تجارتی بحریہ کے مایہ ناز کپتان اور جہاندیدہ دانشور *کیپٹن محمّد اکرم* کی زیست کی کہانی

پانی پر تیرنا اتنی ہی پرانی بات ہے جتنی انسان کی تاریخ ، پرانے زمانے میں لوگوں نے جب کسی درخت کے تنے کو دریا میں بہتا دیکھا ہوگا تو انہوں نے معلوم کر لیا ہوگا کہ لکڑی پانی میں تیر سکتی ہے۔اس زمانے کے لوگ درختوں کے انہی تنوں پر سوار ہو کر دریاؤں کو عبور کرتے تھے۔

اس کے بعد انہوں نے بہت سی لکڑیوں کو ملا کر ایک بڑا سا تختہ بنا لیا جس پر کئی آدمی بیٹھ سکتے تھے اور سامان کو بھی اس کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جا سکتا تھا۔جلد ہی انسان کی ضرورت نے اسے محسوس کرا دیا کہ یہ طریقہ بھی محفوظ نہیں۔۔اب اس نے تختوں کو ملا کر کھوکھلی لکڑی کی صورت میں ناؤ یا کشتی بنائی جس میں چار یا چھ آدمی بیٹھ کر سفر کرنے لگے۔باد بان کا استعمال بھی اسی زمانے میں شروع ہوا۔

اس وقت تک ناؤ صرف دریا کے بہاؤ پر چلتی تھی ۔بادبان کی ایجاد سے اسے مخالف سمت میں بھی چلایا جانے لگا۔ انسان نے جب دریاؤں اور جھیلوں کو عبور کر لیا تو باہمت ملاحوں نے سمندر کے کنارے کچھ دور تک ناؤ چلائی ۔امریکی باشندے رابرٹ فلٹن نے 1807 میں بھاپ سے چلنے والا بحری جہاز بنایا ۔آہستہ آہستہ جہاز سازی کی صنعت میں ترقی ہوتی چلی گئی۔۔اس کے بعد جہاز سازی میں نئی نئی تحقیقات کی گئیں اور تھوڑے عرصے بعد بحری سفر آرام دہ اور محفوظ ہو گیا۔بحری جہازوں نے طوفانوں پر اگرچہ فتح پائی، تاہم ان کے ڈوب جانے کا برابر اندیشہ رہتا تھا۔ آخر ایک انگریز ليونل ليوکن نے ایک لائف بوٹ بنائی۔

آہستہ آہستہ اس کو بہتر بنایا اور اس کی خامیوں کو دور کیا ۔اب حادثات کے وقت یہ لائف بوٹ 25 آدمیوں کو سمندر سے صحیح سلامت نکالنے لگی۔آج کل کے جہازوں میں مسافروں کے آرام اور سہولت کے لیے سینما ،کھیل کے میدان اور تیراکی کے تالاب بھی ہوتے ہیں۔ جنگ کے لیے الگ جہاز بنائے جاتے ہیں۔ بحری جہازوں کی صنعت بہت وسیع ہے اور مختلف ممالک کے درمیان تجارت کا اہم ذریعہ بھی۔۔۔
ان جہازوں کو انتہائی تعلیم یافتہ اور قابل پیشہ ور ماہرین آپریٹ کرتے ہیں.۔۔۔

سمندر کی دنیا کے اس پورے نظام کو قریب سے دیکھنے والے بحری جہازوں کے کپتان محمّد اکرم نے 39 سال انہی بحری جہازوں کے نیلے پانیوں پر اپنے شب و روز گزارے ۔۔۔۔اور دنیا بھر کے مختلف تجارتی جہازوں پر بطور کپتان خدمات سر انجام دیں۔ انہوں نے اپنے گھر پر سمندری دنیا کے بحیروں کا ایک بہت بڑا نقشہ آویزاں کر رکھا ہے ۔۔ بحری جہازوں کا سفر ایک پراسرار اور ہیبت ناک مناظر پیش کرتا ہے۔۔جہازوں میں دوران سفر مسافر مرتے بھی ہیں ، جہازوں کے ڈوبنے جیسے خوفناک واقعات بھی رونما ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔بڑی بڑی ویل مچھلیوں کا جہازوں سے ٹکرانے کے حادثات بھی ہوتے ہیں۔

