دہلی ؛سب سے زیادہ آبادی والا شہر

گذشتہ مہینے اقوم متحدہ کے حوالے سے خبروں میں رہنے کے بعدہندوستان کے دارالحکومت دہلی آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے تیزی سے دوڑتے ہوئے شہروں میںشامل ہو گئی ہے جن میں دہلی کی رفتار سب سے تیز ہے اور اگر یہی صورتحال قائم رہی تو اگلے 15برسوں میں ہندوستان کا دارالحکومت پوری دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا شہر ثابت ہوگاجبکہ اس سے قبل دہلی میٹرو کے نظام کو دنیا بھر میں ریلوے کے اس پہلے نیٹ ورک کا اعزاز حاصل ہوا جسے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر اقوام متحدہ سے کاربن کریڈٹ ملنے کا مژدہ سامنے آیا تھا۔ ٹائم میگزین نے مستقبل کے سب سے زیادہ آبادی والے جن 10 شہروں کی فہرست جاری کی ہے ان میں دہلی سمیت ملک کے تین بڑے شہروں کو شامل کیا گیا ہے۔6 کروڑ 41 لاکھ کی آبادی کے ساتھ دہلی کا شمار پہلے نمبر پرکیا جائے گا۔ اس فہرست میں اقتصادی دارالحکومت ممبئی چوتھے جبکہ کولکاتہ ساتویں نمبر پر ہے۔ امریکہ کے مشہور و معروف میگزین ٹائم نے دنیا کی آبادی سات ارب تک پہنچنے کے ٹھیک پہلے جاری اپنی اس فہرست میں 10 ایسے بڑے شہروں کو شمار کیا ہے جن کی آبادی مستقبل میں بہت تیزی سے بڑھے گی۔ اس فہرست کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کا کوئی بھی شہر اس میں شامل نہیں ہے جبکہ ہندوستان کے تین اور پاکستان کے دو شہروں اور سب سے زیادہ آبادی والے ملک چین کامحض ایک شہر اس میں شامل ہے۔

آبادی کے لحاظ سے سب سے تیزی سے بڑھتے مستقبل کے 10 شہروں کی اس فہرست میں ہندوستان کادارالحکومت دہلی پہلے ، بنگلہ دیش کا دارالحکومت ڈھاکہ دوسرے اور کانگو کے شہر کن شا سا تیسرے نمبر پر ہے۔ٹائم نے ممبئی کو چوتھے ، پاکستان کی اقتصادی دارالحکومت کراچی کو پانچویں ، نائجیریا کے شہر لاگوس چھٹے ، کولکتہ کو ساتویں ، چین کے شہر شنگھائی کو آٹھویں ، فلپائن کے دارالحکومت منیلا کو نووے اور پاکستان کے لاہور کو 10 ویں نمبر پر رکھا ہے۔دہلی کے بارے میں ٹائم نے لکھا ہے کہ 2025 تک دہلی کی متوقع آبادی6 کروڑ 41 لاکھ ہو جائے گی۔ ٹائیم نے دہلی کے بارے میں لکھا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں ہندوستان کے دارالحکومت کی آبادی تقریبا دگنی ہو گئی ہے اور اس تیزی کے جاری رہنے کے کامل اشارے موصول ہو رہے ہیں۔ ہندوستان میں زیادہ شرح پیدائش نیزگھریلو اور بین الاقوامی سطح پر دہلی میں موجود کاروباری مواقع کا کشش کچھ ایسی ہی اہم وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ اس شہر کی آبادی بڑھے گی۔

