سندھ کے خانہ بدوش قبائل

سندھ کے خانہ بدوش قبائل کا تعارف اور ان کی تہذیب و ثقافت کا جائزہ

خانہ بدوش قبائل دنیا میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں جو سر پر سامان کی گٹھری رکھ کر یا گدھوں یا بیل گاڑیوں پر سامان لا د کر شاہراہوں کے کنارے سفر کرتے نظر آتے ہیں۔یورپ میں بھی خانہ بدوش قبائل ّبستے ہیں جو انگریزی لفظ ’’جپسی ‘‘کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔ہر ملک کے قبائل کا رہن سہن، تہذیب و ثقافت اس ملک کے رسوم و رواج اور طرز حیات سے مختلف ہوتا ہے۔ خانہ بدوش قبائل شکاری آزادانہ زندگی گزارنے کے عادی ہوتے ہیں،اس لیے انہیں معاشرتی پابندیوں کو ذہنی طور سے قبول نہیں کرپاتے۔ جدید معاشرے میں رہنے کے باوجود وہ صدیوں سے سے اپنی قدیم روایات پر قائم ہیں۔ سندھ میں بھی متعددخانہ بدوش قبیلے بستےہیں۔ ان میں کوچڑے ، جوگی ، شکاری، کوئی ، کبوترے، واگھڑے ، راوڑے، گوارے، باگڑی، اوڈھ شامل ہیں۔انہیں شہروں کی پابندیاں قبول نہیں ہوتیں۔ یہ ہمیشہ سفرمیں رہتے ہیں اس لیے ایک مقام سے نقل مکانی کرکے دوسرے علاقوں میں اپنا ٹھکانہ بناتے ہیں ۔ مصروف شہروں و قصبات کی ریلوےلائنوں کے ساتھ گھاس پھوس اور سرکنڈوں کی جھونپڑیاں ڈال کر اپنا رہائش اختیار کرتے ہیں۔ جب وہاں سے دل اچاٹ ہو جاتا ہے تو کسی دوسرے علاقے کا رخ کرتے ہیں۔

خانہ بدوش افراد، قومی شاہراہ، سپرہائی وے، انڈس ہائی وے اور ایک شہر سے دوسرے شہر کی جانب جانے والی کچی پکی سڑکوں پر گدھوں پر سامان لاد ے ایک مقام سے نقل مکانی کرکے اگلی منزل کی طرف جاتے نظر آتے ہیں۔چند سال قبل تک ٹوٹے پھوٹے جھونپڑوں کے اندر غیر انسانی ماحول میں زندگی گزارتے تھے لیکن اب ان کی نئی نسل نے اپنے آبا و اجدادکاطرز رہائش ترک کرکے جدید تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھال لیا ہے۔ شہروںکے قریب رہنےوالے خانہ بدوشوںکی جھونپڑیوں میں شمسی توانائی سے استفادے کے لیے سولر پلیٹیں اور پینل لگے ہوئے ہیں، جب کہ جھونپڑیوں کےاندر ٹی وی،ایل ای ڈیے،، فریج، ٹچ موبائل اور الیکٹرونکس کی دیگر مصنوعات بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ متعدد افرادوائی فائی اور انٹرنیٹ بھی استعمال کرتے ہیں۔کراچی کے مختلف علاقوں میںسرکلر ٹرینوں پرشرپسندوں کے حملوں کے بعد ٹرینیں تو بند کردی گئیںلیکن ریل کی پٹریاں اور اسٹیشن کی عمارتیں و پلیٹ فارم سرکلر ریلوے کی باقیات کی صورت میں موجود ہیں۔ان کی پٹریوں کے ساتھ اور پلیٹ فارم پر خانہ بدوش خیمے گاڑ کر اور جھونپڑیاں بنا کر رہتے ہیں۔ کراچی میں ناگن چورنگی ، قائدآباد پر ملیر ندی کے پلوں کے نیچے بھی یہ جھونپڑ پٹیوں میں آباد ہیں۔ ان خانہ بدوشوں کے جھونپڑوں میں بھی یہ تمام سامان تعیش موجودہے ۔