کپتان محمد اکرم نے یہ سارے ہیبت ناک مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں ۔۔۔۔۔ کپتان محمد اکرم نے اپنی پیشہ ورنہ زندگی کا آغاز پاکستان شپنگ کارپوریشن سے کیا تھا پھر جب انہوں نے سیکنڈ آفیسر کا امتحان پاس کر لیا تو انہوں نے دنیا بھر کی مختلف پرائیویٹ شپنگ کمپنیوں کو جوائن کیا اور مختلف جہازوں پر بطور کپتان کام کرتے رہے ۔۔۔

ان کا کہنا ہے کہ جب دوران سفر کوئی مسافر طبعی موت یا کسی اور وجہ سے مر جاتا ہے تو لمبے سفر میں اس کی لاش کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے ۔اس لیے اس میت کو پانی میں پھٹا باندھ کر سمندر میں چھوڑنا مجبوری بن جاتا ہےتاکہ لکڑی کا پھٹا نیچے زیر آب چلا جائے اور مچھلیاں ان کو اپنی خوراک بنا لیں۔۔۔ کپتان محمّد اکرم نے بتایا کہ کرہ ارض میں ایک ہی سمندر ہے جسے عالمی سمندر کہا جاتا ہے جس نے دنیا کی تقریبا 71 فیصد بیرونی سطح کو گھیر رکھا ہے ۔سمندر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کسی رکاوٹ کے بغیر بہنے والا یہ دنیا کے کل پانی کا 97 فیصد حصہ ہے۔بہت بڑے سمندر کو Ocean کہا جاتا ہے۔

جبکہ نسبتا چھوٹے سمندر کو بحیرہ کہتے ہیں۔جغرافیائی دانوں نے بہت برسوں تک اس عالمی سمندر کو چار حصوں میں تقسیم کیے رکھا ہے جن میں بحر اوقیانوس، بحر الکاہل ، بحر ہند ، بحر منجمد شمالی ۔۔
ان سمندروں کے علاوہ انہوں نے نمکین پانی کے چھوٹے حصوں کی بھی وضاحت کر رکھی ہے۔جن میں بحیرے ،خلیجین ،اور دریاؤں کے آخری سرے شامل ہیں۔۔ سن 2000ء میں پانچویں سمندر کو باقاعدہ تسلیم کیا گیا۔

بعض ماہرین پانچ کے بجائے سات سمندر کہتے ہیں جن کے بارے میں شاعر کہتے ہیں کہ محبوب سات سمندر پار چلا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔ 39 سال انٹرنیشنل شپنگ میں اپنی خدمات سرانجام دینے والے لیجنڈ کپتان محمّد اکرم نے ان جزیروں کو اور ان بحیروں کو اپنی آنکھوں سے قریب سے دیکھا ہے۔۔کیپٹن محمد اکرم نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ بحرالکاہل ڈیڑھ کروڑ سے زائد مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔اور یہ دنیا کا سب سے بڑا سمندر ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ دنیا کے 80 فیصد رقبے پر محیط ہے۔اور خشکی کے رقبے کے تقریبا مساوی ہے۔۔

کپتان محمد اکرم نے بحرالکاہل کے بارے میں بتایا کہ بحر الکاہل میں تقریبا 25 ہزار جزائر ہیں جو دنیا بھر کے سمندر میں موجود کل جزیروں کی تعداد سے بھی زیادہ ہیں۔۔انہوں نے کہا کہ بحرالکاہل مغربی نصف کرہ میں بحر جنوب، ایشیا اور اسٹریلیا کے درمیان واقع ہے۔اس کی اوسط گہرائی 13215 فٹ ہے۔جبکہ اس کا گہرا ترین مقام جاپان کے نزدیک " ماریانا ٹرنچ" ہے۔۔اور اس کی گہرائی 35 ہزار 840 ہے ۔۔۔بحر اوقیانوس کے بارے میں کپتان محمّد اکرم نے بتایا کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا سمندر ہے ۔جو 76 کروڑ 76 لاکھ سے زائد مربع کلومیٹر وسیع ہے ۔۔انہوں نے کہا کہ اس میں بحیرہ بالٹک ، بحیرہ اسود ، بحیرہ کریبین، خلیج میکسیکو ، بحیرہ روم اور بحیرہ شمالی ہیں ۔بحر اوقیانوس کی اوسط گہرائی 12880فٹ ہے۔

