متاثرین سندھ اور ہماری بے حسی

پاکستان آئے روز مختلف بحرانوں اور آفات کا شکار رہتا ہے،اگر ہم ماضی کی تاریخ اور دور حاضر کے حالات کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ دوسری قوموں اور ملکوں پر بھی اس طرح کی آفات آئیں اور انہیں بھی مختلف اقسام کے بحرانوں کا سامنا رہا لیکن انہوں نے اپنی جرات واستقامت اور محنت سے نہ صرف ان بحرانوں اور قدرتی آفات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی صورت حال کو بہتر بنایا بلکہ مزید ترقی کی جانب گامزن ہوئے۔ اس کی واضح مثال ہیروشیما اور ناگاساکی میں امریکی درندگی کے بعد جاپان، بنگلہ دیش میں آئے روز سیلاب کے باوجود وہاں کی ترقی، انڈونیشیا، ملائیشیا اور دیگر خطوں میں مختلف قدرتی آفات کے بعد ان قوموں کا عروج ہے۔

اس وقت پاکستان کا صوبہ سندھ مکمل طور پر تباہی کا منظر پیش کررہا ہے۔ 9 اگست سے شروع ہونے والی بارشوں نے ایک ماہ میں ہر طرف تباہی مچادی۔ پروونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی(PDMA) کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق صوبے کے 103 میں سے 88 تعلقہ، 921 میں سے 674 یونین کونسلوں کے 89 لاکھ 88 ہزار سے زاید افراد شدید متاثر ہوئے ہیں۔ ان علاقوں میں پانی سے تباہ ہونے والی زمین 66 لاکھ ایکڑ سے زاید بتائی جارہی ہے۔ 25 لاکھ سے زاید ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔ تباہ ہونے والے مکانات کی تعداد مصدقہ اعداد وشمار کے مطابق 15 لاکھ سے زاید جبکہ امدادی کارکنوں، میڈیا کے نمائندوں اور حکومتی اہلکاروں کے مطابق 20 لاکھ سے زاید ہے۔ پی این ڈی اے کے اعداد وشمار کے مطابق اب تک لقمہ اجل بننے والوں کی تعداد 450 سے زاید ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد 940 سے زاید بتائی جاتی ہے۔ یہ وہ اعداد وشمار ہیں جس کا ریکارڈ حکومتی اہلکاروں کے پاس دستیاب ہے، اب تک ہلاک ہونے والے مویشیوں کی رجسٹرڈ تعداد 88 ہزار سے زاید بتائی جاتی ہے جبکہ دیگر ادارے اس تعداد کو دو لاکھ سے زاید بتاتے ہیں۔

حکومتی اعداد وشمار کے مطابق اب تک مجموعی طور پر 16 لاکھ سے زاید افراد کو امداد فراہم کی گئی ہے۔ سندھ کے ان متاثرہ علاقوں میں ہونے والی تباہی کا اندازہ دور بیٹھ کر لگانا شاید بہت مشکل ہوگا۔ کراچی یا سکھر سے ان علاقوں کی طرف نکلیں تو تاحد نگاہ ہر طرف پانی سے تباہی اور بربادی نظر آتی ہے۔ سڑکوں کے کنارے، سیم نالوں اور نہروں کے پشتوں اور ٹیلوں پر بلند مقامات پر ہر طرف بے یارومددگار متاثرین چھوٹی چھوٹی جھگیوں میں دکھائی دینگے۔ ان کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ ان کے پاس پہننے کو کپڑا، کھانے کو روٹی، پینے کو پانی، سر چھپانے کےلئے ترپال یا پلاسٹک کا ایک مکمل ٹکڑا بھی دستیاب نہیں۔ حالات سے مقابلہ کرنے کے لئے ان بے بس لاچار اور مجبور لوگوں نے ایک گز چوڑی اور ڈیڑھ گز لمبی اور سوا گز اونچی جھونپڑیاں ٹہنیوں سے کھڑی کی ہیں جن پر چھت کے لئے کہیں پر کاغذ کے ٹکڑے کہیں کپڑا کہیں پلاسٹک تو کہیں پر ترپال کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے دکھائی دینگے۔ ایسے متاثرین کی تعداد حکومتی اعداد وشمار کے مطابق 70 لاکھ سے زاید ہے کیونکہ پی این ڈی اے کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق3 ہزار3 سو سے زاید مبینہ ریلیف امدادی کیمپوں میں 16 لاکھ سے زاید افراد کو چھت کی سہولت فراہم کی گئی ہے تاہم عملی میدان میں ایسا نظر نہیں آتا۔

