“ 8 فروری کے انتخابی نتیجوں نے ملک کے مسائل میں اور بھی اضافہ کر دیا ہے”

پاکستان میں 8 فروری 2024 کو ہونے والے انتخابات کے نتائج دیر سے سامنے آئے جس پر پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں ایک نئی بحث شروع ہوچکی ہے۔ مگر یہ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں یہ پہلی بار ضرور ہوا کہ الیکشن کے دن اور اگلی رات ملک بھر میں موبائل فون نیٹ ورکس کہیں بند تو کہیں بند و کھُلتے رہے، اور 24 گھنٹے گزرنے پر بھی مکمل نتائج کی حسرت عوام اپنے اپنے گھروں میں ٹی وی پر بیٹھ کر انتظار کرتے رہے مگر نتیجہ سامنے نہیں آسکے۔

اس طرح کے دو روزہ واقعات نے بظاہر پہلے سے موجود تقسیم اور سیاسی دراڑ کو مزید گھاؤ لگادیا .

اب پاکستان کی عوام میں جو کنفیوزن ہورہی تھی کہ حکومت کون بنائیگا. سوشل میڈیا پر کئی صارفین الیکشن کمیشن اور نگران حکومت پر جُگت پر جُگت لگاتے ہوئے نظر آئے تو دوسری جانب اداروں کو بھی اس افراتفری کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ جب جمعرات کو شام پانچ بجے ووٹنگ کا عمل رُکا تو عوام کو نتائج کے اعلان کا انتظار تھا۔ چھ بجے کے بعد چند پولنگ سٹیشنز سے وہ غیر حتمی اور غیر سرکاری نتیجے سامنے آنا شروع ہوئے جہاں گنتی کا عمل مکمل ہو گیا تھا۔

جبکہ ابتدائی نتائج نے پاکستانی عوام کو جو وہ اندازے لگائے ہوئے تھے وہی جب نتیجہ آنا شروع ہوگے. حالانکہ جو توقعات پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار پر اُمیدیں لگائی ہوئی تھیں انکو برتری حاصل ہورہی تھیں ۔ تاہم چند ہی گھنٹوں میں رزلٹ کا سلسلہ موسلہ دار بارش کی طرح آمد اور پھر ایک دم بارش کی طرح تھم جانا لوگوں کو شکوک و شہبات کا ؤنا تو بجا ہے.

جس پر سوشل اور مین سٹریم میڈیا پر بحث کا ایک نیا سلسلہ کی شروعات ہوگیں جس میں سوالات بھی تھے اور شکوک و شبہات کا اظہار بھی نمایاں نظر آرہا تھا۔

پاکستانی عوام کی نظریں الیکشن کمیشن پاکستان پر تھیں مگر وہ بھی بے بس ہی نظر آ رہا تھا۔ رات بارہ بجے بھی موبائل نیٹ ورکس بحال نہیں ہوئے تھے اور ووٹوں کی گنتی کے نتائج منظر عام پر نہیں آ رہے تھے۔
ایسے میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں نے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے پر یہی کہنا شروع کردیا کہ نتائج میں تاخیر کو ’دھاندلی کی کوشش‘ قرار دیا۔

جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کے کیمپس میں مکمل خاموشی و اُداسی کا عالم تھا۔ مسلم لیگ کو اس بار انتخابات میں واضح برتری کی آس لگائے بیٹھے تھے مگر نصف شب تک سامنے آنے والے غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق خود سابق وزیر اعظم نواز شریف، پی ٹی آئی کی زیر حراست یاسمین راشد سے ایک بڑے مارجن کے ساتھ پیچھے تھے اور ایسا لگ رہا تھا نواز شریف سے یہ سیٹ %100 فیصد نکل گئی پھر اچانک یہ سیٹ ان دیکھے ہاتھوں نے یاسمین راشد سےلیکر دوسرے دن نواز شریف کے ہاتھ میں پکڑا دی الیکشن کمیشن بیچارہ ایک وقت پر یہی اپنا اعلان کرتا رہا کہ آدھے گھنٹے میں نتائج آنا شروع ہو جائیں گے مگر صبح تین بجے تک بھی الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر کوئی تفصیل موجود نہیں تھی۔ یہی اعلان صبح دوبارہ کیا گیا اور کہا گیا کہ نتائج دس بجے تک سامنے آجائیں گے تاہم یہ بھی نہ ہوسکا۔

