شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف محمد اسلم لودھی - (30ویں قسط ) ( پچھلی قسط کا بقیہ حصہ )

ملک کی اہم علمی، ادبی ، معاشرتی شخصیات اور پاک فوج کے شہیدوں پر لکھناآپ کا محبوب مشغلہ رہا
غریب گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود آپ نے غربت کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا
آپ دو سال روزنامہ جرات،چھ ماہ روزنامہ دن ، تین سال روزنامہ پاکستان ، دو سال پشاور کے ارود اخبار آج اور چودہ سال نوائے وقت میں ہفتہ وار کالم لکھتے رہے
آپ کا دو مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے نام تجویز کیا گیا لیکن ایوارڈ نہ مل سکا
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے
انٹرویو ۔ شہزاد چودھری

انٹرویو ۔ شہزاد چودھری

جب اردو کا پیریڈ شروع ہوتا تو صابر صاحب کلاس میں آتے ہی انگلی کے اشارے سے مجھے کھڑا کر دیتے۔ میں وجہ پوچھتا تو وہ کہتے کہ تمہارے ماتھے پر شرارتی لکھا ہوا ہے۔ میں نے کئی بار معصومیت سے ماتھے کو صاف بھی کیا لیکن اس کے باوجود بھی صابر صاحب کا ظلم مجھ پر مسلسل جاری رہا۔ ویسے وہ بہت اچھے استاد تھے، اور انہیں اردو ادب پر مکمل عبور حاصل تھا لیکن یوں محسوس ہوتا تھاکہ وہ نشے میں رہتے ہیں۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ نشہ شراب کا تھا یا شاعری کا۔ ویسے وہ غزلوں کی بہت اچھی تشریح کیا کرتے تھے۔ مجید صاحب جو کبھی کبھی انگلش کا پیریڈ لیا کرتے تھے، بہت خوش لباس انسان تھے۔ ہر روز صبح کلف لگے ہوئے کپڑے پہن کر آتے اور اپنی خوش لباسی کی بناء پر وہ ہمارے دلوں میں بہت قدر و منزلت رکھتے تھے۔ عنایت اﷲ ورک صاحب بھی قابل ذکر شخصیت کے مالک تھے بلکہ وہ ہمارے آئیڈیل استاد تھے۔ فیضی صاحب کا انداز تدریس بہت خوب ہوا کرتا تھا جبکہ شہزادہ صاحب جو ہمیں کچھ عرصہ کے لئے حساب پڑھاتے رہے ہیں، ان کی ایک آنکھ خراب تھی۔ کلاس کے لڑکے ان کی اس کمزوری سے بہت فائدہ اٹھاتے‘ خود میں نے بھی ایک موقع پر (جب گرمیوں کی چھٹیوں کا کام چیک کیا جارہا تھا) فائدہ اٹھایا تھا۔ تفصیل کچھ یوں ہے کہ شہزادہ صاحب نے کہا کہ جن لڑکوں نے کام کیا ہے وہ ایک طرف کھڑے ہو جائیں اور جن لڑکوں نے بالکل کام نہیں کیا وہ دوسری طرف کھڑے ہو جائیں۔ میں نے کام تو کیا تھا لیکن مکمل نہیں کر سکا تھا ،اس لئے مجھے بھی مار کھانے والوں میں کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ میں نے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا کہ حساب کی آخری مشق کر کے شہزادہ صاحب کے اس جانب کھڑا ہو جاؤں جس جانب کی آنکھ خراب تھی۔ پکڑا جانے پر مجھے دوسروں سے زیادہ مار پڑنے کا خدشہ بھی موجود تھا لیکن بچ جانے کے امکانات بھی موجود تھے۔ جب میں شہزادہ صاحب کے پاس کام چیک کروانے کے لئے گیا تو انہوں نے چیک کیے بغیر آخری صفحے پر دستخط کر دیئے اور میں مار کھانے سے بچ گیا ۔ جبکہ دوسروں لڑکوں کو خوب مار پڑی۔