کپتان محمد اکرم نے بتایا کہ بحر ہند دنیا کا تیسرا سب سے بڑا سمندر ہے اور اس کا رقبہ 68566000 مربع کلومیٹر ہے۔یہ افریقہ ، بحر جنوب ایشیا اور اسٹریلیا کے درمیان واقع ہے۔بحر ہند کی اوسط گہرائی 13 ہزار فٹ سے زائد ہے۔

کپتان محمد اکرم نے چوتھے بحیرے کے بارے میں بتایا کہ یہ سب سے چھوٹا سمندر ہے۔اور یہ 14056000مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے ۔سال کے زیادہ تر حصے میں بحر منجمد بہتے قطبی برفانی تودوں سے ڈھکا رہتا ہے ۔۔۔۔۔

سمندروں کی دنیا کے بارے میں کپتان محمد اکرم نے بتایا کہ سمندر کی گہرائی اپنے اندر کئی پر اسرار اور خوفناک راڑ چھپائے ہوئے ہے۔ زمین پر موجود سائنسدان صدیاں گزرنے کے باوجود بھی ان سے پردہ اٹھا نہیں پائے۔۔ کپتان محمد اکرم نے بتایا کہ سمندر کا زیادہ تر حصہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔کیونکہ روشنی سمندر میں صرف 200 میٹر کی گہرائی تک پہنچ سکتی ہے اس کے بعد کا تمام حصہ تاریک ہوتا ہے جسے آفونک زون کہتے ہیں۔

کپتان محمد اکرم نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوۓ مزید کہا کہ ہم پوری دنیا اور اس کے تمام مال و اسباب ڈال کر بھی سمندر کی گہرائی کو ختم نہیں کر سکتے بلکہ اس کے بعد بھی سمندر دو کلومیٹر گہرا رہے گا۔

کپتان محمد اکرم نے مزید بتایا کہ بہت زیادہ گہرائی میں ڈوب جانے والی چیزوں کو پانی کے دباؤ کی وجہ سے نکالنا تقریبا ناممکن ہوتا ہے جیسے ٹائٹینک جہاز کو سو سال بعد بھی نہیں نکالا جا سکا۔انہوں نے کہا کہ سمندر ہزاروں جزیروں اور وائرس کا گھر بھی ہوتے ہیں اور ان جراثیموں کی بنیادی وجہ خود انسان ہے۔اس سلسلے میں سائنس دان بھی کہتے ہیں کہ ایک اندازے کے مطابق سمندروں میں آٹھ ملین ٹن کچرا پایا جاتا ہے جو کہ انسانوں نے پھینکا ہے۔اگر سمندری لہروں سے پیدا ہونے والی توانائی کا صرف 1۔0فیصد استعمال کریں تو ہم اتنی بجلی پیدا کر سکتے ہیں جو کہ پوری دنیا کی بجلی کی طلب سے بھی پانچ گنا زائد ہوگی۔ کپتان محمد اکرم نے ایک بڑی دلچسپ بات بھی بتائی کہ دنیا بھر کے سمندری پانی میں تقریبا 20 ملین ٹن سونا پایا جاتا ہے۔لیکن اب تک ایسا کم لاگت کا حامل طریقہ کار دریافت نہیں کیا جا سکا جس کی مدد سے یہ سونا حاصل کیا جا سکے۔

سمندر کی دنیا اور سمندر کے نیلے پانیوں کو قریب سے دیکھنے والے کپتان محمد اکرم ایک جہاندیدہ دانشور ہیں ۔جن کی ساری زندگی کٹھن اور سخت حالات میں ملازمت کرتے ہوئے گزری۔ انہوں نے 39 سال مختلف ممالک کے تجارتی جہازوں میں کلیدی عہدوں پر خدمات سر انجام دیں۔۔

کپتان محمد اکرم نے اپنے ملک کے بارے میں کہا کہ کسی ملک کی معیشت کے منفی اور مثبت ہونے کا اندازہ اس ملک کی امپورٹ یا ایکسپورٹ کی کمی یا زیادتی سے لگایا جاسکتا ہے۔ 1947 کے بعد سے اب تک پاکستان کی معیشت میں شپنگ یا جہاز رانی کا کردار بہت اہمیت کا حامل رہا ہے، اگر ہم اپنے پڑوسی ممالک اور دنیا کے دوسرے ممالک کی شپنگ انڈسڑی کو پاکستان کی شپنگ انڈسٹری سے موازنہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ہاں اس انڈسٹری کو مزید فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان ایک بحری ملک ہے، ہزار کلو میٹر تک پھیلی ہوئی لمبی ساحلی پٹی ہونے کے باوجود آج تک ہم بحری قوم نہیں بن سکے، جس کا ایک سبب بحری علوم کا نہ ہونا، شپنگ کمپنیوں اور بندرگاہوں میں تجربہ کار افراد کی کمی اور تیسرا بڑا اہم سبب سیاسی مداخلت ہے جو روزگار کے مثبت مواقع پیدا کرنے میں منفی کردار ادا کرتا رہا ہے۔

