آب پاشی کھِرینی دَلجہ اَجینی دَلجہ

اس کالم کو لکھتے ہوئے مجھے مرحوم جوہر علی ایڈوکیٹ بڑے یاد آئے اور اس کی یاد کیسے نہ آئے بات ہی کچھ ایسی ہے ۔کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنی ہی زبان میں اچھی لگتی ہیں ان کا ترجمہ دوسری زبان میں ہو ہی نہیں سکتا ۔کیا کہا تھا شینا زبان میں مرحوم جوہر علی صاحب نے تو وہ درج کیئے دیتا ہوں ۔گِیلیتے دو دَلو ویئی پی دَلہ بِلین ۔اب اردو میں اس کا ترجمہ کرنے بیٹھ جائوں تو اس گہری بات کو سمجھانے کے لیئے مجھے کئی قرطاس کی ضرورت ہوگی بس مختصراً اتنا بتا دیتا ہوں کہ گلگت والے اب وہ گلگتی نہیں رہے جنہیں ہم غیور اور غیرت دار کہہ سکیں ۔ عنوان میرا آج کا گلگت کے دو کوہل ہیں جو ملکہ جوار خاتون کے دور میں نکالے گئے تھے ۔ گلگت کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں جوار خاتون کے دور تک موجودہ گلگت یا تو بنجر یا ایک جھیل کی صورت میں نظر آجاتا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس وقت موجودہ گلگت شہر میں آبادی موجود تھی اس کا جواب نفی میں ہے ۔ اس وقت گلگت کی آبادی صرف اونچے جہگوں تک محدود تھی اور گلگت کی تاریخ میں پہلا شہر نپور نظر آجاتا ہے ۔ دوسرا سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ حال کے گلگت کی آبادی اور یہاں کھیتی باڑی کا زمانہ کب شروع ہوا تو اس کا جواب ہمارے سامنے گلگت کے دو کوہل کھَیرینی دَلجہ(کوہل پائین) اور اَجینی دَلجہ (کوہل بالا ) کی شکل میں اب بھی موجود ہیں ۔اب ان کوہلوں کی حالت کیسی ہے اور کیا ان کی درگت بنی ہے اور کیوں ؟ اس کا جواب جوہر علی صاحب مرحوم کی بات جس کا تذکرہ اوپر ہو چکا ہے موجود ہے جس کی سمجھ م آپ کو آئی ہوگی نہیں آئی ہے تو گھڑی باغ میں گندم سبسیڈی کا احتجاج دیکھ لیں ۔ تاریخ کو کھنگالا جائے تو رانی جوار خاتون کا دور 1652 تا 1670 کا بنتا ہے ۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت تک ہمیں اگورتھم گری قلعہ اور کپل کھن کے سوا گلگت میں اور کچھ دکھائی نہیں دیتا ہے اور جو تھوڑی بہت آبادی تھی بھی تو وہ اپنی پانی کی ضرورت دریائے گلگت سے مٹکوں اور ٹوکی میں لاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔یہ میرا قیاس ہے اور میرا یہ قیاس حقیقت سے قریب تر دکھائی اس لیئے دیتا ہے کہ جب ملکہ جوار خاتون نے گلگت کا نظم و نسق سنمبھالا اس نے اپنے دور کا جو پہلا سہنرا کام کیا وہ گلگت کے دو کوہلوں کی تعمیر ہے ۔ اس کی تفصیل میں جانا نہیں چاہتا کہ یہ کوہل کیسے بنے اور کتنی لاگت آئی اور کن لوگوں سے بنوائی گئی ۔ صرف اتنا کہنا چاہونگا کہ ملکہ جوار خاتون دور کی اس نہری آبپاشی نظام نے گلگت کی کایا پلٹ دی اور گلگت ہرے بھرے کھیتوں کا مسکن بن گیا ۔ آج کے جدید دور کی طرف جب ہم نگاہ دالتے ہیں تو آج کے بڑے بڑے منصوبے ملئن ڈالرز خرچ کرنے کے بعد سالوں میں ملیا میٹ ہو جاتے ہیں جبکہ رانی جوار خاتون کے آبپاشی نظام جو آج تک موجود ہے ایک شہکار سے کم نہیں کاش ہم ملکہ جوار خاتون کے آبپاشی نظام کو برقرار رکھتے تو آج بھی ہم اسی طرح بے دھڑک اپنے ندی نالوں سے منہ لگا کر پانی پی لیتے لیکن افسوس ہم نہ صرف اس آبپاشی نظام کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے بلکہ آج تک اپنی دوسری بنجر زمینوں کی آباد کاری کرنے میں بھی بری طریقے سے شکست سے دو چار ہیں ۔ گلگت کے دو کوہلوں کوہل پائین اور کوہل بالا کی انجئرنگ اور اس شہکار کے بارے مزید معلومات کسی قارئین کو ضرورت ہیں تو وہ میری ٹائم لائن میں مل سکتی ہیں فی لحال ماضی قریب 1954 کا کوہل پائین اور پونیاں را کا بنگلہ دیکھ لیں شائد اپ کو صاف ستھرا گلگت یاد آئے

Hidayatullah Akhtar
About the Author: Hidayatullah Akhtar Read More Articles by Hidayatullah Akhtar: 46 Articles with 51676 views
Introduction:
Hidayatullah Akhtar (Urduہدایت اللہ آختر‎) is a columnist, writer, poet, social worker and Ex Govt servant from Gilgit Pakistan. He
.. View More