آدھی چھٹی کو میں اور میرا پیارا دوست اشرف جسے لوگ ارشد کے نام سے بھی پکارتے ہیں ،اکٹھے روٹی کھاتے‘ چار آنے میرے ہوتے جبکہ بارہ آنے اشرف ڈالتا۔ مجھے چونکہ گھر سے ملتے ہی اتنے پیسے تھے۔ اس لئے اس سے زیادہ دینے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا جبکہ اشرف اپنے گھر میں ڈرائی کلینر کا کام بھی کرتا تھا اور اسے وہاں سے کافی پیسے مل جاتے تھے۔ اس لئے وہ مجھ سے زیادہ خرچ کرنے کی اہلیت رکھتا تھا لیکن کبھی اس نے اس بات کا شکوہ نہیں کیا۔ حالانکہ ہماری کلاس کے کئی اور لڑکے جن میں اقبال (کبوتر شاہ) اور نسیم نمایاں تھے۔ اکثر اوقات آدھی چھٹی میں روٹی کھانے کے معاملے پر دست و گریباں ہوجاتے ،جس کا داؤ پہلے لگتا وہ روٹی اور سالن کی پلیٹ پکڑ کر بھاگ کھڑا ہوتا اور دوسرا اس کے پیچھے بھاگتا رہتا۔ یوں دوڑتے دوڑتے آدھی چھٹی ختم ہو جاتی۔ ہر روز ان کی یہی روٹین تھی۔ ہماری کلاس میں اقبال عرف بالی جو ہمارے ریلوے کوارٹروں میں ہی رہائش پذیر تھا اور چاچا عبدالحق کا چھوٹا بیٹا تھا وہ بہت کھلے ڈلے مزاج کا لڑکا تھا۔ اس کو ہر پیریڈ کے بعد بھوگ لگ جاتی تھی۔ جسامت کے اعتبار سے خاصا توانا تھا، اس لئے کئی ماسٹر بھی اس سے ڈرتے تھے اور بخوشی روٹی کھانے کی چھٹی دے دیا کرتے تھے۔ وہ پڑھتا کم تھا روٹی زیادہ کھاتا تھا ۔ اسی لیے وہ میٹرک کا امتحان بھی پاس نہیں کرسکا اور ویلڈر کا کام سیکھ کر بیرون ملک چلا گیا تھا ۔ کچھ عرصہ بعد وہ پاکستان واپس آتے ہی بیمار ہوگیا اور اﷲ کو پیارا ہوگیا ۔

جب رانا صاحب گورنمنٹ ہائی سکول سے ٹرانسفر ہوکر گلبرگ ہائی سکو ل تشریف لائے تو ان کی سختی کی وجہ سے دسویں بی کے لڑکوں نے بغاوت کردی ۔ صدر ایوب خان کے مارشل لائی دور میں گلبرگ ہائی سکول کے لڑکوں کی یہ پہلی ہڑتال تھی ۔لڑکوں کا مطالبہ تھا کہ رانا صاحب کو واپس بھیجا جائے اور اشرف خاں صاحب واپس آئیں ۔ یہ مطالبہ منوانے کے لیے دسویں بی کے لڑکے سکول سے نکل کر ریلوے لائن پرجا کھڑے ہوئے اور وہاں سے پتھر اٹھا کر ہیڈ ماسٹر کے دفتر کی جانب سنگ ریزی شروع کردی ۔ چند پتھر ہیڈ ماسٹر صاحب کے دفتر کے شیشوں پر بھی لگے اور جن کے ٹوٹنے کی آواز دور تک سنی گئی ۔تو ہیڈ ماسٹر سمیت سکول کے سارے ٹیچر خوفزدہ ہوکر باہر نہ نکلے ۔ چونکہ راجہ اختر ہمارے ڈرائنگ ماسٹر ہوا کرتے اور وہ سکول کے لڑکوں کو مارتے بھی بہت تھے، اس لیے لڑکے ان سے خاصے خوفزدہ رہتے تھے ۔ وہ اپنے ہاتھ میں روایتی چھڑی پکڑے سکول سے باہر آئے اور دسویں بی کے لڑکوں کے گھیر کر سکول میں لے جانے کو کوشش کرنے لگے ۔ جیسے ہی وہ لڑکوں کے نزدیک آئے تولڑکوں نے ایک بار پھر پتھراؤ شروع کردیا۔ چند ایک پتھر راجہ اختر صاحب کی ٹانگوں پر بھی لگے تو وہ بھی سکول کی عمارت کے اند ر چلے گئے ۔یہ معاملہ اس وقت تک چلتا رہا ۔ جب تک حکومت نے رانا صاحب کو واپس نہیں بلا لیا اور ان کی جگہ ڈپٹی ہیڈ ماسٹر خان عبد اللطیف خان کو ہیڈ ماسٹر کے عہدے پر ترقی دے دی ۔اس طرح خان لطیف خان سکول کے نئے ہیڈماسٹر بن گئے۔وہ نویں۔ بی اور دسویں بی کو انگلش پڑھایا کرتے تھے۔ یہ بات ان کی عادت میں شامل تھی کہ وہ لڑکوں کو باری باری انگلش کی کتاب پڑھنے کا حکم دے کرکرسی پر بیٹھتے ہی سو جاتے تھے ۔