پاکستان کی شپنگ انڈسٹری کو فروغ دینے کے لیے بحری جہازوں اور کشتیوں کی تعداد کو بڑھانے اور ان پر ہنرمند افراد کو روزگار فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی شپنگ انڈسٹری پچھلے 75 سال میں بہت سے مسائل کا شکار رہی ہے، وقت کے ساتھ ساتھ بہت سی تبدیلیاں بھی آئیں جو شپنگ انڈسٹری کو فائدہ یا نقصان پہنچانے کا سبب بنتی رہی ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان کی پہلی شپنگ کمپنی پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کے پاس جہازوں کی تعداد بتدریج کم ہو کر رہ گئی ہے۔ اس سلسلے میں وزارت پورٹ اینڈ شپنگ، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن، مرکنٹائل میرین ڈپارٹمنٹ کو مل کر ایسا لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے جس سے بحری ٹیکنالوجی اور بحری علوم کو فروغ دینے کی منصوبہ بندی کی جاسکے۔

مختلف ممالک میں بحری جہاز کے ساتھ جانے کی وجہ سے سالوں بعد وطن لوٹنا ہوتا تھا۔ پیچھے اپنے وطن میں ان کی اہلیہ نے بیٹیوں کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔اور انہیں اعلی مدارج تک تعلیم سے بہرہ ور کیا ۔۔۔۔۔ان کی تمام بیٹیاں کامیاب زندگی گزار رہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ کیپٹن محمد اکرم کا اس بات پر یقین ہے کہ انسان کو نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو ہونا چاہیے اور آپ اس بات پر ساری زندگی عمل پیرا رہے ۔۔وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے عمل پر یقین رکھتے ہیں۔

تاریخ نے ہمیشہ انہی لوگوں کا نام یاد رکھا جنھوں نے ’’میں کچھ نہیں کر سکتا‘‘ کی زنجیریں توڑتے ہوئے سب کچھ ممکن بنایا۔ حضرت اقبال نے اسی لیے اپنے ایک شعر میں کہا ہے ’’اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے‘‘۔ ہر انسان کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ کچھ ایسا کر جائے کہ لوگ اسے اچھے لفظوں میں یاد رکھیں۔ اگر آپ دنیا پر اپنا نشان چھوڑنا چاہتے ہیں تو صرف سوچتے رہنے سے کچھ نہیں ہو گا، آپ کو اس کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا۔

کیپٹن محمّد اکرم نے شیپنگ کارپوریشن میں بطور کپتان اپنی سروس کے دوران دنیا بھر کے ممالک کی بودوباش اور تہذیب و تمدن کو قریب سے دیکھا ہے ان کی ترقی کا راز اور اصول و قوانین کو خوب دیکھا اور پرکھا ہے۔ نظم و نسق اور پابندی وقت جیسے اوصاف ان کے ہاں روز مرہ کی عام سی بات ہے۔۔وہ اقبال کے اس فرمان پر عمل پیرا ہیں کہ اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے۔
بقول اقبال !

اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِ آدم ہے___ضمیر کُن فکاں ہے زندگی

راقم (ڈاکٹر اظہار احمد گلزار) کی ان کے دولت کدہ پر ایک طویل نشست ہوئی جس میں ماضی میں ان کی بطور کپتان پیشہ ورانہ مصروفیات کے بارے میں ایک مکالمہ ہوا ، جس میں ان کا حالیہ دورہ انگلینڈ میں قیام کے دوران وہاں کے علاقوں کی تہذیب و تمدن اور بودوباش کے حوالہ سے گفتگو بھی شامل تھی۔

