خدا را زندگی کی تاریکیوں کو مزید تاریک تر نہ کیجئے

اس کی ڈیڑھ سالہ بچی وردہ گزشتہ ایک گھنٹہ سے بلک رہی تھی،ماں اسے اپنی چھاتیوں سے چمٹاتی پھر فیڈر میں ذرا سی چینی گھول کر پلانے کی کوشش کرتی مگر ننھی وردہ تھی کہ کہ ماں کی گود میں ایڑیاں رگڑ رگڑکر اور رو رو کر ہلکان ہو رہی تھی،راجہ خان باہر گیا ہوا تھا کہ اپنی بھابھی سے کچھ ادھار پکڑ کر وقت ٹپائے، خاندان اور ان لاز میں کوئی ایسا نہیں تھا جس سے اس نے ادھار نہ لیا ہو،وہ ادھار بھی لیتا تھا تو اگلے روز کا کہہ کر مگر ادھار چُکانے کے لئے اگلا روز اس کی زندگی میں نہیں آیا تھا،جہاں کہیں بھی جاتا رشتہ دار اور عزیز سمجھ جاتے کہ آج پھر اسے ادھار کی ضرورت ہے اس لئے اسے اپنے ہونے کا کوئی پروٹو کول نہ ملتا بلکہ اب یہ صو رتحال تھی کہ اسے بیٹھنے کیلئے بھی کوئی نہ کہتا تھا۔آج جب بھابی کے پاس پہنچا تو اپنی بلکتی بچی وردہ کے دودھ کیلئے پیسے مانگے ہی تھے کہ وہ موٹی موٹی آنکھیں نکال کر برتن مانجھتے ہوئے بولی ,,سائیں اب مانگنا چھوڑ کر مزدوری کرو،شہر جاؤ اور کچھ نہیں تو سامان ہی اٹھاؤ، کب تک ہم تمہیں یونہی کھلاتے رہیں گے،،اور پھر اس کی طرف سو روپے کاسرخ نوٹ بڑھاتے ہوئے خونخوارحقارت بھری نظروں سے دیکھا تو اس کی آنکھوں سے نکلتے خنجر اس کے سینے میں دھڑکنے والے دل کو بھی گھائل کر گئے،اگرچہ اس طرح کی باتیں اس کے لئے نئی تو نہیں رہی تھیں لیکن آج بھابھی کا لہجہ اور رویہ کچھ اس طرح سے تھا کہ اسے اندر تک چھلنی کر گیا تھا۔

