بہانہ یا مجبوری؟۔۔یا کچھ اور؟

اپنی کہانی اپنا تجربہ

یہ ہفتے کا ایسا دن تھا جس دن تمام دکانیں بند رہتی ہیں جو کہ میں بھول گیا تھا کیوں کہ مجھے جس دکان سے کام تھا وہ بند ہوتا اس بات کا احساس تب ہوا جب میں گھر سے بہت دور پیدل سفر کر چکا تھا پر میں پھر بھی چلتا رہا شہر کے اہم تجارتی مرکز پہنچ کر میں نے وہاں کچھ ٹھیلے دیکھے جہاں آلو چپس بنائے جارہے تھے ایک ٹھیلے والے کے پاس بہت رش تھا ہم انسانوں کو پتا نہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ جہاں رش ہو وہاں ہی اچھی چیز ملتی ہے خیر ! میں بھی رش میں گم ہو گیا اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگا ٹھیلے والا اچھے خاندان سے معلوم ہو رہا تھا اس نے پوچھا سر! یہاں کھائیں گے یا پارسل کر دوں میں ایک سیکنڈ تک خاموش رہا پھر کہا کہ نہیں یہیں کھائوں گا اس نے ایک ڈسپوزل پلیٹ میں مجھے کچھ چپس ڈال کہ دیئے میں سوچ میں گم ہوگیا تھا ایک گمنام شخص جس کا کوئی نہیں یہ کیفیت مجھے اکثر محسوس ہوتی ہے اور مجھے یہ کیفیت بہت اچھی لگتی ہے جہاں میری ہستی بلکل ختم ہو جاتی ہے جہاں فٹھ پاتھ پے سکون سے سونے والے شخص اور مجھ میں کوئی فرق نہیں رہتا اس وقت مجھے کچھ کھونے کا ڈر نہیں ہوتا ہم جب بڑی بڑی عمارتوں اور بڑی گاڑیوں میں وقت گذارتے ہیں تب ہمیں ایک ڈر کااحساس ہوتا ہے جو کہ کھونے کا ڈر ہوتا ہے مجھے جب وہ کیفیت طاری ہوتی ہے تب میں اس ڈر سے آزاد ہوجاتا ہوں ! میں نے چپس ختم کرکہ اسے 100 روپے دے دئے کیونکہ چپس کھاتے ہی میں نے سن لیا تھا کہ یہ چپس کی پلیٹ 100 کی ہے اس بیچ کچھ بچوں نے بہت تنگ کیا پہلے تو مجھے ہمدردی کا احساس ہوا پر پھر میں نے سوچا کہ بچوں کو بھیک نہیں دینی چاہیے میں وہاں سے چل دیا تھوڑا آگے چل کہ میں ایک جگہ رک گیا اور آتے جاتے لوگوں کو دیکھتا رہا میرے برابر ایک فالودے والا ٹھیلا لگا کہ بیٹھا تھا جس کے پاس کوئی نہیں آرہا تھا مجھے افسوس ہوا اور یہ سوچتا رہا کہ اس کا نقصان ہو رہا ہے کیوں کہ اس کی کریم اور ملائی خراب ہو جائے گی پر اچانک خیال آیا کہ اس کے گھر میں فرج ہوگا جہاں یہ اپنی چیزیں رکھتا ہو گا پھر خیال آیا اس کا گھر کیسا ہوگا؟ یقینن چھوٹا ہوگا اس کی بیوی ہوگی بچے ہوگے مجھے پتا نہیں کیوں لگا کہ اس کے بہت بچے ہونگے میں سوچ میں ہی گم تھا کہ میرے سامنے ایک رکشہ رکا اور اس میں سے ایک 15 سالا لڑکی اور 43 سالا آدمی ب ہاتھ ہاتھ میں دئے باہر نکلے لڑکی کی قاتل مسکراہٹ ساری کہانی بتا رہی تھی لڑکی تیز تھی جس آدمی نے اس کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اس کی چال سے معلوم تو ہورہا تھا کہ اسے ایک انمول چیز ہاتھ آئی ہے جس کی تلاش میں وہ برسوں سے تھا پر اس کی بے صبری سے اسے کھونے کا ڈر بھی جھلک رہا تھا اسے یہ بھی یقین تھا کہ اگر اس نے ہاتھ چھوڑ دیا تو لڑکی بھاگ جائے گی وہ لڑکی کو لیکہ ایک گلی کی طرف مڑا اور میری نظروں سے گم ہوگیا اتنے میں مجھے یاد آیا کہ کبھی اس بازار میں نے فروٹ چاٹ کھائی تھی جو کہ بہت لذیذ تھی میں جیسے ہی پیچھے مڑا تو اسی فروٹ چاٹ والے کا ٹھیلا لگا ہوا تھامیں اس کے پاس گیا اس نے میری نظروں کی طلب سے