کیپٹن محمّد اکرم اپنے بہن بھائیوں سے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔ ان کی پیدائش نور محمّد نور کپور تھلوی دے گھر تیرہ سال بعد ہوئی ۔کیپٹن محمّد اکرم 1952ء کو ضلع فیصل آباد پاکستان دے اک گاؤں چک 87 گ ب بابے دی بیر براہ ڈجکوٹ وچ پیدا ہوۓ ۔۔۔۔۔۔

نور محمّد نور کپور تھلوی کو اپنے اس بڑے بیٹے کے ساتھ بہت زیادہ پیار تھا ۔۔۔کیپٹن محمّد اکرم نے اپنے والد گرامی کی یاد میں ایک مضمون لکھا تھا جیہدے وچ اک پت دی اپنے باپ نال محبت سمندر دے پانیاں وانگوں ٹھاٹھاں پئی مار دی نظریں آؤندی اے ۔۔۔راقم اینہاں دی اوس تحریر نوں ایس تھاں مکمل شامل کر ریہا اے ۔۔ایس وچوں کیپٹن صاحب دا بچپنا ، لڑکپن ، جوانی تے ملازمت دے سارے رنگ اگھڑ کے ساہمنے آون گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نور محمد نور کپور تھلوی ......میرے والد.....میرے بہترین دوست
تحریر: کیپٹن محمّد اکرم ۔۔۔۔۔۔۔۔

کئیاں دِناں توں میرا نِکا بھرا اظہار احمد گلزار مینوں میرے ابا جی دے بارے کُجھ لکھن لئی آکھ رہیا سی تے میں کئی دن ایہو سوچن وچ لنگھا دِتے پئی میں کیہ لکھاں .....اِک عظیم تے مثالی باپ بارے اِک پُتر کیہ گل کر سکدا اے۔۔ میں نہ تے کوئی ادیب واں تے نہ ای کدے کوئی لکھت تحریر کیتی اے۔

میں قلم لے کے بیٹھا تے ابّا جی دیاں سنہری تے مٹھیاں یاداں نے مینوں کلاوے بھر لیا تے میں کئی ورھے پچھے اپنے بچپنے وچ چلا گیا۔ اوس ویلے میری عمر کوئی پنج ورھے توں وی گھٹ ہو سی۔ ایہ 1957ء دیاں گرمیاں دا کوئی مہینہ سی جدوں ابا جی ہوری سانوں لین واسطے کراچی چھائونی دے ریلوے اسٹیشن تے آئے سن۔ اوس ویلے اوہ کراچی پورٹ ٹرسٹ وچ اسٹنٹ انجیئنر سن تے کراچی دے جزیرے منوڑہ وچ اوہناں دی رہائش ہندی سی۔ کُجھ دناں پچھوں اوہ مینوں اپنے نال لے کے منوڑہ دے پرائمری اسکول وچ داخل کرائون لئی لے کے گئے۔ سکول مینوں بہت چنگا لگا سی کیوں جے سکول دے گرائونڈ وچ بالاں واسطے جھولے وغیرہ لگے ہوئے سن۔ سکول دی اُستانی نے کُجھ چِر ابا جی نال گل بات کرن مگروں آکھیا پئی ایہ بچہ تے اجے پنج سال دا وی نہیں ہویا۔ تُسیں ایہنوں پنج چھ مہینیاں پچھوں لے کے آئونا کیوں جے اوس ویلے ساڈا نواں سیشن شروع ہونا اے تے ایس دوران اپنے گھر وچ ای اپنے بچے نوں A.B.C.D تے ا، ب، ج تے 100تیکر گنتی سکھائو تے نال ای اردو تے انگریزی دا اِک قاعدہ وی دے دِتا۔ابا جی جدوں دفتر چلے جاندے تے اسیںتِنوں بھراء تے امی جان ایس وڈے سارے بنگلے وچ لائل پور دے اپنے پنڈ دیاں یاداں نوں چیتے کر کے اُداس ہو جاندے۔شام نوں ابا جی آئوندے تے ساری فیملی نُوں نال لے کے منوڑہ ساحل سمندر اُتے لے جاندے تے میں گیلی ریت اُتے A,B,Cتے ا، ب ، ج لکھ کے وکھاندا یاں اوہ سمندر وچ لنگر انداز جہازاں ول اشارہ کر کے آکھدے کہ گن کے دسو پئی کِنے جہاز نیں۔ اوس ویلے مینوں ایہ پتہ نہیں سی پئی آئندہ زندگی وِچ میری ملازمت وی بحری جہازاں نال وابستہ ہو جاوے گی۔ دو تِن مہینیاں مگروں برادرم اظہار احمد گلزار دے والد صاحب چچا جان محمد گلزار خاں وی سانوں ملن واسطے کراچی آ گئے تے اوہناں دیاں چھٹیاں دے دوران ساری فیملی نے کراچی دی جی بھر کے سیر کیتی ۔ ایس توں مگروں ابا جان نے Motor Vehicle Examiner دی نوکری جوائن کر لئی تے ساڈی ساری فیملی بہاول پور آ گئی ۔ ابا جان نے مینوں تے میرے نِکے بھرا میجر ڈاکٹر محمد اسلم نوں عباسیہ ہائی سکول وچ داخل کروا دِتا۔ ساڈی تعلیم اُتے اوہناں دی خصوصی توجہ رہی تے ہر روز اوہ شام نُوں اوہ سانوں نال لے کے بیٹھ جاندے تے خود پڑھاندے رہندے۔