یہ نادان اور بھولا بھالا راجہ خان ابھی تک یہ سمجھ رہا تھا کہ اس کے فاقوں اور ڈیڑھ سالہ بچی وردہ کے بلکنے کا مداوا نیو جتوئی،سکرنڈ این اے 211اور پی ایس 19 کے جتوئی خاندان کے ایک ایم این اے غلام مرتضیٰ جتوئی،دو ایم پی ایزمیر عارف مصطفیٰ جتوئی اور مسرُور جتوئی کے علاوہ 2003-09ء میں سنیٹر رہنے والے آصف جتوئی کی میلوں پر پھیلی جاگیر اور اثرورسوخ پر ہے،اس نے نیو جتوئی کے کئی ایک پھیرے کئے، جتوئی برادران کے بارے میں ان کے ملازمین نے اُسے بتایا تھاکہ سائیں کراچی اور اسلام آباد میں ہیں،آخر تھک ہار کر اس نے پھر ادھار پکڑا اور ٹرین میں بیٹھ کر راولپنڈی سٹیشن پر اتر گیا،یہاں سے وہ ایک نمبر ویگن پر بیٹھا اور اسلام آباد جیسے شہر اقتدار میں آگیا، یہاں کی رنگینیوں،سرشام سرمئی کُھلی اور دلکش سڑکوں پر دوڑتی لمبی لمبی کاروں کودیکھ کر اس کی آس اور امید بندھی کہ اس کی روزی کاکوئی نہ کوئی حیلہ وسیلہ ضرور نکل ہی آئے گا…وہ…پہلے ایم این اے ہاسٹل گیاتو وہاں سے جواب ملا کہ سائیں موجود نہیں، کل آنا،دو تین دن یہاں ضائع کرنے کے بعد سندھ ہائوس پہنچا،وہاں بھی اسے اپنے علاقے کا سائیں ملا نہ رسپانس،اسے چہار سو اندھیرے ہی اندھیرے پھیلتے نظر آئے،وہ شہر اقتدار اور اس میں رہنے والوں بلکہ اپنے ایم این ایز کی طرف سے بھی وقت نہ ملنے کے باعث اپنی زندگانی سے ہی اکتا گیا، اس نے روز اینڈ یاسمین گارڈن میں ایک گھنے سایہ دار درخت کے نیچے لیٹا ہی تھا کہ ایک فیصلے پر پہنچ ہی گیا…یہ اس کا آخری فیصلہ تھا…اس نے آبپارہ مارکیٹ سے ماچس اور ایک بوتل مٹی کا تیل خریدا اور پیدل ہی پارلیمنٹ ہائوس کی جانب چل پڑا، اس نے راستہ میں فارن آفس پر ایک حسرتناک نگاہ ڈالی، آگے بڑھا تو پاکستانی عدلیہ کے سب سے بڑے منصب پر بیٹھے افتخار پاکستان افتخار محمد چوہدری کے ایوان عدل کی پر شکوہ عمارت اور اس پر لہراتے پرچم پر نظر پڑی مگر وہ آگے ہی بڑھتا چلا گیا،شاہرائے دستور کے ساتھ ایستادہ وفاق کی علامت صدر آصف علی زرداری کا ایوان صدر، ملک کے سب سے بڑے عوامی منصب کے کرسی نشین وزیر اعظم مخدوم سید یوسف رضا گیلانی کا پرائم منسٹر ہائوس اور پاکستان بھر کے 18کروڑ عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے چار سو سے زائد ایوان نمائندگان یعنی قومی اسمبلی کے ماتھے پر تحریر کلمہ طیبہ پر نظر مرکوز کی اور مٹی کا تیل سر پر انڈیل دیا اور ساتھ ہی دیا سلائی بھی رگڑ ڈالی…ایک بے وسیلہ،بے کس و بے بس،اپنی تاریک آنکھوں میں اسلام اباد آ کر خواب بساکرآنے والے راجہ خان کا وجود بے رحم آتشیں شعلوں میں بار بی کیو بنتا جا رہا تھا،وہ تڑپ رہا تھا مگر حالات معمول کے مطابق تھے، پولیس والوں نے اسے وین میں ڈالا اور ملک کے سب سے بڑے اسپتال پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز پہنچایا مگر وہ دنیا کے آلام ، نیو جتوئی کے ایم این ایز کی منت کشی سے آزاد ہو چکا تھا، سکرنڈ کے راجہ کا لاشا اور لیبیائی فرعون قذافی کا وجود دونوں مردہ خانے میں تھے،اپنے عوامی نمائندوں کے ستم کا شکارسکرنڈ کا راجہ ایک پر سکون ابدی نیند کی وادی کا راہی ہو چکا تھا جہاں کوئی غم تھا نہ کوئی اندیشہ۔

میرا ایمان ہے کہ رزق کی خدا وند قدوس کی طرف سے عطائیگی اس کاایک بہت بڑا احسان اور عطیہ ہے،ملک میں کتنے لوگ ہیں جو حالات سے تنگ آ کر خود کشیاں کر رہے ہیں، عالمی انسانی حقوق کے کمیشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں روزانہ اوسطاً 21افراد خود کشیاں کرتے ہیں جبکہ سال رواں کے پہلے دس ماہ کے دوران ڈیڑھ ہزار سے زائد پاکستانیوں نے اپنی زندگیوں سے پیچھا چھڑایا ہے۔سندھ سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے مگر راجہ خان کا علاقہ سکرنڈ نوشہرو فیروز محفوظ ہے۔اور لوگ آنے والی عید الاضحیٰ کی خوشیاں انجوائے کر رہے ہیں۔

