ان مضحکہ خیز حرکتوں سے ملک کو شدید خطرات بھی ہیں

کرپشن کے الزامات وہی عائد کر رہے ہیں جو گھٹنوں گھٹنوں تک کرپشن میں آلودہ ہیں جنہیں احتساب کی چھلنی سے گزرے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔ ان کے پالے ہوئے ایجنٹ بڑی تندہی سے ان کی معصومیت کے اقدامات کر کے ان کے خلاف شواہد اور ثبوت ضائع کرنے کا کام کرتے ہیں اگر وہ اقتدار میں ہوں تو اپنی بد عنوانیوں پر کمیٹیاں بنا کر خود کو بیگناہی کا پروانہ حاصل کر لیا جاتا ہے جیسے مخمل کا قالین سے کچرے کا ڈھیر چھپایا جاتا ہے ۔ دوسری جانب علی رضا بھائی جیسے لوگ نیشنل بینک کی سربراہی کے لئے لا کر یک جنبش قلم اپنی صوابدید پر اربوں روپے کے قرضے معاف کردیتے ہیں جو نیشنل بینک کی سالانہ رپورٹوں میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ ان مالی بے ضابطگیوں کے لئے بہت سے لوگ ملک کے کلیدی اداروں میں تعینات کئے جاتے ہیں وہ نہ صرف بدعنوانوں کی مدد کرتے ہیں بلکہ اس آڑ میں خود بھی خوب فوائد کشید کرتے ہیں۔

یہ قرضوں کی معافی اور قومی دولت سے لوگوں کو نوازنے کے صوابدیدی اختیارات کیا ان کو اس ملک کا آئین فراہم کرتا ہے کہ جس کو چاہیں قومی دولت بانٹ دیں ۔ ان اختیارات کا استعمال کر کے قومی خزانے سے رقم اپنے حاشیہ برداروں میں اس بری طرح بانٹ دی جاتی ہے کہ ملک کو اس کے بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ کیا یہ ضابطۂ اخلاق کی پامالی نہیں ۔

یہی کام پرویز مشرف نے بھی کیا اور ایک امپوریڈ وزیر اعظم کو خزانے کا نگران بنا کر ملک کو بد رترین مالی مشکلات سے دوچار کر دیا ان کے اٹھائے ہوئے اقدامات انکے جانے کے بعد سامنے آئے اور صرف تین ماہ ہی میں ملکی خزانہ خالی ہو گیا۔ شنید ہے کہ انہیں ملکی تاریخ کا سب سے زیادہ رکارڈقومی خزانہ میں جمع کرنے کا اعزاز بھی حاصل تھا ۔ لیکن حیرت انگیز طور پر صرف تین ماہ ہی میں نگران حکومت ہی کے دور میں غائب ہو گیا۔ نئے آنے والے مالی بحران اور خزانہ خالی ہونے کا واویلا کرتے دکھائی دئے اور اپنے قرضے بھی اسی دوران ہی معاف کراتے رہے۔ وزیراعظم اور ان کے قریبی لوگ اس سے مستفید ہو کر لوگوں کو ایمانداری کا درس بھی ہر فورم پر دیتے ہیں اور کرپشن کے خاتمے کا عہد بھی کرتے ہیں۔ لیکن جانے کیوں ہر مالی بے ضابطگی کادوسرا سرا ان کے قریبی لوگوں کے ہاتھ میں پکڑا ہوا نظر آتا ہے جو میڈیا کے زریعے لوگوں کو بتایا جاتا ہے، جس سے حکمرانوں کے کانوں میں جوں بھی نہیں رینگتی انہیں زرا بھی پریشانی یا پشیمانی نہیں۔

دوسری طرف صوبائی حکومتوں کا حال اس سے بھی برا ہے، کوئی سستی روٹیاں لوگوں کو کھلا کر اس میں مالی بدعنوانی سے پیسے بنا رہا ہے ۔ کوئی فورجری کر کے اپنی امارات کو جائز قرار دلوا رہا ہے ، لوگوں کی جائدادوں کو غیرقانونی قرار دے کر گرانے کے نوٹس جاری کرتا ہے اور پھر قانونی بنانے کے گر بھی آزما رہا ہے ، اوراپنی زہانت سے دولت کے انبار لگا رہا ہے۔ کوئی ریلوے کو بند کرنے کے اقدامات کر رہا ہے، کوئی سیلاب فنڈ لوگوں میں باٹنے کی بجائے بدعنوانی کے رکارڈ بنا رہا ہے لوگ حکومتی امداد کی آس میں بھوکے مر رہے ہیں کوئی مالی امداد ان تک نہیں پہنچ پاتی ،بس میڈیا سیشن کے لئے پریس اور اخباری نمائندوں کے سامنے ڈرامہ شوٹ کر کے اہلکار چل دیتے ہیں اور پھر کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ پنجاب میں ڈینگی کی روک تھام کے لئے ادویات پر کروڑوں روپے خرچ ہوگئے لیکن ناقص اور غیر معیاری ادویہ منگوائیں پکڑے جانے پر اسی کمپنی کو دوبارہ اچھی ادویات کا ٹھیکہ پھر دیا گیا کوئی کاروائی نہیں کی گئی ۔ اس پر کنٹرول نہیں پایا جاسکا اموات کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