جریدے کے مطابق کسی زمانے میں یہ شہرصرف محض سیاسی مرکز اور سرکاری ملازمین کی فراوانی کے لئے جانا جاتا تھا جبکہ موجودہ دور میں یہ شہر دیگر چیزوں کے لئے بھی مشہور ہو گیا ہے۔ واضح رہے کہ17 اعشاریہ 3 ملین آبادی کے ساتھ یہ ہندوسان کا دوسرا اور دنیا کا آٹھواں سب سے بڑا شہر ہے۔ دریائے جمنا کے کنارے یہ شہر چھٹی صدی قبل مسیح سے آباد ہے۔ سلطنت دہلی کے عروج کے ساتھ یہ شہر ایک ثقافتی، ثقافتی و تجارتی مرکز کے طور پر ابھرا۔ شہر میں عہد قدیم اور قرون وسطیٰ کی کئی یادگاریں اور آثار قدیمہ موجود ہیں۔ سلطنت دہلی کے زمانے کا قطب مینار اور مسجد قوت اسلام ہندوستان میں اسلام کی شان و شوکت کے اولین مظاہر ہیں۔ عہد مغلیہ میں جلال الدین اکبر نے دارالحکومت آگرہ سے دہلی منتقل کیا جبکہ 1639میں شاہجہاں نے دہلی میں ایک نیا شہر قائم کیا جو 1649سے 1857تک مغلیہ سلطنت کا دارالحکومت رہا۔ یہ شہر شاہجہاں آباد کہلاتا تھا جسے اب پرانی دلی کہا جاتا ہے۔ غدریعنی جنگ آزادی 1857 سے قبل برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر چکی تھی اور برطانوی راج کے دوران کلکتہ کو دارالحکومت کی حیثیت حاصل تھی۔ بالآخر جارج پنجم نے 1911میں دارالحکومت کی دہلی منتقلی کا اعلان کیا اور 1920کی دہائی میں قدیم شہر کے جنوب میں ایک نیا شہرنئی دہلی بسایا گیا۔ 1947میں آزادءہند کے بعد نئی دہلی کوہندوستان کا دارالحکومت قرار دیا گیا۔ شہر میں ہندوستانی پارلیمان سمیت وفاقی حکومت کے اہم دفاتر واقع ہیں۔ آج دہلی ملک کا ثقافتی، سیاسی و تجارتی مرکز ہے۔ موجودہ زمانے میں عالمی سطح کادینی روحانی اور مرکزدہلی کی حضرت نظام الدین ؒبستی کی بنگلے والی مسجدمیں واقع ہے جہاں اندرون ملک اور بیرون ملک کے بے شمار تشنگان ہدایت فیض حاصل کرکے پوری دنیا کو امن و آتشی کا پیغام پہنچا رہے ہیں جبکہ حضرت بختیار کاکیؒ ‘ حضرت امیر خسروؒ اور حضرت نظام الدین اولیاءبھی اسی شہر میں اپنا مسکن رکھتے ہیں۔ادب میں عالمی شہرت کے حامل غالب اورذوق جیسے متعدد شعراءنے بھی اس شہر کو چار چاند لگے ہیں جبکہ بیدل جیسے فارسی کے شاعر نے دور افتادہ روس کے سفیر کو باغ بیدل میں حاضری کیلئے مجبور کیا ہے۔ ثقافی ‘تہذیبی اور تاریخی حیثیت کے علاوہ سیاحت کے حوالے سے بھی دہلی شہرکا شمار انتہائی پرکشش شہروںمیں ہوتا ہے۔ ممبئی، کولکتہ اور بنگلور کے بعد سب سے زیادہ مقامی اور بین الاقوامی سیاح اسی شہر کا رخ کرتے ہیں۔یہاں شاہجہانی جامع مسجد‘ لال قلعہ‘ قطب مینار اور قدیم مندر ہیں لہذا یہ شہر کسی بھی مذہبی حوالے سے نمایاںشہرت کا حامل ہے جس میں لوٹس ٹیمپل جیسے مقامات بھی شامل ہیں ۔ ہرمیدان کی نمایاں شخصیات ایسے مقام کی طرف رخ کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔دارالحکومت دہلی کی مشہورو معروف جامع مسجد دہلی کے نام سے کون واقف نہیںجسے مسجد جہاں نمابھی کہا جاتا ہے اہم ترین مسجدمیں شمار ہوتی ہے۔1656میں تعمیر شدہ اس مسجد کو مغل شہنشاہ شاہجہاں نے تعمیر کروایا۔اس مسجد میں صبح سے شام تک بے شمار سیاح دیکھنے آتے ہیں۔
اس کے ساتھ دہلی کے نواح میں واقع فارمولہ ون کار جیسی ریس کا انعقاد بھی عالمی سطح پر اس شہر کو پر کشش بنا رہا ہے۔ملک اور بیرون ملک کے بے شمار شائقین کا یہاں تانتا لگا ہوا ہے جبکہ انڈیا گیٹ اور کناٹ پیلیس جیسے جدید تعمیراتی نمونے فلمسازوں کو ملتفت کرتے ہیں۔ بالی ووڈ اور ہالی ووڈ کی متعدد فلموں میں یہاں کے مناظر دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ نیز چاندنی چوک ‘چلی قبر‘ چاؤڑی بازارجیسے قدیم تجارتی مراکز نے ہر زمانے میں کاروباریوں اور ضرورتمندوں کا ادھر کا رخ کرنے پر مجبور کیا ہے جبکہ اپنی مہمان نوازی اور وسعت قلبی کی بدولت اگلی کئی دہائیوں میں ملکی اورغیر ملکی مہاجروں کے سیلاب دہلی میں آتے رہیں گے۔ٹائم نے کہا ہے کہ تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ سال 2025 تک دلی کی جی ڈی پی میں 10 گنا کا اضافہ ہوگا۔ اس دارالحکومت علاقے سے عالمی معیشت میں 289 ارب ڈالر کے تعاون کی امید ہے اور اس معاملے میں یہ ممبئی کوبھی پیچھے چھوڑ دے گا۔