راجہ خان کچھ عرصہ پہلے تک دوبئی میں تھا خوب ہنسی خوشی زندگی گزر رہی تھی، 2010 کے دسمبر میں اس کا کنٹریکٹ ختم ہوااور سکرنڈ نوشہرو فیروز آگیا،یہاں اس نے نوکری اور کاروبار کی بھر پور کوشش بھی کی مگر کامیاب نہیں ہوسکا، جمع پونجی بھی خرچ ہو گئی اور پھر گھر میں فاقے ہونے لگے،وہ جو اسے ائرپورٹ سے پرتپاک استقبال کر کے سکرنڈ تک لایاکرتے تھے کہ گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہونے لگے،آج اس سے سیدھے منہ بات کرنے والا بھی کوئی نہیں تھا کیوں کہ وہ اب گُلستاں میں خوشبو نہیں بکھیر سکتا تھا اور چمن کا مُرجھایا ہوا پھول بن چکا تھا۔اس نے زندگی کو دھکا دینے کیلئے ادھار مانگنا شروع کر دیا تھا جس سے اس کے ان لاز اور خونی رشتہ دار بھی نا معلوم وجوہات کی بنا پر روٹھنے شروع ہو گئے تھے۔

پتہ نہیں کیوں…ہم نے ہر رشتے ناطے کو روپوں پیسوں میں تولنا شروع کر دیا ہے، کم وسائل کے حامل رشتہ داروں کے ساتھ ہمارا سلوک، رویے اور باڈی لینگویج کیوں بدل جاتی ہے،ہم ان کے ہاتھ پکڑ کرانہیں کیوں نہیں اٹھاتے، جو ایم این ایز کے بے رحمانہ سلوک اور رویوں کے ستائے ہوئے ہوتے ہیں ہم ان کے ہاتھ پکڑ کر اٹھاتے نہیں بلکہ ان گرے ہوئوں کو ایک دھکا اور دیتے ہیںِ،ہم ہر چمکنے والی چیز کے پیچھے کیوں بھاگتے ہیں؟ ہم گرنے والے کا سہارا کیوں نہیں بنتے،اُس کی آس امید کو کیوں توڑتے ہیں اور ہمیں کس نے اس طرح کی بات کرنے کا لائسنس دیا ہے؟اگر سکرنڈ نوشہرو فیروز کے غریب دیہی شخص راجہ خان کو رشتہ دار اور ان لاز طعنوں کے بجائے کسی سے کہہ کہلوا کر کوئی چھوٹی موٹی نوکری یا مزدوری دلوا دیتے تو وہ بر سر اقتدار جتوئی خاندان کی دہلیز پر دستک کیوں دیتا…اپنے سائیں کی تلاش میں وہ اسلام آباد کیوں آتا…ایم این اے ہاسٹل اور سندھ ہائوس میں خوار کیوں ہوتا…اور… پھر حالات سے اتنا مایوس بھی نہ ہوتا کہ ایوان اقتدار کے سامنے خود کو شعلوں کے سپرد کر دیتا۔

دین اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ مایوسی گناہ ہے اور اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے، انسان اندھیری تاریک رات میں دور ٹمٹماتے دئیے کی لو پر زندہ رہنے کی امید لگائے بیٹھ سکتا ہے مگر تاریکی جب مجسم شکل اختیار کرتی جائے دور دور تک کوئی روشنی بھی نظر نہ آئے تو مایوسیاں انسان کو ہر طرف سے گھیر لیتی ہیں اور یہ انسان کو اس حد تک مجبور کر دیتی ہیں کہ وہ خود اپنی جان آپ لینے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔انسان سہاروں پر چلنے اور جینے کا عادی ہے،ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہوتا ہے مگر ہمارے سیاست دان ،سماجی سائنسدان اور سماجی خدمات کی دعویداراین جی اوز کے کھوکھلے لارے لپے بھی مایوسیوں میں اضافہ کررہے ہیں،میرا اس ارشاد ربانی پر ایمان اور یقین کامل ہے کہ زندگی سے بیزار انسان کو زندگی کی رنگینیوں،دلکشیوں،ہماہمی اور جدوجہد کی طرف دوبارہ لوٹانا پوری انسانیت کو زندگی عطا کرنا ہے، کیونکہ جس نے ایک انسان کو بچایا اس نے پوری انسانیت کو بچایا اور جس نے ایک انسان کو ہلاک کیاتو گویا اس نے پوری انسانیت کو ہلاک کیا۔
Mohammed Obaidullah Alvi
About the Author: Mohammed Obaidullah Alvi Read More Articles by Mohammed Obaidullah Alvi: 52 Articles with 59271 views I am Pakistani Islamabad based Journalist, Historian, Theologists and Anthropologist... View More