حاجیوں کا غار حرا جانے پر اصرارکیوں؟

سعودی حکام نے حج کے فرائض کی بخوبی ادائیگی اور کسی بھی قسم کے حادثات اور ہلاکت خیز واقعات کے تدارک کے لئے سکیورٹی اور سول ڈیفنس کا تقریباً ایک لاکھ پر مشتمل عملہ تعینات کیا ہے۔ حال ہی میں ملک کے ولی عہد بننے والے وزیر داخلہ شہزادہ نائف بن عبد العزیز نے کہا کہ ہم کسی بھی حاجی کو ہر قسم کے نقصان سے بچانے کے لئے اپنے تمام وسائل استعمال کریں گے۔ انہوں نے یہ بات حج کی تیاریوں کے ایک معائنے کے دوران کہی۔ اس موقعے پر فسادات اور دہشت گردی کے انسداد کی پولیس کی پریڈ ہوئی جبکہ حفاظتی دستوں کے ہیلی کاپٹر فضاءمیں چکر لگا رہے تھے۔اسی دوران سعودی حکام کی جانب سے حج پر آئے مسلمان زائرین کی غار حرا ءجانے پر پابندی کے باوجود بعض حاجی جبل النور پر غار حرا کی جھلک دیکھنے کیلئے پہنچ گئے جبکہ منتظمین کا موقف ہے کہ غار حرا یا اس طرح کے دیگر مذہبی مقامات لوگوں کی عقیدت کے علاوہ عبادت کی جگہ میں بھی تبدیل ہو جاتے ہیں لہٰذا ایسی جگہوں کی زیارت پر پابندی عائد کی جانی چاہئے۔ خیال رہے کہ غار حرا وہ مقام ہے جہاں مذہب اسلام کے مطابق پیغمبر اسلام پر پہلی وحی نازل ہوئی تھی۔ غار حرا کو دنیا بھر کے مسلمان انتہائی عقیدت اور احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہ جگہ غیر مسلموں کیلئے بھی تاریخی نقطہ نظر سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔سعودی عرب کے شہر مکہ میں ان دنوں دنیا بھر سے مسلمان حج کرنے کیلئے جمع ہوئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر سے تیس لاکھ کے قریب مسلمان حج کرنے کیلئے سعودی عرب آئے ہیں۔ تاہم غار حرا کو دیکھنے کے شوقین افراد کی بھی کمی نہیں ہے۔

غار حرا ءجانے کیلئے جبل نورپہنچنا ہوتاہے جو مکہ سے طائف اور پھر ریاض جانے والی سیل ہائی وے کے کنارے واقع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے دور میں بھی یہ راستہ ہی رہا ہوگا۔ آپ کے گھر سے پیدل یہاں تک آٹھ دس کلومیٹر کا فاصلہ ہوگا۔ جبل نور کا سلوپ کافی زیادہ ہے۔ شروع میں اس پر چڑھتے ہوئے راستہ 45 کے زاویے پر اٹھتا ہے اور درمیان میں جا کر تقریباً 60 کے زاویے پر مڑ جاتا ہے۔ پہاڑی کے درمیان تک روڈ بنا ہوا ہے جہاں گاڑی جا سکتی ہے۔ آگے پیدل ٹریک ہے۔ راستے کے شروع میں ایک بورڈ لگا ہوا تھا جس پر عربی ، انگریزی، اردو، فرنچ اور ایک آدھ اور زبان میں یہ تحریر درج تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے اس پہاڑی پر چڑھنا، اس پر نماز پڑھنا، اس کے پتھروں کو چھونا، اس کے درختوں پر گرہیں لگانا، اس کی مٹی، پتھر اور درختوں کی شاخوں کو بطور یاد مشروع نہیں کہا ہے۔ آپ نے کبھی بھی جبل نور پر چڑھنے، اس پر نماز پڑھنے ، اس کے پتھروں کو چھونے ، اس کی مٹی اور پتھر کو ساتھ لے جانے کا حکم نہیں دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہم سے کہیں زیادہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے محبت کرنے والے تھے۔ انہوں نے بھی آپ کی زندگی میں یا آپ کے بعد ایسا نہیں کیا۔ اس لحاظ سے یہ اعمال یقینی طور پر دین اور شریعت کا حصہ نہیں ہیں۔ ہاں دین اور شریعت سے ہٹ کر ان کی ایک تاریخی اہمیت ضرور ہے جو کسی بھی بڑی شخصیت کے ساتھ کسی چیز کی نسبت ہونے سے پیدا ہو ہی جاتی ہے۔دراصل عقیدت مندوں کا اس پہاڑ پر چڑھنے کا مقصد ان جگہوں کو دیکھنا تھا جہاں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے وقت گزارا تھا۔ ان جگہوں کو دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات طیبہ اور آپ کے معمولات سامنے آتے ہیں جو آپ کی سیرت کے طالب علم کی حیثیت سے میرے لئے اہمیت کے حامل ہیں۔ ان جگہوں سے آپ کی تعلق کی بنا پر ایک جذباتی وابستگی بھی ہر مسلمان کو ہوتی ہے لیکن اس کو بہرحال دین اور شریعت کے ساتھ خلط ملط نہیں کرنا چاہئے تھا۔

