پنجاب کی پگ

مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا المیہ یہ ہے کہ آ مریت کے دور کی محبت ان کا دامن نہیں چھوڑ رہی۔وہ ان سہانے دنوں کو یاد کرتے رہتے ہیں جب وہ ایجنسیوں کی مدد سے اقتدار کے سنگھاسن پر جلوہ افروز ہوا کرتے تھے۔ ایجنسیوں نے ان کے اقتدار کےلئے اتنی سہولتیں پیدا کیں جن کا وہ خود بھی تصور نہیں کر سکتے تھے۔آئی ایس آئی اور دوسری ایجنسیوں کی پی پی پی کے ساتھ ایک تصوراتی اور خود ساختہ دشمنی تھی جس کی وجہ سے وہ پی پی پی کو اقتدار سے دور رکھنا چاہتے تھے لیکن یہ تبھی ممکن تھا کہ وہ کسی ایسے شخص کو پی پی پی کے مقابلے میں میدان میں اتاریں جس کی نس نس میں بھٹو دشمنی کا زہر بھرا ہو اور اس معیار پر ایجنسیوں نے جس شخصیت کا انتخاب کیا اس کا نام میاں محمد نواز شریف تھا۔میاں محمد نواز شریف کا خاندان ذوالفقار علی بھٹو کی نیشنلائزیشن کی پالیسی سے زخم خوردہ تھا لہذا وہ بھٹو دشمنی میں کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھا اور یہی وہ معیار تھا جسکی وجہ سے انھیں پنجاب کی سیاست میں آگے لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔جنرل ضیا لحق کے حکم پر گورنر غلام محمد جیلانی نے میاں محمد نواز شریف کو پنجاب میں فعال کرنے کا منصوبہ بنا یا اور پنجاب حکومت میں وزیرِ خزانہ کا قلمدان سونپا اور پھر 1985 کے انتخابات کے بعد پنجاب کی وزارتِ اعلٰی کا تاج ان کے سر پر رکھ کر سیاست میں ان کو ایک بڑا معتبر اور طاقتور مقام عطا کر دیا ۔ یہ سارے مراحل فوج کی اعانت اور حمائت سے طے پائے تھے وگرنہ میاں صاحب کی سیاسی حیثیت سے سارے لو گ با خبر تھے۔اگر جنرل ضیا ا لحق نہ ہو تا تو میاں صاحب کا سیاست میں کو ئی بھی نا م و نشان نہ ہوتا۔

۵ جولائی 1977 کو ایک ایسی ہی سیاہ رات تھی جس میں جنرل ضیا الحق نے امریکی سر پرستی میں ا یک انتہائی خطر ناک کھیل کھیلا اور ایک آئینی، قا نونی اور عوامی حکومت کا خاتمہ کر کے اقتدار پر ناجا ئز قبضہ کر لیا ۔ قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو کو شب کی تاریکی میں گرفتار کر لیا اور چند سالوں کے نام نہاد عدالتی ٹرائل کے بعد سزائے موت کا حقدار گردانا گیا ۔ جی ہاں وہی جنرل ضیاالحق جسے میاں صاحب اپنا روحانی باپ کہا کرتے تھے جس نے میاں صاحب پر سیاست کے دروازے کھولے تھے اور میاں محمد نواز شریف کے سر پر پنجاب کی وزارتِ اعلٰی کی پگ رکھی تھی ۔ایسی پگ جسے پہننے کی بڑے بڑے لوگوں کو آرزو تھی کئی لوگ تو میاں صاحب کے سر پر پگ ر کھے جانے کے صدمے سے ہی چل بسے تھے۔ ویسے میاں صاحب سچ بتا ئیے کہ کہاں پنجاب کی پگ اور کہاں آپ۔ پنجاب کی سیاست میں آپ کا کردار کیا تھا ۔آپ کی طاقت کیا تھی آپ کی جدو جہد کیا تھی۔ خاندانی پسِ منظر کیا تھا، علمی وجاہت کیا تھی، عقل و دانش کا معیار کیا تھا،سیاسی بصیرت کیا تھی اور پگ اٹھانے کی آپ کی ہمت کیا تھی لیکن یہ سب کچھ ہوا اور اس شخص کی نظرِ کرم سے ہوا جسے تاریخ پاکستان کے سب سے سفاک اور بے رحم آمر کے نام سے جانتی ہے۔ گورنر جیلانی نے پنجاب کی پگ پورے طمطراق سے میاں محمد نواز کے سر پر رکھ کر سب کو میاں صاحب کے قد موں میں ڈھیر کر دیا تھا ۔یہ اقتدار کا وہ انہونا منظر تھا جسے فوج اور جنرل ضیا الحق کی سر پرستی کے بغیر حاصل کرنا میاں محمد نواز شریف کے لئے ناممکن تھا۔

