“پی ٹی آئی کی انتخابی کامیابی بھی اداروں کے رویے میں نرمی نہ لاسکی ”

پاکستان میں حالیہ 8 فروری کے عام انتخابات کے غیر حتمی نتائج میں جس طرح کی صورتحال بنتی جارہی ہے اس سے اندازہ تو یہ ہی لگایا جاسکتا ہے کہ قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہونے والوں میں سب سے زیادہ تعداد ایسے آزاد ارکان کی ہے جنہیں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جماعت تحریکِ انصاف کی حمایت حاصل تھی۔

جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اب تک قومی اسمبلی کی 266 میں سے 264 نشستوں کا غیر حتمی نتیجہ کا جو اعلان جاری کیا ہے جس کے مطابق کامیاب ہونے والے آزاد امیدواروں کی تعداد تقریبا 101 ہے جب کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ن) 75 اور پاکستان پیپلز پارٹی 54 نشستوں کے ساتھ دوسرے اور تیسرے نمبر پر آئی ہیں ۔

جبکہ قومی اسمبلی کی عام نشستوں میں سے این اے آٹھ باجوڑ کا انتخاب ملتوی ہوگیا تھا اور این اے 88 کا غیر حتمی نتیجہ روک لیا گیا ہے۔

ان الیکشن میں جس طرح لاتعداد حلقوں میں غیر حتمی نتائج کو چیلینج کیا گیا ہے. جس کی خاص وجہ پولنگ ختم ہونے کے بعد فارم 45 اور 47 اکثر حلقوں میں یہ فارم ہی ایک دوسرے حریف جماعتوں کی مُشکلات میں اضافہ بنتا گیا جبکہ انٹرنیشنل اور نیشنل میڈیا کے مطابق مطابق کامیاب ہونے والے آزاد امیدواروں میں سے 93 یا 94 تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ ہیں۔

اس ہی طرح خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو واضح برتری حاصل ہوگئی ہے جب کہ پنجاب میں کامیاب ہونے والے 138 آزاد ارکان کی اکثریت بھی پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ ہے۔

عمران خان کے لیے یہ الیکشن بڑے بھاگوان ثابت ہوئے کہ ان الیکشن میں دنیا بھر کا میڈیا اور اب پاکستان کا میڈیا بھی عمران خان اور ان کی جماعت کی اس کامیابی کو عمران کے لیے جیل سے نکلنے کا ایک بہت بڑا مواقع فراہم کرنے کا راستہ بنے گا. ان الیکشن اور عمران کی جیت کی بازگشت دنیا بھر کے پرائم ٹائم چینلز میں بھی پیش کیے جارہے ہیں اور اس ہی حوالہ ہر ان کو قید اور سزا پر بھی بڑے کُھل کر تجزیہ و آئندہ کے حالت پیش کررہے ہیں .

ہی پی ٹی آئی کو یہ انتخابی کامیابی ایسے وقت میں ملی ہے جب پارٹی کے بانی اور سابق وزیرِاعظم عمران خان گزشتہ کئی ماہ سے جیل میں اسیری کی زندگی گزار رہے ہیں اور ان پر چلنے والے متعدد مقدمات میں سے تین میں انہیں اور ان کی اہلیہ کو سزائیں بھی ہوچکی ہیں۔

جماعت کی دیگر قیادت اور کارکنان کو نو مئی 2023 کے بعد کریک ڈاؤں کا سامنا ہے ۔ حالیہ 8 فروری کے انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کے کئی سینئر رہنما دباؤ میں پارٹی سے راہیں الگ کرچکے تھے اور پارٹی انتخابی نشان سے بھی محروم ہوچکی تھی۔

اس طرح کے ایسے حالات میں سیاسی مبصرین پی ٹی آئی کو بڑی تعداد میں ملنے والے ووٹوں کو بنیادی طور پر ملک کے اداروں لیے پیغام قرار دیتے ہیں۔

پی ٹی آئی کو 8 فروری کے انتخاب میں رائے دہندگان نے جس طرح پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ووٹ دیا ہے وہ اداروں کے لیے پیغام ہے کہ ان کی پالیسیاں عام لوگوں کے لیے اب قابلِ قبول نہیں ہیں۔

امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹر کے سینٹر برائے جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر دی گئی رائے میں کہا کہ ان انتخابات میں پی ٹی آئی کے ووٹرز نے اسٹیک ہولڈروں کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ اس کو انتخاب کے نتائج پر اثر انداز نہیں ہونے دیں گے۔