محسوس کر کہ مجھے ایک پیالہ تھما دیا میں اسے بڑے مزے سے کھاتا گیا اس کے اندر کشمش اور بادام کاذائقہ کسی بے رحم دلکش حسینہ کے ہونٹوں کی طرح تھا ہائے ! ہونٹوں کا مقابلا کسی چیز سے نہیں! اس کائنات میں ایک خوبصورت عورت کے دلکش ہونٹوں کا کوئی نعم البدل نہیں ہونٹوں کو یاد کر تے میں زندگی کے تلخ ماضی میں چلا گیا جب میں نے کسی کے لئے جنگ عظیم چھیڑ دی تھی یہ وہ وقت تھا جب مجھے پتا نہیں تھا کہ آمریکا کی طرح وہ بھی ایٹمی قوت بن چکا ہے اور میرے ارمانوں اور نازک خوابوں پے یوں حملا کریگا پر اس ظالم نے وہی کیا جس کا مجھے ڈر تھا اسے مجھ پے ذرہ بھی رحم نہ آیا خیر ! فروٹ چاٹ بھی ختم ہوگئی تھی اور اب وقت آ چکا تھا کہ میں پیسے دے کہ یہاں سے رخصت ہو جائوں میں وہاں سے چل دیا راستے میں پھولوں کی دکان نظر آئی میں نے ایک گلاب کا پھول خریدا جو کہ مجھے اپنی بیوی کو دینا تھا جو کہ میرہ آخری سہارہ ہے اس کے علاوہ اب میں کسی پے بھروسہ نہیں کر سکتا پھول خرید کہ میں گھر کی طرف جا رہا تھا کہ مجھے خیال آیا کہ اپنی دوست سےپوچھ لوں کہ اسے شاید کچھ چاہیے میں نے موبائل نکالا اور اسے کال کی اس نے کہا کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں سر اور کمر میں درد ہے اور وہ سوئی ہوئی ہے بلکہ اسے بخار بھی ہے میں نے اسے مذاق کرنا چاہا اس نے کہا کہ تنگ نہ کرو میری طبیعت ٹھیک نہیں اسے نے کہا کہ بس ایک کام کرو کہ میرے لئے فروٹ لے کے آو کیونکہ اس کے گھر والے جوس بنائیں گے جس وقت اس نے مجھے فروٹ لانے کو کہا میں گھر کہ بلکل قریب آچکا تھا خیر میں واپس ہوا اور اس کے لئے فروٹ لیا آگے چل کہ مجھ محسوس ہوا کہ فروٹ والے نے غلطی سے مجھے زیادہ پیسے واپس کئے ہیں اس نے شاید باتوں باتوں میں میرے 500 کے نوٹ کو 1000 سمجھ کے باقی پیسے واپس کئے ہیں شاید میں نے 1000 ہی دیا ہو میں نے رک کے سوچا۔۔! اگر میں نے واپس ہوکہ ٹھیلے والے سے پوچھ لیا تو وہ تو ضرور کہے گا کہ آپ نے 500 ہی دیے ہیں پر میں اپنے شک کا فائدہ اسے دینا چاہتا تھا خود کو نہیں! میں واپس ہوا اور اسے پیسے واپس کئے اور کہا کہ آپ نے غلطی سے مجھے زیادہ پیسے دیے ہیں اس نے حیرت انگیز نظروں سے مجھے دیکھا اور پیسے گن کے کہا کہ جی بلکل مجھ سے غلطی ہوئی ہے اس نے مجھے بہت دعائیں دیں میں مسکرا کر آگے بڑھ گیا مجھے اچھا محسوس ہو رہا تھا میں سیدھا اپنی دوست کو فروٹ دینے اس کے گھر گیا جو کہ ہمارے گھر کے قریب ہی ہے گھر کا دروازہ ایک بچی نے کھولا میں نے انگریزی میں پوچھا کہ اندر آجاوں ؟ اس نے بولا کہ وہ تو کمرے میں ہے! اور کمرہ۔۔! میں نے کہا کہ ان سے میری بات ہوگئی ہے اور اس کا سامان لایا ہوں آپ جاکہ انہیں کہہ دیں کہ میں آیا ہوں بچی اندر گئی اور کچھ دیر بعد واپس آئی اور بولی کہ آپ اندر آجائیں میں سیدھا اپنی دوست کے کمرے میں گیا جہاں میں اکثر جایا کرتا ہوں یہاں سب مجھے جانتے ہیں میں کمرے میں داخل ہونے سے پہلے سوچ رہا تھا کہ یہ بلکل بد حال سوئی ہوئی ہوگی کیونکہ اسے بخار ہے اور درد بھی پر جب میں کمرے میں داخل ہوا تو کمرے میں اے سی چل رہا تھا تھا اور کمرا ٹھنڈا تھا ویسے تو اسے ٹھنڈ پسند نہیں پر آج تو اسے بخار