خود کلامی کی عادت نہیں مجھے

کچھ پڑھنے اور لکھنے کے لئے وقت نکالنا کبھی اتنا مشکل نہ تھا جتنا کہ بیتے کچھ مہینوں میں رہا،تین مہینے ہوتے ہیں کہ کوئی کتاب پڑھی ہو، رواں ماہ رمضان میں مطالعہ قرآن کا حال بھی قابل رحم ہے، کئی تفاسیرمطالعہ گاہ میں دھری ہیں لیکن مجال ہے جو ابتدائیہ سے آگے بڑھ سکا ہوں۔ نہیں معلوم کہ ان ساری کم بختیوں کے آگے اس بندہ مزدور کے تلخ اوقات ہیں یا کوئی دماغی خلش یا کوئی نفسیاتی مسئلہ، آخر پیسہ کمانے اور صرف پیسہ کمانے کے لئے انسان اپنےمقصد اور اپنے آپ کو پامال کردے، مگراللہ جانتا ہے کہ کبھی بھی پیسہ کمانا متمع نظر نہ رہا، پھر ایسا کیوں۔بہرحال جب خود کو ان ماددی مصروفیات سے نکال کر ورق گردانی شروع کرتا ہوں تو کچھ پڑھا نہیں جاتا، اور کچھ لکھنے بیٹھتا ہوں تو کچھ لکھا نہیں جاتا، بھلا کون جانے کہ ایک لکھاری کے لئے لکھنا کیا ہے! مگر جب اس کے قلم الفاظ نہ اگلیں، جب اسکا دماغ منتشر خیالات کو سمیٹ نہ سکے اور وہ کورے کاغذ پر لکیریں بناتا رہ جائے، تو گویا ایک کفیت ایسی ہوتی ہے جیسے کوئی نو ماہ کی حاملہ شدتِ درد سے کراہ رہی ہو اور بچہ ہو کہ جن ہی نہ پاتا ہو ۔

سمندر سے میری دوستی بہت پرانی ہے جب کچھ سمجھ نہیں آتا تو منہ اٹھا کر اس طرف دوڑ پڑتا ہوں،کبھی کبھی اسکے شور میں کھو جانے کا دل چاہتا ہے اور کبھی کبھی کچھ شرارت سی دل میں اٹھتی ہے۔ زمانہ شباب میں شرارت کا سوجھنا کچھ عجب نہیں، ہاں جوانی جب سر پر کھڑی ہوتو انسان کے لئے اس سے مقابلہ کرنا مشکل ہوتا ہے، لونڈوں لپاڑوں کے ساتھ گھومنا، مہنگے کھانے کھانا اور پانیوں پر چھیٹے اڑانا، لیکن صرف یہی نہیں کبھی کبھی شریف لڑکے بھی لڑکیوں کے بارے میں سوچ لیتے ہیں۔اور کیوں نہیں میٹرک سے لے کر یونیورسٹی تک مخلوط تعلیمی ماحول میں درجنوں دوشیزاوں سے واسطہ پڑا، کچھ عمر میں برابر اور اکثر ایک دو برس اوپر، ایک بڑا وقت ان ہم عمر اور سنجیدہ لڑکیوں کے ساتھ گزرا، کچھ دل کو چیرتے ہوئے نکل گئیں اور کچھ ایسے پیچھے پڑیں کہ جان چھڑانا مشکل رہا۔ اب زندگی کی سلور جوبلی سامنے ہیں اور اماں جی ہیں کہ فرسٹ ائر اور سیکنڈ ائر کی بچیاں دکھاتی پھرتی ہیں، جن سے چاچو، ماموں اور بھائی سنتے وقت گزرا۔