بعض مؤرخین کے مطابق،سیکڑوں سال قبل خانہ بدوش قبائل ، براعظم افریقہ میں آبادتھے۔ سکندراعظم جب دنیا تسخیر کرنے نکلا تو اس نے مزدوروں اور خدمت گاروں کے طور پر ان قبائل کو اپنے لشکر میں شامل کرلیا۔سکندرسندھ بھی آیا، اس کی واپسی کے بعدمذکورہ قبائل سندھ میں آباد ہوگئے۔ افریقی قبائل کے متعدد رسم و رواج سندھ کے خانہ بدوش قبائل سے ملتے جلتے ہیں۔ افریقہ کے وحشی افراد خود کو’’ زنگلی ‘‘یا ’’سنتی ‘‘کہتے ہیں ۔ اس کے بارے میں سندھ کے لسانی ماہرین کا کہنا ہے کہ، سنتی دراصل سندھی کی بگڑی ہوئی شکل ہے، جب کہ زنگلی، جانگلی یا جنگلی کو کہا جاتا ہے۔ سندھ میں بسنے والے قبائل اپنے پیشے یا رہن سہن کی وجہ سے شناخت رکھتے ہیں ۔

صحرائے تھر سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں جوگی قبیلہ آباد ہے۔ قبیلے کے لوگ سانپ پکڑنے اور انہیں پٹاریوں میں بند کرکے بستی بستی گھوم پھر تماشا دکھاتے ہیں۔ اس قبیلے کے افراد سانپ کے ڈسے کا علاج کرنے، گیدڑ سنگھی کی فروخت اور مرلی یا بین بجانے کے فن میں مہارت رکھتے ہیں۔ بین بجانا فن موسیقی کا انتہائی کٹھن سازہے۔اسے بجانے سے سارے بدن کی سانس کھنچ کر جبڑوں میں آجاتی ہے، گلے کی رگیں پھول جاتی ہیں۔ سانپ مست ہوکر جھومتا ہے تو تماشا دیکھنے والے اس منظر سے محظوظ ہوتے ہیں اور خوش ہوکر سپیرے کو پیسے دیتے ہیں۔ جوگی قبیلے کے افراد ہندو مت سے تعلق رکھتے ہی۔لیکن اس قبیلے کے افرادپنے مُردوں کونذرآتش نہیں کرتےہیں ،بلکہ جس جگہ یہ مرتے ہیں ، انہیں وہیں سپرد خاک کردیتے ہیں۔

عمر کوٹ میں جوگیوں کا قبرستان ہے جہاں جوگی برادری کی میتوں کو دفنایا جاتا ہے۔ فراعین مصر کی طرح جوگی بھی اپنے مردوں کی تدفین کے وقت میت کے ساتھ کھانا، تمباکو کے پتوں سے بنی بیڑیاں بھی رکھتے ہیں۔ دفنانے سے قبل مُردے کو مسلمانوںکی طرح غسل بھی دیا جاتا ہےجب کہ دورانِ غسل میت کے منہ میں تانبے کا ٹکڑا رکھا جاتا ہے۔ مردے کوگیروے رنگ کا کفن پہنایا جاتا ہےاور’’ رام رام گورکھ ناتھ‘‘ کا جاپ جپتے ہوئےاسے قبر میں اتارتے ہیں ۔ کہتے ہیں جوگی اپنے جنتر منتر سینہ بہ سینہ منتقل کرتے ہیں۔ یہ پراسراریت ہی انہیں دیگر سے علیحدہ زندگی گزارنے پر مجبور کرتی ہے۔

خانہ بدوشوں کی ایک ذات ’’بھیل ‘‘ ہے جوشکار سے جنون کی حد تک شغف رکھنے کی وجے سے ’’شکاری قبیلے‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ بھی ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کا رہن سہن، رسوم و رواج مسلمانوں سےخاصی حد تک مماثلت رکھتے ہیں۔یہ نہ تو مندر جاتے ہیں اور نہ ہی دیوی دیوتاؤں کا بت بناکر اس کے سامنے بیٹھ کرعبادت کرتے ہیں۔ ان کی شادی بیاہ کی رسومات بھی مسلمانوں کی طرح انجام دی جاتی ہیں۔ شادی کے موقع پر دولہا کھانے سے قبل لڑکی کے ماں باپ سے جہیز میں اچھی نسل کے شکاری کتے کا مطالبہ کرتا ہے ، جو لڑکی والوں کو پورا کرنا لازمی ہوتا ہے۔ شکاری قبیلے کے افراد کے مرنے کے بعد انہیں بھی مسلمانوں کے انداز میں نہ صرف دفنایا جاتا ہے بلکہ دعائیہ تقریب کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔

ثقافتی میلے سندھ کی تہذیب و ثقافت کا لازمی حصہ ہیں۔ سندھ کانشیبی علاقہ، جسے مقامی باشندوں نے’’ لاڑ‘‘ کا نام دیا ہے، وہاںسائیں سمن سرکار سمیت متعدد بزرگوں کے میلوں کا انعقاد ہوتا ہے، جن میں گواری قبیلے کی خواتین پتھارے لگا کر یا ٹھیلوں پرلگا کر اشیائے خورونوش و اشیائے ضروریہ فروخت کرتی ہیں۔ گواری بھی خانہ بدوشوں کا قبیلہ ہے،جس کے افراد راجپوت نسل سےتعلق رکھتےہیں، سندھ کے شمالی علاقوںمیں انہیں’’ ٹھکر‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ بھکاری کے پیشے کوبرا سمجھتے ہیں ۔ اس قبیلے کے افرادزیریں سندھ ہی میں نہیں بلکہ بالائی اور وسطی سندھ کے متعدد شہروں میں بھی رہتے ہیں۔
خانہ بدوشوں کی ایک ذات ’’ راواڑا‘‘ کہلاتی ہے۔ ان کا بھی ہندو مت سے تعلق ہے، لیکن ان کا رہن سہن اور رسوم و رواج بھی ہندو ؤں سے مختلف ہوتے ہیں۔ ہندو مذہب میں ایک سے زائد شادیوں کی ممانعت ہے لیکن اس قبیلے کے مرد حضرات ایک سے زائدشادی کو جائز سمجھتے ہیں۔ مرد سڑکوں پر پتھر کوٹتے ہیں جب کہ ان کی عورتیں اور بچے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔شادی، بیاہ کے معاملات میں بھی ان کا جداگانہ انداز ہے۔ ہندوؤں کی دیگر قومیتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کے برعکس راوڑیاں صرف سہاگ رات کو منگل سوتر پہنتی ہیں اور اگلی صبح اتار دیتی ہیں۔ اس قبیلے کے افراد بھی جوگیوں اور بھیل قبیلے کی طرح اپنے مُردے دفناتے ہیں۔ قبیلے کے مرد شادی کے وقت اپنے خسر کو ایک طے شدہ رقم کی ادائیگی کرتے ہیں۔ اگر میاں ،بیوی میں اختلافات ہونے کے باعث شادی کا بندھن ٹوٹ جائے تو لڑکی کے باپ کو وہ رقم واپس کرنا ہوتی ہے۔

خانہ بدوشوں کا یک قبیلہ’’ کبوترا ‘‘بھی ہے، جو شہر کے اطراف میں جھونپڑیاں ڈال کررہتا ہے۔اس برادری کے مرد جھگیوں میں آرام کرتے دیکھے جاتے ہیں، جب کہ ان کی خواتین دیہات ،قصبات اور شہروں میں بھیک مانگ کر اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالتی ہیں۔ قبیلے کے افراد مُردہ جانوروں، بالخصوص پرندوں، مرغیوں کا گوشت خشک کرکے سارا سال استعمال کرتے ہیں۔گداگری کے علاوہ قبیلے کے بعض افراد جن میں عورتاور مرد دونوں شامل ہیں،مٹی کے کھلونے بنا کر فروخت کرتے ہیں۔ بعض گھرانوں کی خواتین گا بجا کر پیسے کماتی ہیں ،جب کہ متمول گھرانوں میں انہیں ’’کرائے پررونے والیوں‘‘ کے طور پر بلایا جاتا ہے ۔ یہ عورتیں میت یا غمزدہ خاندان کے افراد کے ساتھ آہ و زاری کرنے کا معاوضہ وصول کرتی ہیں۔