بھی ہے پھر بھی کمرہ ٹھنڈا ہے کمرے میں موبائل میں گانے چل رہے تھے پورے کمرے میں روشنی تھی ارد گرد کی چیزوں اور ماحول سے نہیں لگ تھا کہ یہاں ایسا شخص موجود ہے جسے درد بھی ہے اور بخار بھی یا وہ سو رہا تھا بلکہ وہاں جو چیزیں پڑی ہوئی تھیں اور جو خوشبو مہک رہی تھی اسے تازگی اور مسرت جھلک رہی تھی خیر! مجھے احساس ہونے لگا تھا کہ میں غلط وقت میں یہاں آیا ہوں میں فروٹ دے کہ واپس آگیا مجھے خیال آیا کہ اس نے مجھ سے جھوٹ بولا تھا؟ پر اس نے فروٹ کے لئے بھی تو خود بولا تھا ۔۔اس کی زندگی کے نجی معملات میں میرا مداخلت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور نہ مجھے یہ حق پہنچتا ہے کہ میں اس کی نجی زندگی میں غور کروں پر جہاں تک مجھے لگتا ہے ہم ایک دوسرے سے بہت بہت بے تکللف ہیں ہم اکثر سماجی اور رسمی طرز سے ہٹ کے ہر چیز ایک دوسرے کو کہہ دیتے ہیں آج بھی یہ مجھے کہہ دیتی کہ میں مصروف ہوں فروٹ کسی ملازم سے بجھوا دینا اس کہہ دینے میں کوئی حرج تو نہیں تھا پر اس نے ایسا کیوں نہیں کیا ؟ کیوں اس نےبہانا بنایا؟ یہ سوال میرے ذہن میں آتے رہے ۔۔کیا کوئی بے تکلف دوست بھی اس طرح کر سکتا ہے؟ شاید اس نے یہ سوچا ہو کہ میں جاکہ اس کے ساتھ بیٹھ جاوں گا جب کہ شاید اس کا موڈ یہ نہیں تھا اسے کچھ کام کرنا تھا پر وہ مجھے یہ کہہ بھی سکتی تھی کہ میں آج مصروف ہوں پر فون پے بہانا کیوں بنایا ؟ خیر !مجھے اس کے بلاوجہ اور خوامخواہ کے بہانے سے حیرت ہوئی پھر میں نے سوچا کہ جب اس نے کہا وہ بیمار ہے تو مجھے اس کے گھر نہیں جانا چاہیے تھا پر دوسرا خیال آیا کہ فروٹ کا بھی تو اس نے خود بولا تھا اور یہ بھی نہ بولا کہ خود نہیں آنا کہ کسی سے بجھوا دینا بہرحال! میں سوچتا ہوا اپنے گھر آیا اور تھوڑی دیر میں ہی اس کے گھر سے ایک بچی تھرمامیٹر لیکہ آئی کہ دیھکیں اس میں کتنا بخار ہے؟ مجھے اس وقت عرب عیسائی شاعر خلیل جبران کا ایک قول یاد آیا کہ جو شخص اپنے سچ کو ثابت کرنے کے لئے دلیلیں دے تو تم سمجھ جانا کہ یہ سچ نہیں بول رہا کیوں کہ سچ خود ایک بڑی دلیل ہوتی ہے بہرحال! خلیل جبران کی بات پے مجھے وہم نہیں پر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میری دوست کس مسائل کا شکار ہے اسے پیار چاہیے توجہ چاہیے اسے زندگی نے بہت دکھ دئے ہیں آج کل وہ زیادہ اداس ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں ہے کہ آج کل وہ کوئی بھی چیز سوچ کے نہیں کرتی بلکہ وہ سوچتی کچھ ہے اور ہو کچھ اور جاتا ہے اس لئے اسے اتنا وقت نہیں کہ وہ باریک چیزوں کو سمجھ سکےکیونکہ وہ زندگی پانی کے بہاو کی طرح گذار رہی ہے جہاں اس کا اپنا کوئی ارادہ نہیں بس زندگی کے گہرے سمندر میں تیرتی جارہی ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں وہ بہت پیاری ہے بہت پیار کرنے والی دوست ہے جو کہ ہر کسی پے جلدی بھروسہ کر نے کی غلطی کر دیتی ہے میں نے اپنی زندگی میں اس جیسا مخلص دوست بہت کم دیکھا ہے۔

SHAHARYAR REHMAN
About the Author: SHAHARYAR REHMAN Read More Articles by SHAHARYAR REHMAN: 8 Articles with 5713 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.