ساڈے سکول وچ جا کے ساڈے استاداں توں ساڈی تعلیمی حالت بارے پچھدے رہندے ۔ اوہناں دے ایس Follow Up دی وجہ توں اسیں اپنی کلاساں وچ لائق طالب علم ای شمار ہندے سی۔جدوں میں چوتھی جماعت وچ ہویا تے اوہناں نوں بہاول پور دے نال نال ضلع ملتان دا اضافی چارج وی دے دِتا گیا۔ جیہدی وجہ نال اوہناں نوں ساہیوال توں لے کے بہاول نگر تے چشتیاں تائیں دوریاں (Tours) اُتے جانا پیندا،فیر مگروں اوہناں دا تبادلہ ای ملتان ہو گیا تے اسیں مسلم ہائی سکول ملتان وچ داخل ہو گئے۔ شعر وشاعری نال اوہناں دی رغبت تے محبت اوس ویلے وی سی تے مینوں چنگی طرحاں یاد اے پئی ساڈے گھر وچ فیض احمد فیض‘ ساحر لدھیانوی ، منیر نیازی توں وکھ ہور وی کئی وڈے شاعراں دے شعری مجموعے موجود سن۔ابا جی ہر روز کوئی نہ کوئی نویں کتاب یاں رسالہ لے کے گھر آئوندے سن۔

اوہناں دی اپنی اِک چھوٹی جیہی لائبریری سی۔ نقوش دے سارے ایڈیشن ترتیب وار کمرے وچ پئے ہندے سن تے اِک الماری وچ علامہ اقبال دیاں کتاباں ترتیب نال سجیاں ہندیاں سن۔ حساب تے الجبرے دی اِک کتاب جیہدے مصنف دل محمد صاحب سن اوہ ہمیش اوہناں دے ٹیبل اُتے پئی ہندی سی۔ ایس توں اڈ فارسی دیاں بے شمار کتاباں وی ساڈے گھر وچ موجود سن جیہڑیاں اوہ اپنے نال لے کے ملتان دے مشہور شاعر جناب عاصی کرنالی کول جاندے ہندے سن تے اپنی شاعری وی عاصی کرنالی نال Discussکردے رہندے سن۔

1965ء دی جنگ وچ اوہناں دا جذبہ قابل دید سی تے ایسے جذبہ حب الوطنی دے تحت اوہناں نے بے شمار اردو تے پنجابی نظماں لکھیاں۔ ابا جی اِک درویش صفت انسان سنتے ہمیش دیانت داری نال اپنے فرائض انجام دیندے رہے۔ اوہ اپنے افسران بالا دے ناجائز مطالبات ، دبائو تے سفارش نوں پسند نہیں کردے سن مگروں وقت دے حکمران دے اشارے اُتے غلط کم نہ کرن اُتے 1966ء وچ اوہناں دا تبادلہ اوہناں نوں تنگ کرن لئی پشاور کر دِتا گیا۔ اوتھے اپنے فرائض منصبی انجام دیندیاں ہویاں اوہناں نے ویکھیا کہ ایتھے دا تے باوا آدم ای نرالا اے۔ سفارش، اقرباپروری تے رشوت زوراں اُتے سی جیہڑی کہ بالکل ای اوہناں دے اصولاں دے خلاف سی ۔ اوہناں دے بہت سارے دوستاں تے خیر خواہاں نے مشورہ دِتا کہ تُسیں میڈیکل رخصت لے لئو تے جدوں تہاڈی جگہ کسے ہور آفیسر دی تعیناتی ہو جاوے تے تُسیں رپورٹ کر دیو پر ابا جان نے آکھیا پئی ایہ بددیانتی ہووے گی۔

