پاکستان میں بیوروکریسی کے ادارے کا زوال

ہم تا حال گورے کی پالیسیوں پر گامزن ہیں اور یہ پالیسیاں عام عوام کیلئے زہر قاتل جبکہ ہمارے نام نہاد حکمرانوں کیلئے منعفت بخش ہیں- پاکستان کے مسلمانوں نے انگریزوں کی سازش کے تحت قائم کردہ وہ ریاست جسے بادیالنظر میں اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا ایک بہت بڑا جھوٹ تھا ہم تا حال گورے کے ماتحت ہیں اور اسکی پالیسیوں پر آج بھی گامزن ہیں۔ اور اس سامراجی کھیل کو جیتنے کے لیے گورا سرتوڑ کوششوں میں مشغول ہے۔

حکومت لڑاو اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور وہ عوام کو ان مسائل میں الجھا کر اپنی لوٹ مار میں مصروف ہے۔

ہم ایک ایسے نظام کے تحت چل رہے ہیں جسمیں سب کچھ ایک کلاس کیلئے ہے اور دوسری کلاس کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ ہمارے یہاں دو طبقات پائے جاتے ہیں اور دو ھی طرح کے خاندان پائے جاتے ہیں جو 25 کروڑ عوام پر اپنی مرضی کے بنائے ہوئے قوانین پر عمل پیرا ہیں۔ اورآئین اورت قانون کواپنی مرضی سے جب چاہا اپنے حق میں موڑ لیا انہیں پوچھنے والا کوۂی نہیں کہ تاقتور لوگ انکی پشت پرر ہتے ہیں اور یہ دونوں ادارے ایک دوسرے کو ہر طرح کی مدد فراہم کرتے ہیں۔

آزادی حاصل کرنے کے بعد، پاکستان کو وراثت میں ایک اچھی طرح سے قائم اور فعال طرز حکمرانی اور منصوبہ بندی کا ڈھانچہ نہیں ملا اور نہ ہی نئے ملک کو سنبھالنے اور چلانے کے لیے ہنر مند اور تربیت یافتہ افرادی قوت اور مہارت۔ خاص طور پر انتہائی نازک معیشت اور تقریباً 80 لاکھ پناہ گزینوں کو آباد کرنے اور ان کی بحالی کے بہت بڑے مسئلے کے تناظر میں صورتحال واقعی نازک تھی۔مگر ہمیں یہ بات افسوس سے کہنی پڑ رہی ہے کہ ہر حکومت نے بیوروکریسی کو نواز کر ملکی وسائل کو بیدردی سے خرچ کیا اور اسکے بدلے میں بیوروکرسی کو جدید سہولیات اور انعام و کرام سے نوازاس جاتا رہا جو آج بھی جاری ہے۔

ہر سطح پر اچھی طرح سے کام کرنے والی اور موثر بیوروکریسی استحکام، سلامتی اور اقتصادی ترقی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ عوامی امور کی انجام دہی کے لیے بیوروکریسی کو ایک موثر ادارے کے طور پر بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا ہونے کے لیے، سیاسی میدان میں ایک وسیع قومی اتفاق رائے ضروری ہے کہ بیوروکریسی کو غیر سیاسی کیا جائے اور نظامی اصلاحات کی جائیں تاکہ ادارہ جاتی نظم و نسق کے تمام پہلوؤں یعنی بھرتی، تعیناتی، سیکھنے اور ترقی، پروموشن اور کیریئر کی ترقی، معاوضہ اور فوائد اور انسانی وسائل کی معلومات کے نظام. ضروری مہارتوں کے آمیزے اور تکنیکی پیشہ ورانہ اہلیت کے ساتھ سرمایہ کاری کی گئی سول سروس اور دیانتداری اور عزم، حوصلہ افزائی اور حوصلے، معروضیت اور غیر جانبداری، اور مساوات اور انصاف کی بنیادی اقدار کے ذریعے کارفرما ہو، جس کو درپیش بڑے ترقیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بنیادی طور پر ناگزیر ہے۔ ملک. سیاسی جماعتوں کی حقیقی وابستگی ناگزیر ہے جو موجودہ منظر نامے کے پیش نظر شاید چاند کی طلب کر رہی ہے۔

