*صحابہ کرام کے اصولوں پر چلتے ہوئے وبا اور مرض کو شکست دیں “

سن ۱۸ ہجری میں حضرت عمر فاروقؓ کے زمانہ خلافت میں بیت المقدس کی فتح کے بعد فلسطین کے قصبے میں طاعون کی وبا پھیلی، یہ وبا کس قدر شدید تھی اس کا اندازہ آپ یوں لگا سکتے ہیں کہ حضرت عمر فاروقؓ شام کے دورے پر آئے، سرحد تک پہنچے تو طاعون کی وبا پھیل چکنے کی اطلاع آ گئی، آپؓ نے واپسی کا اعلان کر دیا، یہ خبر حمص پہنچی تو لشکر اسلام کے سپہ سالار ابو عبیدہ بن جراح گھوڑے پر بیٹھے اور سیدھے خلیفہ کے سامنے پیش ہو گئے، مسکرا کر خلیفہ کو دیکھا اور کہا: عمرؓ تم اللہ کی رضا سے بھاگ رہے ہو۔ حضرت عمرؓ نے ان کی طرف دیکھا، تھوڑی دیر سوچا اور پھر فرمایا: یہ بات اگر تمہاری جگہ کوئی اور کرتا تو مجھے قطعاً افسوس نہ ہوتا، وہ رکے اور پھر فرمایا: ہاں میں اللہ کی رضا سے اللہ کی رضا کی طرف بھاگ رہا ہوں، حضرت عمر فاروقؓ نے یہ بھی فرمایا، رسول اللہ ﷺ نے وبا کے علاقے میں داخل ہونے سے منع فرمایا تھا۔
حضرت عمرؓ نے ابو عبیدہ بن جراح کو مدینہ چلے آنے کا نہ صرف مشورہ دیا بلکہ ایک مکتوب بھی لکھا وہ مکتوب صرف مکتوب نہیں تھا بلکہ حکم تھا اور اس حکم میں حضرت عمر فاروق نے فرمایا تھا: یہ خط اگر تم رات کو پاؤ تو صبح سے پہلے روانہ ہو جاؤ اور اگر تمہیں یہ خط دن کو ملے تو شام سے پہلے مدینہ کی طرف روانہ ہو جاؤ۔
لشکر اسلام کے اس عظیم سپہ سالار نے حکم کی خلاف ورزی ہرگز نہیں فرمائی اور حضرت عمر فاروقؓ کو جواب میں ایک حدیث لکھ بھجوائی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا، اگر کسی علاقے میں وبا پھوٹ پڑے تو وہاں سے ہر گز نہ نکلو، چنانچہ ان حالات میں اپنا لشکر نہیں چھوڑ سکتا، حضرت عمرؓ نے خط پڑھا تو آنسو آ گئے، دیکھنے والوں نے پوچھا: کیا ابوعبیدہؓ انتقال فرما گئے ہیں، جواب دیا نہیں ابھی نہیں لیکن جلد فرما جائیں گے اور اس کے بعدحضرت عمرؓ نے جوابی خط لکھا، اللہ کے بندے پھر مہربانی کرو اور کسی اونچی جگہ پر منتقل ہو جاؤ۔ ابو عبیدہ بن جراح نے یہ حکم مان لیا اور حمص سے نکل کر جابیہ چلے گئے، یہ علاقہ وادی اردن اور گولڈن ہائیٹس کے درمیان واقع ہے۔ اگرچہ صحت بخش مقام ہے لیکن موت ان کے تعاقب میں تھی چنانچہ ۶۳۹ میں طاعون کی لپیٹ میں آئے، چند دن بیمار رہے اور بیماری کے عالم میں انتقال فرما گئے، آپؓ کے بعدمعاذ ابن جبل ؓ نے فوج کی کمان سنبھال لی اور چند دن بعد وہ بھی طاعون کا شکار ہو گئے اور واقدی کے مطابق اسلامی لشکر کے تقریبا پچیس ہزار اور بعض کے نزدیک تیس ہزار جانثاران اسلام اس وبا کا شکار ہوئے، ان میں بےشمار جید صحابہؓ بھی شامل تھے جن میں ابو عبيدة بن الجراح، ومعاذ بن جبل، ويزيد بن أبي سفيان، وسهيل بن عمرو، وضرار بن الأزور، وأبو جندل بن سهيل وغيره کے نام سر فہرست ہیں، اولوالعزم انسانوں کے اس درجہ بڑے انسانی نقصان کی وجہ سے اس سال کو عام الرمادہ کا نام دیا گیا، اس کے بعد لشکر اسلام کی کمان عمرو بن العاص نے سنبھالی اور یہ وہ وقت تھا جب مصر اور شام کے تمام