سعودی حکومت اس پہاڑ پر چڑھنے کی حوصلہ افزائی نہیں کرنا چاہتی ورنہ یہاں چیئر لفٹ لگانا کیا مشکل تھا۔ جبل نور کی چوٹی تک پہنچنے میں 45 منٹ لگا کرتے تھے۔ پہاڑ کی بلندی سے دور دور تک پھیلا ہوا مکہ نظر آر ہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں آبادی یہاں سے کافی دور رہی ہوگی جبھی آپ نے اس پہاڑ کا انتخاب فرمایا۔ اب مکہ اور شہروں کی طرح پھیلتا ہوا اس پہاڑ سے بھی پرے تک پھیل چکا ہے۔ مکہ شہر مختلف وادیوں میں پھیل چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان وادیوں کو ملانے والی بہت سی سڑکیں پہاڑوں کے بیچ میں بنائی گئی سرنگوں سے گزرتی ہیں۔ غار سے گزرنے کے بعد پہاڑ کی دوسری جانب پہاڑ کی دیوار میں غار حرا موجود ہے۔

غار حرا ایک چھوٹا سا غار ہے جس میں بمشکل ایک آدمی نماز پڑھ سکتا ہے۔ یہاں آگے پیچھے دو جاءنماز رکھی ہوتی تھیں۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم یہاں تشریف لاتے ہوں گے تویہاں سے کعبہ ایسانظر آتارہا ہوگا جیسے ہتھیلی پر رکھا ہو۔اس سے سمجھ میں آتا ہے کہ بعثت سے قبل حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کے لئے اس جگہ کا انتخاب کیوں فرمایا؟ مکہ اس دور میں بھی ایک مرکزی شہر کی حیثیت رکھتا تھا۔ کثیر تعداد میں لوگ حج اور عمرہ کرنے کے لئے یہاں آیا کرتے کیونکہ یہ عبادات سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے یہاں جاری تھیں۔ اس کے علاوہ مکہ ایک بڑا تجارتی شہر بھی تھا اور یمن سے شام جانے والی بین الاقوامی تجارتی شاہراہ کا ایک اہم جنکشن تھا۔ شہر کی اس گہما گہمی کی وجہ سے آپ نے جبل نور کا انتخاب فرمایا ہوگا۔ دور جاہلیت میں بھی تنہائی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت ایک معمول کی بات تھی اور عرب کے بہت سے لوگ اسے اختیار کیا کرتے تھے۔ اسے اصطلاحاً’ تحنس‘ کا نام دیا گیا تھا۔ بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے اسے دین میں اعتکاف کی شکل میں جاری فرما دیا۔

