غزالہ جاوید۔۔پاکستان ٹیلی ویژن کی ایک مقبول اداکارہ

پاکستان ٹیلی ویژن کی ناموراداکارہ اور کامیڈین محترمہ غزالہ جاوید کو کون نہیں جانتا، یہ ہمیشہ اپنے ہنسنے مسکراتے چہرے اور مزاحیہ لہجے سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بناتی نظر آتی ہیں۔

غزالہ جاوید ۔۔۔۔ ایک مشہور پاکستانی ٹی وی اداکارہ ہیں۔ میڈیا میں ان کی آمد کا آغاز 1990 کی دہائی کے اوائل میں ہوا، اور اس کے بعد سے غزالہ جاوید نے خود کو انڈسٹری کی نمایاں ترین شخصیات میں نمایاں کرنے کے لیے سخت محنت کی ۔ انہوں نے کئی ٹی وی ڈراموں میں کام کیا، جیسے "یہ زندگی ہے" اور "ون وے ٹکٹ" ، اور ان کی پرفارمنس میڈیا کے لیے ان کی لگن کا زندہ ثبوت ثابت ہوئی ہے۔

غزالہ اداکاری کو اپنا جنون سمجھتی ہے، اور اسی لیے اپنے کام کے لیے پرعزم ہے۔ انہوں نے اداکاری کا آغاز پی ٹی وی لاہور سینٹر سے کیا تاہم اب وہ مختلف نجی چینلز پر بھی نظر آتی ہیں۔ "یہ زندگی ہے" میں غزالہ جاوید کی اداکاری نے کئی تعریفیں حاصل کیں، اور انہیں مختلف پروڈیوسروں نے سائن کیا ہے۔ اس وقت وہ پاکستان ٹیلی ویژن کی مقبول اور معروف اداکارہ ہیں۔

غزالہ جاوید کے خاوند بحریہ کی شپنگ کارپوریشن میں کپتان تھے۔اداکاری انہوں نے مجبوری کے تحت نہیں بلکہ اپنے شوق کی تکمیل کے لیے کی جو بعد میں ان کی زندگی کا لازمی حصہ بن گئی۔۔۔جوانی میں ہی ان کے خاوند کی وفات ہو گئی تو انہوں نے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا ۔۔ ان کی زندگی محنت اور جدوجہد سے عبارت ہے۔ انہوں نے شوبز میں پی ٹی وی کے سینیئر پروڈیوسر اقبال لطیف کے کہنے پر کام شروع کیا ۔۔ان کی بیگم غزالہ جاوید کی بہن بنی ہوئی ہیں ۔تو انہوں نے کہا کہ آپ اتنا کام کرتی ہیں تو آپ شوبز میں بھی کام کر کے دیکھیں ۔۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح ان کے کہنے پر میں نے شوبز میں کام شروع کیا۔

اسی طرح پھر مجھے ایک دن معین اختر کا فون آیا کہ آپ کو ہم اپنے ایک ڈرامے میں کاسٹ کرنا چاہتے ہیں تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ایک اتنا بڑا لیجنڈ اداکار مجھے فون پر اپنے ڈرامے کے لیے کاسٹ کرنے کے لیے کہہ رہا ہے ۔اس طرح پھر میں نے معین اختر کے اس ڈرامے میں کام کیا اور کام اس طرح اہستہ اہستہ بڑھتا چلا گیا ہے ۔ معین مجھے ہمیشہ بڑی بہنوں کی طرح احترام دیتے اور اس ڈرامہ انڈسٹری میں میرا حوصلہ بڑھانے میں انہوں نے بہت اہم کردار ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ جب گھر کا روٹی کمانے والا مر جاتا ہے تو زندگی بہت کٹھن ہو جاتی ہے. میرے شوہر کا جوانی میں ہی انتقال ہو گیا تھا اس وقت میرا بیٹا پہلی جماعت میں تھا۔ اس وقت میں نے فیصلہ کیا کہ اپنے بچوں کی پرورش اکیلے اور خود کروں گی۔ مجھے خاندان کا اچھا تعاون حاصل تھا لیکن میں نے کوئی تعاون قبول نہیں کیا کیونکہ میں چاہتی تھی کہ میرے بچے زندگی میں پراعتماد ہوں۔"

