قابلِ تقلید عمل

گذشتہ روز میں ایک بنگلہ دیشی ٹی وی چینل پر ایک ٹاک شو دیکھ رہا تھا جس کا موضوع تھا ”سیاست“ دو دانشور تجزیہ کار بنگلہ دیش کی موجودہ دو بڑی سیاسی پارٹیوں کی آپس کی نوک جھونک اور آئے دن کی ہڑتالوں میں توڑ پھوڑ پر اپنی اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے ۔

ایک صاحب نے ذرا زور دیتے ہوئے کہا کہ جب پاکستان جیسے ملک میں جہاں چھوٹی چھوٹی لاتعداد سیاسی پارٹیاں ہیں، جن میں عمران خان جیسے جوشیلے اور مولانا فضل الرحمان جیسے بھڑکیلے سیاستدان بھی شامل ہیں، آل پارٹی کانفرنس میں ایک جگہ بیٹھ کر متفقہ طور پر ایک قرداد منظور کر وا سکتے ہیں تو بنگلہ دیش میں دو بڑی سیاسی پارٹیاں جن کی قیادت دو عورتوں کے ہاتھ میں ہے ایک ٹیبل پر بیٹھ کر اپنے اختلافات کیوں دور نہیں کر لیتیں ؟ یہ روز روز کی ہڑتالیں جن سے ملک کی معیشت کانقصان ہوتا ہے بیرونی سرمایہ کاری رک جاتی ہے کارخانوں کی پیداوار تھم جاتی ہے، آخر ہڑتال کرنے میں کس کا فائدہ ہے ؟

اس پر دوسرے صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا ، ارے صاحب اس ملک کا جنم تو ہڑتالوں سے ہو ا ہے اسلیے یہاں ہڑتال کو ہی اقتدار حاصل کرنے کے لیے بہترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ بات سن کر مجھے ایک گونہ خوشی محسوس ہوئی کہ چلو ایک حقیقت کو انہوں نے تسلیم تو کیا ! ورنہ تو کچھ روز پہلے رمضان پاک کے مہینے میں اسی ٹی وی چینل پر میں نے ایک صاحب کو قائدِاعظم ؒ کا مذاق اُڑاتے ہوئے سنا تھا جو کہہ رہے تھے کہ جب پاکستان بنا تو رمضان کا مہینہ تھا اور جب جمعہ کا دن آیا تو لیاقت علی نے جناح صاحب سے کہا کہ چلیے جمعہ کی نماز ایک ساتھ پڑھنے چلتے ہیں ،تو جناح صاحب نے جواب دیا کہ مجھے تو نماز پڑھنی نہیں آتی ، اس پر لیاقت علی نے کہا، کہ آپ میرے ساتھ کھڑے ہونا اور جیسے جیسے میں کروں آپ بھی میرے ساتھ کرتے جانا ،ہم نے اسلام کے نام پر یہ ملک حاصل کیا ہے اگر آپ نماز پڑھنے نہیں جائیں گے تو بہت بدنامی ہو گی۔

ایک متعصب بنگالی کی زبان سے یہ بات سن کر مجھے بُرا نہیں لگا کیونکہ بنگلہ دیش بننے سے پہلے ایسی ہی بے بنیاد باتیں کر کر کے وہاں کے محبِ وطن لوگوں کو گمراہ کیا گیا تھا جو سلسلہ ابھی تک جاری ہے جس میں اب پاکستان کا ساتھ دینے والوں کو جنگی جرائم میں ملوث کر کے بھاری سزائیں دینے پر مصنوعی تحقیقات اور جھوٹے گواہ پیدا کر کے ایک ٹریبونل جس کو انٹرنیشنل کہا جا رہا ہے اس کے ذریعے عمر رسیدہ لوگوں کو حیران اور پریشان کیا جا رہا ہے۔