جبکہ آج تیس سالہ عصمہ محمد کا غار حرا کے بارے میں کہنا ہے کہ یہ ایک مقدس جگہ ہے۔ مجھے یہاں تک پہنچنے میں دشواری ہوئی لیکن یہ ایک پر مسرت دشواری تھی۔ مجھے اس بات کا احساس تھا کہ میں ایک مقدس جگہ پہنچ رہی ہوں۔ مجھے آنحضرت سے قربت کا احساس ہو رہا ہے کیونکہ میں ان کے راستے پر چل رہی ہوں۔شام سے تعلق رکھنے والے ایک حاجی عبدالرحمان الاسف نے اپنی کیفیت کچھ یوں بیان کی کہ میں اس جگہ عبادت کیلئے اس لئے آیا ہوں کیونکہ پیغبر اسلام بھی یہاں عبادت کرتے تھے۔جبل النور کی اتنی تقدیس کے باوجود اسے سعودی عرب کے حکام کی جانب سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ یہاں پر زائرین کی آمد پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ اس جگہ پولیس بھی تعینات کر دی گئی ہے۔دنیاکا سب سے بڑا اجتماع حج ہے۔گذشہ روزجمعہ کو دنیا بھر سے آنے ہوئے مسلمان سعودی عرب میں حج کی رسومات ادا کر رہے ہیں جبکہ سکیورٹی، حفاظت، صحت و علاج، نقل و حمل، رہائش اور کھانے پینے کی چیزوں کی فراہمی کے حوالے سے سعودی حکام کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج بھی ہے۔گذشہ روز سے شروع ہوچکے مناسک حج کا نقطہ عروج آج ہفتے کا دن ہے جب تمام حاجی مکہ سے باہر عرفات کے مقام پر جمع ہوں گے۔ اس سے اگلے دن بروز اتوار،چھ نومبرعید الاضحٰی منائی جائے گی۔اس حج کے موقع پر تقریباً 17 لاکھ حجاج بیرون ممالک سے آئے ہیں جبکہ خود سعودی عرب کے اندر سے آنے والے حجاج کی تعداد 7سے 8 لاکھ ہے۔دنیا میں انسانوں کا سب سے بڑے اجتماع حرمین الشرفین کے منتظم سعودی عرب کے لئے سکیورٹی کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ سعودی عرب نے ماضی کے حادثات جیسے واقعات کی روک تھام کیلئے جن میں بہت سے حاجی کچلے جانے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے تھے، حفاظتی انتظامات پر اربوں ڈالر کی رقم خرچ کی ہے۔جنوری 2006 میں 364 حاجی مکہ سے منا کو جانے والے راستے میں ایک پل کے قریب کچلے جانے سے جاں بحق ہو گئے تھے۔ 2004 میں بھی 251 حاجی کچل کر مر گئے تھے۔سعودی حکومت نے حرم میں توسیع کرکے اس میں 20 لاکھ تک نمازیوں کی گنجائش پیدا کرنے کے لئے 10.6 ارب ڈالر خرچ کئے ہیں۔

سعودی وزیر داخلہ نے بعض عرب مالک میں پیش آنے والے حالیہ واقعات کو ان کا داخلی معاملہ قرار دیا لیکن انہوں نے کہا کہ سعودی حکومت کسی بھی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے۔ انہوں نے سعودی سفیر برائے امریکہ کے قتل کی حالیہ سازش کے نتیجے میں اور ماضی کے واقعات پر ریاض اور تہران میں کشیدگی کی صورتحال کے باوجود شیعہ ایران کے حاجیوں کی طرف سے کسی قسم کے خطرے کو رد کرتے ہوئے کہاکہ ایرانیوں نے ہمیشہ حج کا احترام کیا ہے۔ایرانی میڈیا کے مطابق اس حج میں مکہ اور مدینہ میں پہنچنے والے ایرانی حاجیوں کی تعداد 97 ہزار ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای کے حج کے نمائندے علی غازی اصغر نے پچھلے ہفتے کہاتھا کہ ہمیں امید ہے کہ اس سال حج بہت پر سکون اور روحانی فضا ءمیں ہوگا۔سعودی عرب کے اعلٰی ترین مذہبی رہنما شیخ عبدالعزیز الشیخ نے کہا ہے کہ سیاسی وجوہات کو بنیاد بنا کر حج میں گڑبڑ پھیلانے کی کوشش کرنا گناہ ہے۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 116438 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More