خانہ بدوشوں کا ایک قبیلہ ’’کوچڑے‘‘ ، کہلاتا ہے ، جسے چور قبیلہ بھی کہا جاتا تھا۔ یہ زیادہ ترمویشیوں کی چوری کرتے ہیں اور اس میں انہیں خاص مہارت حاصل ہے۔ یہ لوگ گھروں اور دکانوں میں نقب لگانے،، راہ گیروں کی آنکھوں میں مرچیں ڈال کر لوٹنے میں کمال رکھتے تھے۔ بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ چلتے چلتے یہ اس کی گردن پر ایسا ہاتھ ڈالتے کہ گردن کا منکا ٹوٹ جاتا ہے، جس کے بعدیہ اسے اپنے ساتھ لائے جانے والے گدھے پر لٹکی بوری میں ڈال کر ایسے رفو چکر ہوتے کہ چرواہےتک کو بھی خبر نہیں ہوتی۔ زندہ بکری پکڑنےکے لیے ہاتھ میں موجود کیکر کا کانٹا اس کی زبان میںایسے لگاتےہیںکہ وہ ممیا بھی نہیں سکتی۔اس کے بعدوہ اسےگدھے پر ڈال کر فرار ہوجاتے۔ شادی بیاہ کے دوران وہ قبیلے کی روایت کے مطابق ، شادی کے وقت لڑکی والے، دولہا کے ماں، باپ سے بھاری رقم طلب کرتے ہیں جو ساٹھ ہزار روپے کے قریب ہوتی ہے۔ کوچڑے بھی ہندو مت تعلق رکھتے ہیں لیکن وہ بھی مسلمانوں کی طرح اپنے مُردوں کو غسل دینے کے بعد تدفین کرتے ہیں۔لیکن ان کے یہاں مسلمانوں کے برعکس، مردہ شوہر کو بیوی اور مردہ بیوی کو شوہر غسل دیتا ہے۔ میت کے ہاتھوں میں مہندی اور آنکھوں میں کاجل لگایا جاتا ہے جب کہ دانتوں کی صفائی اور ناخن بھی تراشے جاتے ہیں۔

خیرپور کے صحرائی علاقے نارااور زیریں سندھ کے ضلع بدین میں سامی قبیلہ آباد ہے۔یہ بھی ہندو مت کے پیروکار ہیں،دیوی ،دیوتاؤں کی پوجا کرتے ہیں۔اس قبیلے کے زیادہ تر لوگ روحانیت کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیںاور گیروے رنگ کےلباس میں ملبوس کاندھوں پر لمبے بانسوں میں پٹاریاں لیے گلی گلی گھومتے نظر آتے ہیں۔ ماضی میں یہ مستقبل بینی کے پیشے سے وابستہ تھے۔یہ پانسے پھینک کرتقدیر کا حال ، ہاتھ کی لکیروں سے ماضی اور حال کا احوال اور مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں کرتے تھے۔ لیکن اس جدید سائنسی دور میں یہ پیشہ متروک ہوتاگیا،اب اس پیشے سےوابستہ چند افراد ہی باقی بچےہیں۔

خیرپور کے صحرائی علاقےسے تعلق رکھنے والے سامی مذہبی عقائد میں مسلمانوں کے زیادہ قریب ہیں۔وہ اہل تشیع افرادکی طرح زیارت کے لیےایران جاتے ہیں ۔ محرم میں عزاداری اور ماتم ، مجلس کا بھی انعقادکرتے ہیں ۔ ان کے نام بھی مسلمانوں کے ناموں جیسے ہوتے ہیں۔ نارا کے سامی بدین کے سامیوں کو خود سےکم تر سمجھتےہیں۔ سامی قبیلے کے افراد کی شادی ، بیاہ کی رسومات بھی عجیب و غریب ہوتی ہیں۔ شادی کے روز وہ مٹی کےپانچ کورے مٹکوں میں پانی بھرکر ان میں گُڑ یا شکر ڈالتے ہیں ۔ اس مٹکے سے گلاس میں پانی بھر کر دلہن اپنے دولہا کو پلاتی ہے۔ پانی پی کر بچا ہوا پانی شوہر اپنی دلہن کو پلاتا ہے۔ گلاس کا پانی ختم ہونے کے بعد وہ دوبارہ گلاس بھر کرایک دوسرے پر اس پانی کے چھینٹے بھی مارتے ہیں۔سامی قبیلے کے افراد بھی دیگر خانہ بدوش قبائل کی طرح مردے جلانے کی بجائے انہیں دفناتےہیں۔ شوہر کے مرنے کے بعدقبیلے کے مذہبی عقائدکے مطابق اس کی بیوہ ایک سال تک پیلے رنگ کی قمیص پہنتی ہے، جسے ’انگی‘‘ کہا جاتا ہے۔ مرنے والے کا بیٹابھی اپنی ماں کی طرح سارسال ایک ہی لباس پہن کر رہتا ہے۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.