دھوکہ تبھی ہوتا ہے جب اپنی نیت میں بھی کھوٹ ہو۔“

بیچارا اَن پڑھ تھا۔مستری کے ساتھ کام یعنی مزدوری کرتے اُسے ابھی صرف 15 دن ہی ہوئے تھے چنائی کا کام جاری تھا۔ وہ ایک صبح کام پر آیا اور مالک نے کہا یار آپکے استاد کا فون آیا ہے اُسے کوٸی ایمرجنسی بن گئی ہے۔آپ بھی آج چھٹی کرو۔
دیہاڑی ٹوٹنے کا خوف اپنی جگہ لیکن شوق نے انگڑائی لی۔
کہنے لگا صاحب میں مستری کا کام کروں گا مجھے مزدوری مزدور والی ہی دے دیجئے گا۔
تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعد مالک راضی ہوگیا اور اُس نے اینٹوں کی چُنائی شروع کردی۔
ہاتھ کو ایڈجسٹ ہوتے کوئی دو گھنٹے لگے۔
شام تک استاد کے برابر کام کر لیا اور صفائی کا بھی خاص خیال رکھا۔
صاحب نے خوش ہوکر اُسے کچھ رقم ذیادہ دے دی۔
اگلے دِن استاد آکر حیران ہوا کہ اُسکےمزدور نے اتنا اچھا کام کیا اُس نے بھی دو سو روپیہ انعام دیا اور کہا آج کے بعد تم میرے ساتھ مستری ہوگے اور تمھیں اسی مکان کی تکمیل تک سب کچھ سکھا دوں گا۔
4 ماہ میں وہ کافی حد تک کام سیکھ چکا تھا۔
لیکن اُس کی ایک عادت تھی کہ ہر ہفتے کچھ پھل یا تحفہ لیکر استاد کے گھر جاتا اور وہاں دونوں اکٹھے گپ شپ کرتے اور چائے پیتے۔
ایک دن اُس نے استاد سے کہا کہ استاد جی روڈ پر فلاں جگہ پلازہ بننے لگا ہے ابھی اُس کا مختلف ٹھیکیداروں سے ریٹ چل رہا ہے۔ 400 کم از کم ریٹ ملا ہے مالک کو۔
ہم 350 میں پکڑ لیں۔
یار جیسے تم بہتر سمجھو ۔۔۔۔۔کر لو فاٸینل اگر ملتا ہے تو۔۔۔۔۔ پر لیبر اور مشینری ذیادہ چاہئے ہوگی۔
ہو جائے گا استاد جی۔
15 ماہ میں پلازہ مکمل کیا۔اور 200 لاکھ کی بچت کے ساتھ ساتھ دو اور پلازوں کے ٹھیکے پکڑ لیئے۔
صرف 44 سال بعد موصوف نے استاد کے نام سے کنسٹرکشن کمپنی بنالی اور استاد اور وہ اب ذیادہ دفتر میں بیٹھ کر کام کرنے لگے۔ایک بندہ دفتر میں ڈیزاٸنرز اور میٹیریل کی فراہمی دیکھتا تو دوسرا موقعوں پر کام کا جائزہ لیتا۔
اسطرح وہ بندہ جس نے مزدوری سے کام شروع کیا اور وہ مستری جس نے اپنے شاگرد پر اعتماد کیا کروڑ پتی بن گئے۔اپنے نیچے کئی پڑھےلکھے لوگوں کیلئے اچھے روزگار اور ملازمت کا باعث بھی بنے۔
ایسی ایک نہی سینکڑوں مثالیں ہمیں اپنے اردگرد نظر آتی ہیں۔اِس ترقی میں کیا کیا شامل تھا:

سب سے پہلےخوداعتمادی:
اگر پہلے دن مزدور خوداعتمادی سے اینٹوں کی چنائی سے ڈرتا تو ہمیشہ مزدوری ہی کرتا رہتا۔اُس نے سوچا ہوگا ذیادہ سے ذیادہ ناکام ہی رہوں گا تو کوٸی بات نہیں مالک کا نقصان بھر دوں گا۔

استاد کا شاگرد پر بھروسہ:
اگر استاد مزدور کی حوصلہ افزائی نہ کرتا تو استاد بھی اُسی مقام پر رہتا۔

استاد کی عزت اور رہنماٸی:
اگر وہ سمجھتا کہ مجھے کام آگیا ہے میں اب اپنا کروں گا یعنی احسان فراموش نکلتا تو بھی ترقی نا کرتا۔

محبت اور خلوص:
ایک دوسرے سے محبت اور خلوص کی بنیاد پر ہی یہ ترقی ہوئی

حسد سے ماورہ تعلق:
یہ بھی بہت ضروری ہے

ایمانداری:
دونوں میں سے کوٸی ایک علیحیدہ سے صرف اپنا ٹھیکہ پکڑتا یا پیسوں میں کوئی ہیر پھیر کرتا تو بھی یہ ترقی ممکن نہ تھی۔

وعدے کی پابندی:
کام کی وقت پر اچھے طریقے سے تکمیل سے لوگوں کے اعتماد میں اضافہ ہوا۔

دعا اور مقدر:
مذکورہ بیان کردہ خصلتوں سے دعائیں بھی ٹارگٹ ہٹ کرتیں ہیں اور مقدر بھی بن جاتا ہے۔

اور سب سے بڑی بات:
دھوکہ تبھی ہوتا ہے جب اپنی نیت میں بھی کھوٹ ہو۔“

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 284 Articles with 93068 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.