ماہرین، طبیب اس وبا سے عاجز آ گئے تھے ان حالات میں حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ اس بلا سے چھٹکارے کی سبیل کیجیے، حضرت عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ میں نے غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ لوگوں کے اجتماع سے پھیلتی ہے تو میں نے لوگوں کو پہاڑوں میں محصور کر دینے کا مشورہ دیا، چنانچہ سرکاری سطح پر لوگوں کو گھروں میں پابند کیا گیا تو تین دن میں ہی یہ وبا ختم ہو گئی، عزیزان وطن یہ تھا حضرات صحابہ کا وبا کو شکست دینے کا طرزعمل۔
میں گزشتہ ایک مہینے سے اپنے ارد گرد موجود علما، صالحین اور عامتہ الناس سے سن رہا ہوں کہ وبائیں عذاب ہوتی ہیں اور یہ ان پر آتی ہیں جو اللہ پر توکل نہیں رکھتے اور جنہیں قبر میں آنے والی رات کا یقین نہیں ہوتا، توکل اور خدا پر یقین کی ایسی تشریح لامحالہ طور پر پاکستانی مسلمانوں کےجذبات کی تشریح تو قرار دی جا سکتی ہے لیکن یقین جانیۓ ایسی تشریحات کا محمد رسول اللہ اور جماعت صحابہ کرام کے بتلائے ہوئے دین اسلام سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں، خدارا اپنے اور اپنے چاہنے والوں پر رحم کرتے ہوئے ایمان اور توکل کی خود ساختہ تشریحات سے اجتناب کریں۔
کچھ سال پہلے پاکستان میں کرونا وائرس اور پاکستان کے کچھ علاقوں میں ( مختلف ادوار میں ڈینگی ، گردن توڑ بخار، کوڑھ پن ، نگیلیریا وغیرہ جیسی امراض کو بھی لوگ وبائی مرض سمجھنے لگے اور کچھ بھلے مانس سادہ لوگ ان علاقوں سے راہ فرار اختیار کی جیسے یہ بھی وبا مرض ہے ان کے نہ لگ جائے جو سراسر کم علمی کی بات ہے یہ مرض ہر اسپتال میں سہولتوں کے ساتھ قابل علاج ہے مگر ہر مرض کی احتیاط کے لیے اپنی حفاظت ضروری ہے ) جیسی وبا سے بچاؤ کی خاطر تنہائی یعنی آئسولیشن اختیار کرنا ہی ملت اسلامیہ اور حضرت انسان کے وسیع تر مفاد میں ہے، حضرت عمر فاروق ؓ کے طریقہ پر عمل کرتے ہوئے کسی بھی دوسرے شہر، علاقے، گاؤں، قبیلہ، کمیونٹی میں ہر گز مت جائیں اور حضرت ابو عبیدہ بن جراح کے طریقہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے مقام کو مت چھوڑیں، جہاں پر بھی ہیں وہاں ہی سکونت اختیار کریں اور عمرو بن عاص کے طریقہ پر عمل کرتے ہوئے اجتماع/مجمع سے بچیں اور تنہائی یعنی آئسولیشن اختیار کریں، اپنے گھروں میں محصور ہو جائیں، یاد رہے کہ حضرات صحابہ نے حضورﷺ کی اتباع اور پیروی میں ایسا کیا اور ہمارے لئے بھی نشان منزل کا تعین فرما دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ زندگی میں ہی ہماری بھلائی ہے، صحابہ کے طریقہ کار کی پابندی کرتے ہوئے اپنی ترجیحات کا تعین کریں، حضرات صحابہ کا عمل یہ ثابت کرتا ہے کہ موت بے شک اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن زندگی کی حفاظت انسان کا سب سے بڑا فرض ہے، اللہ مجھےاور آپ سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 187 Articles with 81166 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.