پاکستان کی انتظامی بیوروکریسی کی ساختی بنیاد پرانی ہے اور اس کا کہیں اور کسی جدید جمہوری ریاست میں کوئی مماثلت نہیں ہے۔ اس کے بجائے، دنیا بھر کی جدید جمہوریتوں نے یہ اختیارات ACs اور DCs کے مساوی زیادہ جمہوری طور پر منتخب گورنروں، میئرز اور ٹاؤن کونسلوں کو منتقل کر دیے ہیں جنہوں نے نہ صرف نچلی سطح پر طاقتور بنایا، بلکہ نچلی سطح پر جمہوری اصولوں اور اقدار کو بھی فروغ دیا۔
’’لڑا? اور حکومت کرو‘‘ سامراجی قوتوں کا ایک پرانا اورآزمودہ نسخہ ہے، جس کو گورا آج بھی مضبوطی سے تھامے اپنی سازشوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مگن ہے۔ ہمارے حکمران ان انسان کش پالیسیوں پر گامزن ہیں۔ لارڈ لیک نے آگرہ فتح کرنے کے بعد غالب کے چچا اور سرپرست مرزا نصراﷲ بیگ خاں کو چار سَو سواروں کا بریگیڈیر مقرر کردیا تھا اور دوگنے بطور معاش دے دیے تھے۔ مرزا کے نانا بھی میرٹھ میں کمپنی کی فوج میں معزز عہدے پر مامور تھے اور آگرے کے عمائدین میں شمار ہوتے تھے اور مرزا کی شادی بھی لوہار خاندان میں ہوئی تھی جو انگریزوں کا بڑا خیر خواہ تھا۔ ہمارے نام نہاد حکمران بھی گورے کی اس پالیسی پر گامزن ہیں کہ طاقتور اور غالب بیوروکریسی جو عوام کو جانوروں کی طرح ہانکتی ہے اسے بھاری بھرکم نوازشات سے مالا مال کرکے وہ ان سے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کیلئے انہیں مختلف مراعات سے نوازنا تھا، گورے ملازموں کو ہندوستان کے بجائے یورپی معیارات کے مطابق تنخواہیں اور سہولیات دی جاتی تھیں جس کا تمام تر بوجھ ہندوستانی عوام پر پڑتا تھا۔

جیسا کہ ابھی حال ھی میں ہمارے بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کو نوازا گیا ہے جس میں چیئرمین سینیٹ کے کچن کے لیے پچاس ہزار روپے مختص ہیں۔ سوال یہ ہے کہ چیئرمین سینیٹ آخر کیا ایسی خدمات سرانجام دیتا ہے جو باقی سرکاری کم درجے کے ملازمین سرانجام نہیں دیتے؟ حال ہی میں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی نے چیئرمین سینیٹ کی تنخواہ اور دیگر مراعات کا ایک بل منظور کیا جس کے مطابق چیئرمین کی تنخواہ دو لاکھ پانچ ہزار روپے ہو گی اور چیئرمین جس گھر میں رہے گا اس کا ماہانہ کرایہ ڈھائی لاکھ روپے ہوگا اور اس کی تزئین و آرائش کے لیے پچاس لاکھ روپے مختص ہوں گیاس کے علاوہ اس بات کا بھی ذکر ہے کہ اگر کسی چیئرمین سینیٹ نے تین سال کا عرصہ مکمل کر لیا ہے تو وہ اور ان کی اہلیہ ملک میں اور بیرون ملک بھی سرکاری خرچ پر علاج کروانے کے اہل ہوں گے اگر سابق چیئرمین فوت ہو جاتے ہیں تو ان کی بیوہ یہ سہولتیں تا مرگ حاصل کرنے کی اہل ہوں گی۔ اس بل کے مطابق صدر مملکت چیئرمین سینیٹ کو تین ماہ کی چھٹی بھی دے سکتے ہیں اور اس عرصے کے دوران چیئرمین سینیٹ دو لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ بھی وصول کریں گے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ چییرمین سینیٹ اپنے گھر یا دفتر میں بارہ افراد پر مشتمل سٹاف کو رکھنے کے اہل ہوں گے اور ان میں سے جن کو کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا ہے اور ان کی تنخواہ سرکاری خزانے سے ادا کی جائیگی جو پاکستانے خزانے پر نہ صرف ایک بوجھ بے بلکہ عوام کیساتھ ایک بہت بڑا مذاق بھی ہے۔اس بل میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ جو بھی شخص چیئرمین سینیٹ کی تین سال کی مدت مکمل کرلے گا تو اسے فل سکیورٹی فراہم کی جائے گی جس میں سے چھ سنتری جبکہ چار اہلکار جن کا تعلق پولیس کی انسداد دہشت گردی سکواڈ، رینجرز، فرنٹیئر کور یا فرنٹیئر کانسٹیبلری سے ہوگا۔

