میرا ایمان کس درجے پر ہے؟

ایک بےحد خوبصورت عربی زبان کی شہکار کتاب ’’ موسوعة فقه القلوب فى ضوء القرآن والسنة (جس کےمولف محمد بن ابراہیم بن عبد الله التويجري ہیں) سے متاثر ہوکر اپنے اندر اور اپنے اردگرد مسلمانوں کی ایمان کی کیفیات کا جائزہ

کیا آپ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں؟
جی بالکل! الحمدللہ! ہم سب اللہ ہی کو اپنا رب مانتے ہیں اور اسی کی عبادت کرتے ہیں۔
آپ سب یہ ہی جواب دیں گے اور مطمئن ہوجائیں گے۔مگر بات اس پر ختم نہیں ہوجاتی،میرا اگلا سوال ہے؛
ایمان ہےکیا ؟
ہم میں سے کتنے لوگ اس کا جواب دے سکتے ہیں؟
اگر آپ اس سوال کا جواب سوچنے لگے ہیں تو ٹہرئیے!
پہلے میری اس تحریر کو پڑھ لیجئے پھر جواب دیجئیے گا
ایمان دراصل ظاہر و باطن کے مجموعہ کا نام ہے۔اسکا ایک ظاہر بھی ہے اور ایک باطن بھی!
ایمان کا ظاہر زبان سے اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرنا،اسی کو اپنا معبود اور رب ماننا اور عمل سے اسکی تصدیق کرنا ہے.
ایمان کا باطن دل سے اسکی تصدیق کرنااور اپنے رب کے آگے محبت، تعظیم اور انسیت سے جھک جانا اور اسی کے لیے اپنےعمل کو خالص کرنا ہے۔
پس کسی کا ظاہری ایمان لانا فائدہ نہیں دیتا اگروہ باطنی ایمان نہ رکھتاہو ،خواہ وہ کلمہ پڑھ کر اپنا خون ، مال ،اولاد کو محفوظ کرلے لیکن دل میں ایمان نہیں تو کوئی فائدہ نہیں ۔
اسی طرح کسی کا باطن میں ایمان لانابھی فائدہ نہیں دیتا اگر اس کا ظاہری ایمان نہ ہو اِلّا یہ کہ وقتی طور پر اسکو سخت مشکل ہو جیسے بعض گھرانوں میں بچے مسلمان ہو جاتے ہیں لیکن والدین کے سامنے اظہار نہیں کرتے کیونکہ ان کو ڈر ہوتا ہے کہ سخت شامت آجائے گی لھذا وقتی طور پر وہ کمزوری کی وجہ سے کراہت کے ساتھ یا ہلاکت کے خوف کی وجہ سے وہ اپنا ایمان چھپائے رکھتے ہیں۔ تو اس میں امیدہے کہ اللہ تعالی جلد انکے لئے کوئی سبیل پیدا کردیں گے ،شرط صرف سچائی اور اخلاص نیت ہے۔
لیکن! ظاہری عمل میں پیچھے رہنا جیسے نماز ، روزہ وغیرہ ادا نہ کرنا جہاں کوئی رکاوٹ ہے ہی نہیں تو یہ باطنی ایمان کے بگاڑ کی دلیل ہے۔بندے کےاندر کی کمزوری ہےیا پھرمنافقت ہےیہ اسکے ایمان سے خالی ہونےیا ایمان میں کمی کی دلیل ہے۔بعض چیزیں اپنے متضاد سے بہتر سمجھی جاسکتی ہیں جیسے میں نے اوپر کہا کہ ظاہری عمل میں پیچھے رہنا بندے کے ایمان سے خالی ہونےیا ایمان میں کمی کے indicator ہیں۔ تو پھر اس کے تضاد یعنی نیک عمل کا ظاہر ہونا ایمان کی قوت کی دلیل ہوا نا!اس کو مثال سے سمجھیں۔
جہاں کوئی حجاب نہ کرتا ہو آپ حجاب میں ہوں، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ لوگوں سے نہیں اللہ سے ڈرتے ہیں ،اسی طرح جہاں کوئی حق بات نہ کہہ رہا ہو آپ حق بات کہہ دیں۔
جبکہ عوام کی اکثریت ایسے نازک مواقع پر ایمان کو ایک طرف ڈال کر’’ چلو تم ادھر کو ،جدھر کی ہوا چلے ‘‘ پر عمل کرتے ہیں ۔اسی بات کا اللہ سبحانہ و تعالی سورۃ یوسف 106 میں کچھ یوں تذکرہ فرماتے ہیں
وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُـمْ بِاللّـٰهِ اِلَّا وَهُـمْ مُّشْرِكُـوْنَ
اور ان میں سے اکثر ایسے بھی ہیں جو اللہ کو مانتے بھی ہیں اور شرک بھی کرتے ہیں۔
یعنی اللہ کو تو مانتے ہیں لیکن اللہ کی نہیں مانتے بلکہ انسانوں کی ماننے لگتے ہیں،یہ بھی تو شرک کی قسم ہے۔
جاری ہے!

huma tariq
About the Author: huma tariq Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.