یہ کہنا ہے غزالہ جاوید کا جو پاکستانی ٹیلی ویژن سینئر کی ایک مشہور اداکارہ ہیں. پی ٹی وی ڈراموں سے شہرت پانے والی غزالہ جاوید متعدد مشہور سیٹ ڈراموں میں نمودار ہوئی ہیں۔

غزالہ جاوید نے اکیلی ماں کے طور پر اپنے متاثر کن زندگی کے سفر کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کم عمری میں بیوگی کے بعد زندگی کے سفر کو جاری رکھنے کی کہانی کرب ناک داستان غم ہے کہ خاوند کی جواں عمری میں وفات کے بعد میں اپنے گھر کو کرایہ پر دے کر ایک چھوٹے سے گھر میں شفٹ ہو گئی اور اپنا بڑا گھر کرائے پر دے دیا کہ گھر کا نظام آسانی سے چلتا رہے۔

یہ قدم بچوں کے لیے اٹھایا کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ لوگوں کے طعنے سن کر بڑے ہوں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اکیلی کام کرنے والی ماں کے لیے زندگی مشکل ہو جاتی ہے کیونکہ لوگ ہمیشہ اس کے کردار کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ غزالہ جاوید نے اپنی بیٹی کی زندگی کے المیے پر بھی کھل کر بات کی. ان کا کہنا تھا کہ میری طرح میری بیٹی کے شوہر کا بھی جوانی میں انتقال ہو گیا، وہ صرف 28 سال کا تھا پھر بیٹی کو بھی اسی تکلیف سے گزرنا پڑا۔

لیکن پھر میں نے بیٹی کے لیے فیصلہ کیا اور اس کے لیے ایک اچھا رشتہ تلاش کرنے کی کوشش کی. میری بیٹی کی شادی پہلے سے شادی شدہ آدمی سے ہوئی ہے جو دونوں خاندانوں کا خیال رکھنے والا اور پیار کرنے والا شوہر ثابت ہوا ہے۔

ماں کا لفظ بہت میٹھا اور پیارا ہے۔ محبت، ایثار اور قربانی کا پیکر، ماں وہ ہستی ہے ،جو سب سے زیادہ ہم سے پیار کرتی ہے۔آج کل کے ڈراموں میں ماں کا کردار ادا کرنے والی اداکارائوں میں ۔پہلے پی ٹی وی کے ڈراموں میں خورشید شاہد - ایک رعب و دبدبہ والی سخت گیر ماں ، عشرت ہاشمی - تیز طرار ماں، عذرا شیروانی- ٹھسہ دار ماں، قیصر نقوی اور ذہین طاہرہ مظلوم ماں، سلطانہ ظفر اور عائشہ خان- سمجھدار ماں، نسرین قریشی فیشن ایبل ماں، زینت یاسمین- سلجھی ہوئی ماں، غزالہ کیفی ستم زدہ ماں، طلعت صدیقی اور ریحانہ صدیقی روتی پیٹتی ماں، عرش منیر چیختی چلاتی ماں کے کردار میں بہت پسند تھیں۔
موجودہ زمانے میں ماں کے کردار میں صبا حمید، عتیقہ اوڈھو، بشریٰ انصاری ،صبا فیصل اور غزالہ جاوید سپرہٹ ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ تمام فنکارائیں ہیرو کی ماں کے کردار میں زیادہ کاسٹ کی جا رہی ہیں۔ 90 فیصد ڈراموں میں ان کا کردار یکساں نوعیت کا ہے، یعنی بہو کے ساتھ محاذ آرائی۔ شگفتہ اعجاز، فضیلہ قاضی، روبینہ اشرف، مہک علی، نِدا ممتاز، ارسہ غزل وغیرہ بھی ماں کے کرداروں میں بھی جلوہ گر ہیں۔