لڑکے یہ سمجھتے کہ وہ آنکھیں بند کر کے سو رہے ہیں لیکن ان کی توجہ ہماری ہی جانب مرکوز ہوتی۔ جب کوئی غلط انگریزی کا لفظ پڑھتا تو فوراً آنکھ کھول کراسے کان سے پکڑ کر مروڑنا شروع کر دیتے۔ ایک لڑکا جس کا نام عبدالحمید تھا وہ ظفر علی روڈ لاہور کے گورا قبرستان کے گورکن کا بیٹا تھا، وہ اکثر غلط انگریزی پڑھتا تھا۔ ایک دن ہیڈماسٹر صاحب نے اسے کان سے پکڑ کر پوچھا کہ تم کہاں رہتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ میں گورا قبرستان میں رہتا ہوں۔ یہ سن کر ہیڈماسٹر صاحب نے کہا کہ سور دیا پترا۔ کسی گورے کی قبر کے ساتھ ہی کان لگا کر بیٹھ جایا کرو ۔ مجھے یقین ہے کہ تمہیں انگریزی پڑھنا آ جائے گی۔ اس بات پر پوری کلاس میں قہقہہ پڑا اور عبدالحمید بے چارہ سخت شرمندہ ہوا۔

اسی کلاس میں دو محمود نامی لڑکے بھی پڑھتے تھے۔ ایک موٹا اور کالے رنگ کا محمود تھا جبکہ دوسرا نسبتا سمارٹ ، خوبصورت اور سفید رنگ کا حامل تھا۔ دونوں ہی سے میری شناسائی تھی اور دونوں ہی میرے حلقہ احباب میں شامل تھے۔ خوبصورت محمود کو جب بھی کوئی لڑکا تنگ کرتا تو وہ میری مدد طلب کرتا۔ یہ دونوں حسنین آباد لاہور کینٹ میں ہی رہتے تھے اور میرے گھر ان دونوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ موٹا محمود توسکول چھوڑنے کے بعد ایسا غائب ہوا کہ کہیں نظر نہیں آیا لیکن چٹا محمود مجھے 1974ء میں اس وقت ملا تھا، جب میں ہیکو آئس کریم کی فیکٹری میں مزدوری کیا کرتا تھا۔ اسے دیکھ کر میں اسے اس خیال سے نہ بلا سکا کہ وہ پہلے مجھے بلائے گا کچھ یہی کیفیت اس پر طاری تھی۔ چنانچہ چار سال بعد ایک دوسرے کے سامنے آ کر ہم پھر ایسے بچھڑے کہ زندگی میں دوبارہ ملنا نصیب نہ ہوا۔وہ اپنی دنیا میں کہیں کھو گیا اور میں نے اپنی دنیا بسا لی ۔ اچھے دوست کی حیثیت سے اس کی کمی میں اب بھی محسوس کرتا ہوں۔ سکول چھوڑے ہوئے مجھے بتیس سال ہو چکے ہیں لیکن اسلم مکرم ، قیصر ، کوثر ، زاہد ، الفت اب بھی مجھے یاد آتے ہیں ۔ اسلم مکرم اس زمانے میں بہت ذہین مشہور تھا فارغ التحصیل ہو کر وہ پہلے روٹری کلب کا سیکرٹری جنرل بنا ۔ اس کے بعد اس نے اپنی ٹریولنگ ایجنسی بنا لی جو انتہائی کامیابی سے چل رہی ہے ۔ ان سے کبھی کبھار ملاقات ہو جاتی ہے لیکن دلوں میں محبت آج بھی اسی طرح قائم ہے ۔سکول کا زمانہ تو ختم ہو چکا ہے لیکن سکول کے دوستوں کے چہرے آج بھی میری آنکھوں میں محفوظ ہیں ۔

