تصویر کا دوسرا رخ ----- ڈاکٹر امجد کی کہانی

شیخ شرف الدین سعدی ؒ ایک حکایت میں لکھتے ہیں کہ میں نے کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ بچھو کی پیدائش عام جانور و ں کی طرح نہیں ہوتی یہ اپنی ماں کے پیٹ میں جب کچھ بڑاہوتاہے توا ندر ماں کے پیٹ ہی کو کاٹنا شروع کر دیتا ہے اور سوراخ کرکے باہر آجاتاہے شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ بات ایک مرددانا کے سامنے بیان کی تو انہوں نے فرمایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات درست ہی ہوگی بچھوکی فطرت اور عادت پر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس نے اپنی زندگی کے پہلے دن ہی سے برائی شروع کی ہوگی یہی وجہ ہے کہ ہر شخص اس سے نفرت کرتا ہے اور دیکھتے ہی مار ڈالتاہے ۔جو شخص اپنوں سے وفا نہیں کرتا وہ کبھی غیر کا بھی نہیں ہوتاعقلمند کے لیے اشارہ ہی کافی ہے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کی فطرت میں ہی برائی کوٹ کوٹ کر بھری ہے ایسے ضرر رساں لوگ بغیر کسی مقصد کے دوسروں کو نقصان ہی پہنچاتے رہتے ہیں حضرت شیخ سعدی ؒ نے اس حکایت میں بچھو کی پیدائش کی مثال دے کر بدفطرت لوگوں سے علیحدہ رہنے کی تلقین کی ہے انسانی نفسیات کا مسئلہ بے حد الجھا ہوا ہے یہ بات آسانی سے سجھ نہیں آسکتی کہ کوئی شخص شریف اور کوئی شخص بدفطرت اوربدخصلت کیوں ہے لیکن اس بات سے کسی طرح بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انسانوں میں یہ فرق موجودہے اور اہل عقل کے لیے لازم ہے کہ اس فرق کو ہرمعاملے میں ملحوظ رکھیں ۔۔۔

قارئین ہمارے گزشتہ کالم میں ہم نے بھمبر کے آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹرا مجد چوہدری کے ساتھ پیش آنے والے حادثے کے متعلق لکھا اور یہ واقعہ بیان کیا کہ ان کی گاڑی جو ڈسڑکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کے اندر کھڑی تھی اسے کسی نے آگ لگا کر تباہ کردیا ہم نے حکومت اور متعلقہ اداروں سے کسی قسم کی اپیل کرنے کی بجائے صرف عوام کو جگانے کی کوشش کی کہ قوم کے لائق اور زہین دماغوں کی قدر کی جائے اور ان کے ساتھ بدسلوکی سے پرہیز کیا جائے اس کالم کا چھپنا ہی تھا کہ راقم کو صبح سویرے ایک نامعلوم موبائل نمبر سے کال موصول ہوئی کال اٹینڈ کی تودوسری جانب سے ناراضگی ،خفگی اور کسی حد تک ناشائستگی پر مبنی گفتگو کی گئی اور سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیں گئیں اس پر میں نے حکومت آزادکشمیر کے چند ذمہ دار ان اور دوستوں کو آگاہ کیا او ران کی ہدایات کے مطابق ڈپٹی کمشنر میرپور چوہدری محمد طیب جو ایک دیانتدا ر اور شریف النفس آفیسر ہیں انہیں درخواست دینے ان کے پاس چلاگیا انہوں نے پوری بات سننے کے بعد ایس ایس پی غلام اکبر کے پا س مجھے بھیجا اور درخواست پر کاروائی کرنے کے احکامات لکھے غلام اکبر ایس ایس پی میرپور پولیس آفیسر سے زیادہ ایک عالم دین دکھائی دیتے ہیں انہی کے دفتر کے باہر مجھے سابق وزیر اعظم آزادکشمیر بیر سٹر سلطان محمود چوہدری کے فرزند چوہدری یاسر سلطان دکھائی دیئے انہوں نے مجھے دیکھا تو گاڑی سے اتر کر مجھے گلے لگالیا ہاتھ میں میرے درخواست دیکھی تو معاملہ پوچھا اور جب انہیں بات بتائی تو ان کا چہرہ غصے کے مارے سرخ ہوگیا وہ میرے ساتھ ایس ایس پی غلام اکبر کے پاس گئے اور اس معاملے کا سنجیدہ نوٹس لینے کی گزارش کی اس کے بعد کیا ہوا کہ یہ ہم آپ کو بعدمیں بتائیں گے ابھی ہم کالم کے عنوان کی طرف چلیں گے ۔

