بھارت پسندید ہ ترین ملک قرار دینا نقصان کا سودا

ا س سے پہلے بھی اس قسم کی کوششیں کیجاتی رہی ہیں اور پسندیدہ ملک بھی قرار دیا جا تا رہا ہے ۔ لیکن انڈیا نے پاکستان کو نقصان سے دوچار کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے دیا ہے وہ ملک جس نے پاکستان کی نظریاتی اور سلامتی اساس پر ہمیشہ شدید ضربات لگا کر اسے بقا ہی سے محروم کر دیا۔ پاکستان کا ایک بازو ہی کاٹ دیا ،کشمیر کا مسئلہ ہو ، ریاست جونا گڑھ کا معاملہ ہو، ریاست حیدرآباد پر غاصبانہ قبضہ، ہمیشہ بڑی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتا رہا ہے ، سیاچین کا معاملہ ہو، کشمیر پر غاصبانہ قبضہ اور اسے تمام تر عالمی احتجاج کو نظر انداز کر کے پنا اٹوٹ انگ قرار دینے کا اسکا نعرہ، موجودہ پاکستان میں کھلی اور چھپی مستقل مداخلت جس کے اثرات پورے ملک کو شدید نقصانات سے دوچار کرتے رہے ہیں اور ہم اسے پسندیدہ ملک قراردینے کی قرار دادیں شاید عالمی طاقتوں کا دباؤ پر تو نہیں کر رہے۔ وہ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی مفادات پر اثر انداز ہو نے کی پوری کوشش کرتا رہا ہے جس می حالیہ مثال وزارت خارجہ سے شاہ محمود قریشی کی علیحدگی بھی شامل ہے ۔

ہونا تو یہ چاہئیے کہ انڈیا ان تمام معاملات کو حل کرے جو دونوں ملکوں کے درمیان پچھلیے چھے دھائیوں سے متنازعہ ہیں ، جس میں سب سے پہلا مسئلہ تو کشمیر کا ہے جس پر ہمیشہ سے جنگوں کے بادل چھائے رہتے ہیں ۔ ہمارے ملکی معاملات میں بالواسطہ اور بلا واسطہ ہر قسم کی مداخلت نہ کر نے کا معاہدہ کرے ، پاکستان کو پانی کے مسائل سے دوچار کرنے کی پالیسی تبدیل کر کے اپنے گھنائنی کوششوں کو ترک کر دے، پاکستان کے خلاف ہر قسم کی ہرزا سرائی بند کرے ،ان تمام اقدامات پر یقین دھانی کے بعد پاکستان کے حکمرانوں کو اختیار ہے کہ وہ پھر بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی کوشش کریں تو پھر اس اقدام پر قوم ان کے ساتھ ہو گی۔

پاکستان ہمیشہ انڈیا سے تعلقات معمول پر لانے ایسے اقدامات بھی اٹھاتا رہا ہے جو سفارت کاری کے آداب سے بھی بڑھ کر جو سلامتی سے بھی متصادم بھی نظر آئے ، لیکن انڈیا نے ہمیشہ ایسی تمام کوششوں کو ناکام بنایا اور ہمیشہ عالمی طاقتوں کو اچھے تعلقات کی امید پر اثر انداز کروا کر صرف اپنا موقف ہی تسلیم کرنے پر مجبور کردیا ، جس کا نتیجہ کبھی بھی پاکستان کے حق میں نہ نکلا۔

جبکہ پاکستا ن نے ہمیشہ اسکی مدد اپنی سکامتی سے بھی بڑھ کربھی کی اس کی مثال چین اور ہند ستان جنگ کے دوران ایوب خان نے انڈیا کے وہ خدشات دور کئے کے وہ انڈتا پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ، بینظیر بھٹو حکومت کے دوران الزام لگایا جاتا رہے کہ اس دور میں سکھ فریڈم فائٹتز کی لسٹیں انڈیا کوفراہم کیں ، جو ملکی راز افشا کرنے اور غداری کے زمرے میں بھی آتا ہے ، نواز شریف نے دوستی اور تجارت کے فروغ کے لئے بہت اقدامات کئے، اور تعلقات اس نہج پر پہنچا دئے کہ کارگل کے معاملے میں اپنی فوج ہی کو مورد الزام قرار دے کر اپنی غلطی کا اعتراف کر کے کشمیر میں متنازعہ علاقوں پر انڈیا کے حق کو تسلیم کر لیا اور اپنی حکومت کے گرنے پر انڈیا سے مدد حاصل کرنے کے لئے انہیں مشورہ دیا کہ پاکستان پر حملہ کر دیں ( لیکن انڈیا اتنے قلیل وقت میں ایسی کسی بھی کاروائی کے لئے تیار بالکل تیار نہ تھا، کلیدی عہدہ داروں تک اس پیغام کو پہنچایا گیا تھا جبکہ پاکستان میں فوج نے حالات پر مکمل گرفت کر لی تھی ) ۔

مشرف سب نے انڈیا سے تعلقات معمول پر لانے کے اقدامات تمام سفارتکاری کے آداب سے بھی بڑھ کر کئے کشمیر پر بہت بڑی یقین دھانی کروانے کے باوجود انڈیا نے خلوص دل اس مسئلہ کو حل نہیں ہونے دیا ، ان مذاکرات سے خود فائدے تو کشید کر لئے لیکن پاکستان کو ایک اچھی امید ہی پر ٹرخا دیا اور مسائل کو یونہی منازعہ چھوڑ دیا ۔

ضرورت تو اس امر کی ہے کہ انڈیا اپنی مکارانہ عسکری صلاحیتوں کی بڑھوتری کے اقدامات کو موخر کر کے اپنے لوگوں کے مسائل حل کرے جو غربت کی لکیر سے بھی نیچے بالکل نچلی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اتنے بھاری اخراجات سے اجتناب کرے اور جوابی طور پر پاکستان کو بھی اپنی سلامتی کے اقدامات کرنے سے بچائے تاکہ دونوں ممالک اپنے لوگوں کا معیار زندگی بڑھائیں اور غیر ضروری اقدامات سے گریز کریں۔

اور اس سلسلے میں پہلے عملی اقدامات اور ایسے تمام مسائل کو معاہدوں کے زریعے حل کر کے پسندیدہ قوم کا درجہ دیں تو بات سمجھ میں آتی ہے ورنہ ایسی کوئی بھی کوشش سراسر نقصان کا سودا ہے جس کے خطرناک نتائج برآمد ہونے کے امکانات ہیں جس سے اجتناب ضروری ہے ۔
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 75464 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More