پی ٹی آئی کے بانی کی سزاؤں سے ووٹرز مایوس یا مستعد ہوگا

پاکستان کی دو عدالتوں نے دو دن میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف سزائیں سنائی ہیں. ان سزاؤں کے بعد عام انتخابات سے قریب ایک ہفتہ قبل کیا اس سے پی ٹی آئی کا ووٹر مایوس ہوگا یا متحرک۔

بدھ کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 14، 14 سال قید کی سزائیں سنائی ہیں۔ جبکہ گذشتہ روز سائفر کیس میں حساس معلومات منظر عام پر لانے کے الزام میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
اس ہی طرح سنہ 2018 کے انتخابات سے پہلے ن لیگ کے رہنماؤں کے ساتھ جب انتخابات سے چند ہفتے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو مختلف مقدمات میں سزا سنائی گئی تھی جبکہ رہنما مسلم لیگ ن حنیف عباسی کو الیکشن سے چار روز قبل رات گئے ایفیڈرین کیس میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

کیا ن لیگ والی کہانی پھر دہرائی جارہی ہے؟

پاکستانی سیاست کا المیہ ہے کہ جب سیاسی رہنماؤں کو الیکشن کے نزدیک سزا ہونے کے باعث مذکورہ جماعت کے ووٹرز کافی حد تک بددل ہو سکتے ہیں اور وہ ووٹ دینے سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں اور بعض ووٹر اپنا ٹریک بھی بدل لیتے ہیں۔

پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ ایک جماعت لاڈلی تو دوسری وولن رہی ہے. جب کہ ان تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈران کو معلوم ہے کہ جب ہم کسی مخالف جماعت کے لیے کانٹے بویں گے تو کچھ عرصہ بعد وہی ہم بھی کاٹیں گے ہمارے ساتھ بھی یہی ہوسکتا ہے. مگر ان جماعتوں کو اقتدار کی بھوک اتنی ستاتی ہے کہ یہ سب کچھ معلوم ہونے کے بعد بھی وہ میوزیکل چئیر کے کھیل میں اپنا سب کچھ لگادیتے ہیں . اقتدار تو جیسے تیسرے مل ہی جاتا ہے. مگر کچھ سال بعد وہی کھیل جب ان کے خلاف ہوتا ہے. تو پھر نہ انہیں اپنے ماضی کے کردار پر اور نہ مخالف جماعت کو اپنے پیچھلے رویہ پر کوئی شرمندگی کا احساس یا ندامت تک نہیں ہوتی بڑی ہٹ دھرمی سے عوام سے ووٹ کے لیے اہنے آپ کو صادق و امین کے طور پر پیش کرتے ہیں یہی پاکستان کا تقریبا 76 سالا سیاسی جماعتوں کا المیہ ہے.

پاکستان کے ماضی کے انتخابی نتائج اس حد تک متنازع رہے ہیں کہ اس خطے میں شاید یہی واحد ملک ہو جس کے انتیخابات ہمیشہ دھاندلی زدہ رہے ہیں . پی ٹی آئی کے بانی کو دو سزائیں ہونے ہر ہوسکتا ہے کہ اس کا کارکن مایوس ہوکر گھر پر ہی بیٹھے اور یہ بھی ہوسکتا کہ آجکل سوشل میڈیا کے ہونے سے پی ٹی آئی کا وورکر اپنے کارکنان کو ووٹ دینے پر جذباتی ترانے، بانی پی ٹی آئی کی دل اُترنے والی تقاریر وغیرہ چلا کر اپنے کارکنان کو ووٹ کے لیے متحرک کرسکتا ہے. اس ہی خوف سے مخالف جماعتیں و …….. خوفزدہ ہیں کہ ہر وہ حربہ استعمال میں لائے جارہے ہیں جس سے پی ٹی آئی کا ووٹ بینک پر متاثر ہو.

پی ٹی آئی کے لیڈران اور حمایتیوں کے لیے سنہ 2022 میں تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے باعث اقتدار سے برطرفی کے بعد سے صورتحال خاصی ناسازگار رہی ہے۔ پی ٹی آئی بھی ایک کے بعد ایک مُشکلات میں گھرتی رہی ہے اس سے اپنے آپ کو نہ سنبھال پائی رہی بات کارکنان کی وہ ابھی تک متحرک ہے مگر علاقئی عہدیدران کی اکثریت گوماگوں کی کیفیت میں اپنے کارکنان سے وہ جذباتی لگاؤ نہ بنا پارہی ہیں جو پی ٹی آئی کے کارکنان اور عہدیدارن کا ماضی بتاتا ہے.

جب کہ الیکشن سے ڈیڑھ ہفتہ پہلے صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی سے بلے کا نشان لیے جانے کے بعد پارٹی کی نمائندگی کرنے والے امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں، جماعت کے بانی اور وائس چیئرمین سمیت مرکزی قیادت کے متعدد اراکین یا جیلوں میں ہیں یا پارٹی کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔

انتخابات سے قبل پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لینے اور عمران خان کو سزا سنانے کا مقصد پارٹی کے حمایتی وٹروں کو الیکشن سے پہلے بدل ہونا پی ٹی آئی کا بہت بڑا نقصان ہوسکتا ہے.

