امریکہ ،ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دِکھانے کے اور۔۔۔۔۔۔۔

امریکہ نے ایک دفعہ پھر اپنی خصلت دکھائی ہے اور اپنی ناکامیوں کا الزام پاکستان کے سر دھرتے ہوئے بے شمار مطالبات بھی کر دئیے اور اپنی تمام تر کوتاہیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا۔ اس کا سب سے بڑا مطالبہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی ہے اور یہ مطالبہ بیک آواز کیا گیا ہے اگر چہ زیادہ اہم امریکی جائنٹ چیفس آف سٹاف مائیک مولن کا بیان ہے جس نے کابل میں امریکی سفارت خانے اور ہوٹل میں ہونے والے دھماکوں کا ذمہ دار آئی ایس آئی اور پاکستان کو قرار دیا ہے۔ کابل ایک جنگ زدہ ملک کا جنگ زدہ دارالحکومت ہے اور امریکہ جانتا بھی ہے کہ اُس نے افغانستان جیسے ملک پر غاصبانہ قبضہ جمایا ہوا ہے اور اِس بات کا بھی اِسے اِدراک ہے کہ افغان باشندے اپنے ملک پر قبضہ کرنے والے کو نہ کبھی معاف کرتے ہیں اور نہ ہی قبضہ طویل ہونے دیتے ہیں ،وہ اپنی غیرت کی خاطر جان سے گزر جاتے ہیں اور اس کی اس فطرت سے امریکہ واقف ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ہر افغان کرزئی نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود وہ اس جدوجہد کا سہرا پاکستان کے سر باندھ رہا ہے، جبکہ بات دراصل یہ ہے کہ وہ اپنی ”مفتوح وسیع و عریض سلطنتِ کابل“ میں بھی امن قائم رکھنے میں ناکام رہا ہے کیونکہ وہ امریکہ کے علاوہ پوری دنیا کی بد امنی کو اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے۔پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی کا امریکہ کا لا یعنی مطالبہ نیا نہیں اور وہ خود بھی مسلسل ڈرون حملوں میں مصروف ہے۔ کچھ عرصے سے اس مطالبے میں اضافہ کیا گیا اور اضافے کے ساتھ ہی پاکستان میں دہشت گرد کاروائیوں میں اضافہ ہوا۔پہلے کوئٹہ میں ڈی آئی جی ایف سی پھر کراچی میں ایس ایس پی سی آئی ڈی اورپھر نشتر آباد پشاور میں سی ڈیز کی ایک دکان پر خود کش حملہ کیا گیا۔ اس کے بعد پاکستان کے حالات کو مزید خراب ظاہر کرنے کے لیے کوئٹہ میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ایک اور تنازعہ شروع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ امریکہ کے لوگ شاید انسانیت پسند ہوں لیکن ان کی حکومت کا ایک ہی اصول ہے لڑاﺅ اور مارو اور عرصہ دراز سے وہ اسی اصول پر عمل پیرا ہے۔سمجھنے والی بات ہے کہ اگرملکوں کے درمیان باہمی تعلقات اگر برابری کی بنیاد پر ہوں تو نعمت ہوتے ہیں لیکن اگر یہی تعلقات حاکم اور محکوم یا حکم اور بجا آوری کی بنیاد پر ہوں تو عذاب بن جاتے ہیں اور کمزور ملک مزید خستہ حال اور مفلوک الحال ہوتے جاتے ہیں ، یہی حال پاک امریکہ تعلقات کا ہے۔ اس وقت امریکہ نے پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھ رکھا ہے اور ہتک پر ہتک اور مطالبے در مطالبوں میں مصروف ہے بلکہ پاکستان پر ہی کیا موقوف وہ دنیا بھرمیں دندناتا پھر رہا ہے لیکن اسلامی دنیا اور خاص کر پاکستان اس کاہدف ِ خاص ہیں۔ بش نے جب دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تو اسی وقت اس نے اسے صلیبی جنگ کہا، بعد کی تصحیح ان الفاظ کا مداوا نہیں کرسکتی تھی اور نہ عمل سے ایسا کرنے کی کوشش کی گئی۔انتہا پسندی اگر ہے تو سب سے زیادہ اسرئیل میں ہے بھارت میں بے شمار تنظیمیں مسلمانوں کے خلاف بر سرِپیکار ہیں۔۔۔ یورپ میں مسلمانوں کے مذہبی فرائض مثلاَ پردہ ہی کو لیجئے پر پابندیاں لگائی گئیں ۔۔۔ یہی مغربی میڈیا جو خود کو انتہائی غیر متعصب کہتا ہے انتہائی متعصب کردار ادا کرتا ہے، خود ہی سروے منعقد کرتا ہے اور خود ہی نتائج مرتب کرتا ہے اور پوری دنیا میں پھیلا دیتا ہے اور پھر ہم اسے اپنے ہر چینل سے دکھا دکھا کر اپنے عوام کے ذہن میں راسخ کر دیتے ہیں۔۔۔ دراصل مغربی میڈیا کا 95% حصہ یہودی اور خاص کر صیہو نیوں کے قبضے میں ہے یوں مغرب مسلمانوں سے کئی گناہ زیادہ بنیاد پرست ہے ۔ اس وقت پاکستان کو کچھ کڑوے گھونٹ پینے ہو نگے کیو نکہ پاکستان کی سا لمیت اور اس کا وجود امریکی خواہشات سے زیادہ اہم ہے۔ اس وقت یہ سمجھنا کہ ہم حالت جنگ میں نہیں ہیں بالکل غلط ہے سچ یہ ہے کہ ہم کئی محاذوں پر بر سر پیکار ہیں اور ہر محاذ کا سرا امریکہ سے ملتاہے بھارت اسرائیل اور نیٹو تو امریکی کارندے ہیں ہی اور پاکستان کے خلاف اس جنگ میں امریکہ کے ہی دست راست ہیں لیکن دوسری طرف اس کے جاسوس اور دہشت گرد بھی ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں یہ سوچنا کہ غیر ملکی این جی اوز کی نیندیں ہماری وجہ سے اڑی ہوئی ہیں اور وہ ہماری خدمت کے لیے ہی اس دنیا میں جی رہے ہیں ایک اور دھوکہ ہے انہی این جی اوز میں خدمتگاروں کے روپ میں ہمارے یہ دشمن ہمارے گھر میں بیٹھے اپنی حکومت کے لئے خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور ہم ان کے ممنون ہو رہے ہیں یہی لوگ بڑی آسانی سے ہمارے لوگوں کو خریدتے ہیں اور انہیں ہمارے خلاف ہی استعمال کر لیتے ہیں اور اِن لوگوں کی غربت امریکہ کے لیے ایسا کرنے میں آسانی مہیا کر دیتی ہے امریکہ کسی ایک محاذ پر ہم سے بر سر پیکار نہیں ۔ ایسے میں پاکستان کے پاس صرف ایک چارہ رہ جاتا ہے کہ وہ امریکہ پر واضح کر دے کہ اگر اس کے اوپر جنگ مسلط کی گئی تو پھر ایٹمی جنگ کو روکنا اس کے لیے نا ممکن ہو جائے گا کیونکہ صرف یہی ایک قوت ہے جس نے ابھی تک ہمیں دشمن کی کاری ضرب سے محفوظ رکھا ہوا ہے۔ساتھ ہی ساتھ حکومت پاکستان کو سیا سی جوڑ توڑ سے فرصت پا کر اپنی سفارتی جنگ پر بھی توجہ دینی چاہیے خاص کر اسلامی ملکوں کو یہ احساس دلانا چاہیے کہ پاکستان کی سلامتی مسلم امہ کی طاقت کی سلامتی ہے جتنا مضبوط کردار پاکستان نے عرب اسرائیل تنازعے میں ہمیشہ ادا کیا ہے ہم بھی اتنی ہی توقع رکھتے ہیں۔ بیرونی اقدامات کے ساتھ ساتھ اپنے اہم لوگوں کے رابطوں پر بھی نظر رکھنی چاہیے اور آئی ایس آئی اور فوج کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنانے والوں سے یہ ضرور پوچھنا چاہیے کہ اپنے اداروں کے خلاف یہ جنگ لڑتے ہوئے بھارتی سفارت خانے میں حاضری چہ معنی دارد کیا وہا ںفیڈ ہونے کے لیے جایا جاتا ہے یافیڈ بیک دینے کے لیے۔

