امن٬ دکانداری اور ہمارا تھائی لینڈ میں ٹریننگ کیلئے منتخب ہونا

کسی زمانے کے صوبہ سرحد اور موجودہ دور کی صوبہ خیبر پختونخواہ کے حالات ملک کے دوسرے حصوں کے مقابلے میں زیادہ خراب ہے جس کی وجہ افغانستان کا سرحدی علاقہ ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی وابستگی اور افغان مہاجرین کی آبادکاری بھی ہے میں اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا -بحیثیت صحافی ٹی وی سے وابستگی کے بعد زیادہ تر میں نے دھماکوں اور دہشت گردی سے متعلق واقعات کی کوریج کی ہے اور اسی مقصد کیلئے صوبے کے مختلف علاقوں میں بھی گیا 2009 ء کا سال اس حوالے سے انتہائی ابتر رہا کہ ہفتے یا دو ہفتے بعد لازماً ایک دھماکہ ہوا کرتا تھا جس کی کوریج کے دوران جب میں معصوم شہریوں کو دھماکوں میں متاثر ہوا دیکھتا تھا تو میری وہ حالت ہوتی کہ بیان سے باہر ہے جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہوتا تو میں گھر جا کر سب کو کہہ دیتا کہ ایک گھنٹے کیلئے کوئی مجھ سے بات نہ کرے کیونکہ جوواقعات میں دن میں دیکھا کرتا وہی میرے ذہن میں ہوتے اور ان چیزوں کو بھلا دینا بہت مشکل ہوا کرتا تھا -

ان حالات میں بہت سارے لوگوں نے امن کے نام پر ادارے بنالئے اور امن کے نام پر بہت سارے فنڈز ان کو ملے ان فنڈز سے لوگوں نے بڑی بڑی کوٹھیاں بنا لی لیکن خیبر پختونخواہ کے لوگ امن کے متلاشی رہے اور امن لانے والے امن کیلئے صرف بیانات جاری کرتے رہے - حالات اب بھی وہی ہے لیکن کچھ بہتری آئی ہے اوردعا ہے کہ ہمارے ملک کی حالت مزید بہتر ہو-

جن حالات سے لوگ امن کے نام پر ادارے بنا رہے تھے انہی حالات میں امن کے حوالے سے میں نے انٹرنیٹ پر سرچنگ شروع کردی تھی تاکہ صورتحال کا اندازہ ہو ایسے میں تھائی لینڈ کے ایک ادارے نے صحافیوں کیلئے امن انقلاب کے نام سے ایک ٹریننگ دیکھی جس کیلئے میں نے درخواست بھیجی اور اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ پاکستان سے مجھے منتخب کرلیا گیا یہ ٹریننگ تھائی لینڈ کے شہر بنکاک اور چنگ مائی میں ہونا تھی جو آرگنائزر تھے ان کا یہ کہنا تھا کہ آپ کو ٹکٹ بھی ہم دینگے اور رہائش کا بندوبست بھی ہم کرینگے -

ان حالات میں دل نے کہا کہ یہی تو موقع ہے کہ باہر نکل کر سیر کرنے کا سو میں نے بسم اللہ کہہ کر ہاں کردی اور پاسپورٹ کی نقول بھجوا دی -اس وقت میں نے سوچا ہی نہیں تھا کہ میرے پاسپورٹ کا دورانیہ ختم ہورہا ہے -جب تھائی لینڈ سے مکمل طور پر اوکے رپورٹ آئی اور میں نے پاسپورٹ دیکھی تواس پر دورانیہ ختم ہونے والا تھا - ایسے میں اپنے ایک دوست جو وکیل بھی ہے کیساتھ رابطہ کیا اور پاسپورٹ کی تجدید کیلئے درخواست دیدی - ہمارے اپنے ملک میں کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنانا تو جیسے بڑا جرم ہے یہ شکر ہے کہ وہاں پر چھوٹے سے قد کے ایک بہت بڑے آفیسر جو فرض شناس اور ایماندار تھے٬ کے ذریعے سے پاسپورٹ کی تجدید کا سلسلہ شروع ہوا ورنہ تو پاسپورٹ آفس میں حال یہ تھا کہ حیات آباد میں واقع بلڈنگ پر پرانا پھٹا جھنڈا تھا جو کہ اب بھی موجود ہے اور باہر جانے والے خواہشمند افراد کی ایک لائن لگی ہوئی تھی جو کبھی ایجنٹوں کے چکر میں پڑے دکھائی دیتے تھے اور کبھی قطاروں میں کھڑے ہو کر تصدیق کے عمل سے گزررہے تھے -یہاں وہ حال ہوتا ہے کہ دیکھنے اور محسوس ہی کیا جاسکتا ہے بس اتنا کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالٰی کسی غریب اور ناخوانداہ شخص کو پاسپورٹ دفتر میں کام کرنے والے قصائیوں سے بچائے جو کہ الٹی چھری سے گردن کی سائیڈ سے لوگوں کو ذبح کرتے ہیں اور لوگ مجبوراً اپنا جائز کام نکالنے کیلئے ذبح ہونا پسندکرتے ہیں -ویسے قصائی تو میرے نانا بھی تھے اللہ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے ان کی زندگی میں میرے صرف ایک ماموں ہی اس شعبے سے وابستہ ہوئے باقی تو بینک ملازمت اور تجارت کرتے رہے نانا کی دکان پر میں بھی کسی زمانے میں ان کے ساتھ بیٹھ جایا کرتا تھا ان کی چھری کی کاٹ میں نے دیکھی تھی لیکن پاسپورٹ دفتر میں جو چھری اہلکاروں اور ان کے ایجنٹوں کے پاس ہوتی ہے ایسی صفائی تو میرے نانا کی چھری میں بھی نہیں تھی -

پاسپورٹ تو بن گیا انہی دنوں میں متعلقہ ادارے نے مجھے تھائی لینڈ سے لیٹر بھی بھجوا دیا کہ ویزے کیلئے اپلائی کرو گے تو یہ سپورٹنگ کاغذات میں شمار ہوگا - بس اسی کے بعد دوستوں سے قرضے لینا شروع کردئیے کہ بینک اکائونٹ میں کچھ رکھوانا ہے اور پھر سفارتخانے کو دکھانا ہے کہ ہم آ پ کی ملک کی سیر کرنے جارہے ہیں - ایسے میں ایک صحافی دوست جو کچھ عرصہ قبل تھائی لینڈ سے ہو کر آئے تھے ان سے مشورہ کیا انہوں نے ہدایت کی کہ بینک میں زیادہ مالیت کے پیسے دکھانا ضروری نہیں بلکہ ایسا کرو کہ ایک ہفتے میں دس ہزار نکال دو اور پھر اگلے بیس ہزار جمع کروا دو - اس کیلئے تو آسان تھا کیونکہ موصوف تین اداروں کیساتھ کام کررہے تھے لیکن میرے جیسے کیلئے بہت مشکل کیونکہ جتنی تنخواہ ملتی تھی اتنے تو میرے گھر کے اخراجات تھے لیکن پھر بھی کسی حد تک اپنے آپ کو اسلام آباد میں تھائی لینڈ کے سفارتخانے میں ویزے کیلئے اپلائی کرنے کیلئے تیار کرلیا-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 589 Articles with 422423 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More