میاں محمد نوز شریف آج کل پنجاب کی اسی پگ کی تذلیل اور مذاق اڑانے کی کی کوشش کر رہے ہیں اسمیں کوئی شک نہیں کہ پنجاب میاں محمد نواز شریف کا مضبوط گڑھ ہے اور پچھلے 34 سالوں سے پی پی پی پنجاب میں حکومت سازی سے محرو م ر کھی گئی ہے ۔ 5 جولائی 1977 کے بعد سے پنجاب کبھی بھی پی پی پی کے حوالے نہیں کیا گیابلکہ اس صوبے میں ہمیشہ مسلم لیگ نے راج کیا ہے ۔ اسکی وجہ یہ نہیں ہے کہ مسلم لیگ پنجاب میں بہت مقبول جماعت ہے بلکہ اسکی وجہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پنجاب میں پی پی پی کے اقتدار کو برداشت نہیں کر سکتی لہذا اسے اس صوبے میں دخل اندازی کا کو ئی اختیار نہیںے دیا گیا۔1993میں جب جو نیجو لیگ اور پی پی پی نے پنجاب میں مخلوط حکومت تشکیل دی تھی اسوقت جونیجو لیگ کو پنجاب کی وزارتِ اعلٰی پیش کی گئی تھی حالانکہ اسکے پنجاب اسمبلی میں ممبراان کی تعداد صرف 16 تھی۔ میاں منظور احمد وٹو پنجاب کے وزیرِ اعلٰی بنے تھے اور یوں پی پی پی کو سوچی سمجھی سازش کے تحت پنجاب کی وزارتِ اعلٰی سے محروم رکھا گیا تھا حالانکہ پنجاب کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کے ناطے وزارتِ اعلٰی اس کا حق تھا اور اس کےلئے پی پی پی نے مخدوم الطاف کا انتخاب بھی کر رکھا تھا لیکن آخری وقت میں پی پی پی کو اپنا امیدوار واپس لینا پڑا تھا ۔مخدوم الطاف اس صدمے کو برداشت نہ کر سکے اور جلدی ہی اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ۔

میاں محمد نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ (ن) آجکل پنجاب کی جماعت بن کر رہ گئی ہے ۔ فوج کا بڑا حصہ پنجاب کے جوانوں پر مشتمل ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ پاکستانی فوج در حقیقت پنجابی اکثریت کی نمائندہ ہے تو بے جانہ ہو گا۔ پنجاب کے لوگ ہمیشہ فوج کے شانہ بہ شانہ کھڑے رہے ہیں اور اسے اپنی حمائت اور محبت سے نوازتے رہے ہیں۔ ان کے دلوں میں فوج کے لئے احترام کے جو بے پناہ جذبات پائے جاتے ہیں وہ کسی سے بھی ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر اس حقیقت کے باوجود کہ پنجاب کے لوگ ذوالفقار علی بھٹو سے بے پناہ محبت کرتے تھے انھوں نے اس شدید حتجاج کا مظاہرہ نہیں کیا جس کا تقاضہ ان سے ذوالفقار علی بھٹو کی محبت کرتی تھی۔ پنجاب کے لوگوں کا خیال تھا کہ ان کے احتجاج کی زد سیدھی فوج کے ادارے پر پڑے گی اور پی پی پی کا فوج سے ٹکراﺅ یقینی ہو جائے گا لہذا انھوں نے فوج کی محبت اور احترام کے سامنے ذوالفقار علی بھٹو کی محبت کو دبا لیا تھا۔ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر دوسرے صوبوں میں بڑا زبردست ری ایکشن ہوا لیکن پنجاب کے لوگوںنے اس احتجاج میں پی پی پی کا اس طرح ساتھ نہیں دیا تھا جسکی پی پی پی کو توقع تھی ۔ اسکی وجہ یہ نہیں ہے کہ پنجاب کے عوام کو پی پی پی سے محبت نہیں تھی انھیں پی پی پی اور بھٹو خاندان سے محبت ہے جسکا سب سے بڑا ثبوت 10 اپریل 1986 میں لاہور میں محترمہ بے نظیر بھٹو کا وہ فقیدالمثال استقبال ہے جو کرہِ ارض پر کسی بھی انسان کا سب سے بڑا استقبال ہے اور یہ سب کچھ پنجاب کی سرزمیں پر وقوع پذیر ہوا۔ بات یہی پر آکر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ ذولفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد جو پہلے انتخابات ہو ئے( حالیہ انتخابات 2008 میں بھی)اس میں پی پی پی نے پنجاب سے واضح اکثریت حا صلی کی اور یوں پنجاب کے لوگوں نے بھٹو خاندان سے اپنی روائتی محبت کا ثبوت دیا۔

