یہ ظلمت کے ستم کب تک یو چلتا رہیے گا

ہر روز کوئی ایسا واقعہ رو نما ہوتا ہے۔جو اپنے نقوش انسانی دماغوں میں ہمیشہ کے لیے چھوڑ جاتا ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ کیسے اس بات کواپنے دماغ سے نکالے اور کیسے اپنے ساتھ منسلک لوگوں کو مطمن کرسکے کہ یہ پاک سر زمین ہے یہاں پر ایسا کچھ نہیں ہو سکتا جس سے ہماری زندگی متاثر ہو یا ہماری سوچ۔ مگر یہ یہ فقط ہماری سوچ ہے اور جھوٹی کوشش ہے کیو کہ کوئی بھی انسان دور جدید میں حقیقت کو جانے بنا ایک نوالہ بھی حزم نہیں کر سکتا۔ تو پھر کون کیا ہے اور کیوں ہے یہ بات شاید ہم لوگ جانتے ہیں۔ کل جیسے ہی میں شام کو گھر پہنچا تو بچوں اور گھر والوں سے ملنے کے بعد جب رات گئے آ رام کا وقت ملا تو سوچا یار جدید طرز کے آلہ سے کافی عرصہ دوری اختیار کر رکھی تھی آ ج اسکو استعمال کر ہی لو کیو کہ جہاں میں نوکری کرتا ہو وہاں اس کو استعمال کرنے احکامات نہیں ہیں۔ جیسے ہی میں گوگل میں مواد ڈھونڈنے والی جگہ پر گیا تو سوچا آ ج محترم جاوید چوھدری صاحب کو سنتے ہیں۔ میرے سامنے ان کا ایک درسی خطاب ملا جو کسی یونیورسٹی کے طلباء کے ساتھ تھا اس میں انہوں نے ایک بات کی کہ مجھے اس وطن عزیز کے لیے اور خواب نہیں چاہیے بلکہ مجھے ان خوابوں کی تعبیر چاہیے جو قائد نے دیکھے۔ جیسے ہی انہوں نے یہ بات کی تو مجھے کراچی کا مچھلی بازار وآلہ واقعہء یاد آ گیا جو کہ تاریخ کا حصہ ہے زیارت سے جہاز پر آ نے والے قائد اعظم محمد علی جناح جو اس وقت علیل تھے وہ کراچی تو گھنٹہ دو گھنٹہ کی ہوائی پرواز سے ہوائی اڈے پر پہنچ گے مگر ہسپتال میں وقت پر نہ پہنچے۔ اس وقت ان کے لیے جو ایمبولینس بھیجی گی شاید اس میں اس وقت کے انتظامیہ نے تیل ہی نہیں ڈالنا بھول گے ہوگے۔ جو قائد اعظم محمد علی جناح کو راستے میں ہی لے کر کھڑی رہی اور قاہد اعظم اپنی زندگی کی آ خری گڑیاں گن رہے تھے۔ اس وقت کے گورنر جنرل کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا۔ کیوں کہ مخالفین تو تب بھی تھے۔ مگر آ پ گورنر ہاؤس میں پہنچ تو گے لیکن۔ زندگی سے دور چلے گے۔ میرا اس بات کے کرنے کا ایک مقصد ہے ۔ ہم اتنے بددیانتی کا شکار ہو چکے ہیں ۔ہم اتنا بے ضمیر ہو چکے ہیں کہ ہمارے سامنے نہ کوئی لیڈر ہے ۔ اور نہ کوئی ضرورت ہے ۔ آ ج دنیا پر مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے ۔ پلستین کے مظلوموں پر یہودیوں کی گولہ باری جاری ہے ہم اس پر کیا اقدام کر سکتے ہیں میرے لحاظ سے تو جہاد فرض عین فرض ہو چکا ہے مگر سوچنے کی بات ہے اکیلا ہمارا ملک کیا کر سکتا ہے جہاں بڑی بڑی قومیں ذات و پات تقسیم ہو چکے ہیں ۔ ہمارے ملک میں صوبائی عصبیت زیر نسل پرستی بہت عام ہو چکے ہے ۔ مجھے کیو لگتا ہے کہ ہم شاید اپنے گھر پر حملہ کا انتظار کر رہیں ہیں۔ شاید کسی محاظ پر ہم بھی بدلہ لے مگر وہ اپنے گھر کے دفاع میں مصروف عمل ہیں ۔ کیا ایک دن ایسا ہو گا جب ہم ایک قوم بن کر دنیا کو یہ بتلا سکے کہ کوئی بھی مسلمان اس دنیا میں اکیلا نہیں اگر کسی نے اس کی طرف آ نکھیں اٹھا کر بھی دیکھا تو اپنا جواب دیں خود ہو گا اس کے ساتھ کیا ہوگا یہ وہ نہیں جانتے ۔ چلو پھر آ ج عزم کرتے ہیں کہ مالک ہم تیری ذات کا سہارا لیتے ہیں ہم دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائے گے۔ آ پ ہمیں دین کی تعلیم اور مدد عطاء فرمائیں ۔ پاکستان ذندہ باد

Muhammad afzal Jhanwala
About the Author: Muhammad afzal Jhanwala Read More Articles by Muhammad afzal Jhanwala : 8 Articles with 4094 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.