دوسری طرف نگران حکومت قوم کو انتخابات کے پُرامن انعقاد پر مبارکباد دیتی نظر آئی اور وزارت داخلہ موبائل نیٹ ورکس بند رکھنے کے فیصلے کا دفاع کرتی رہی۔

اس سے قبل حکومت نے ہی یہ اعلان بھی کیا تھا کہ انتخابات کے دن موبائل نیٹ ورکس بند نہیں کیے جائیں گے۔ تاہم ووٹنگ شروع ہونے سے صرف دس منٹ پہلے وزارت داخلہ نے ملک بھر میں دہشتگردی کے خطرے کے پیش نظر موبائل نیٹ ورکس بند کر دیے۔

الیکشن کمیشن نے وضاحت پر وضاحت دیتا رہا کہ ان کا نتائج اکٹھا کرنے کے لیے بنایا گیا نیا نظام اس لیے کام نہیں کر سکا کیونکہ موبائل نیٹ ورکس بند ہونے کی وجہ سے انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں تھی۔ لیکن اسی بیان سے پہلے الیکشن کمیشن یہ اعلان بھی کر چکا تھا کہ یہ نیا سسٹم انٹرنیٹ کے بغیر بھی فعال رہے گا۔

اس تمام صورتحال میں سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ پاکستان کے اسٹیک ہولڈر کی طرف کیا جارہا ہے۔ گذشتہ رات سے ہی خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف کے عہدیدار و حمایت یافتہ امیدوار اور جماعت کے حامی الیکشن کمیشن پر الزامات لگا رہے ہیں کہ وہ انتخابی عمل میں دھاندلی کے مرتکب ہورہے ہیں.

اسلام آباد سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار شعیب شاہین نے اپنے حلقہ سے آنے والے نتیجہ پر یہی کہا کہ ’عدلیہ جو کسی بھی واقعے کا سو موٹو نوٹس لے سکتی ہے، انھوں نے نہ تو موبائل نیٹ ورکس بند ہونے کا نوٹس لیا، نہ کل شب ہونے والی (مبینہ) دھاندلی کی خبر لی اور نہ ہی یہ نوٹس لیا کہ نتائج میں اتنی دیر کیوں ہو رہی ہے۔

اُمیدوار پی ٹی آئی شعیب شاہین کا دعویٰ ہے کہ وہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کل رات تک ایک بڑے مارجن سے جیت رہے تھے مگر آج صبح انہیں ان دیکھے ہاتھوں نے ہرا دیا گیا۔ وہ اس دھاندلی کا ذمہ دار کس کو قرار دیں ۔ اس ہی طرح دھاندلی کا یہ الزام لگانے والے وہ تنہا نہیں ہیں، بلکہ ان کی طرح کئی دیگر آزاد امیدوار بھی یہی الزام دہرا رہے ہیں۔

مگر تا حال شعیب شاہین کی جانب سے کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے جبکہ الیکشن کمیشن کا عملہ الزامات کے جواب دینے کے بجائے فی الحال نتائج مرتب کرنے میں مصروف ہے۔

گذشتہ دو دن کے دوران پیش آنے والے ان تمام واقعات کے بعد پہلے سے موجود تقسیم اور سیاسی دراڑ مزید گہری ہوتی نظر آرہی ہے۔

پاکستان میں گزشتہ 76 سالہ تاریخ میں ان سیاسی جماعتوں اور اداروں نے اس بار بھی ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا۔

حالیہ سیاسی واقعات سے لگتا یہی تھا کہ ماضی کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا جائے گا۔ یہ انتخابات بظاہر پر امن ہوئے، پاکستانی عوام سسٹم پر اعتبار کرتے ہوئے ووٹ ڈالنے نکلے۔ اپنا ردعمل پرچی سے دیا جو کہ خوش آئند تھا۔ یہی جمہوریت کی کامیابی اور اس کا حُسن ہے۔

’مگر جب آپ اچانک نتائج روک دیے جایں اور نتایج بدلنے لگتے ہیں تو یہ سب دکھائی دیتا ہے۔ پنجاب کے نتائج آہستہ آہستہ رکے اور پھر صبح کے دن صورتحال ہی بدل گئی

