گیا دورِ سرمایہ داری گیا

(فکرِ اقبال کی روشنی میں نظامِ سرمایہ داری کا مستقبل)

اقبال نے طاقتور ملکوں کے ہاتھوں کمزور ممالک اور انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کے خلاف نہ صرف اقوامِ مشرق کو بیداری کا پیغام دیابلکہ ان کی نگاہِ دُوربین نے مغرب کی مادہ پرستانہ سوچ جو نظامِ سرمایہ داری کی بنیاد تھی ، کے بارے میں آج سے کوئی ایک صدی قبل کہہ دیا تھا کہ

تدبّر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدّن کی بناءسرمایہ داری ہو

عالمِ عرب میں موسمِ بہار کے انقلاب (Arab Spring) کی آمد آمد ہو یا نیویارک کی وال سٹریٹ میں امریکی نظامِ سرمایہ داری پر خزاں (American Fall) چھا جانے کا موسم ہو ، تاریخ کا اٹل فیصلہ ہے کہ وہ نظام کبھی دیرپا نہیں ہو سکتا جس کی بنیاد جبر ، پسماندہ اقوام کے قومی وسائل پر قبضہ اور انسانی محنت کے استحصال پر رکھی گئی ہو۔ نظامِ سرمایہ داری کی بنیاد اِن امور پر ہوتی ہے۔
٭ پسماندہ اور کمزور ممالک کے قومی وسائل پر براہِ راست یا بالواسطہ قبضہ۔
٭ معاشرہ کی مستقل طور پر مراعات یافتہ اور محروم طبقات میں تقسیم۔
٭ ملکی وسائل اور دولت چند ہاتھوں میں آنے سے ارتکازِ دولت۔
٭ ملک کے اندر کمزور طبقات اور مزدوروں کے حقوق کو غصب کرنا۔
٭ عوام کے لئے عدلِ اجتماعی اور سماجی انصاف کے قیام سے انکار ۔
٭ عوام کی تعلیم ، صحت اور بنیادی ضروریات زندگی سے محرومی۔

عالمِ اسلام میں ایسے مفکرین کی کمی نہیں رہی ہے جنہوں نے اپنے اپنے زمانہ کے نظامِ سرمایہ داری کے خلاف آواز بلند نہ کی ہو۔ برصغیر میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور ان کے پیروکاروں میں مولانا عبیداللہ سندھیؒ اور اس طرح کے بے شمار لوگ موجود رہے ہیں جنہوں نے اسلامی تعلیمات کے حوالہ سے نظامِ سرمایہ داری اور جاگیرداری کے خلاف ایک مؤثر آواز اٹھائی۔ جدید دور میں حضرت علامہ محمد اقبالؒ نے جابجا اپنی نثر اور نظم میں فکرِ شاہ ولی اللّہیؒ کی پیروی کی ہے۔ اقبال کی سب سے پہلی تصنیف شاعری کی کتاب نہ تھی بلکہ معاشی مسائل پر لکھی گئی کتاب ’عِلمُ الاِقتَصَاد‘ 1905ءمیں منظرِعام پر آئی۔ اس کتاب میں اقبال ، انسانوں کی غربت ، پسماندگی اور استحصالی نظام کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار اِس طرح کرتے ہیں :” اس زمانے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مفلسی بھی نظامِ عالم میں سے ایک ضروری جزو ہے ؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہر فرد مفلسی کے دکھ سے آزاد ہو ؟ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ گلی کُوچوں میں چپکے چپکے کراہنے والوں کی دل خراش صدائیں ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جائیں اور ایک دردمند دل کو ہلا دینے والے افلاس کا دردناک نظارہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے صفحہ ¿ عالم سے حرفِ غلط کی طرح مِٹ جائے “

اقبال نے اِس کتاب میں نظامِ جاگیرداری کو خلافِ اسلام اور محنت کی بنیاد پر پیدا ہونے والی قدر زائد (Surplus Value) کے حقدار کو بڑے واضح انداز میں بیان کیا ہے۔ اس کتاب میں درج کئے گئے نظریات بعد میں کی گئی اقبال کی شاعری میں جابجا ملتے ہیں۔ ’ محنت و سرمایہ ‘ کے عنوان سے ایک نظم میں لکھتے ہیں :

کارخانے کا ہے مالک مردکِ ناکردہ کار
عیش کا پُتلا ہے محنت سے اُسے ناسازگار
حکمِ حق ہے لَیسَ لِلاِنسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی
کھائے کیوں مزدور کی محنت کا پھل سرمایہ دار