ہندوستان کے اتحاد اور پارلیمانی جمہوریت کا سہرا برطانیہ کے سر باندھتے وقت اگر حقائق کی بنیاد پر تجزیہ کیا جائے تو ہم اِس نتیجے پر پہنچیتے ہیں کہ یہ برطانوی پالیسیاں ہی تھیں جِن کے نتیجے میں ہندوستان میں انگریز کی آمد سے پہلے قائم کئے گئے سیاسی ادارے تباہ ہوئے، نسلی اور فرقہ وارانہ جھگڑوں میں اضافہ ہوا اور منظّم طریقے سے سیاسی امتیازاور نفرتوں کو پیدا کیا گیا تاکہ برطانوی تسلّط کو قائم رکھا جاسکے اور اسکے لئے اسنے جاگیرداروں، سرمایا داروں، سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کا چناؤ کیا کہ یہی وہ کلاس ہے جو حکومت کیخلاف ہر قسم کے عوامی رد عمل سے پوری طاقت سے نبٹ سکتی ہے اور اسکے لئے انہیں مراعات دینا بہت ہی ضروری تھا تاکہ وہ حکومت کے بغل بچے کا کردار ادا کرتے رہیں اور اپنی پالیسی کے تحت انہیں نوازنے کیلئے قومی خزانے کا بے دریغ استعمال کیا اور بیوروکریسی کو شاہانہ انداز میں رہنے اور انہیں کمزوروں اور غریبوں کو دبانے کیلئے استعمال کیا گیا اور ہماری حکومت نے اس پالیسی کو تا حال جاری رکھا ہوا ہیاور غربت بے روزگاری، صحت اور تعلیم کے مسائل تا حال جوں کے توں ہپیں۔ امارت اپنے عروج پر ہے، تعلیم کا دہرا نظام جاری و ساری ہے، صحت کے میدان میں ایک عام آدمی کیئے علاج معالجہ ایک خو اب بن کے رہ گیا ہے مہنگائی کیوجہ سے جہاں غریب آدمی پس رہا ہے وہیں نام نہاد شرفاء اور غریبوں کے وسائل پر قبضہ کرنے والے اپنے اللوں تللوں میں مگن ہیں اور بیرونی ممالک میں صحت و تعلیم کیلئے انپر دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ تعلیم، صحت اور روزمرہ کی ضروریات کے حصول کیلئے مارے مارے پھرتے ہوئے یہ لوگ دن بدن گراوٹ کا شکار ہو کر اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھونے پر مجبور ہیں مگر حکمرا ان اپنی گدی کو بچانے کیلئے مصروف عمل ہیں۔ ہماری معیشت کو اس ظالمانہ اور غریب کش پالیسی سے کتنا نقصان پہنچا اسکا اندازہ آنے والے وقت میں لگانا کوئی مشکل نہیں۔ ہمیں حکومت کی ان معاشی پالیسیوں پر بالکل بھی اعتماد نہیں ہم کہا کرتے ہیں کہ تاریخ اسکا بدلہ ان ظلموں سے ضرور لے گی۔
 

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 139635 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.