چین کا شاندار زرعی نظام: خودکفالت اورغذائی تحفظ کا ضامن

چین کے قومی ادارہ شماریات کی جانب جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2023 میں چین کی مجموعی اناج کی پیداوار 695.4 ملین ٹن تک پہنچ جائے گی، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 1.3 فیصد زیادہ ہے اور اناج کی سالانہ پیداوار کے حوالے سے ایک نیا ریکارڈ ہے۔

چین میں اناج کی پیداوار مسلسل نو سال تک 650 ملین ٹن سے اوپر رہی ہے۔ چین میں یہ خبر اب کوئی نئی خبر نہیں رہی چین کا زرعی نظام کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی مضبوط قیادت اور صدر شی جن پھنگ کی ولولہ انگیز رہنمائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔کسی بھی ملک یا قوم کے لئے، غذائی تحفظ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے. خوراک لوگوں کے ذریعہ معاش اور سلامتی کی بنیاد ہے ، اور خوراک میں خود انحصاری ، قومی خودمختاری یا یہاں تک کہ بقا سے بھی جڑا اہم ترین موضوع ہے۔
قدیم زمانے سے ہی ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں، لیکن یہ المیہ کبھی رکا نہیں ہے۔ چین کے پاس دنیا کی صرف 9 فیصد قابل کاشت اراضی اور 6 فیصد تازہ پانی ہے، جو دنیا کی آبادی کے پانچویں حصے کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ آبادی میں اضافے، قدرتی آفات اور بین الاقوامی افراتفری کے باوجود چین میں ایک طویل عرصے سے اناج کی فراہمی ایک "حساس توازن" میں ہے، لہذا 1.8 بلین ایم یو قابل کاشت زمین کی سرخ لکیر پر قائم رہنا، مطلق غذائی تحفظ اور "سان نونگ" کی پائیدار ترقی چین کی قومی بقا اور ترقی کی ضمانت کی باٹم لائن ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دیہی احیاء میں اعلیٰ معیار کے باصلاحیت افراد اور لیبر ضروری ہے۔گزشتہ برسوں میں "نئے کسان"سے وابستہ معاون پالیسی کے نفاذ کی بدولت وی چھیاؤ جیسے زیادہ سے زیادہ "نئے کسان"دیہات کا رخ کرتے نظر آرہے ہیں ۔سال 2012 سے 2022 کے اواخر تک ملک بھر میں دیہات میں کاروبار کرنے والے "نئے کسانوں" کی تعداد تقریباً ایک کروڑ بائیس لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔نئے کسان ، نئے زرعی آلات لاتے ہیں،زرعی پیداوار کے نئے طریقے متعارف کراتے ہیں اور مسلسل نئے تصورات بھی لاتے ہیں۔یوں دیہی احیاء کی ایک نئی شکل سامنے آ رہی ہے۔
چین کی جدیدکاری کو ، زرعی جدیدکاری سے الگ نہیں کیا جا سکتا ہے، اور زرعی جدیدکاری کی کلید سائنس و ٹیکنالوجی اور باصلاحیت افراد ہے. 25 ستمبر2018 کو شی جن پھنگ نے صوبہ حئی لونگ جیانگ میں واقع ایک نیشنل ایگریکلچرل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارک کے جائزے کے دوران سائنس و ٹیکنالوجی اور ٹیلنٹ کی اہمیت پر زور دیا۔جدید سائنس و ٹیکنالوجی ہی نئے کسانوں کا کارآمد ترین زرعی آلہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان دنوں چینی دیہات میں روایتی کاشت کاری انتہائی محدود ہوتی جا رہی ہے اور نئے کسان بس اپنے آپریٹنگ کمرے میں بیٹھے ہوئے اناج کی صورتحال کی نگرانی کرتے ہیں،ڈرونز سے بوائی اور چھڑکاؤ کرتے ہیں،مشینوں کی مدد سے فصلوں کی کٹائی کرتے ہیں۔نئے کسانوں کی مدد سے دیہات میں کاشت کاری، بوائی،نگرانی،کٹائی،ذخیرہ کرنے،پروسیسنگ،مارکیٹنگ کو مربوط کرنے والا جدید زرعی پیداواری سسٹم قائم کیا گیا ہے۔
زرعی مصنوعات کی فروخت کو بڑھانے کے لیے نئے کسان ڈیجیٹل معیشت میں بھرپور انداز میں شریک ہیں۔صوبہ حو بئی کے شہر جنگ چو میں کنول کی کوالٹی کو بہت عمدہ مانا جاتا ہے۔تاہم گزشتہ برسوں میں کنول کی فروخت کافی مشکل تھی۔ ایک جوان لڑکی چاؤ مئی لی نے لائیو اسٹریمنگ سے کنول کی فروخت کو کافی حد تک بڑھایا۔پچھلی صدی کے 90 کے عشرے میں پیدا ہونے والی چاؤ مئی لی کے خیال میں موبائل فون ان کا نیا زرعی آلہ اور لائیو اسٹریم فروخت ہی ان کا نیا زرعی کام ہے۔
جدید سائنس و ٹیکنالوجی ،ڈیجیٹلائریشن مارکیٹنگ کے علاوہ،نئے کسان تکنیکی تربیت،روزگار کی فراہمی جیسے طریقوں سے کسانوں کی بھرپور مدد کر رہے ہیں۔مزید یہ کہ کسانوں میں ماحول دوست بیداری بھی پیدا ہوئی ہے۔ چاول کے کھیت میں مچھلیاں پالنے،مچھلیوں کے تالاب میں کنول اگانے جیسے نامیاتی زرعی ماڈلز کو وسیع پیمانے پر فروغ دیا جا رہا ہے۔یوں کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہو رہا ہے اوردیہات میں ماحول بھی بہتر ہو رہا ہے۔اب چین کے دیہات میں"مچھلی پکڑنے کے لیے تالاب کے پانی کو خشک کرنے"کا دقیانوسی طریقہ ترک کر دیا گیا ہے اور نئے کسان مزید سائنسی طریقے اور نئے تصورات کے ساتھ آ رہے ہیں ،جو پائیدار ترقی اور روشن مستقبل کے ضامن بن چکے ہیں۔

Zubair Bashir
About the Author: Zubair Bashir Read More Articles by Zubair Bashir: 44 Articles with 31106 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.