عوام میں یہ ہی چگہ موئیاں ہونے لگیں اور اس پر یہی سوال اٹھے ہیں کہ وہ کون سی خفیہ کردار ہیں ’جو عوام کی رائے بدلنے کی طاقت رکھتی ہے۔ اور یہ ایک دو بار نہیں، 76 سال سے ہو رہا ہے۔ اعتراض اور سوال تو ہیں کیونکہ اس عمل کو مشکوک سے مشکوک تر الیکشن کمیشن کی نالائقی اور مایوس کن کردار سے پاکستان میں تو کیا دنیا بھر کے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا ہر طرف مذاق بنا ہوا ہے.

جبکہ بیشتر انٹرنیشنل میڈیا اور انٹرنیشنل تھنک سوسائیٹی کے تجزیہ کار اراکین کہتے ہیں کہ اس خوف کی وجہ بہت واضح ہے کہ جن کرداروں نے انتخابی عمل میں بالکل آخری وقت میں اپنے فائدے کے لیے مداخلت کیوں کرے گی، اور یہ مفاد براہ راست پاکستان تحریک انصاف کو حکومت میں آنے سے روکنا ہے۔


انتخابی نتائج کے دوران ’پی ٹی آئی کی کامیابی کے ابتدائی اشارے، اور پھر اچانک نتائج کا دیر تک اعلان نہ ہونا، الیکشن کمیشن کی مکمل خاموشی اور پھر ایسے سرکاری نتائج جن میں ان دیکھے کرداروں کی ترجیحی جماعت سیاسی اتحاد بناتی نظر آرہی ہے، یہ سب آخری لمحہ کی دھاندلی کی پیشنگوئی کرتا ہے۔

اس وقت پاکستان ایک ایسے نتیجے کی طرف پہنچ گیا ہے جس سے عوام کی مرضی کی عکاسی نہیں ہوتی۔ ’یہ پاکستان کی پہلے سے کمزور جمہوریت کے لیے ایک اور دھچکا ہو گا۔

فی الحال ایسا ہوتا مشکل نظر آ رہا ہے کیونکہ عوام اور سیاسی جماعتیں اب بھی ایک تقسیم کا شکار نظر آ رہی ہیں۔ اب پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور اسٹیک ہولڈروں کو پاکستان اور عوام کے لیے ملک کو استحکام کی طرف لیے جانے کے لیے سب کو ایک ساتھ بیٹھنے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔

پنجاب میں دوبدو مقابلہ تھا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک جماعت جیت کے قریب تھی۔ لیکن اب گرینڈ ڈائیلاگ کی جانب جانا چاہیے۔ اگر یہ نہ ہوا تو پھر وہی ہوئیگا جو ہمارے مُلک میں 76 سالہ تاریخ میں کتابوں میں قلمبند ہے جو پاکستان کی لائیبریوں کے شوکیس کی زینت بنی ہوئی ہمارے ماضی کے سیاسی اور ان دیکھے کرداروں کی تلخ حقیقت کا منہہ بولتا ثبوت ہے.

اللہ نہ کرئے اگر اب بھی عوام نتائج تسلیم نہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے ورکروں اور عام عوام سڑکوں پر نکلیں گے تو پھر مذاکرات اور بات چیت ہی ہو گی۔‘

اب بھی یہ نہیں لگتا کہ یہ انتخابات ہمارے مُلک میں استحکام لے کر آئیں گے۔ نظر تو یہ ہی آرہا ہے کہ یہ انتخابات پاکستانی قوم کو مزید تقسیم در تقسیم کی طرف لیکر جائیگی جو پہلے ہی پولرائزیشن کا شکار ہے۔

پاکستان کو اس وقت نہ صرف شدید معاشی بحران کا سامنا ہے بلکہ دہشت گردی میں بھی دوبارہ اضافہ ہو رہا ہے۔ ’ایسے حالات میں تحریک انصاف کا ایک بڑا بیس ہے۔ اور یہ جماعت ناراض اور افسوس کا شکار بھی ہے۔ کیونکہ اس کے ووٹرز نے بڑی تعداد میں باہر نکل کر اپنا ان انتخابات میں رائے دہی کا استعمال بھی کیا ہے اور پھر ان کے انتخابات کا نتیجہ کو بری طرح پیروں تلے روند دیا گیا۔ ٍاور اب انہی کی جماعت اور کارکنان کو مُشکل کا سامنا ہے . پاکستان کو عوامی غصے کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ یہ شورش کے خطرہ کو باہمی گفت و شنید سے قابو کرکے حق داروں کو حق دینا لازم بن جاتا ہے.