قارئین کشمیر پریس کلب کے صدر عابد شاہ اور سینئر صحافی اور جموں کشمیر جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر حافظ مقصود نے راقم سے رابطہ کیا اور زوردیا کہ ڈاکٹر امجد کی کہانی کا ایک رخ تو ہم نے تحریر کردیا ہے اب اس کا دوسرا رخ بھی سمجھا جائے اور صحافتی اصولوں اور روایات کے عین مطابق انہیں بھی قلم بند کیا جائے چنانچہ ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے میں عابد حسین شاہ کے دفتر پہنچا تو وہاں دیگر صحافی دوستوں کی موجودگی میں انہوں نے مجھے بھمبر کے صحافی دوست خالد چوہدری سے متعارف کرایا کچھ گلے شکوے کرنے کے بعد انہوں نے دستاویزات اور اخباری تراشوں کاایک پلندہ میرے سامنے رکھ دیا ان دستاویزات کے مطابق ڈاکٹر امجد کے ہسپتال میں الٹر اسونالوجسٹ کی سہولت موجودنہ تھی ،گائنی کی ڈگری یافتہ ڈاکٹرتعینات نہ تھیں ،ماہر بے ہوشی بھی موجود نہ تھے اور نا مناسب رویے کے ساتھ ساتھ ہسپتال کے اندر کا ماحول بھی بہت سہولیات سے مزین نہ تھا اور انہوں نے یہ بھی بتایاکہ جب مریضہ کی حالت بلڈپریشر بڑھنے کی وجہ خراب ہوئی تو انہیں میرپور ریفر کردیا گیا جس کی وجہ سے مریضہ کے خاندان کو ذہنی پریشانی کے ساتھ ساتھ مالی نقصان بھی اُٹھانا پڑا ۔

قارئین تصویر کا یہ دوسرا رخ ہم نے آپ کے سامنے رکھ دیا ہے ہمارے صحافی دوستوں کا یہ کہنا ہے کہ ڈاکٹر موصوف کو ایک مخصوص ٹولہ اپنے مقاصد کے تحت صحافیوں سے لڑائی کروا کربدنام کرنا چاہتاہے تاکہ بھمبر کے ماحول میں زہر گھولا جائے انہوںنے یہ بھی بتایاکہ ڈاکٹر امجد کی گاڑی کو جن لوگوں نے آگ لگائی تھی پولیس ان تک پہنچ چکی ہے اور جلد ہی چشم کشا انکشافات سامنے آئیں گے اور دودھ کو دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا کہ کون بچھو کی خصلت والا ہے اور کون ٹوٹتے ہوئے رشتوں کو بچانے والاہے ۔

قارئین آنے والا چند دن بہت اہم ہیں جن میں بھمبر کے پرامن حالات کو خراب کرنے کی کوششیں کرنے والے چند لوگوں کا اصلی رخ عوام کے سامنے آجائے گا رہی بات ہمارے صحافی دوستوں کی ناراضگی اور خفگی کی تو ہم سمجھتے ہیں کہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں کو کوئی بھی خبر نشر کرنے سے قبل اس کی صحت ضرور جانچ لینی چاہیے اور ہر اس فعل سے اجتناب کرنا چاہیے جو اس انتہائی مقدس پیشے کی حرمت پر فرق ڈالے ۔رہی ان کی خفگی تو اس کا جواب غالب کی زبان میں کچھ یوں دیں گے کہ
ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
کرتے ہیں محبت ،تو گزرتا ہے گماں اور
یارب ،وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو ،جو نہ دے مجھ کو زباں اور

ہمیں امید ہے کہ ہمارے صحافی دوست اپنی ناراضگی دور کرکے حق او رسچ کا ساتھ دیتے رہیں گے کیونکہ یہی اس پیشے کا تقاضا ہے ۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ڈاکٹر نے مریض سے پوچھا جی جناب میرے علاج کے بعد اب آپ کی طبیعت کیسی ہے ؟
مریض ڈاکٹر صاحب طبیعت تو ٹھیک ہے لیکن پسینہ نہیں آتا
ڈاکٹر ”بالکل فکر نہ کریں ابھی آپ کو بل پیش کرتاہوں “

قارئین ڈاکٹر امجد کی اس کہانی میں اور دوسرے رخ میں اگر غور سے دیکھیں تو عوام کے مسائل آسانی سے سمجھے جاسکتے ہیں غریب اور متوسط طبقہ نہ تو علاج معالجہ افورڈ کرسکتا ہے اورنہ ہی اعلیٰ تعلیم اور اس سب کی براہ راست ذمہ داری ہمارے حکمرانوں اور سیاسی قیادت کے سر ہے ۔۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 339001 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More