“ نواز شریف کے اقتدار سے پاکستان کے مسائل اور گھمبیر چیلنجز کا ادراک ہوجائیگا؟

نواز شریف کی وطن واپسی سے مسلم لیگ کی جماعت ( ن لیگ ) میں جان پڑ جائے گی اور نواز شریف کی ائیرپورٹ سے ریلی اور پھر بعد مینار پاکستان میں جلسہ سے خطاب ! کیا لاہور کی عوام کا ریلہ جلسہ اور جلوس میں لاکھوں کی تعداد میں عوام شریک ہوئیگی . اس وقت مسلم لیگ۔ ( ن ) جن چیلنجز کا پارٹی کو سامنا ہے اس پر پارٹی قابو پائے گی؟

اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن کافی مشکلات کا شکار ہے۔ پارٹی قیادت کی ملک میں عدم موجودگی اور عوام میں غیرمقبولیت نے سابق حکمراں جماعت کو ایک طرح سے بحران سے دوچار کیا ہے، اور اس کا ادراک پارٹی کی قیادت کو بھی کسی حد تک ہے جس کا اظہار وہ ٹی وی ٹاک شوز اور میڈیا سے گفتگو میں حالیہ دنوں میں کرتے رہے ہیں۔

نواز شریف کی وطن واپسی سے مسلم لیگ ن کو فائدہ تو ہو گا لیکن جس طرح کے مسائل اور گھمبیر چیلنجز کا پارٹی کو سامنا ہے ان سے پارٹی کو نکالنا مشکل ہو گا۔

نواز شریف آرہے تو ہیں مگر ان کی واپسی سے مسلم لیگ ن میں موجود ’لیڈرشپ کا بحران‘ حل ہو گا۔ ایک بات تو طے ہے کہ مسلم ن لیگ میں ہر کوئی نواز شریف کو لیڈر مانتا ہے اور ان کی واپسی سے پارٹی میں لیڈرشب کا جو بحران ہے وہ تو حل ہو جائے گا۔

اگر نواز شریف آرہے ہیں یا لائے جارہے ہیں اور ان کو صرف چوتھی بار وزیراعظم بنے کے لیے تو ان کا آنا نہ آنا برابر ہے لیکن اگر وہ خود کو پاکستان کی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی سیاست کے بجائے اگر وہ سیاست سے بلند کوئی کام کر کے امر ہونا چاہتے ہیں اور کسی بڑے مقصد کی جانب بڑھنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو پھر ان کی واپسی ملک کے لیے ایک نئے دور کی ابتدا کہہ سکتے ہیں.

نواز شریف پاکستان کے تین مرتبہ وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ بطور وزیر اعظم پاکستان میں سب سے طویل دورانیہ نواز شریف کا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وہ وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ اتنا طویل عرصہ اقتدار میں رہنے کے بعد اقتدار کی مزید کوئی خواہش یا حسرت بھی باقی نہیں رہتی۔اس وقت عام آدمی کی سوچ

یہی ہے کہ نواز شریف عمر کے اس حصے میں ہیں بطور وزیر اعظم وہ کوئی انقلاب لانے سے بھی رہے. جبک( اس سے زیادہ عمر میں ایران میں آیت اللہ خیمنی کی قیادت میں انقلاب رونما ہوا تھا) مگر نواز شریف میں اتنا دم نہیں کہ وہ بغیر اسٹیبلیشمنٹ کہ ایک قدم آگے بڑھایں ! سوال پھر یہ ہے کہ وہ واپس آ کر وہ کیا کریں گے؟

اگر نواز شریف پھر وہی پاکستانی سیاست وہ بڑوں کی جوڑ توڑ اور مفاہمت کی انتخابی سیاست، جس میں تمام آدرش مٹی میں ملا کر بالآخر وزارت عظمی کا حلف اٹھانے کا اعزاز حاصل ہوتا ہے؟ گزشتہ ادوار پہلے جو فارمولا ایجاد ہو چکا، میاں صاحب اگر اسے اب اپنے طریقہ سے ایجاد کریں گے تو یہ کوئی بڑا یا غیر معمولی کام نہیں ہو گا۔ وہ واپس آئیں یا نہ آئیں، کوئی فرق نہیں پڑنے والا کیونکہ اس میدان میں یہ کام کرنے کے لیے اب ان سے زیادہ تجربہ کار اور زیادہ تازہ دم نوجوان کھلاڑی ہر اوّل دستہ موجود ہیں.

اگر وہ انتخابی سیاست سے بالاتر ہو کر ایک ’سٹیٹس مین‘ کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہوں تو کرنے کو بہت کچھ ایسا ہے جس میں نواز شریف کی مقبولیت تجربے اور سیاسی قد کاٹھ کے سامنے کوئی متبادل اور مقابل موجود نہیں ہے۔ انتخابی سیاست سے بلند ہو کر اس ملک کے لیے جو کچھ وہ کر سکتے ہیں، اور کوئی نہیں کر سکتا۔ نواز شریف اپنی مقبولیت، تجربے اور سیاسی حیثیت میں اس وقت زرداری اور مولانا فضل الرحمن ان دونوں شخصیات سے اس وقت آگے ہیں۔