ہمیں ایک چو مکھی لڑائی لڑنی ہے اور زور و شور سے لڑنی ہے کیونکہ یہ ہماری بقا کی جنگ ہے اور بقا اور فنا کی اس جنگ میں اپنے ذاتی مفاد کو نہ صرف پیچھے رکھ کر بلکہ دور پھینک کر ہمیں پھر سے ایک قوم بننا ہے کیونکہ یہی آخری چارہ کار ہے جو ہمیں کامیابی اور بقا کی طرف لے جا سکتی ہے ہم نے عراق ، افغانستان اور پاکستان کا فرق خود بھی سمجھنا ہے اور امریکہ کو بھی سمجھانا ہے۔غزوہ تبوک کی طرح بغیر لڑے یا بدر کی طرح لڑ کر اپنے قوت ایمانی اور غرور ملی کو ثابت کرنے کا اس سے بڑا موقع دوسرا نہیں ہوگا۔

اگر آپ برانہ مانے تو میری یہ بات ٹھنڈے دل سے تسلیم کرلیں کہ آج ہم مسلمانوں کی اصل کمزروی زر، زمین اور زن ہوکررہ گئی ہے جِسے موجودہ دور میں دہشت گردِ اعظم امریکا سمیت آج اِس جیسے اور بہت سے اسلام دشمن عناصر خوب سمجھتے ہیں اور انہوں نے ہر موقعہ پر مسلمانوں کی کمزوری کی اِس رگ پر ہاتھ رکھ کر اِنہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا اور کہیں کہیں تو اِنہوں نے مسلمانوں کو اِس لالچ کے علاوہ بھی ڈرا دھمکا( جیسے آ ج امریکا پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے )کر اپنے ان تمام عزائم کی تکمیل کرنی ضروری سمجھی جنہیں یہ مسلمانوں کواپنے ساتھ ملائے بغیرنہیں کرسکتے تھے اور دوسری طرف مسلمان جو اپنی خصلت اور جبلت کے ہاتھوں مجبورہوئے اوراِنہوں اپنی اسلامی روایات کا خیال کئے بغیر ہی اپنی کم عقلی اور نہ سمجھی کے باعث ہمیشہ اغیار کی چکنی چپڑی باتوں اور ان کی چاپلوسی کے سحر میں گرفتار ہونے کے بعدوہ سب کچھ کرنے کا تہیہ کرلیاجس کی وجہ سے امریکااور یہودونصاری کے عزائم کی تکمیل یقینی ہوئی۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ امریکا کی ہمیشہ سے ہی یہ خصلت رہی ہے کہ وہ اپناکام نکل جانے کے بعد اپنے اہم ترین دوست کو بھی ٹشوپیپر جتنی بھی حیثیت نہیں دیتاہے اور اِن سے کام لے چکنے کے بعد اپنے ہاتھ پونچھ کر یہ ٹشوپیپر کو پھینک دیتاہے یکدم اسی طرح یہ اپنے دوستوں کے ساتھ بھی کرتاہے اور آج جنہوں نے امریکا کی اِس فطرت کو سمجھ لیاہے وہ امریکا سے ہاتھ ملاناتو درکنار یہ اِس کی جانب نظریں اٹھانابھی اپنی تباہی کا سامان سمجھتے ہیں اور یقین جانیئے کہ امریکا آج بھی اپنی خصلت کے ہاتھوں اپنی اِس روش پر مجبور ہے ۔ مگر پھر بھی اِن واقعات کے بعد سے مسلسل امریکی انتظامیہ اور امریکی افواج سمیت امریکی انٹیلی جنس کے سربراہوں کی جانب سے ایسے من گھڑت اور بے بنیاد الزامات پاکستان پر لگائے جارہے ہیں کہ جس سے یہ اندازہ لگاناکوئی مشکل نہیں رہاہے کہ امریکا اِ س جنگ میں اپنی ناکامی اور شکست کا ساراملبہ پاکستان پر ڈال کر اپنی عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے راہیں تلاش کررہاہے اور اپنے عوام پر یہ بارور کراناچاہتاہے ہم تو جنگ جیت جاتے یاجیت رہے تھے مگرپاکستان جو ہماری اِس جنگ میں فرنٹ لائن تھا اِس نے ہمیں دھوکے میں رکھاتھاکیوں کہ اِس کے دہشت گردوں سے رابطے تھے۔جیساکہ امریکی حکام اور ماہرین کا یہ کہناہے کہامریکاکو پاکستان کی اب تک دی جانے والی قربانیوں کو دہشت گردوں سے رابطے جیسے الزامات لگاکر مایوس نہیں کرناچاہئے امریکا جو ایک دہائی سے افغانستان میں برسرپیگار ہے اِسے چاہئے کہ جس حقانی نیٹ ورک کی یہ پاکستان میں موجودگی کی بات کررہاہے اِسے پہلے خود افغانستان میں تلاش کرناچاہئے یہ کیسے ممکن ہوسکتاہے….؟ کہ حقانی نیٹ ورک کے دہشت گردہزاروں میل کا سفر طے کرکے افغانستان کے شہر کابل میں آسانی سے داخل ہوکر امریکی سفارخانے اور نیٹوافواج پر حملے کرکے چلے جائیں اور لاکھوں امریکی ، نیٹوافواج اور خود افغانستان کی مسلح افواج کی موجودگی میں ایساہوجائے…..؟؟ یہ نہ ممکن ہے ایسانہیں ہوسکتاہے۔۔۔ اور اِس کے ساتھ ہی یہ بھی کہ اِس جنگ میں افغانستان ، امریکااور پاکستان کے علاوہ اور کون سی طاقت کارفرماہے جو افغانستان میں اپنی دلچسپی تو ظاہر کررہی ہے مگر کھل کر سامنے نہیں آرہی ہے جیسے بھارت جو دہشت گردوں کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں شامل تو نہیں ہے مگر افغانستان میں اپنے قدم جمانے کے لئے خرگوش کی طرح اپنی چل چلتاہوا اِس سے متعلق ہر امور میں گھس تو ضرور رہاہے اور ممکن ہے کہ پاکستان کو امریکی اتحاد یوں کی نظر میں گرانے کے لئے بھارت ہی کچھ ایسی کارروائیاں کروارہاہوجس سے پاکستان کا امریکا کی نظر میں امیج خراب ہواور امریکی پاکستان کی دوستی پر شک کریں۔ بہرحال! امریکا کی جانب سے پاکستان پر حد سے زیادہ کی جانے والی بیجاالزام تراشیوں کے حوالے سے اب یہ ضرور دیکھاجارہاہے کہ پاک امریکا تعلقات ایسے انتہائی نازک موڑ پر آگئے ہیں کہ جہاں اب دبنے اور امریکی حکامات ماننے سے کام نہیں چلے گا بلکہ اب تو ضرورت اِس امرکی ہے کہ امریکا کی جانب سے بیجااور من گھڑت کی جانے والی طرح طرح کی الزام تراشیوں کے بدلے میں اِس سے دوٹوک الفاظ میں اِس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جائے ۔۔۔ اگرامریکانے ریڈلائن عبور کی تو ہمارے پاس بھی آپشنز کھلے ہیں ہم بھی تمام جھوٹے الزامات کا جواب مکمل طور پر حق و سچ کے ساتھ دیں گے ہماری مشکلات بھی خود امریکا کی ہی پیداکردہ ہیں انہوں نے یہ بھی کہاہے کہ پاکستان کی اپنی نہیں ،تعلقات پر بات ہوگی تو یہ بھی بات ہوگی کہ ماضی میں کس کے تعلقات کس سے تھے امریکا اپنی ناکامیوں پر پاکستان کو قربانی کا بکرانہ بنائے اور اِس کے ساتھ انہوں نے انتہائی صبروتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ پاکستان بیانات اور الزامات کے جواب میں بیانات اور تردیدی موقف کی ڈپلومیسی نہیں چاہتابلکہ مسائل اور معاملات کا مذاکرات کے ذریعے حل چاہتاہے اِن کا کہناتھا کہ مگر اِس کے لئے تالی دونوں ہاتھوں سے بجنی چاہئے۔بلاشبہ پاکستان نے ہمیشہ مصالحت کی پالیسی کو اپنایاہے اور آج بھی جب کہ امریکا پاکستان پر دہشت گردوں سے رابطوں کا الزام لگا کر افغانستان میں اپنی ہاری ہوئی جنگ کا ساراملبہ پاکستان کے سر ڈال کر اپنی عوام اوردنیاکے سامنے پاک و صاف ہوناچاہتاہے تو اِس کے لئے ایساکرنا ناممکن ہے کیوں کہ امریکا اپنی ناکامی کا ساراالزام پاکستان کے سر ڈال اپنی عوام کے سامنے کبھی سرخرو نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھی اِن امریکی الزامات کی نفی کرتے ہوئے واضح اور دوٹوک الفاظ میں کہاہے کہ حقانی نیٹ ورک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے ایڈمرل مائیک مولن کے الزامات من گھڑت اور حقائق کے منافی ہیں اور امریکا پاکستان پر کسی قسم کی الزام تراشی سے پہلے افغانستان میں اپنی اب تک کی کارکردگی کا خود جائزہ لے کے اِس نے افغانستان میں کیا ، کیا ہے۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اِس سارے منظر اور پس منظر میں یہ بات واضح طور پر سامنے آچکی ہے کہ امریکا جس میں اب خود سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت یکدم ختم ہوچکی ہے اور اِسی کے ساتھ ہی یہ بھی کہ اب وہ خود سے کچھ کرنے کے قابل نہیں رہاہے وہ اب بھارت یا کسی اور کی زبان بول کر پاکستان پر الزام تراشیوں کا جو بازار گرم کئے ہوئے ہے اِس سے امریکا بھارت کو تو خوش کرلے گامگر پاکستان جیسے اپنے ایک معصوم اور مخلص دوست سے ضرور محروم ہوجائے گا جس کے تعاون سے یہ بار بار جنوبی ایشیامیں اپنے قدم جمانے کا موقع حاصل کرچکاہے۔بہرکیف! بھارتی چکر میں پھنسنے کے بعد دیکھتے ہیں کہ سات سمندر پار سے آئے ہوئے یہ امریکا بہادرکو بھارت سے کیا ملتا ہے؟؟؟ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ سانحہ نائن الیون کے بعد امریکیوں پر موت کا ایساخوف طاری تھا کہ اِنہیں اپنی بقا اور سالمیت کا ایک رتی برابر بھی یقین نہیں تھاکہ اِن کا جاہ وجلال باقی بھی رہے گایایہ چند، دنوں ، ہفتوں ، مہینوں اور سالوں میں مٹ جائے گا یہاں ہم بیان کرتے چلیں کہ 9/11کے روز کئی گھنٹوں تک امریکیوں کو دیکھ کر ایسا محسوس اور گمان ہوتاتھا کہ جیسے دنوں ، ہفتوں اور مہینوں کی کیابات ہے اب یہ چندگھنٹے یاایک ، دو دن بھی اِس روئے زمین پر زندہ رہ پائیں گے یا نہیں مگر جیسے جیسے ٹریڈ سینٹرز کی تباہ ہونے والی عمارتوں میں لگی آگ اور گرتی ہوئی اِن بلند وبالا عمارتوں کی خاک سے اٹھنے والی دھول کم ہوتی گئی ویسے ویسے اِن ہواس باختہ ا مریکیوں کے دل و دماغ اپنے اپنے ٹھکانوں اور اِن کی کبھی تیزی اور کبھی رکتی سانسیں بھی اپنی اپنی جگہہ پر آنے لگیں اور یوں جیسے ہی اس وقت کے ڈرسہمے اور انتہائی خوفزدہ امریکی صدر مسٹر بش کے شاطر اور اعیار دماغ نے بڑی تیزی سے کام کرنا شروع کیا تو اِس نے اپنے اردگرد جمع پریشان حال امریکی چمچوں کو ہوش میں لانے کا کام کیا اور اِس کے بعد بش نے اپنی انتظامیہ کے حواریوں کو اپناہم خیال بنانے کے بعد سب سے پہلے اِس نے جوکام کیاوہ یہ تھاکہ اِس نے ترت سانحہ نائن الیون کی ذمہ داری اسامہ بن لادن اور اِس کے جنگجووں کے کاندھوں پر ڈالی دی تھی۔

پھر جب اِس سے بھی کام نہ بناتو امریکی انتظامیہ اور امریکی صدر بش نے یہ فیصلہ کیاکہ افغانستان روس جنگ میں روس جیسی سپرطاقت کو شکست دینے والے اسامہ بن لادن جیسے طاقتورجنگجوسے مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان کو فوری طور پر ڈرادھمکایااِسے امداد اور قرضوں کی لالچ دے کر اِس سے اپنی مدد کے لئے کہا۔۔ جنگ لڑنے کی حامی بھری تو ہم تم کو اِس جنگ میں فرنٹ لائن کا رول اداکرنے پر اتنا کچھ دیں گے کے جس کا تم سوچ بھی نہیں سکوگے اور اِس کے ساتھ ہی امریکی صدر نے یہ بھی کہہ دیاکہ یہ جنگ جو امریکا شروع کرناچاہ رہاہے یہ صلیبی جنگ ہے جس میں امریکا دنیاکا نقشہ بدل کررکھ دے گا اور بالآخر فاتح امریکا ہی ہوگاجس کے بعد امریکی دباؤ میں آئے ہوئے پاکستانی صدر پرویزمشروف نے بغیر چوں و چرا کئے امریکی صدرپش کو اِس کا ساتھ دینے کی حامی بھری اور ہر وہ کچھ کرنے کا وعدہ کیا جو امریکا چاہتاتھا۔تب ہی سے پاکستان امریکا کے لئے کررہاہے جس کا کوئی حساب ہی نہیں ہے۔یہاں یہ امرانتہائی افسوسناک ہے کہ سانحہ نائن الیون کو گزرے دس سال کا ایک بڑاعرصہ گزرچکاہے مگر افغانستان میں گھسنے کے بعد دہشت گردوں کے خلاف لڑی جانے والی اِس امریکی جنگ میں امریکا سے کہیں بلکہ کئی گنازیادہ پاکستان کا مالی، سیاسی، اقتصادی، اخلاقی ومذہبی اور جانی نقصان ہواہے جبکہ یہ حقیقت ہے کہ اِس جنگ کا ایک فیصد بھی امریکا کا نقصان نہیں ہوا ہے مگر اِس کے باوجود بھی امریکااِس بات پر مرغی کی ایک ٹانگ جیسی ضد پر قائم ہے اور ہربار ڈومور، ڈومور کی رٹ لگائے ہوئے ہے اور ہم سے توقع رکھتاہے کہ ہم اِس کی اِس ضد پر اپناسب کچھ قربان کرکے بھی اِ س کی ڈومور کے حکم کی تکمیل کرتے ہوئے اِس کی جنگ میں غرق ہوتے رہیں۔

یہ اپنی زبردستی کی چھیڑی جانے والی اِس جنگ میں اپناایک بھی فوجی ہلاک کئے بغیراپنی فتح کا جھنڈا گاڑنے کا خواب دیکھ رہاہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اِس موقع پر امریکا کو یہ ضرور سوچناچاہئے کہ وہ اپنی شکت تسلیم کرے اور پاکستان پر طرح طرح کی منفی اور سراسر جھوٹ پر مبنی الزام تراشیاں جاری رکھنے جیسے عمل سے نہ صرف اجتناب برتے بلکہ اپنے امریکی عوام کو بھی اِس حق اور سچ سے ضرور آگاہ کرئے کے ہم کو افغان جنگ میں شکست ہوئی ہے اور ہم اِ س جنگ میں اپنی سبکی کے باعث پاکستان کی پیش کی جانے والی قربانیوں پر بھی اِس کے دہشت گردوں سے رابطے جیسے من گھڑت اور جھوٹے الزامات لگا کر اِس کے سارے کئے دھرے پر پانی پھیرتے رہے تاکہ اِس طرح یہ ہمارے دباؤ میں رہے اور ہماری ہاری ہوئی جنگ کو فتح میں تبدیل کرکے اوبامہ کو امریکا میں سرخروکردے اور اوبامہ اگلے انتخابات میں عوام کے سامنے جب پیش ہوں تو وہ یہ بتاسکیں کہ انہوں نے سابق صدربش دہشت گردوں کے خلاف شروع کی گئی جنگ کو فتح کی صورت میں پایہ تکمیل تک پہنچادیا ہے۔

ویسے ہمیں نہیں لگتاہے کہ امریکا اِس میں کامیاب ہوپائے گا اور اپنے عوام کو یہ سمجھا پائے گا کہ وہ جنگ جیت گیاہے اور اِس کے علاوہ یہ بھی کہ پاک امریکا تعلقات کسی فیصلہ کن موڑ پر آگئے ہیں ہمیں اِس صورت حال میں اِس بات کا بھی یقین ہے کہ کوئی کچھ بھی کہہ لے.؟ یا کچھ بھی کرڈالے..؟ امریکا ،پاکستان کو اور نہ ہی پاکستان، امریکا کو چھوڑے گا….آج نہیں تو کل،کل نہیں تو برسوں ، ہفتوں اور مہینوں میں یہ بات ضرور کھل کر سامنے آجائے گی کہ امریکا نے پاکستان پر جتنے بھی من گھڑت اور منفی جھوٹے جھوٹے الزامات لگائے تھے اِس کے پیچھے بھارت ملوث تھا ۔
khalid shahzad farooqi
About the Author: khalid shahzad farooqi Read More Articles by khalid shahzad farooqi: 44 Articles with 45269 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.