بات ہو رہی تھی پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کے اتحاد کی تو قارئین کو شاید میرا وہ کالم یاد ہو جس میں ایک پروفیسر کا ذکر تھا کہ وہ بیچارہ مسلمانوں میں فرقوں سے پریشان ہو کر روزانہ فجر کی نماز ایک نئی مسجد میں پڑھنے جاتا اور وہاں اپنی پریشانی کے حل کے لیے نمازیوں سے سوال کرتا کہ مجھے کوئی ایسا عقیدہ بتائیں جس پر سب فرقے اکٹھے ہو جائیں، مگر کوئی تسلی بخش جواب نہ ملنے پر دوسرے روز وہ کسی اور مسجد میں جاکر اپنا سوال دہراتا ، ایک دن وہ مکی مسجد میں فجر کی نماز پڑھ کر حسب معمول اُٹھا اور پہلی قطار کے سامنے جا کر اپنا سوال دہرایا ، میں نے دیکھا کہ نمازی اُسے نظر انداز کرتے ہوئے آہستہ آہستہ ایک ایک کر کے جب جانے لگے تو وہ بیچارہ مایوس ہو کر اپنا جوتا اُٹھا کر جانے ہی والا تھا کہ ایک بزرگ نمازی جو ایک ریٹائر فوجی تھے ،انہوں نے آواز دے کر اُسے اپنے پاس بلاکر بٹھالیا، جن کی شخصیت اتنی پر وقار تھی کہ دیکھنے والا کچھ دیر کے لیے مسحور ہو جاتا ، گورا چٹا رنگ سفید لمبی داڑھی متناسب جسم جس پر کالے رنگ کا عربی چوغہاور سر پر سفید بڑا رومال پہنے رہتے، انہوں نے بھی پروفیسرکا سوال سنا تھا تھا لہذا جواب دینے کی بجائے انہوں نے الٹا سوال کرتے ہوئے کہا۔

کیوں بھائی آپ یہ سوال کیوں پوچھتے ہیں جبکہ ایسے سوالات تو غیر مسلم بھی طنز کے طور پر کرتے رہتے ہیں جن کے اپنے مذہب میں مسلمانوں سے زیادہ تفرقے ہیں ، اس پر پروفیسر نے تھوڑا گھبراتے ہوئے کہا، الحمدوللہ میں مسلمان ہوں اور پریشان اس لیے ہوں کہ ہر کوئی فرقہ چاہے وہ اہل سنت ہو یا دیوبندی یا جو بھی کسی مسلک سے جڑا ہوا ہے اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کی دلیلیں دیتا ہے سو کس کو جھوٹا کہیں اور کس کو سچا کچھ سمجھ میں نہیں آتا ؟

میں جو تھوڑی دور بیٹھا تھا اُٹھ کر اُن کے قریب جا بیٹھا کہ یہ سوال ہر مسلمان کے دل میں کبھی کبھی اُٹھتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے،ویسے تو اس کا ایک سیدھا سادھا جواب یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے چار امام ہیں ہیں جن کے عبادت کے طریقے چاہے تھوڑے بہت مختلف ہیں مگر بنیادی طور پر ایک ہی خدا اور ایک ہی رسول پر ایمان ہے اور مسلمانوں کو بھی چاروں اماموں کوسچا ماننے کی تلقین کی گئی ہے، مگر میں اس ریٹائرڈ فوجی بزرگ کی رائے بھی اس بارے میں سننا چاہتا تھا جنہوں نے پروفیسر پر ایک اور اچانک تابڑ توڑ وار کرتے ہوئے کہا، آپ لوگ کتنے بھائی ہو ؟ پروفیسر صاحب نے ذرا ہچکچاتے ہوئے کہا ،جی ہم لوگ چار بھائی ہیں ،بزرگ نے اُسی انداز میں پھر پوچھا کیا چاروں شادی شدہ ہو ؟ جواب ملا جی ہاں چاروں بال بچے دار ہیں ، تو کیا سب ایک ساتھ رہتے ہو ؟ جی ہاں مگر باپ دادا کی چھوڑی ہوئی کچھ زمین جائداد ہے جس پر جھگڑ ا چل رہا ہے ، اچھا تو اگر باہر سے کوئی تمہاری زمین پر قبضہ کرنے آجائے تو کیا کروگے ؟ پروفیسر نے عجیب نظروں سے بزرگ کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا ، تو چاروں مل کر اُس کا مقابلہ کریں گے اور اسے دھکے دے کر نکال دیں گے۔

بزرگ نے بڑے پُر اعتماد لہجے میں کہا ، اگر تم سمجھو تو یہی ہے تمہارے سوال کا جواب ہے کہ ہم لوگ آپس میں جتنے بھی اختلاف رکھتے ہوں مگرہمارا ایک خدا اور ایک رسول پر ایمان ہے اور جب بھی کوئی باہر سے ہمارے اوپر حملہ آور ہوگا تو ہم ایک جان ہو کر اُس کا مقابلہ کریں گے۔

آج پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کو ایک جگہ دیکھ کر مجھے اُس بزرگ کی بات یاد آ گئی کہ واقعی انہوں نے صحیح مثال دی تھی ۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمارے لیڈروں کو اسی طرح مل جل کراپنے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے بھی کوشش کرنی چایئے جس سے ہماری مثالیں دوسرے ملک دینے میں خوشی محسوس کریں۔

آمین ثم آمین۔
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 77134 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.