گھریلو تشدد‘ خیبر پختونخوا کی خواتین اب بھی غیر محفوظ؟
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پاکستانی معاشرہ بظاہر مذہبی اور اخلاقی اصولوں پر قائم ہے، لیکن حقیقت میں عورت کے تحفظ کے حوالے سے ایک گہری تضاد دکھائی دیتا ہے۔ گھریلو تشدد، جو کبھی شرم کا موضوع سمجھا جاتا تھا، اب بھی لاکھوں گھروں کی روزمرہ حقیقت ہے۔ جسمانی، نفسیاتی، یا معاشی ظلم—یہ سب ایک ہی زنجیر کے مختلف کڑیاں ہیں۔ ان کا شکار زیادہ تر وہ عورتیں ہوتی ہیں جو بول نہیں سکتیں، شکایت درج نہیں کراتیں، یا سماج کے دباو¿ کے باعث خاموشی کو ہی عافیت سمجھتی ہیں۔
پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے (PDHS 2017–18) کے مطابق ملک کی تقریباً 30 فیصد شادی شدہ خواتین نے اعتراف کیا کہ انہیں اپنے شوہر یا سابق شوہر کی طرف سے جسمانی یا نفسیاتی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔یہ صرف وہ خواتین ہیں جنہوں نے بات کی۔ اصل اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں کیونکہ شرم، خوف، اور خاندانی دباو¿ کی وجہ سے زیادہ تر کیس رپورٹ نہیں ہوتے۔ اقوام متحدہ کے ادارے UNFPA کے مطابق پاکستان میں گھریلو تشدد کا رجحان خطے کے دیگر ممالک کی نسبت زیادہ ہے، اور اس میں واضح کمی نہیں دیکھی جا رہی۔
خیبر پختونخوا میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات کی رپورٹنگ اب بھی ایک چیلنج ہے۔ Aurat Foundation، Blue Veins، اور KP پولیس کے سالانہ اعداد و شمار کے مطابق، صوبے میں ہر سال سینکڑوں خواتین گھریلو تشدد، تشدد برائے جہیز، اور زبردستی شادی جیسے جرائم کا نشانہ بنتی ہیں۔2023 میں صوبے کے مختلف اضلاع سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق مردان، صوابی، سوات، پشاور، اور بنوں ایسے اضلاع ہیں جہاں تشدد کے واقعات زیادہ رپورٹ ہوئے۔لیکن یہ صرف “درج شدہ” کیس ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر رپورٹ شدہ کیس کے مقابلے میں چار سے پانچ واقعات ایسے ہیں جو کبھی سامنے نہیں آتے۔
اگر ہم گزشتہ ایک دہائی کے ڈیٹا کو دیکھیں تو واضح کمی کے شواہد نہیں ملتے۔ 2010 سے 2024 تک کی رپورٹس کا موازنہ کیا جائے تو کہیں معمولی کمی، کہیں اضافہ، اور کہیں کوئی تبدیلی نہیں۔ یہ اعداد و شمار دراصل ایک دوسرے پہلو کو اجاگر کرتے ہیں: رپورٹنگ میں اضافہ ہوا ہے، لیکن واقعات میں کمی نہیں۔ یعنی اب عورتیں بولنے لگی ہیں، مگر ظلم کم نہیں ہوا۔
خیبر پختونخوا اسمبلی نے 2021 میں "Domestic Violence Against Women (Prevention and Protection) Act" منظور کیا۔ یہ قانون خواتین کو جسمانی، نفسیاتی، جنسی یا مالی تشدد سے تحفظ دیتا ہے، اور متاثرہ عورت کو عدالت کے ذریعے “پروٹیکشن آرڈر” حاصل کرنے کا حق دیتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قانون کا عملی نفاذ بہت کمزور ہے۔زیادہ تر اضلاع میں ابھی تک پروٹیکشن کمیٹیاں فعال نہیں ہو سکیں۔ پولیس کو اس قانون کی مکمل آگاہی نہیں، اور پناہ گاہوں کی تعداد ضرورت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔کئی کیسز میں متاثرہ خواتین کو عدالت تک پہنچنے کے لیے وکیل یا مالی مدد تک میسر نہیں۔ یوں قانون محض ایک “کاغذی تحفظ” بن کر رہ گیا ہے۔
گھریلو تشدد کا سب سے خطرناک پہلو سماجی خاموشی ہے۔ہمارے معاشرے میں عورت کو صبر، قربانی، اور برداشت کا استعارہ بنا دیا گیا ہے۔ بہت سی خواتین کے لیے تشدد کو سہنا ہی “اچھے بیوی” ہونے کی علامت بنا دیا گیا ہے۔ یہی سوچ تشدد کو نسل در نسل مضبوط کرتی ہے۔ خاندان اور برادری کی سطح پر عورت کی آواز کو دبانا، عزت اور غیرت کے نام پر جرم کو چھپانا، انصاف کے راستے بند کر دیتا ہے۔