لیکن ایک بات بہت بڑے خطرے کی علامت ہے جس سے میری ناقص عقل کے مطابق ملک کو سنگین خطرات لاحق ہو گئے ہیں وہ ہی انٹیلیجینس اور عسکری اداروں کوپرلیمینٹ کا تابع کرنا تا کہ وہ کسی صورت بھی سیاسی معاملات میں مداخلت کی جرات نہ کر سکے اور یہی بات ملک کی بقا اور استحکام کے لئے خطرناک ہے ۔

قوم کو اس بخار میں مبتلا کرنے کی کوشش بھی اسی سلسلے کی ایک کوشش ہے جس کے پیچھے دونوں بڑی پارٹیاں کوشاں ہیں ااور مل کر قوم کو بیوقوف بنا رہے ہیں یہ قوم پر کو کچھ عرصے میں واضح ہو جائے گا ۔ یہ بندر تماشہ ایک دم قوم کو بخار میں مبتلا کر کے کیا جارہا ہے اورسیاسی جوکر پبلک میں اسٹیج پر مضحکہ خیز حرکتیں کر کے لوگوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ ہم ایک بار پھر ۷۷ء جیسی صورتحال سے دوچار ہیں یہی وہ جمہوریت ہے جس کی جدوجہد اس ملک کا کرپٹ ٹولا کرتا رہا ہے اور اپنے مقاصد فوجی قوت کو اپنا فرما بردار بنا کر حاصل کرنا چاہتا ہے ، قوم فیصلہ کرے ملک کی بقا عزیز ہے یا ایسی جمہوریت جس کی پامالی کرنے والے و ہی کرپٹ ترین پنڈت بھی ہیں جو اقتدار اب خود حاصل کرنا چاہتے ہیں جن پر اس ملک کے اربوں روپے ہڑپ کرنے اور بیرون ملک لے جانے کے الزامات بہی ہیں ایسے تماشے دکھا کر اس ملک کو خطرے سے دوچار کرتے ہیں۔

اس اقدام سے پہلے اگر لوگ اس ملک سے مخلص ہیں تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ تمام اشخاص جنہوں نے اس ملک کی دولت کسی بھی شکل میں لوٹی ہے ملکی خزانے میں واپس جمع کرائیں ، ہر ادارہ ملکی ضابطہ اخلاق کے مطابق کام کرے ، قانون کا احترام ہر شخص کرے چاہے وہ کسی حیثیت ہی میں کیوں نہ ہو ، جالی ڈگری والوں کو از خود اسمبلی سے استعفی دینا چاہئیے ۔ لوگ رضاکارانہ طور پر رشوت نہ لینے کا عزم کریں ہر ادارے سے بدعنوان لوگوں کا احتساب اسی ادارے کے لوگوں کے تعاون سے یقینی بنائے اور ثبوت فراہم کر کے کر کے ان کے خلاف کاروائی کرے ان اقدامات کی اس ملک کے لوگ کبھی بھی مخالفت نہیں کریں گے ۔ ان اقدامات سے ملک میں تعمیری عمل شروع ہوگا کرپشن کا خاتمہ ہو گا عدلیہ مکمل آزادی سے بروقت فیصلے کریں گی ، ان پر قوم کا اعتماد بحال ہوگا سب اس کا احترام کریں گے۔ جب ایسی صورت حال ملک میں پیدا کر دیں تب سیاسی لوگ اس ملک میں انٹیلیجینس اور عسکری اداروں کو پارلیمینٹ کے تابع کریں تو ملک میں کوئی خطرہ نہیں ہوگا لیکن اس کرپٹ ترین معاشرہ میں اس قسم کی کوئی بھی کوشش سیاسی بساط کو لپیٹنے کے ساتھ ساتھ ملک کی سالمئیت کے لئے بھی شدیدنقصان دہ ہوگی ہمیں صرف اپنے اقتدار کی طوالت اور اسکے غیر جمہوری حصول کے لئے ایسے سنگین اقدام سے اجتناب کرنا چاہئیے ۔ یہ سب باتیں اور حالات اس خونی انقلاب کو دعوت دے رہے ہیں جس کے دوران کرپٹ اور بدعنوانوں کو چوراہوں پر لٹکایا جائے گا بیرون ملک دولت لے جانے والوں کابھی حساب ہو گا ، جو ایک لمحۂ فکریہ ہے۔
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 75453 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More