میگزین نے دعوی کیا کہ پیداوار دہلی کا مسئلہ ہے اور آلودگی اس شہر کیلئے سب سے بڑا مستقل چیلنج بنتی جا رہی ہے۔ گرم موسم اور اور بے ترتیب ٹریفک کے اختیارات کی وجہ سے دارالحکومت کے علاقے میں دھواں اور آلودگی کی ایک دھند چھائی ہوئی رہتی ہے۔ گندہ پانی بغیر صاف کئے جمنا ندی میں گرتا رہتا ہے۔ہندوستان کی اقتصادی دارالحکومت کہے جانے والے ممبئی شہر کے بارے میں ٹائم نے لکھا کہ اس شہر کی متوقع آبادی سال 2025 تک پانچ کروڑ 76 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ اگرچہ جنوبی ایشیا میں اس شہر کی سب سے زیادہ جی ڈی پی ہے لیکن ملن بستیاں اآج بھی اس شہر میں بسی ہوئی ہیں۔

کولکاتا کے بارے میں ٹائم نے لکھا ہے ہے کہ ہگلی دریا کے کنارے بساہوا یہ شہر کولکتہ ہندوستان کاتیسراسب سے بڑی آبادی والا شہر ہے جس کی آبادی سال 2025 تک چار کروڑ 56 لاکھ ہو جائے گی۔ کولکاتا میں رہنے کیلئے گھروں کی کمی اور شدید ٹریفک جام کا مسئلہ سنگین ہے۔ خےال رہے کہ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق 31 اکتوبر کو دنیا کی آبادی سات ارب ہو جائے گی۔ذوق نے کسی زمانے میں دہلی کی شان میں کہا تھا کہ:کون جائے ذوق یہ دلی کی گلیاں چھوڑکے‘لیکن دہلی کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر تو سکون کے متلاشیوں کو یہی کہنابہترہوگاکہ جا سکیں تو چلے جائیں دلی کی گلیاں چھوڑ کے۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 116531 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More