پاکستان کے معاشی بحران کی کئی وجوہات

معاشی اور سیاسی استحکام کے ماحول میں ہی ملک میں سرمایہ کاری کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے. کیونکہ یہ ماحول اعتماد کی فضا قائم کرتا ہے۔ غیر یقینی صورتحال سرمایہ کاری کے امکانات کو کمزور کرتی ہے، اور یوں سرمایہ کار تذبذب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایک لبرل کاروباری ریگولیٹری فریم ورک اور حکومتوں کی طرف سے پالیسی کے تسلسل کے وعدے ہی سرمایہ کاری کے لیے مثبت ماحول کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اگر اس ملک میں اب بھی بیروکریسی میں اہل افراد کواُن کی جگہ پر نہ لگایا گیا اور بیروکریسی ٹھیک نہیں ہوئی تو ریاست کا نظام بھی ٹھیک نہیں ہوئیگا, اور یہ سب ذمہ داری ان تمام سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے ادوار میں کبھی بیروکریسی کو ٹھیک کرنے کے کوشش ہی نہیں کی اور نہ ہی کوئی اس پر قدم اُٹھایا. اس وقت پاکستان شدید معاشی بحران کا سامنا کرنے والا اس خطہ میں واحد ملک نہیں ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک جیسے جنوب مشرقی ایشیا، لاطینی امریکا کے ممالک اور ہمارے ہمسایہ ممالک کو اسی طرح کے بحرانوں کا سامنا کئی سالوں سے کرنا پڑا لیکن وہ ان بحرانوں سے پہلے سے بھی زیادہ مضبوط بن کر نکلے۔ ان ممالک نے بحرانوں کو مواقع میں انقلابی تبدیلیاں اور سخت فیصلہ لیے اور سخت ساختی اصلاحات کی گئیں اور مالیاتی پالیسی اور دیگر اصلاحاتی اقدامات کا آغاز کیا گیا۔ یہ سب کچھ ان حکومتوں نے کیا جو اس بات پر یقین رکھتی تھیں کہ اگر آگے بڑھنا ہے تو طویل مدتی عزم اور مستقل پالیسی پر عمل درآمد ضروری ہے۔اب دنیا بھر میں چیلنجز بڑھتے جارہے ہیں اور شعور کہاں تک پہنچ گیا ہے.اگر اب کچھ کرنا ہے تو اس وقت زراعت کے شعبے پر کریں اور وہ آج ہی کریں اور اس طرح کی پالیسی بنائیں جو برسوں چل سکیں. یہ عارضی اقدامات ایمرجنسی میں چل سکتے ہیں، اس کے بعد نہیں جس طرح بھی ہو واپڈا اور پاکستان کے دوسرے الیکٹرک ادارے اگر اپنی بجلی میں ہی بہتری کرلیں تو بہت بڑے مثبت نتیجہ مُلک کے لیے نکل سکتا ہے. اگر پاکستان کے معاشی ماہرین اپنی صیح پالیسیاں بنائیں تو سب سے پہلے اپنے ٹیکس سسٹم کو صیح ترتیب میں لے آئیں. کوئی کچھ بھی کہہ دکانداروں کو ٹیکس سسٹم میں لیکر آنا پڑیگا . اگر22 لاکھ دوکانداروں میں سے صرف 30 سے 35 ہزار دوکانداد وہ بھی اکثریت کراچی سے تعلق رکھنے والے اپنا ٹیکس دے رہے ہیں. اور دوسروں سے لینا درگزر کرنا یہ تو اس ملک اور اس کی عوام کے ساتھ سراسر ظلم و ناانصافی ہے. جتنی جلد ہوسکے اپنا ٹیکس نیٹ کو پورے مُلک میں پھیلائیں اور اُسے مزید وسیع کریں. اس وقت پاکستان کو ایک ذمہ دار ماہر معاشیات کی اشد ضرورت ہے جو آزادنہ طریقے سے تمام سیاسی جماعتوں اور حلقوں کے ساتھ بیٹھ کر اس کا حل نکال سکے ہر صوبے و طبقے سے ان کی نمائندگی ہو تاکہ لوگوں کی خواہشات کے مطابق ایمرجنسی پالیسیاں بنائی جاسکیں. اب ایک فرد یا ایک ماہر پاکستان کی معشیت کا ( ارسطو ) ٹھیک نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس کا کوئی حل نکال سکتا ہے. اب اداروں کو اتفاق پیدا کرنا ہوگا. اور نہ ہی یہ ایک سیاسی جماعت کا کام ہے جو اس معشیت کو ایک ٹریک پر لائے اس پر سب جماعتوں کو مل بیٹھ کر معشیت کے بارے میں انقلابی و جارحانہ فیصلہ کے لیے قدم بڑھانے ہوئینگے. پاکستان کے معاشی مسائل کا واحد حل ہے. اور وہ ہے نظام میں تبدیلی وہ سسٹم بدلنا جو اب جو اس مُلک میں کئی عشروں سے تنزلی کی طرف تیزی سے گامزن ہے. تاکہ پاکستان کے آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کی گنجائش پیدا ہو لیکن نظام کو بدلنے سے جو چیز ہمیشہ سے دیوار بنی ہوئی ہے وہ نظام ہی ہے. پاکستان ایک ایلیٹ کیپچرڈ اسٹیٹ یا اشرافیہ کے زیر تسلط ریاست ہے. دنیا میں جہاں بھی حکمراں اشرافیہ کے پاس پاور ہوتی ہیں. لیکن پاکستان ایک خاص ایلیٹ کیپچرڈ سوسائٹی ہے. اس لیے ریاست کے پاس گروتھ یا ترقی کے لیے کوئی خواہش ہی نہیں رہ جاتی. اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جو لوگ ریاست کو کنٹرول کررہے ہیں وہ پہلے ہی بہت امیر اور طاقتور ہوتے ہیں اور ان کی گروتھ کے ضروریات بہت کم ہیں، اور وہ صورتحال کو اس ہی طرح رکھنا چاہتے ہیں. ہے۔ جب کوئی ریاست ترقی کرنا ہی نہیں چاہتی وہ صرف اسٹیٹس کو ہی برقرار رکھنا چاہتی ہے, اور اس وقت موجودہ بحران کی زیادہ ذمہ داری ملکی اشرافیہ پر عائد ہوتی ہے. جو چار ہزار ارب کی مراعات لئے ہوئے ہیں وہ اگر دو ہزار ارب کی مراعات چھوڑ بھی دے تو اس سے بھی عام آدمی کو کچھ ریلیف مل سکتا ہے. بقول پاکستان کے سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کہ پاکستان کی بہترین %22 زرعی زمین میں سے اس وقت %01 اشرافیہ کے ہاس ہے جو کہ اس سے 950 ارب روپے سالانہ کماکر صرف 03 ارب روپے کا ٹیکس ادا کرتی ہے. دوسری طرف گھی، چائے، اور ڈرنکس سمیت کھانے پینے کی چیزوں پر ٹیکس لگا کر غریب عوام سے 450 ارب روپے لیے جاتے ہیں. جو غریب عوام کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے، تو پھر اس طرح کی ریاست غیر موثر ہوکر رہ جاتی ہے. پاکستان کا سیاسی یا معاشرتی بحران کے ساتھ ساتھ معاشی بحران بھی ہمیشہ سے گلا پھاڑے کھڑا رہا ہے. اس بحران سے باہر نکلنے کا ایک راستہ فی الحال نظر آتا ہے. جب تک اس نظام کو یا اس طرح کی طرز حکمرانی نہیں بدلیں گے شاید کوئی معجزہ ہی پاکستان کو اس بحران سے باہر نکلنے میں معاون ثابت ہو. کیونکہ ہمارا تعلیمی نظام بھی اس کی بڑی واحد مثال ہے. پاکستان کے اہم سول اداروں اور کابینہ کے وزیر %60 تقریبا لاہور کے ایک مشہور اور تاریخی ( کیمبرج کالج ) کے نکلے ہوئے ہوتے ہیں. اس ہی طرح کراچی کے بھی تاریخی (کیمبرج ) کالج کے نکلے ہوئے ہوتے ہیں . اس وقت پاکستان میں تقریبا 21 ہزار کے لگ بھگ اسکولز ہیں مگر پاکستان کی گزٹیڈ نوکریوں و بیروکریسی و ججز وغیرہ اور وفاقی کابینہ کی اکثریت ان ہی اسکولز کی فارغ التحصیل ہوتی ہیں. ایک دو اور بڑے اسکولز کے فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ پھر کس طرح معاشرے میں انصاف لاسکتے ہیں. جبکہ ہمارے ملک میں لیول پلیئنگ فیلڈنگ ہے ہی نہیں. اس ہی طرح پاکستان میں تقریبا تمام سیاسی جماعتوں میں لیڈر شپ نسل در نسل آرہی ہیں. جن میں کچھ سیکولر اور مذہبی پارٹیاں بھی ہیں. یہ ہی حال پاکستان کی صنعت, تجارت، بینک اور دیگر کاروباری شعبے نسل در نسل چلارہی ہیں. اور ان ہی کے پاس دولت کا ارتکاز ہے. جبکہ پاکستان میں اس کی ضرورت نہیں ہے. کیونکہ یہ ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں. جیسے ریاست کو ترقی یا گروتھ کی کوئی خواہش نہیں، بس ایلیٹ کنٹرول میں رہنا چاہیے.پاکستانی عوام نے جمہوری نظام، مارشل لاء، ہائبرڈ، بہت زیادہ ہائبرڈ، کم ہائبرڈ، لیکن جو نہیں کیا وہ ترقی کی طرف قدم نہیں بڑھایا. اور نہ ہی لگتا ہے کہ کبھی دلچسپی لی ہو جس کا خمیازہ آج 25 کروڑ عوام بھگت رہی ہے اور کب تک بھگتے گی.

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 233 Articles with 83019 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.