بارشوں کے بعد تباہ حال علاقوں کے مکینوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان کے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی ہوں یا حکومتی ادارے، سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہبی نمبردار، مقامی وڈیرے ہوں یا پھر عوامی نمائندہ ہونے کے دعوےدار، کہیں پر ان بے بس لوگوں کی داد رسی یا دل جوئی کرنے والا عملی میدان میں کوئی نظر نہیں آرہا۔ رہی بات صدر آصف علی زرداری اور حکومت سندھ کی تو وہ فی الحال بلاول ہاﺅس سے بیٹھ کر انٹرنیٹ کی سہولت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے غلط اعداد وشمار سن کر مختلف اقدامات کا محض اعلان کرتے ہوئے خوشی محسوس کررہے ہیں۔

اس تباہی میں بارشوں سے کئی ماہ قبل دیواروں پر لگائے ہوئے قوم پرستوں کے ٹھپے، چاکنگ اور زبوں حال پرچم تو دکھائی دے رہے ہیں لیکن دور دور تک وطن کے محافظ قوم پرستوں کا نام و نشان تک نظر نہیں آرہا۔ جب آپ ان متاثرہ علاقوں میں جائیں تو آپ کو جگہ جگہ وہ ”دہشت گرد“ نظر آئیں گے جن کے چہرے سنت رسول سے آراستہ، شلواریں ٹخنوں سے اوپر، سر پر ٹوپی اور بعضوں کے ہاتھوںمیں تسبیح نظر آئیں گی۔ یہ وہی دہشت گرد ہیں جن کو عالمی سامراج امریکا اور اس کے اتحادی دنیا سے ملیا میٹ کرنے کے درپے ہیں لیکن آج یہی ”دہشت گرد“ کہیں لاکھوں متاثرین کو پکا پکایا کھانا فراہم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کہیں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کشتیوں، گاڑیوں اور پیدل متاثرین کو محفوظ مقامات پر پہنچاتے دکھائی دیں گے۔

یہ کتنی عجیب بات ہے کہ عالمی سامراج، اس کے اتحادیوں، پاکستان کے نام نہاد قوم پرستوں، لبرل انتہا پسندوں، مغرب نوازوں پرستوں کی جانب سے دہشت گرد اور انسانیت کے قاتل قرار دیئے جانے والے یہ لوگ 2005ءکا تباہ کن زلزلہ ہو، 2010ءکا سیلاب ہو یا پھر 2011ءمیں طوفانی بارشوں کے بعد کی تباہی ہو، یہ انسانیت کے مبینہ دشمن بلا امتیاز رنگ ونسل، مذہب، مسلک، انسانیت کی بقاءکے لیے ہمہ وقت کوشاں ہیں۔

متاثرہ علاقوں میں، میں نے گزشتہ چند روز کے دوران ضلع بدین کے تعلقہ گولارچی، بدین، ٹنڈو باگو، کھوسکی، نندو، شادی لارج، ضلع مٹھی کے علاقے ارباب عبدالستار جی اوطاق، کلوئی، نوکوٹ قلعہ، تھرپارکر کے ٹیلے، ضلع میرپورخاص کے تعلقہ نوکوٹ اور جھڈو، ضلع سانگھڑ کے تعلقہ سانگھڑ، شہدادپور اور ٹنڈوآدم کے علاوہ ٹنڈو محمد خان، مٹیاری اور حیدرآباد کے بعض متاثرہ علاقوں کو کئی روز تک تفصیلی طور پر دیکھا۔ اگرچہ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق ان علاقوں میں سینکڑوں علاقائی، قومی اور عالمی ادارے خوراک کی فراہمی، علاج ومعالجہ، ریسکیو اور دیگر امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں لیکن عملی میدان میں بیشتر خدمات صرف دینی رفاحی ادارے سر انجام دے رہے ہیں جن میں سے بیشتر وہی ہیں جن کو آج بھی عالمی سامراج کے اتحاد اقوام متحدہ نے کالعدم قرار دیا ہوا ہے، یا پھر ان کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔البتہ جماعة الدعوة کی فلاح انسانیت فاﺅنڈیشن ، معمار ٹرسٹ، امہ ویلفیئر، جماعت اسلامی کی الخدمت فاﺅنڈیشن، اسلامک ریلیف ، برطانوی ادارہ مسلم ہینڈز جیسی تنظیموںاور اداروں کے بارے میں متاثرین کھلے عام اعتراف کررہے ہیں کہ پاک آرمی کے علاوہ صرف انہی اداروں کی امدادی سرگرمیاں مجموعی طور پر قابل تحسین ہیں تاہم بعض مقامات پر ریڈ کراس، اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم ورلڈ فوڈ پروگرام، یو این ایچسی آر، دعوت اسلامی ،منہاج ویلفیئر ٹرسٹ، المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی ،باکس شیلٹراور کچھ دیگر مقامی ادارے بھی پر سرگرم تو ہیں لیکن انتہائی محدود سطح پر۔

متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اور ریلیف سرگرمیوں میں دکھائی دینے والے اداروں کی مجموعی تعداد ڈیڑھ درجن کے قریب ہے جبکہ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق یہ تعداد سینکڑوں میں ہے۔ مختلف اضلاع کے ہیڈ کوارٹرز کے پرتعیش ہوٹلوں اور پرتعیش گاڑیوں میں غیر ملکی امداد پر چلنے والی این جی اوز کے ارکان دکھائی تو دیتے ہیں لیکن متاثرہ علاقوں میں ان کا کوئی وجود ہی نہیں۔ لاکھوں لوگوں کی زندگیاں کشتیوں کے ذریعے بچانے کے عمل میں بھی پاک آرمی، پاک نیوی اور پاک فضائیہ کے بعد فلاح انسانیت فاﺅنڈیشن، معمار ٹرسٹ اور الخدمت فاﺅنڈیشن ہی نے کارہائے نمایاں سر انجام دیا۔

افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ان مذکورہ اداروں کے پاس اشیاءکے علاوہ رضاکاروں کی بھی قلت ہے جبکہ عالمی سطح پر آنے والی امداد آسمان کھا جاتا ہے یا زمین نگل لیتی ہے کسی کو معلوم نہیں۔ قومی سطح پر بھی بڑھ چڑھ کر امدادی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے امدادی اداروں کو مشکلات کا سامنا ہے اور مقامی سطح پر بھی تباہی سے بچنے والے افراد مالی تو کیا جانی تعاون کےلئے بھی تیار نہیں۔ جو وڈیرے، جاگیردار ساری زندگی نسل در نسل ہاریوں کی کمائی کھاتے رہے، آج وہ ان ہاریوں کو ایک وقت کی روٹی فراہم کرنے کی بجائے انہیں رفاحی اداروں سے راشن دلانے کی سفارش کرنے پہنچ جاتے ہیں۔

تباہی سے بچنے والے اضلاع کے عام افراد کی طرف سے بھی عدم توجہی کا مظاہرہ ہے جبکہ پاکستان کا میڈیا بھی اس وقت سندھ کے تباہ حال ان تقریباً ایک کروڑ لوگوں کو بھول ہی چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان علاقوں میں کپاس 80 فیصد، چاول 70 فیصد، مرچیں 90 فیصد، گنا 50 فیصد اور سبزیاں 60 فیصد تک تباہ ہوچکی ہیں جس کے منفی اثرات آیندہ دنوں میں ملکی معیشت اور عوام کی جیب پر پڑیں گے۔ مصیبت کی اس گھڑی میں پاکستان کے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کی عدم دلچسپی ملکی سالمیت اور یکجہتی کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے ۔

آئیے ہم سب مل کر آج سندھ کے تباہ حال لوگوں کی مدد کریں اور جس طرح بارشوں نے یہاں پر ہر چیز کو صاف کیا اور ہم اپنے اتحاد، یکجہتی، بھائی چارے اور متاثرین کی مدد کے ذریعے سندھ سے ہر تعصب کو پاک اور صاف کریں۔ اسی میں سب کی سلامتی اور بقاء ہے۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 96669 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.