اسلام عورت کے احترام، مساوات، اور تحفظ کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن مجید میں مرد و عورت کے درمیان محبت، رحمت اور سکون کو نکاح کا بنیادی مقصد قرار دیا گیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا‘"تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو، اور میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔" (ترمذی)
اسلامی اصولوں کے مطابق کسی بھی صورت میں عورت پر ہاتھ اٹھانا، گالی دینا، یا ذہنی اذیت پہنچانا ظلم کے زمرے میں آتا ہے۔ فقہی اعتبار سے بھی "ضرب" کی غلط تفسیرات کو مسترد کیا گیا ہے۔ قرآن نے اصلاح کے لیے “موعظت” اور “تفریق” کی بات کی ہے، تشدد کی نہیں۔ لہذا جو لوگ مذہب کو جواز بنا کر عورت پر ظلم کرتے ہیں، وہ دراصل اسلام کی روح کے منافی عمل کرتے ہیں۔
گھریلو تشدد صرف جسمانی نہیں ہوتا، بلکہ ذہنی غلامی پیدا کرتا ہے۔ متاثرہ خواتین میں ڈپریشن، خودکشی کے خیالات، خود اعتمادی کی کمی، اور بچوں کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ عام ہو جاتا ہے۔ جب عورت کو مالی آزادی حاصل نہیں ہوتی تو وہ ظلم سہنے پر مجبور ہوتی ہے۔ اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ معاشی خودمختاری گھریلو تشدد کے خلاف سب سے موثر ہتھیار ہے۔ ایسی خواتین جو کام کرتی ہیں یا خود کمانے کی صلاحیت رکھتی ہیں، وہ زیادتی کے خلاف کھڑی ہونے کی زیادہ ہمت رکھتی ہیں۔
ریاست کا فرض صرف قانون بنانا نہیں بلکہ اسے نافذ اور قابلِ رسائی بنانا ہے۔ پولیس، عدلیہ، اور سماجی بہبود کے اداروں کو ایک مربوط نظام کے تحت کام کرنا چاہیے۔ ہر ضلع میں خواتین کے لیے ہیلپ لائن، پناہ گاہ، نفسیاتی مشاورت، اور قانونی مدد موجود ہونی چاہیے۔ اسی طرح مقامی سطح پر مذہبی اور سماجی رہنماو¿ں کو بھی آگاہی مہمات میں شامل کیا جائے تاکہ وہ منبر سے واضح پیغام دیں کہ گھریلو تشدد ظلم ہے، روایت نہیں۔
موجودہ حالات میں خواتین پر تشدد کے واقعات کو روکنے کیلئے ضروری ہے کہ خیبر پختونخوا میں ہر ضلع کی سطح پر خواتین کے خلاف تشدد کا ڈیجیٹل ڈیٹا بیس بنایا جائے۔ پولیس اور عدلیہ کو جینڈر بیسڈ کرائم سے نمٹنے کی تربیت دی جائے۔ خواتین کے لیے محفوظ پناہ گاہیں ہر ڈویڑن میں قائم کی جائیں۔ مذہبی رہنماو¿ں کو سماجی سطح پر شامل کیا جائے تاکہ وہ اس مسئلے کو اسلامی تناظر میں بیان کریں۔ متاثرہ خواتین کو مفت قانونی امداد اور نفسیاتی مشاورت دی جائے۔ تعلیم اور روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں تاکہ خواتین مالی طور پر خودمختار بن سکیں۔ میڈیا کو بھی یہ ذمہ داری لینی ہوگی کہ وہ متاثرہ خواتین کی آواز کو عزت کے ساتھ پیش کرے، سنسنی خیز انداز میں نہیں۔
خیبر پختونخوا ہو یا پاکستان کا کوئی دوسرا صوبہ، عورت اب بھی اپنے ہی گھر میں غیر محفوظ ہے۔ قانون بن چکے ہیں، مگر ان پر عمل درآمد کمزور ہے۔ اسلام ظلم کو ناپسند کرتا ہے اور عورت کو عزت و احترام کا درجہ دیتا ہے۔اب ضرورت ہے کہ ریاست، سماج، اور مذہبی ادارے مل کر اس خاموش وبا کو ختم کریں۔ کیونکہ عورت اگر محفوظ ہوگی تو گھر، معاشرہ اور آنے والی نسلیں محفوظ ہوں گی۔تشدد کے خلاف خاموشی، دراصل تشدد کی حمایت ہے — اور ہمیں یہ خاموشی توڑنی ہوگی۔ : #DomesticViolence #WomenRights #KhyberPakhtunkhwa #Pakistan #GenderJustice #IslamAndHumanRights #EndViolence #Equality #SocialJustice #Kikxnow #StopAbuse #WomenEmpowerment #HumanDignity |