اسلم آرائیں صاحب حالانکہ وہ میری گڈ بکس میں شامل نہیں تھے لیکن کلاس فیلو اور آٹھویں جماعت کے مانیٹر ہونے کی وجہ سے ان کا ہلکا سا تصور میرے ذہن میں محفوظ تھا ۔ جب میں بنک آف پنجاب میں بطور میڈیا کوارڈی نیٹر ملازمت کرتاتھا تو ایک دن مجھے چپڑاسی نے آکر بتایا کہ آپ کے سکول کا کوئی دوست ملنے آیا ہے ۔میں نے کہا اگر وہ سکول کا دوست ہے تو انہیں فورا میرے پاس لے آؤ ۔ ایک درمیانی عمر کا شخص جیسے ہی میرے سامنے کھڑا تھا تو میں اسے پہنچاننے کی کوشش کررہا تھا ۔ چند لمحوں بعد مجھے یاد آگیا کہ یہ تو وہ اسلم آرائیں ہیں جو آٹھویں جماعت میں ہمارے مانیٹر ہوا کرتے تھے ۔جو راجہ اختر صاحب کے پیریڈ میں میرا نام اکثر شرارتی لڑکوں میں لکھ لیا کرتے تھے ۔پہلی نظر میں دیکھتے ہی ساری کہانی میری ذہن میں تازہ ہو گئی۔میں نے اسلم آرائیں صاحب کواپنے پاس بٹھایا اور چائے وغیرہ سے تواضع کی ۔ کچھ دیر ہم سکول میں گزرے ہوئے دنوں اور اساتذہ کرام کی باتیں کرتے رہے ۔ پھر وہ مجھ سے اجازت لے کر واپس چلے گئے ۔

وقت گزرتا رہا ۔وہ بھی مجھے بھول گئے اور میرے ذہن سے بھی ان کی تصویر محو ہو گئی ۔ ہم دونوں اپنی اپنی دنیا میں مگن تھے ۔اس وقت میری رہائش مکہ کالونی گلبرگ تھرڈ لاہور میں ہوا کرتی تھی۔ جہاں میں اپنی بیوی ، دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے ہمراہ رہائش پذیر تھا ۔ مجھے وہاں رہتے ہوئے 30 سال گزر چکے تھے ۔ بیٹی تسلیم اسلم شادی کے بعد اپنے شوہر حافظ تاج محمود کے گھر جا چکی تھیں جبکہ دونوں بیٹوں کی شادیاں بھی ہو گئیں تو مکہ کالونی والا گھر بہت چھوٹا محسوس ہونے لگا ۔ اس لمحے ہم دونوں میاں بیوی کے دل میں ایک خواہش پیدا ہوئی کہ اس گھر کو فروخت کرکے کسی اچھی جگہ اس سے بڑا گھر خریدا جائے ۔جہاں ہم سب کو رہنے کے لیے معقول رہائش میسر آسکے۔اس جستجو میں ہم دونوں میاں بیوی چھٹی کے دن اپنے گھر سے نکل کر اردگرد کے علاقوں کا چکر لگا نے لگے ۔پریشانی یہ تھی کہ جتنی رقم کا ہمارا مکان فروخت ہو رہاتھا، اتنے پیسوں میں آگے کہیں بھی مکان نہیں مل رہا تھا ۔ بہرکیف اس کی تفصیل آگے آئے گی ۔ حسن اتفاق سے بنک سے میری ریٹائر منٹ بھی قریب آ پہنچی تو سوچا کہ بنک سے ریٹائرمنٹ کے جو پیسے ملیں گے، ان کو شامل کرکے کوئی اچھا سا مکان تلاش کیا جائے ۔چنانچہ اسی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہم دونوں میاں بیوی والٹن روڈ کی قادری کالونی میں جا پہنچے۔ جہا ں ایک تین منزلہ گھر (جس کی ایک منزلہ مکمل فرنشڈ تھی جبکہ اوپر والی دونوں منزلیں ابھی ادھوری تھیں اور وہاں آٹھ دس لاکھ روپے کا کام ہونے والا تھا )پسند آگیا اور سودا بھی ہو گیا ۔ مجھے قادری کالونی میں آئے ہوئے کچھ عرصہ ہی ہوا تھا اور میں نماز کی ادائیگی کے قریبی مسجد ( اﷲ کی رحمت ) جانے لگا ۔ وہاں مجھے سر پر جالی دار ٹوپی پہنے ہوئے ایک خوش پوش میری ہی عمر کے صاحب دکھائی دیئے ۔ جو پہلی ہی ملاقات کے بعد میرے اچھے دوست بن گئے۔ابھی مجھے ان کا نام نہیں پتہ تھا۔