عجیب اتفاق ہے کہ 1971 میں جب فوج کا مورال بہت پست تھا اور ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالنے کی وجہ سے اس پر ہر طرف سے تنقید ہو رہی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے فوج کا امیج بحال کیا۔ 93 ہزار جنگی قیدیوں کو بھارت کی قید سے رہائی ڈلوائی اور ان کےلئے جدید فوجی سازو سامان کو یقینی بنایا۔ پاکستانی فوج کو ناقابل تسخیر بنانے کےلئے ایٹمی توانائی کے حصول کا فیصلہ کیا اور بھارت کے مکروہ عزائم کو خاک میں ملانے کےلئے ایٹم بم بنانے کے عظیم مشن کا آغاز کیا۔ ایٹمی قوت بننے کا فیصلہ کوئی معمولی فیصلہ نہیں تھا ۔یہ بہت بڑا فیصلہ تھا جو امریکہ کے لئے بڑا تکلیف دہ تھا لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کا قصد کر رکھا تھا۔ یہ فیصلہ امریکہ کو پسند نہیں تھا لہذا اس نے بھٹو صاحب کو اس راہ سے ہٹ جانے کا مشورہ دیا لیکن بھٹو صاحب نے امریکی ڈکٹیشن لینے سے انکار کر دیا اور اپنا مشن جاری رکھا ۔ امریکہ نے جنرل ضیا الحق اور مذہبی گروہوں سے سازش کر کے بھٹو صاحب کی آئینی حکومت کا تختہ الٹ دیا ۔ جنرل ضیا لحق نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور بھٹو صاحب کو سزائے موت دے ڈالی اور یوں میاں محمد نواز شریف کو کارزارِ سیاست میں قدم رکھنے کے مواقع میسرآئے۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے اس ملک کے استحکام کے لئے ناقابلِ تسخیر فوج کا جو خواب دیکھا تھا وہ اس کی موت کے بعد بھی ایک حقیقت بن کر ابھرا اور بھارت جیسے توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والے ملک کو اس کی حدود میں رکھنے میں ممدو معاون ثابت ہوا۔ مجھے وہ منظر بھی یاد ہے کہ فوج کے چند جرنیل ذوالفقار علی بھٹو کو سرِ دار کھینچ رہے تھے لیکن فوج کے جوان بھٹو کی موت پر آنسو بہا رہے تھے اور اسے خراجِ تحسین پیش کر رہے تھے لیکن اپنی قیادت کے احکامات کی بجا آوری بھی کر رہے تھے۔ ان کے دل میں بھٹو کی محبت موجزن تھی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ پاکستانی فوج کی مضبوطی اور تشکیلِ نو میں ذوالفقار علی بھٹو کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔ مجھے احساسات کی اس کیفیت میں پیر پگارا کے مریدوں کے وہ تاریخی جملے یاد آتے ہیں جس میں پیر مردان شاہ پگارا کے حروں نے پیر پگارا کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جان پیر پگارا کےلئے حاضر ہے لیکن ووٹ سائیں بھٹو کا ہے۔ شائد یہی وجہ تھی کہ پیر پگارا پرویز علی شاہ سے انتخاب میں شکستِ فاش سے دوچار ہو ئے تھے۔

ایک زمانہ تھا کہ فوج اور میاں برادران دونوں مل کر پی پی پی کے جیا لوں کو پھینٹی لگا یا کرتے تھے اور پی پی پی یہ سارا ظلم و جبر جوانمردی اور ہمت سے برداشت کر جاتی تھی۔ شاہی قلعے کی اندھیری کوٹھریاں اس کی گواہ ہیں کہ جیالوں پر ظلم و جبر کی سیاہ رات میں کیا کیا ستم نہیں ڈھائے گئے تھے لیکن پھر بھی پی پی پی نے کسی فوجی بغاوت کا ڈول نہیں ڈا لا تھا۔محترمہ بے نظیر بھٹو کو علم تھا کہ اس کے باپ کی موت جنرل ضیا ا لحق اور ان کے چند طالع آزما جرنیلوں کی ہوسِ اقتدار کی وجہ سے ممکن ہو ئی تھی لیکن اس کے باوجود بھی اس نے فوج سے نہ صرف یہ کہ انتقام نہ لینے کا فیصلہ کیا بلکہ 1988 کے انتخابات میں پی پی پی کی واضح جیت کے باوجود فوج کو تمغہِ جمہوریت سے نواز کر ان کی عزت و توقیر میں مزید اضافہ کیا۔دفاعِ پاکستان کی مضبوطی کے لئے میزائل ٹیکنالوجی حاصل کی اور یوں پاک فوج کو جدید اسلحے سے لیس کر کے افواجِ پاکستان سے یکجہتی کا مظاہرہ کیا جس نے فوج کی نظروں میں پی پی پی کی تکریم میں بے پناہ اضافہ کیا اور یوں دونوں کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے میں مدد ملی۔۔