بالآخر اوہ نوکری نُوں خیر باد آکھ کے لائل پور (فیصل آباد)آ گئے تے لائل پور وچ اوہناں نے اپنا علمی تے قلمی سفر جاری رکھیا تے سانوں وی بڑے ذوق تے شوق نال پڑھاندے رہے۔ سکول تے کالج وچ جا کے پرنسپل توں ساڈے رزلٹ اُتے گل بات کردے۔B.Scوچ میرے انگلش دے پروفیسر جیہڑے کہ اوہناں دے دوست وی سن۔ اوہناں نوں جدوں ابا جی نے آکھیا بھائی توں تے اجے ادھا کورس وی ختم نہیں کیتا تے سالانہ امتحان سِر اُتے آ گیا اے تے اوہ پروفیسر صاحب غُصّہ کھا گئے تے کلاس وچ آ کے اوہناں نے میرے نال اپنی ناراضگی دا اظہار کیتا۔اِنج ای فزکس دے پروفیسر صاحب جیہڑے پریکٹیکل والے دن طالب علماں نوں چھٹی دے دیندے سن تے جدوں ایہہ گل ابا جان نے پرنسپل صاحب دے گوش گزار کیتی تے پروفیسر صاحب حوصلہ افزائی دی بجائے اُلٹا ناراض ہو گئے۔

آج میں ایہ سمجھدا آں کہ جے سارے والد ایسے طراں اپنے بچیاں دی پڑھائی نوں چیک کر دے ہون تے کوئی وجہ نہیں پئی بچے پوری توجہ نال پڑھائی نہ کرن تے اساتذہ نوں وی پتہ ہووے گا پئی طلبا دے والدین وی اپنے بچیاں دی پڑھائی وچ کِنی دلچسپی لے رہے نیں۔ 1971ء وچ جدوں Pakistan Marine Academy وچ بطور کیڈٹ بھرتی ہو کے گیا تے ٹورن لگیاں بھجیاں اکھاں نال اوہناں مینوں وطن نال محبت دا اِی درس دِتا کیوں جے بحری جہازاں اُتے مینوں اپنی ملازمت دے دوران یورپ، امریکہ ، مشرقِ بعید تے رنگ ونگ دے مُلکاں وچ جان دا اتفاق ہویا اے تے اوہ مینوں ہمیش ایہو آکھدے پئی توں اپنا سفرنامہ کیوں نہیں لکھدا تے میں اوہناں نال ہمیش وعدہ کردا رہیاں پئی اگلے سفر وچ لکھاں گا۔ اِک اجیہے ای سفر وچ میری بیگم وی میرے نال سن تے اوہناں نے اوہنوں آکھیا پئی کم از کم تُوں ای ایہدے سفر دا سفرنامہ لِکھ دینا تے فیر میری بیگم نے ابا جی دے آکھن اُتے سفرنامہ لکھیا۔ جیہدا سرناواں سی ’’سات سمندر پار‘‘ جیہڑا کہ مگروں روزنامہ غریب فیصل آباد وچ قسط وار چھپدا رہیا اے۔

اوس زمانے وچ موبائل تے انٹرنیٹ وغیرہ نہیں ہندے سن ایس لئی میرا رابطہ ابا جان نال خطاں راہیں ہندا سی۔جیویں ای ساڈا جہاز کسے بندرگاہ اُتے پہنچدا سی تے ساڈی ڈاک اوتھے پہنچی ہندی۔ جہاز دے عملے لئی اوہ بڑی خوشی دا لمحہ ہندا سی کیوں جے کافی دِناں تے مہینیاں پچھوں گھروں خیر خیریت دا پتہ چلدا سی‘ عملے دے کئی لوک اپنے اپنے گھراں توں خط نہ آون تے اُداس تے غمگین ہو جاندے سن۔ کئی لوکاں دے گھراں وچ خط لکھن والے نہیں ہندے سن پر میرے ابا جی دے تفصیلی تے بھرویں خط مینوں ہر مقام اُتے باقاعدگی نال ملدے رہے۔ جیہدے وچ میری خیر خیریت توں وکھ میرے سمندری سفر نوں بڑی تفصیل نال گل بات کیتی ہندی۔