ڈراموں اور فلموں میں چند مکالمے ایسے ہوتے ہیں جو دیکھنے اور سننے والوں کو بے ساختہ ہنسی، غم یا خوشی میں مبتلا کردیتے ہیں۔ ایسے مکالموں کو فن کی اصطلاح میں پنچ لائن Punch Line کا نام دیا جاتا ہے ایک فنکار ایسے مکالمے کی ادائیگی کے وقت مکالمے کے تمام فنی امور کا خیال رکھتا ہے۔اور غزالہ جاوید ایسے مکالمات کو ادا کرنے کی مکمل دسترس رکھتی ہیں۔

غزالہ جاوید ٹی وی انڈسٹری کی دنیا سے نابلد تھیں لیکن ان کے شوہر کی اچانک موت اور تین کمسن بچوں کے ساتھ نے غزالہ جاوید کو اس دنیا سے جوڑ دیا . . . وہ اپنے شوہر کے ساتھ اتنی مخلص تھیں کہ پھر زندگی میں کسی کو شامل نا کر پائیں . . . بچے چھوٹے تھے اور غزالہ کی زندگی میں کچھ محسن ایسے تھے جنہوں نے ان کا اس تکلیف دہ سفر میں کافی ساتھ دیا . . .ڈاکٹر اظہار احمد گلزار سے ایک مکالمے میں انہوں نے بتایا کہ شوبز کی دنیا کا ایک بڑا نام معین اختر مرحوم کا بھی ہے ۔معین اختر کو وہ اپنا بھائی سمجھتی تھی اور معین اختر بھی ان کا بہن کی طرح احترام کرتے تھے ۔۔۔ایک بار معین اختر شدید بیمار ہو گیا تو غزالہ جاوید نے اس کی تیمارداری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔۔ایک بہن کی طرح اس کی بیماری کے بارے میں پریشان رہتی اور ان کے علاج معالجے کے لیے ڈاکٹروں سے رابطے میں رہتیں ۔۔۔

معین اختر کے ان کے اس احسان پر ہمیشہ شکر گزار اور سراپاسپاس نظر آیا ۔۔ایک بار معین اختر نے غزالہ جاوید کی موجودگی میں ان کے احسانات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے نہ صرف بہن بلکہ ماں کی طرح میرا خیال رکھا ہے ۔میری ایک گزارش ہے اگر آپ برا محسوس نہ کریں ۔میں آپ کو ماں کے روپ میں دیکھتا ہوں اور میں آپ کے ہاتھوں کو بوسہ دینا چاہتا ہوں کہ آپ نے ایک ماں کی طرح چھاؤں کر کے میری زندگی بچائی ہے۔۔۔اور ساتھ ہی معین اختر نے زار و قطار رونا شروع کر دیا ۔۔۔دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو دوسروں کی نیکیوں اور احسانات کو زندگی بھر بھول نہیں پاتے ۔۔معین اختر اور غزالہ جاوید بھی انہی عظیم شخصیات میں سے ہیں ۔۔۔۔


غزالہ جاوید کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ مکالموں کی ادائیگی اور چہرے کے تاثرات سے بہت کام لیتی ہیں۔

انہوں نے کیریکٹر ایکٹر خاص طور پر ماں کے کردار میں بہت شہرت حاصل کی ہے ۔
غزالہ جاوید کو شوبز کی دنیا میں کھلا میدان نہیں ملا۔ انہوں نے بڑی منجھی ہوئی اداکاراؤں کی موجودگی میں اپنے آپ کو منوایا ہے ۔ یہی ایک بڑے آرٹسٹ کی پہچان ہوتی ہے۔

خاص طور پر المیہ کرداروں میں انہوں نے بڑی جاندار اداکاری کی ہے ۔ کیمرے کے سامنے کیسے کھڑا ہونا ہے اور کیسے بولنا ہے، اس حوالے سے وہ سب جانتی ہیں۔۔ وہ شروع سے ہی اعتماد کی دولت سے مالا مال ہیں اور ریکارڈنگ کے دوران کبھی گھبراہٹ کا شکار نہیں ہوئیں۔