چشمِ فلک آج ایک عجیب و غریب منظر دیکھ رہی ہے کہ وہ لوگ جن کی پرورش آمریت کی گود میں ہوئی تھی اور جو فوج اور ایجنسیوں کے سہارے مسندِ اقتدار پر جلوہ افروز ہو ئے تھے آج اسی فوج کے خلاف زہر اگل رہے ہیں کیوں کہ فوج کی موجودہ قیادت انھیں گھاس نہیں ڈال رہی۔ عجب تماشہ ہے کہ فوج کی حمائت سے بر سرِ اقتدار آ کراقتدار کے مزے لوٹنے والے فوج کو نیچا دکھا نا چاہتے ہیں لیکن وہ جنہو ں نے فوج کے ہاتھوں گہرے زخم کھائے ہیں فوج کی توقیر اور حمائت میں میدان میں نکلے ہو ئے ہیں۔و طنِ عزیز کی محبت میں اسیروں کی شائد یہی راہ ہوا کرتی ہے کہ وہ وطن کی حفاظت کی خا طر جانوں کا نذ رانہ دینے والوں کو اپنی پلکوں پر بٹھا تے ہیں انکا مان بڑھاتے ہیں انھیں عزت و احترام اور تو قیر سے نوازتے ہیں اور اقتدار کے بھوکے اپنے اقتدار کی خاطر جانوں کا نذ رانہ دینے والوں کو بے آبرو اور رسوا کرتے ہیں۔

میاں محمد نواز شریف آج کل پنجاب کی اسی پگ کو داغدار کرنے کے جتن کر رہے ہیں۔ فوج کی تحقیر اور اسکی مخالفت میں انکے بیانات پر دنیا حیران ہے۔ا ہلِ پنجاب کو پنجاب کی پگ کو داغدار ہونے سے بچانے کےلئے میاں محمد نواز شریف کے موجودہ کردار سے انھیں روکنا ہو گا کیونکہ وہ فوج کے گڑھ میں بیٹھ کر فوج پر کیچڑ اچھال رہے ہیں اور یوں فوج کے حوصلے پست کر رہے ہیں۔ کشمیر کے انتخابات میں انھوں نے بھارت کی وکالت کرتے ہوئے فوج کے خلاف جسطرح کی زبان استعمال کی تھی اس سے ہر محبِ وطن پاکستانی پریشان ہے ۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ان کی جماعت کے تیور ٹھیک نہیں تھے اور اے پی سی میں فوج کے بارے میں ان کا لب و لہجہ ایک دفعہ پھر توہین آمیز تھا ۔ دنیا کی سپر پاور اس وقت پاکستانی فوج کے ساتھ کھچاﺅ اور تناﺅ کا شکار ہے اور فوجی قیادت کو نیچا دکھاناچاہتی ہے یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب بھی فوج پر دباﺅ بڑھا رہے ہیں تا کہ بڑے آقا کی خوشنودی حاصل ہو جائے اور اقتدار کا راستہ آسان ہو جائے۔ جاگ پنجابی جاگ تیری پگ کو لگ گیا داغ اور یہ داغ کسی اور سے نہیں میاں محمد نواز شریف کے ہاتھوں لگنے والا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ میاں صاحب انہی ایجنسیوں اور فوج کے کندحوں پر سوار ہو کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچے تھے لیکن چونکہ آج کل فوج کا سپہ سالار میاں برادران کے اقتدار کے لئے سیڑھی بننے سے انکار کر رہا ہے تو میاں برادران نے فوج کو اپنی تنقیدی توپوں پر رکھ لیا ہے۔ میاں برادران نے بڑی کوشش کی تھی کہ کسی طرح فوج کو بہلا پھسلا کر پی پی پی کی حکومت کے مدِ مقابل کھڑا کر کے پی پی پی حکومت کی چھٹی کروا دیں اوراس فوجی مداخلت کی بداولت اقتدار پر قابض ہو جائیں جیسے ماضی میں ہوا کرتے تھے لیکن فوج نے کسی بھی ایسی کاروائی کا حصہ بننے سے معذ رت کر لی ہے ۔ میاں شہباز شریف کی رات کے اندھیرے میں اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار احمد کے ساتھ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقا تیں میاں برادران کے عزائم کو آشکارا کرنے کےلئے کافی ہیں۔ میاں محمد نواز شریف بہت خطر ناک کھیل کھیل رہے ہیں اور ادراروں کے اندر بغاوت کو ہوا دے رہے ہیں اگر فوج میں بغاوت نے جنم لے لیا تو پھر پاکستان کی سلامتی کا اللہ ہی حافظ ہے لہذا میاں صا حب اس کھیل سے باز آجائیں ۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 451511 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.