ان سے ہر نماز کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا ۔ ماشا اﷲ وہ کھاتے پیتے گھرانے کے فرد دکھائی دے رہے تھے ۔ جب مسجد کا مینار بنانے کا فیصلہ ہوا تو انہوں نے دولاکھ روپے مینار بنانے کے لیے امام مسجد قاری محمد اقبال صاحب کی ہتھیلی پر رکھ دیئے ۔ پھر مسجد میں ایئر کنڈیشنر نصب ہونے کے بعد پارٹیشن کی ضرورت محسوس ہوئی تو وہی شخص آگے بڑھا اور پارٹیشن کا کام بھی بہترین انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچا دیا ۔انہی دنوں کی بات ہے کہ میری بائیں آنکھ میں سفید موتیے نے پریشان کردیا ۔ڈاکٹر وں کی رائے تھی کہ اب فوری طور پر آپریشن کروا لینا چاہیئے تاکہ زندگی کے معمولات جاری و ساری رکھے جا سکیں ۔ مسئلہ یہ درپیش ہوا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد مجھے بنک کی جانب سے ایک پیسہ بھی پنشن نہیں ملتی تھی اور جو کچھ لم سم ملا ، اس کو شامل کر کے نیا مکان خرید لیاگیا ۔اس لیے آنکھوں کے آپریشن کے لیے میرے پاس پیسے موجودنہیں تھے ۔ اسی طرح ایک دن مسجد میں بیٹھے ہوئے گفتگو کے دروان آنکھوں کے آپریشن کی بات چل پڑی تو ان صاحب نے بتایا کہ ان کا ایک جاننے والا رحمت اﷲ آئی ٹرسٹ میں ملازمت کرتا ہے ۔میں آپ کو وہاں لے چلوں گا۔ ہوسکتا ہے وہاں آپ کی ایک آنکھ کا آپریشن مفت ہو جائے ۔یقینا یہ بات میرے لیے امید کی کرن تھی ۔ ایک صبح وہ صاحب مجھے اپنی کار میں بٹھا کر ایل آر بی ٹی ہسپتال جا پہنچے ۔ وہاں پہنچ کر محسوس ہوا کہ یہاں تو ساری دنیا ہی آنکھوں کے علاج کے لیے آمڈ آئی ہے ۔ اتنے زیادہ لوگوں کو دیکھ کر میں پریشان ہوگیا ۔ ان صاحب نے کہا آپ پریشان نہ ہوں میں اپنے واقف کار بندے سے رابطہ کرتا ہوں ۔ چند ہی لمحوں بعد وہ صاحب بھی ہمارے پاس آ پہنچے ۔ ان کا نام عرفان بٹ تھا ، وہ نوجوان خاصا تیز طرار تھا ۔ جیسے ہی اسے میری بائیں آنکھ کے آپریشن کی بات کہی گئی تو مشین کی طرح وہ بھاگا اور آپریشن کے تمام مراحل مکمل کرکے اگلے دن آپریشن کے لیے صبح سات بجے کا وقت ہمیں دے دیا ۔
( جاری ہے )
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 665577 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.