بات اب صرف ادھر آکر یہی سوچ تقاضہ کرتی ہے کہ کیا میاں صاحب انتخابی سیاست ہی کے تقاضوں کے اسیر ہو کر رہ جائیں گے یا وہ اس سے کچھ بڑا سوچ سکیں گے۔ ہاں اگر نواز شریف انتخابی سیاست اپنی جماعت کی دوسرے درجے کی قیادت کے حوالے کرتے ہوئے یہ اعلان کر دیں کہ وہ وزارت عظمی کے امیدوار اب نہیں ہوں گے اور الیکشن جیتنے کی صورت میں وہ حکومت سے باہر رہ کر حکومت کی اصلاح ، مشاورت اور رہنمائی کرینگے اور اقتدار سے بڑے مقصد کے لیے کام کریں گے تو یہ واقعی پاکستان کی سیاست میں ایک بہت بڑا اور شاندار اقدام ہو گا۔ اور پاکستان مسلم لیگ اور شریف برادران کا سیاسی قد پاکستان میں جو 2018 سے بڑی تیزی سے اس خاندان کا سیاسی گراف نیچے کی طرف رواں تھا وہ بلندی کو چھوسکتا ہے. اور آئندہ کی سیاست میں ان کی جماعت مسلم لیگ ( ن ) پاکستانی عوام کے دلوں ہر بسیرا کرسکتی ہے. کیونکہ اس وقت پاکستان میں فالٹ لائنز بہت بڑھتی جا رہی ہیں۔ قومی سیاست اب برائے نام رہیگی ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی اس وقت صرف اندرون سندھ میں یعنی عملا سندھ کی جماعت بن کر رہ چکی اور مسلم لیگ ( ن ) جی ٹی روڈ کے کے گرد ہی بسیرا کیے ہوئے ہے اور ایسے بھی اس وقت ( قاسم کے بابا کی جماعت نے اپنا پڑاؤ کیا ہوا ہے ) جبکہ چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی بڑھ رہا ہے کہ قومی زندگی کی فیصلہ سازی میں انہیں لاتعلق کرکے ایک طرف کر دیا گیا ہے۔ نواز شریف چاہیں تو وہ اپنی پیچھلی غلطیوں کا ازالہ کرکے قومی وحدت کا پرچم اٹھا سکتے ہیں۔

نواز شریف چاہے اپنی جماعت کی تنظیم سازی ہی کو لے کر آگے بڑھیں لیکن ان کے اب قدم وزیر اعظم ہاؤس یا پارلیمان کی طرف نہیں ہونا چاہیے. اب ان کی منزل بلوچستان، کے پی کے اور سندھ کے دور دراز کے علاقے ہونے چاہییں جہاں قومی سطح کے سیاست دان نے اپنا قیمتی وقت صرف اسلام آباد میں ہی محصور کردیا اور ان علاقوں میں کبھی عوام میں گئے ہی نہیں۔

ان ایریاز میں دوری، تلخی اور محرومی کا احساس دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ پاکستان میں قومی سیاست چند بڑے شہروں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ اس وقت صرف لاہور کی قومی اسمبلی کی نشستیں قریب قریب پورے بلوچستان کے برابر ہوں تو کسی کو کیا پڑی ہے وہ بلوچستان کی خاک چھانتا رہے۔ لیکن اگر کوئی عوامی سیاست دان انتخابی سیاست سے بلند ہو کر سوچے ( جو آج تک نہیں سوچا ) چیزوں کو دیکھے پرکھے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ قومی وحدت کے لیے چھوٹے صوبوں میں قومی سیاست دانوں کا جانا اور بار بار جانا اب کتنا ضروری ہو چکا ہے۔

مسلم لیگ ( ن ) آج تک ایک بھرپور سیاسی تنظیم نہیں بنا سکی۔ جبکہ سیاسی نظم کے بغیر سیاسی جماعتیں نامکمل ہیں ۔ پاکستان میں اہل سیاست کا خوف پارٹی کو خاندان سے باہر نکلنے ہی نہیں دیتا اور اسے اپنے گھر کی ( لونڈی ) بنا رکھا ہے ، اور یہ خوف بلاوجہ بھی نہیں۔ اگر نواز شریف چاہیں تو وہ اس خوف سے بے نیاز ہو کر مسلم لیگ ن کو ایک حقیقی سیاسی جماعت بنا سکتے ہیں۔

پاکستان کے اہل سیاست میں گزشتہ سالوں میں جس قدر بڑھتی ہوئی تلخی کے ہنگام ایک میثاق اخلاقیات کی بھی اس وقت شدید ضرورت ہے۔ اقتدار کی صف بندی سے اب بے نیاز ہو کر معاشی مبادیات کی طرف اپنی ساری محنت کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ سیاسی کارکنان کو ایک بریانی پلیٹ کی دوڑ سے نکالنا ان کی صیح سیاسی تربیت اور احترام باہمی پر مبنی سیاسی کلچر کے فروغ کی بھی اس وقت اشد ضرورت ہے۔

نواز شریف اقتدار کی سیاست سے آگے نکل سکیں تو یہ پاکستانی سیاست اور پاکستانی سماج پر قدم قدم پر جو پیوند آئی ہوئی ہیں انہیں اب رفو گری کی ضرورت ہے۔ اگر یہ نہیں تو پھر وہی سیاسی ، جذباتی ، ڈرامہ بازی وہی گزشتہ ادوار کی سیاسی قلابازیاں پھر وہی 76 سال کی قصے کہانیاں ہیں۔

اس صورتحال میں مُلک آگے کیا جائیگا اس ہی طرح ہچکولے لیے اپنا سفر رواں دواں پر رہیگا تو پھرکیا آنا نہ آنا سب برابر ہے۔

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 233 Articles with 83137 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.