بانی پی ٹی آئی سمیت پارٹی کے متعدد رہنما یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ ایسا ملک میں پی ٹی آئی کی بے پناہ مقبولیت کا سدِ باب کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کے پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا و سوشل میڈیا پر سائفر اور پھر توشہ خانہ کیسز کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد سے سنہ 2018 کے انتخابات سے قبل ن لیگ کے رہنماؤں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا ذکر بھی بار بار دہرایا جارہا ہے۔ جبکہ اب ان انتخابات سے قبل ن لیگ کی اعلیٰ قیادت کے خلاف بنائے گئے مقدمات میں اب انھیں باعزت بری کیا جا چکا ہے۔

ہوسکتا ہے کہ آج سے کچھ سال بعد یہی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ ہوں اور یہی عمران خان ہوں گے اور یہی اسٹیبلشمنٹ ہو گی اور فیصلہ سنایا جائے گا کہ سائفر کیس کی سزا کالعدم قرار دی جاتی ہے اور اقرار کیا جائے گا کہ عمران خان اور شاہ محمود کا ٹرائل سیاسی انتقام کی نظر ہو گیا تھا۔ اور انہیں باعزت طور پر بری کیا جاتا ہے ان کیسوں سے
اس ہی طرح ’یہی آصف علی زرداری کے ساتھ بھی ہوا، اس ہی طرح میاں نواز شریف کے ساتھ بھی ہوا۔ مگر عوام کو، اور جمہور کو یہ کھویا ہوا وقت کوئی نہیں لوٹا پائے گا۔ ہر ایسے فیصلے کہ ساتھ سویلین ادارے وہ سیاسی جماعتیں خود اپنے آپ کو کمزور اور عوام کو اس نظام سے بد دل کرتے ہیں۔ اور اس طرح کی حرکتوں سے مُلک کا اس خطے اور دنیا میں جو مقام تھا اُس کو جو نقصان ہوا اس کا ازالہ نہ سیاسی جماعتیں اور نہ ہی ادارے کرسکیں گے.

ہاکستان کی سیاسی جماعتوں کی حکمرانی کا خلاصہ ایسے کر لیں کہ جس نظام کے تحت یا جس طریقے سے اربابِ اختیار کی جانب سے انھیں ہر الیکشن کے زریعے اقتدار میں لایا گیا تھا اسی طرح انھیں نکال بھی دیا جاتا ہے. یہ ہے پاکستان کے حکمرانوں کی تاریخ.

اخباری رپورٹ کے مطابق یہ عدالتی کاروائی رات تقریباً دو بجے تک جاری رہی اور منگل کی دوپہر بانی پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو دس دس سال قید کی سزا سنا دی گئی۔

جتنی جلد رفتاری سے چلنے والے سائفر ٹرائل اور انتخابات سے ٹھیک نو روز قبل سزا کے بعد اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مذاکرات کے فی الحال کیواڑ بھیڑ دیے گئے ہیں اور قفل بھی اب لگ گیا ہے.

پاکستان کے ماضی کے الیکشنوں میں عام طور پر یہی نظر میں آیا ہے کہ الیکشن سے قبل جو سوئنگ ووٹر ہوتا ہے وہ اسی جماعت کو ووٹ کرتا جس کے بارے میں اس کا خیال ہوتا ہے کہ وہ اقتدار میں آئیگی مگر ادہر یہ بھی نقطہ نظر آتا ہے کہ الیکشن کے نزدیک اس قسم کا فیصلہ آنے کے بعد پی ٹی آئی کا ووٹر ووٹ ڈالنے نکلے گا؟

لگتا یہی ہے کہ ’الیکشن سے کچھ دن پہلے اتنی تیز رفتار سے مقدمہ چلانے کا مقصد شاید یہی ہے کہ پی ٹی آئی کے ووٹر کو مایوس کیا جائے اور یہ پیغام دیا جائے کہ اب پی ٹی آئی کا بانی 10 سال تک جیل سے نہ نکل سکے گا، تاکہ وہ آٹھ فروری کو ووٹ دینے کے لیے نہ نکلیں۔

جبکہ اکثریتی ’پی ٹی آئی کے ووٹرز کو یہ بھی نہیں معلوم کہ عمران خان کو سائفر کیس میں سزا کیوں ہوئی اور اس کے محرکات کیا تھے، انھوں نے یہ پہلے بھی ہوتے ہوئے دیکھا ہے تو اس لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ مایوس ہوں۔‘

پی ٹی آئی کا ووٹر اس فیصلے کے بعد بددل ہو سکتا ہے مگر اب بھی پی ٹی آئی کے بانی کی بہنیں شہر شہر و گاؤں گاؤں ہنگامی الیکشن کمپین چلائیں اور اگر کوئی رُکاؤٹ نہ ڈالی گیں تو یہ مایوس اور بدل ووٹرز جوک در جوک پی ٹی آئی کو شاید ووٹ دینے نکل جائے

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 187 Articles with 81494 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.