پاکستان میں ٹیلی ویژن ڈرامے نے جس فکر اور تعلیم کو معاشرے میں پھیلایا ہے اس میں پہلا احساس جاگیرداریت کے خاتمے کی ضرورت ہے۔ جبکہ دوسرا پیغام جس میں ناظرین متاثر ہوتے ہیں وہ سیاسی نظام کی تبدیلی کا احساس ہے۔ تیسرا اور سب سے اہم احساس جو ناظرین تک منتقل ہوا وہ تعلیم کی اہمیت کا ہے۔ اس طرح ناظرین نے ڈراموں سے ملنے والے شعور کو اپنے تک محدود نہیں رکھتے بلکہ اسے دوسروں تک بھی پہنچاتے ہیں۔ لگ بھگ اسی فیصد ناظرین ایسے ہیں جو ڈرامے سے ملنے والے پیغام یا سبق کو آگے بھی بڑھاتے ہیں ۔اخلاق ، معاشرتی تہذیبی ، ثقافتی اور خاندانی رویوں کو سمجھنے کے لیے ڈرامے بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔۔

یاد رہے پچھلے دنوں محترمہ غزالہ جاوید' برادر مکرم رانا افتخار احمد فرزند ارجمند' نور محمد نور کپور تھلوی کی بیٹی کی شادی میں شمولیت کی غرض سے کراچی سے بطور خاص تشریف لائیں۔اور فیصل اباد میں قیام کے دوران اس شادی کی تین روزہ تقریبات میں بڑے فخر و انبساط کے ساتھ شمولیت کی ۔۔۔اس موقع پر راقم ڈاکٹر اظہار احمد گلزار نے ان کا خصوصی انٹرویو کیا ۔فیملی کے بچوں بچیوں نے ان سے آٹوگراف لیے اور ان کے ساتھ اپنی سیلفیاں اور تصاویر بنوائیں۔۔

رانا افتخار احمد فرزند ارجمند نور محمد نور کپور تھلوی نے بسلسلہ تعلیم اور ملازمت ایک طویل عرصہ کراچی میں گزارا ہے۔کراچی قیام کے دوران رانا افتخار احمد کے بڑے بھائی کیپٹن محمد اکرم اور محترمہ غزالہ جاوید کے خاوند جاوید بھائی صاحب بحریہ شپنگ کارپوریشن میں دونوں کپتان کے عہدہ پر اکٹھے کام کرتے تھے ۔ دونوں کی فیملیاں بہن بھائیوں کی طرح ایک دوسرے کا احترام کرتی تھی۔

جاوید بھائی اور کیپٹن محمد اکرم بہت گہرے دوست تھے۔۔اس لیے فیملی کے تمام افراد جاوید بھائی کی وجہ سے محترمہ غزالہ جاوید کو بھابھی غزالہ کے نام سے مخاطب کرتے ہیں ۔ محترمہ غزالہ جاوید محبتیں بانٹنے اور محبتیں سمیٹنے والی خاتون ہیں۔انہوں نے ان محبتوں کو اور ان پیار کو سمیٹ کر رکھا ہوا ہے۔

محترمہ غزالہ جاوید صاحبہ بہت ہنس مکھ ، خدا ترس ، با کردار ، با ہمت اور پیکر عجز و انکسار خاتون ہیں ۔۔ ان کے پاس بیٹھ کر بوریت ختم ہو جاتی ہے۔باتوں سے بات نکالنا ، چٹکلے چھوڑنا ، ملنے والے کے حوصلے کو بڑھانا ان کی زندہ دلی کا ثبوت ہیں ۔۔۔۔۔۔ رانا افتخارصاحب کے بیٹے دانیال افتخار ، بھتیجی شہلا معاذ اور بیٹی عروج افتخار ، ان تینوں کی شادیوں پر وہ کراچی سے فیصل آباد آ کر تین روزہ تقریبات پر خوشیوں اور شادمانیوں کے موقع پر بھر پور شرکت کر چکی ہیں ۔۔۔۔۔ہم محترمہ غزالہ جاوید کی مزید کامیابیوں ، کامرانیوں اور درازی عمر کے لیے دعا گو ہیں۔

Dr Izhar Ahmed Gulzar
About the Author: Dr Izhar Ahmed Gulzar Read More Articles by Dr Izhar Ahmed Gulzar: 17 Articles with 10359 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.