ماشاء اللہ اوہناں دا جغرافیہ بہت چنگا سی۔ بحری جہازاں دے Routesتے سمندری گزرگاہواں دے بارے وچ اوہناں دا علم بڑا وسیع سی۔ ایس لئی اوہناں نال گل بات کر کے مزہ آ جاندا سی۔ گھر وچ اوہناں نے دُنیا دا اِک وڈا نقشہ کندھ اُتے اپنے کمرے وچ سجایا ہندا سی تے اوتھوں ویکھ کے کئی واریں پچھدے سن پئی ایس واریں نہر سویز دی بجائے امریکہ جاون دی بجائے جہاز نے راس امید دے پاسے دا رستہ کیوں اختیار کیتا۔

میریاں بچیاں دی پڑھائی بارے ہمیشہ مینوں باخبر رکھدے ۔ میری دوواں وڈیاں بیٹیاں اج وی اوہناں کولوں الجبرا حساب تے سائنس پڑھن نُوں یاد کردیاں نیں جے کس طرحاں دادا جان نے بڑی شفقت تے پیار نال اوہناں نوں میٹرک تیکر خصوصی طور تے پڑھایا۔جدوں میں اپنے بحری سفر تے روانہ ہون توں پہلاں اوہناں نوں ملن پچھوں رُخصت لیندا تے اوہ میاں محمد بخش صاحب دا ایہہ شعر ضرور پڑھدے۔

لے بھئی یار حوالے رب دے میلے چار دِناں دے
اُس دن عید مبارک ہو سی ، جس دن فیر ملاں گے

اوہ ہمیش ایہو آکھدے:
"You should be proud to be a first class citizen and serve your own motherland than to be a third class citizen of Europe and U.S.A."
1988ء وچ میں اِک بحری جہاز دا کپتان سی جیہڑا کہ ہندوستان دی بندرگاہ بمبئی جارہیا سی چونکہ بمبئی Bombayوچ اوہناں دی جوانی دے کئی ورھے گزرے سن تے اوتھے ای ترقی پسند مصنفین دی سنگت وچ اوہناں نوں بیٹھن دا موقع ملیا۔ ایس لئی بمبئی Bombayنال اوہناں نوں اِک خاص لگائو سی۔ بمبئی دے بارے اوہناں نے میری بڑی رہنمائی کیتی تے مسلماناں دے علاقے بھنڈی بازار دے بارے وچ تفصیلاً دسیا تے آکھیا پئی مدن پورہ وچ جا کے اوہ گھر ضرور ویکھنا جتھے اوہ رہندے ہندے سن۔

بمبئی جا کے میں اوہناں نوں بھرواں خط لکھیا تے اوہناں دیاں پسندیدہ گلیاں دیاں فوٹو وی گھلیاں۔ اوہناں دیاں آکھیاں ہویاں گلاں اج وی انمول موتیاں وانگوں مینوں چیتے ہین۔جیویں کہ اوہناں دا آکھنا اے :

"Your livings should always be simple but your ideas should always be high."

میرے سارے بہن بھراواں دی تربیت وچ اوہناں نے خصوصی دلچسپی لئی تے تعلیم حاصل کرن لئی ہر میدان وچ حوصلہ افزائی کیتی۔ اج اوہناں نوں ساڈے توں وچھڑیاں نوں پنجی ورھے بیت گئے نیں پر سانوں ہمیش ایہو محسوس ہندا اے پئی اوہ ہن وی ساڈے نال نال نیں تے زندگی دے کسے وی مسئلے نال نپٹن تے نجھٹن لئی ہر واریں اوہناں دے پڑھائے گئے اصولاں نے ساڈی رہنمائی کیتی اے
۔میری دُعا اے اللہ تعالیٰ میرے ابا جی دے درجات بلند کرے تے اوہناں نوں جنت وچ اُچیرا تھاں عطا فرمائے (آمین)۔ اوہناں دے اپنے ای شعر تے گل مکائوندا آں۔]]

اے چن جہیاں صورتاں نوں مٹی نے لُکا لیا
جِت دی اے موت جیہنے ساریاں نُوں ڈھا لیا

Dr Izhar Ahmed Gulzar
About the Author: Dr Izhar Ahmed Gulzar Read More Articles by Dr Izhar Ahmed Gulzar: 17 Articles with 10354 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.