جبکہ لگتا ایسا ہے رائے دہندگان نے یہ دراصل ہر پی ٹی آئی مخالف قوت کے خلاف ملنے والا ووٹ ہے۔ لگتا بھی یہی ہے کہ یہ ووٹ پی ٹی آئی کے خلاف ہونے والی انتقامی کارروائیوں پر رائے دہندگان کی ناراضی کا اظہار ہے۔

حالیہ نتائج کے مطابق کوئی بھی سیاسی جماعت قومی اسمبلی میں حکومت سازی کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں کرسکی ہے۔ اس لیے حکومت بنانے کے لیے آزاد امیدواروں کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔

ایسے حالات میں پی ٹی آئی کے مرکزی عہدیدارن کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ ان کی جماعت کے آزاد امیدواروں کی وفاداریاں تبدیل کرانے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کے لیے دھونس، دھمکی اور لالچ سمیت کئی طریقے بھی ماضی میں مختلف سیاسی جماعتوں پر آزمائے جاچکے ہیں.

جبکہ پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر گوہر وفاق اور پنجاب میں حکومت سازی کا اعلان بھی کرچکے ہیں لیکن پی ٹی آئی اپنے آزاد امیدواروں کے ساتھ بھی تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

نظر یہ ہی آتا ہے کہ وفاق میں عددی برتری ہونے کے باجوود پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے امکانات اس وقت واضع نظر نہیں آرہے ہیں۔

پی ٹی آئی کی حیران کُن انتخابی کامیابی بھی ممکنہ طور اسٹیبلشمنٹ کی گرفت کمزور نہیں کرسکے گی اور نہ ہی اسے 2018 کی طرح اتحادی حکومت بنانے دی جائے گی۔

موجودہ حالات میں پاکستانی اداروں کے رویے میں پی ٹی آئی کے لیے کسی لچک یا مفاہمت کا امکان بالکل نظر نہیں آرہا جیسے جیسے وقت گزرئیگا پی ٹی آئی اور ان کے عہدیداران ہر کوئی نرمی اختیار نہیں کی جائیگی۔

گزشتہ پی ڈی ایم حکومت کا حصہ رہنے والی سیاسی جماعتوں سے میل ملاپ کی شروعات پہلے ہی سے حکومت سازی کے لیے پینگیں بڑھائی جاچکی ہیں. تاہم ابھی تک اس بارے میں کوئی صورتِ حال واضح طور پر ابھی سامنے نہیں آرہی ہیں تاہم شہباز شریف ہی وزیراعظم کے اُمیدوار اور آصف زرداری صدر کے لیے نمایاں نام نظر آرہے ہیں۔

جبکہ پاکستان تحریکِ انصاف، جماعتِ اسلامی، جمیعت علمائے اسلام اور بلوچستان کی کم و بیش سبھی جماعتین مختلف حلقوں کے انتخابی نتائج میں دھاندلی کے الزامات کے ساتھ احتجاج کے لیے سڑکوں پر آئے دن احتیجاج اختیار کیے ہوئے ہیں.

اس طرح کی صورتحال میں پاکستان میں 8 فروری کے حالیہ انتخابات کے بعد ایک بار پھر پاکستان اور جمہوریت کو بے یقینی کے ایک طویل دور کا سامنا دیکھتا نظر آتا ہے.

نظر ایسا آتا ہے کہ کچھ بین الاقوامی مُلک اور پاکستان کے اسٹیک ہولڈر چاہتے ہیں کہ آئندہ حکومت معاشی بحالی کے لیے یکسوئی سے کام کرے مگر پی ٹی آئی اور ان کے بانی عمران خان کہیں نظر نہیں آرہے. یعنی پی ٹی آئی اور ان کے لیڈر کے بغیر ہی پی ڈی ایم طرز کی حکومت مل کر کام کرئے اور پاکستان کو معاشی مسائل اور دیگر مسائل پر یکسوئی سے کام کرئے اور مُلک کو درپیش مسائلوں سے چھٹکارا حاصل کرئے.

دوران حکومت عمران خان کچھ برس جیل میں رہے کہ انتظار کرئے لیکن اس طرح کرنے سے پی ٹی آئی کے حامیوں کا ظاہر سی بات ہے غم و غصہ بڑھے گا اور چیلنجز میں مزید مُشکلات اور پیچیدگیاں بڑھتی جائینگی جو پاکستان اور اس کی عوام کے لیے صیح نظر نہیں آرہی ہے۔

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 288 Articles with 97111 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.