسول کے خون سے لالہ زار کیا…اسی عراق میں ایک گائوں الاوجاہ کہلاتا ہے جو عراقی شہرتکریت سے 13کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، اس میں 28اپریل1937ء کو ایک بچے نے ابو ناصر قبیلہ کیگڈریا نما البیجات فیملی میں جنم لیا،اس کا والد خیراللہ طلفا اسے 13سال کی عمر میں یتیم بنا کر پرلوک سدھار گیا،اس کی بیوہ ماں اسے نہ سہار سکی ،جیون ساتھی ملنے کے بعد وہ بھی اس بھری دنیا میں اسے تنہا چھوڑ گئی،وہ زندگی کی راہیں تلاشتا پہلے تکریت اور پھر وہاں سے بغداد میں وارد ہوا،یہاں کے قوم پرست مالکان کے زیر انتظام چلنے والے ایک سکول سے انٹر کیااور وہاں ہی سکول ٹیچر بھی مقرر ہو گیا ساتھ ہی ساتھ اس نے پان عرب بعث پارٹی میں بھی شمولیت اختیار کر لی۔1956ء میں نہر سویز کے سوال پر عرب قوم پرست لیڈر جمال عبدالناصر کا طوطی بولتا تھا،اس عراقی نوجوان سمیت بعث پارٹی کے پارٹی کے دیگر عہدیداروں میں بھی انقلابی جذبہ بیدار ہوا، 1958ء میں بعث پارٹی کے قائد جنرل عبدالکریم قاسم نے مغربی آقائوں کے ایجنٹ عراقی حکمران فیصل دوئم کا تختہ الٹ دیا، اس نے صرف ایک سال بعد امریکی ایماء پر جنرل قاسم کی حکومت کا تختہ بھی الٹنے کی کوشش بھی کی مگر ناکام رہا۔1963تا 1979عراق میں یکے بعد دیگرے انقلابات آئے اور 16جولائی 1979 کو وہ عراق کا پانچواں ڈی فیکٹو صدر بن گیا،اس نے بھی اپنے عوام بالخصوص کردوں کو فتح کرنے کیلئے کیمیائی گیس تک استعمال کی، 11سال تک ایران کے ساتھ جنگ جاری رکھی اور پھر کویت پر چڑھ دوڑا،یہ اس کی وہ فاش غلطی تھی جس نے مغرب کو عراق فتح کرنے کی مہمیز فراہم کی، 1990ء امّ الحرب کے نام سے امریکہ کے ساتھ اپنی سرزمین پر جنگ کا آغاز کیا،آتش و آہن کی بارش ہوئی، اپنے عوام کو اکیلا چھوڑ کر یہ تکریت کے ایک تہہ خانے میں پانچھ سال تک روپوش رہا اور پھر 13 دسمبر2003ء کو پکڑا گیا، 30جون2004ء کو امریکی کینگرو کورٹ میں ٹرائیل شروع ہوا اور 5نومبر2006ء کواسے سزائے موت سنا دی گئی جس پر عمل درآمد ٹھیک عیدالاضحیٰ کے روز 30 دسمبر 2006ء کی صبح کیا گیا اور تختہ دار پر لٹکا دیا گیا…عرب دنیا کا یہ طاقتورترین حکمران اور تکریت کا لونڈا صدام حسین تھا۔

عہد عتیق کا شدّاد اور عصر حاضر کا صدام، دونوں کا تعلق عراق سے تھا ،دونوں کا بچپن حسرتناک تھا،دونوں جنگل کے خودرو پودوں کی طرح پلے بڑھے،دونوں کو خدائے واحد و شاھد نے قوت و جبروت عطا کی اور دونوں کا عرصہ اقتدار بہت طویل ہے۔اگر شداد نے دنیا میں خلد بریں بسائی تھی تو عہد جدید کے اس عراقی حکمران صدام حسین کے واش روم کی ٹونٹیاں بھی سونے اور چاندی کی تھیں، اس کے ملبوسات پیرس،نیو یارک اور جنیوا سے جبکہ جوتیاں اٹلی سے آتی تھیں،صرف صدام حسین کے جوتوں کو چمکانے اور کپڑوں کو استری کرنے کیلئے اس کے محل میں اڑھائی سو سے زائد ملازمین تھے،اس نے لوگوں کے دلوں پر خوف اور رعب طاری کرنے کیلئے بغداد کے چوراہوں پر فوجی وردی میں ملبوس اپنی مورتیاں ایستادہ کر رکھی تھیں،قدیم عراق کے شداد سے مقابلہ موسیٰ کلیم اللہ کر رہے تھے ۔صدام کا مقابلہ تھا ہی نہیں،جس پر شک ہوتا عراقی گسٹاپو اسے منظر سے غائب کر دیتے اور اگلے روز وارثوں کو اس کا تشدد زدہ لہو سے آلودہ بے جان لاشا مل جاتا مگر خدائے بزرگ و برتر کا کائناتی قانون عروج و زوال اسے لے ڈوبا، سات سمندر پار سے آنے والے اصنام کے پجاری امریکیوں نے بغداد میں کھڑی اس کی مورتیوں کو توڑااور پھر اسے تختہ دار پر لٹکا دیا…!

جو انسانوں پر ظلم کرتے ہیں،جو اپنے ایک پائو گوشت کیلئے دسروں کی بھینس ذبح کرنا اپناپیدائشی حق سمجھ بیٹھتے ہیں،جو اپنے جیسے محنت کشوں،کسانوں اور مزدوروں کا خون کشید کر کے عیش و نشاط کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے وہ تمام حدوں کو بھی پھلانگ جاتے ہیں، وہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ…ان سے بھی برتر…طاقتور…اور سپر پاور موجود ہے…وہ کیوں خدائی کا دعویٰ کرتے ہیں…مگر جب خدائے عزوجل ان کی رسی کھینچتا ہے تو وہ…ان کا اقتدار…ان کی شان و شوکت…دولت اور اثرورسوخ…سب دھرے جاتے ہیں تو پھر وہ موت مانگتے ہیں مگر وہ بھی نہیں ملتی…اور عبرت کی داستاں بن کر تہہ خاک عبرتناک حسرتوں اور ارمانوں سمیت دفن ہو جاتے ہیں…ان کی بے نام و نشان لحد چیخ چیخ کر پکارتی ہے مگر سننے والا کوئی نہیں ہوتا کہ
بر مزار ما غریباں نے چراغ و نے گُلے
نے پر پروانہ سوزد، نے صدائے بلبلے
Mohammed Obaidullah Alvi
About the Author: Mohammed Obaidullah Alvi Read More Articles by Mohammed Obaidullah Alvi: 52 Articles with 59244 views I am Pakistani Islamabad based Journalist, Historian, Theologists and Anthropologist... View More