کسی سیانے کا کہنا ہے کہ اٹھارہ سے اٹھائیس سال، پورے دس سال ہوتے ہیں کہ جیسے ایک آندھی آئے اور گزر جائے، ہر چیز اپنی پوری انتہا پر، اس عمر میں جو کام کرلیا سو کر لیا، جس ڈگر پر لگ گئے سو لگ گئے، پھر تیس سے پچاس سال زندگی میں کچھ ٹھراؤ آتا ہے اور بڑھاپا کہ ایک ایک پل صدیوں کی طرح ٹھرا ہوا۔جوانی سے یاد آیا کہ میں کب جوان ہوئے کچھ پتہ ہی نہ چلا، میٹرک انٹر ، بی کام ، ایم بی اے اور ایم اے مسلسل پڑھتے ہوئے اکیس سال گزر گئے، تین سال کی شیر خواری میں ابا کی انگلی پکڑ کر اسکول گیا اور اب کہیں جاکر مادر علمی سےفارغ ہوا گویا پیچھے موڑ کر دیکھتا ہوں تو کوئی دیوانے کا خواب معلوم ہوتا ہے۔

اکیس سال میں اگر پرائمری اور مڈل کے دس سال نکال دوں تو ٹین ایجز یعنی نوجوانی کا دور سامنے آتا ہے، یہی دور شاید زندگی کا حسین ترین دور کہا جاسکتا ہے، زندگی کی رنگینیاں ، فرصت کے شب و روز، یاروں کی یاری اور گلی محلے کی کرکٹ۔یہی وہ زمانہ ہوتا ہے جب پہلی بار جنس مخالف میں ایک کشش محسوس ہوتی ہے، سیکس جسکے بارے میں پہلی باقائدہ جانکاری آٹھویں یا نویں جماعت کے دور میں ہوتی ہے اور پھر تجسس اور تجسس کی انتہا۔صرف یہی نہیں اور جس طرف انسان لگ جائے، مذہب و عبادت، سیاست یا من موجی۔ میں نے ان تمام مشاغل میں مذہب پر قناعت کی، اپنے ارد گرد جو پاپولر انقلابی مذہب دیکھا اسکو اختیار کرلیا، اسکا فائدہ یہ ہوا کہ ابتدائے عمر سے دین کے کچھ ایسے بنیادی اجزا معمولات میں آگئےجن کی باقائدگی بڑھاپے میں بھی بڑی گراں گزرتی ہے اور کچھ بنیادی دینی اصول ذہن میں راسخ ہوگئے۔ البتہ والد گرامی سے مطالعہ کی عادت لگی جس نے مجھے ہمیشہ ارتقا ئی مراحل میں رکھا اور دین کے پاپولر ورژن سے رئیل ورژن کی طرف جانے میں میری رہنمائی کی۔

بعض لوگ کہتے میں خود پسند ہوں، میرے مطابق ہر انسان ہی خود پسند ہوتا ہے اور اگر نہیں ہوتا تو اسے ہونا چاہئے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ میرا مسئلہ میری “میں” ہے اور میں کہتا ہوں کہ “میں” اگر “میں” سے شروع ہوکر “میں” پر ختم نہ ہوجائے تو ایسی “میں” سب میں ہونی چاہئے۔ اوف میں بھی کتنا عجیب ہوں ،ادھر ادھر کی خودکلامی لکھتے لکھتے اپنی پوری سوانح حیات لکھنے لگا، بھلا کون جانےکہ ایک لکھاری کے لئے لکھنا کیا ہے! مگر جب اس کے قلم الفاظ نہ اگلیں، جب اسکا دماغ منتشر خیالات کو سمیٹ نہ سکے اور وہ کورے کاغذ پر لکیریں بناتا رہ جائے، تو گویا ایک کفیت ایسی ہوتی ہے جیسے کوئی نو ماہ کی حاملہ شدتِ درد سے کرارہی ہو اور بچہ ہو کہ جن ہی نہ پاتا ہو ۔
Kashif Naseer
About the Author: Kashif Naseer Read More Articles by Kashif Naseer: 13 Articles with 14379 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.