نظامِ سرمایہ داری کی بنیاد ابلیسی نظام ہے۔ اقبال نے اپنی مشہور نظم ’ ابلیس کی مجلسِ شوریٰ ‘ میں ابلیس کے منہ سے کہلوایا کہ غریب کو اپنی غربت پر قناعت کرنے کی تلقین ابلیسی سبق ہے۔

میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا
میں نے منعم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں
انسانی مساوات کو اسلام کے آفاقی پیغام کی روشنی میں جیسا اقبال نے بیان کیا ہے شاید ہی کسی اور کے حصہ میں آیا ہو۔ اسلام کے آفاقی پیغام کی قریشِ مکّہ کس بنیاد پر مخالفت کرتے تھے بقول اقبال قریش کے سربراہ ابوجہل کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہی شکایت تھی کہ بقول اقبال

مذہب اُو قاطعِ ملک و نسب
از قریش و منکر از فضلِ عرب
درنگاہِ او یکے بالا وپست
باغلام خویش بریک خواں نشست
(اُس کا مذہب جو کسی خاص مُلک یا حسب و نسب کی بنیاد پر بڑائی کے تصور کو ختم کرتا ہے۔ یہ قریش اور عرب کی برتری کو نہیں مانتا۔ اس کی نگاہ میں اعلیٰ و ادنیٰ کی کوئی تمیز نہیں۔ آقا اور غلام برابر بیٹھتے ہیں)

اقبال اسلام کے معاشرتی اور معاشی نظام کو اس طرح بیان کرتے ہیں

چیست قرآں خواجہ را پیغامِ مرگ
دستگیرِ بندہ بے ساز و برگ
(قرآن کا پیغام طبقہ امراءکے لئے موت کا پیغام ہے۔ جبکہ یہ محکوموں اور کمزوروں کے لئے دستگیری کرتا ہے)

کس دریںجا سائیل و محروم نیست
عبد و مولا حاکم و محکوم نیست
کس بنا شد در جہاں محتاج کَس
نقطہ شرعِ مبین این اَست و بس

(کوئی سائل نہ رہے ، کوئی محروم نہ رہے۔ کوئی آقا نہ ہو ، کوئی غلام نہ ہو۔ دُنیا میں کوئی محتاج نہ رہے۔ بس یہی شریعت محمدی کا بنیادی نقطہ ہے)

اقبال نے استحصالی طبقات اور معاشی اور معاشرتی طور پر محروم کر دیئے گئے لوگوں کی طبقاتی کشمکش کو بڑے خوبصورت انداز میں اِس طرح بیان کیا ہے

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بوالہبی
اقبال کے تصورات جہاں نظریہ پاکستان کی بنیاد بنے وہاں قائداعظم محمد علی جناح ؒنے قیامِ پاکستان کا مقصد نظامِ جاگیرداری اور سرمایہ داری کا خاتمہ قرار دیا تھا۔ اقبال اور قائداعظم کے تصورات میں اسلامی نظام کا وہ تصّور تھا جہاں جاگیرداری اور سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کے بجائے ’سماجی انصاف ‘ پر مبنی عادلانہ نظام قائم ہو گا۔ اقبال اور قائداعظم نے 24 اپریل 1943ءکو قیامِ پاکستان سے صرف 4 سال قبل آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس (دہلی) میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا :”یہاں میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو انتباہ کرنا چاہتا ہوں جو ہمارا خون چوس کر ایسے نظام کے تحت پلے بڑھے جو اس قدر خبیث اور اس قدر فاسد ہے اور انہیں اس قدر خود غرض بنا دیتا ہے کہ ان کے ساتھ معتدل بات کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ عوام کا استحصال ان کی رگ و پے میں داخل ہو گیا ہے۔ وہ اسلام کی تعلیم کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ اُن لوگوں کی خود غرضی اور حرص نے دوسروں کے مفادات کو اپنے تابع کر لیا ہے تاکہ وہ موٹے ہوتے رہیں۔ ہمارے لوگوں میں لاکھوں ایسے ہیں جنہیں ایک وقت کا کھانا بھی میّسر نہیں۔ یہ کیا تہذیب ہے ؟ کیا حصولِ پاکستان کا مقصد یہ ہے ؟ اگر پاکستان کا تصّور یہ ہے تو میں ایسا پاکستان نہیں چاہتا “
اقبال نے بہت عرصہ پہلے کہا تھا کہ

انسان کی ہوس نے جنہیں رکھا تھا چُھپا کر
بتدریج کھلتے نظر آتے ہیں وہ اِسرار
وہ حرف جو قُلِ العَفوَ میں پوشیدہ تھا اب
اِس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار

ایک لمبے عرصے تک دُنیا پر حکمرانی کرنے کے بعد نظامِ سرمایہ داری اُس نقطہ پر پہنچ چکا ہے جہاں اس کے اندرونی تضادات کی وجہ سے سرمایہ دار دنیا نے بھی اُس کے مزید قیام کو برداشت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ نظامِ سرمایہ داری کی بقاءکے لئے دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں جن کے منہ کو غریب ملکوں کا خون چوسنے کا چسکا لگ چکا ہوتا ہے ان کمپنیوں کی حرص (Corporate Greed) انسانی استحصال کے لئے اپنے اور پرائے کا فرق بھی نہیں دیکھتیں۔ ان کارپوریشنوں نے نہ صرف تیسری دنیا کے وسائل کو لُوٹا بلکہ اپنے عوام کو بھی اس حال میں لے آئی ہیں کہ اپنے لوگ بھی ان کے خلاف اُٹھ کھڑے ہو گئے ہیں :
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

امریکہ اور یورپ میں نظامِ سرمایہ داری کے خلاف ہونے والے مظاہرے کسی اور کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اپنے ملکوں کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے خلاف ہیں۔ مظاہرین کہہ رہے ہیں کہ ہم 99 فیصد ہیں جو مفلوک الحال ہو گئے ہیں۔ جبکہ وسائل اور دولت پر صرف ایک فیصد لوگ قابض ہو چکے ہیں۔ عرب دُنیا اور افریقہ میں حکمران جو یورپ اور امریکی سامراج کے گماشتوں کا کردار ادا کرتے تھے ایک ایک کر کے بے آبرو ہو کر رخصت ہو رہے ہیں۔ جبکہ سرمایہ دار ممالک کے عوام بھی نظامِ سرمایہ داری کی چکا چوند اور اس کے دھوکہ سے باہر آ چکے ہیں۔ نظامِ سرمایہ داری جو تیسری دُنیا میں غربت اور پسماندگی کا ذمہ دار بنا وہاں اس نے اپنے ملکوں کے عوام کا بھی خون نچوڑ کر اُن کی آنکھیں بھی کھول دی ہیں۔
اقبال نے اس کا پردہ چاک کرتے ہوئے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ

رعنائی تعمیر میں ، رونق میں ، صفا میں
گِرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات
بیکاری و عُریانی و میخواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کی فتوحات
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تیری منتظر اے روزِ مکافات
اُس روزِ مکافات کی گھنٹی بج چکی ہے۔ آج ساری دنیا میں اس استحصالی اور جابرانہ نظام کے خلاف عالمِ عرب ، لاطینی امریکہ اور افریقہ کے ساتھ ساتھ خود سرمایہ دار ممالک کے اندر سے بھی مؤثّر تحریکیں اُٹھ رہی ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ دنیا اُس سفر پر روانہ ہو چکی ہے جہاں طاقتور ملک ہوں یا افراد کمزوروں کے حقوق کا استحصال نہیں کر سکیں گے۔ اقبال نے یورپ کو 1907ءمیں ہی ان الفاظ میں آگاہ کر دیا تھا کہ

دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکان نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ زر اب کم عیار ہو گا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا

دُنیا میں حقیقی طور پر اُن استحصالی طبقات کو پہچانا جا رہا ہے جو جاگیرداری اور سرمایہ داری کے نظاموں کی بقاءکے لئے بیرونی اور اندرونی سرمایہ کاری اور نجکاری کے نام پر عوامی اور ملکی وسائل پر قابض ہو چکے ہیں اور اس جدید معاشی برہمنی طبقے کی ان کی ہوسِ زر امیر کو امیرتر اور غریب کو غریب تر بنا رہی ہے۔ وہ دن قریب ہے جب دنیا میں استحصالی نظامِ زر کا خاتمہ ہو گا۔ قرآنی نظامِ معیشت کی حقیقی رُوح دُنیا میں آشکار ہو گی۔ قائداعظمؒ اور اقبالؒ کے تصّوات پر مبنی ’سماجی انصاف ‘ ، ’عدل اجتماعی ‘ اور استحصال سے پاک معاشرہ قائم ہو گا اور اقبالؒ کی پیشن گوئی پوری ہو گی کہ

پرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں میر و سلطان سے بےزار ہے
گیا دورِ سرمایہ داری گیا
تماشہ دِکھا کر مداری گیا
Akram Sohail
About the Author: Akram Sohail Read More Articles by Akram Sohail: 15 Articles with 11755 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.