پاکستان کے اسٹیک ہولڈرز کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ ایک غیر مستحکم پاکستان کو دنیا کیسے دیکھے گی اور یہ عالمی طاقتوں کے لیے کیا اہمیت رکھتا ہے۔ کیونکہ پاکستان ایک نیوکلیئر طاقت ہے اور یہ ایک ایسے خطے میں واقع ہے جس کا جغرافیہ اس کی مشرق بعید، خلیج ، برصغیر وغیرہ سے علاقائی اعتبار سے اہم ترین ہے اور اس کے پڑوس میں دو ایٹمی طاقت مُلک سمیت اور اس کے پڑوس کے تین اہم ملک کی طرف سے آئے دن سرحدوں کی خلاف ورزی بھی اور اس کے بعد پاکستانی اداروں جوابی کاروائی بھی آئے دن کا پیش خیمہ ہے.

اس وقت پاکستان کے افغانستان کے ساتھ تعلقات میں تلخی بڑھی ہے جبکہ انڈیا کے ساتھ کئی جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ حال ہی میں ایران کی جانب سے میزائل حملہ اور پاکستان کی جوابی کاروائی نے ایک بار پھر ملک کو عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا تھا۔ دہشتگردی میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ امریکہ کے ساتھ تعلقات اتار چڑھاؤ جاری رہتا ہے اور چین پاکستان کا قریبی دوست ہے۔

جبکہ دیگر دنیا کے ساتھ ساتھ خود پاکستان کی عوام کے لیے ملک کو مستحکم بنانا بے احد ضروری ہے۔ پاکستان اس قطعہ ارض پرایک ایسا ملک ہے جس کے سرحدی علاقے پُرامن نہیں ہیں، انڈیا اور طالبان کے کنٹرول میں أفغانستان کے سرحد ہے تو دوسری جانب حال ہی میں ایران کے ساتھ بھی تلخی سامنے آئی۔ پاکستان کا ایک نیوکلیئر طاقت ہے جو مغربی طاقتوں کے لیے ہمیشہ ایک اہم نقطہ رہا ہے۔ ’ایسے میں ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی و معاشی استحکام ہو۔ اور انتخابات کا عمل تو ہوتا ہی ملک میں سیاسی استحکام کے لیے ہے۔

امید ہے کہ ان انتخابات کے بعد بالآخر ملک میں استحکام آئے گا۔ مگر انٹرنیشنل میڈیا و تھنک ٹینک کی رائے سے اتفاق تو نہیں مگر حالت کیوں ہماری سیاسی جماعتیں و اسٹیک ہولڈر گفت وشنید کرکے ان کی رائے کی نفی بھی کرسکتے ہیں کہ ہم مُلک اور اپنی عوام کے لیے ایک بہترین حل کی طرف بھی جاسکتے ہیں.

اس وقت اقوام عالم بھر میں اس وقت جاری عالمی تنازعات کے بیچ پاکستان کا الیکشن اور سیاسی عدم استحکام ایک بہت چھوٹی بات لگتی ہے مگر یہ ایک واحد ایسا ملک ہے جس میں بڑی تعداد میں نوجوان ہیں۔ اس ملک کی سرحدیں تنازعات کا شکار ہیں، یہاں معاشی دباؤ ہے اور بڑھتی ہوئی دہشت گردی ہے۔ تو دوسری جانب ریاست اور معاشرے کے درمیان گہری ہوتی ہوئیں تقسیم ہے۔ اس انتخاباتی پیچیدگیوں نے ملک کے مسائل میں اور بھی اضافہ کر دیا ہے۔‘

اس وقت مُلک کی تمام سیاسی جماعتوں کے لیے یہ ایک اہم موقع ہے کہ وہ مل بیٹھیں اور بات چیت کرتے ہوئے ایسا نظام وضع کریں جو آئندہ انتخابات میں شفافیت کو یقینی بنائے۔

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 288 Articles with 97140 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.