شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف محمد اسلم لودھی - (29ویں قسط ) ( پچھلی قسط کا بقیہ حصہ )

ملک کی اہم علمی، ادبی ، معاشرتی شخصیات اور پاک فوج کے شہیدوں پر لکھناآپ کا محبوب مشغلہ رہا
غریب گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود آپ نے غربت کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا
آپ دو سال روزنامہ جرات،چھ ماہ روزنامہ دن ، تین سال روزنامہ پاکستان ، دو سال پشاور کے ارود اخبار آج اور چودہ سال نوائے وقت میں ہفتہ وار کالم لکھتے رہے
آپ کا دو مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے نام تجویز کیا گیا لیکن ایوارڈ نہ مل سکا
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے
انٹرویو ۔ شہزاد چودھری

اس سے پہلے ہیڈماسٹر اشرف خاں کے دورمیں بھی ایک واقعہ رونما ہوا تھا جس کا یہاں ذکر کرنا ضروری ہے۔ سرور ساقی صاحب ہمیں حساب پڑھایا کرتے تھے۔ حساب مجھے بھی خوب آتا تھا اور میں باقاعدگی سے استاد کا دیا ہوا ہوم ورک گھر سے کر کے لاتا تھا۔ ساقی صاحب میری کارکردگی سے بالکل مطمئن تھے۔ میرے ساتھ اشرف اور اقبال بیٹھا کرتے تھے لیکن ایک دن کے لئے میرے ساتھ خلیل بٹ بیٹھ گیا جس کی ان دنوں گلبرگ مین مارکیٹ میں بٹ تکہ شاپ کے نام سے دوکان بھی ہوا کرتی تھی وہ ایک ریٹائرڈجج کا بیٹا تھا اور اس کے طور طریقے پر شاہانہ تھے ۔ وہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لایا کرتا تھا ۔ ساقی صاحب بلیک بورڈ پر ہمیں ایک سوال سمجھا رہے تھے اور میں پوری توجہ کے ساتھ سوال سمجھ بھی رہا تھا جبکہ میرے ساتھ بیٹھا ہوا خلیل بٹ میری ہی کاپی کے نچلے صفحے پر سکہ رکھ کر اس پر پنسل پھیر رہا تھا،جس سے اوپر والے صفحے پر سکے کا عکس ابھر آیا۔ ساقی صاحب نے اچانک گردن گھما کر یہ سب کچھ دیکھ لیا۔ وہ فوراً ہمارے قریب آئے اور کاپی چھین لی جس پر سکے کا نشان بنا ہوا تھا۔ انہوں نے پوچھا کہ یہ کاپی کس کی ہے؟ میں نے کہا یہ کاپی میری ہے۔ انہوں نے غصے کے عالم میں کہا کہ میں بلیک بورڈ پر سوال سمجھا رہا ہوں اور تم کاپی پر سکے بنا رہے ہو۔ میں نے جواب دیا کہ سر کاپی میری ضرور ہے لیکن سکہ بنانے کا جرم خلیل بٹ نے کیا ہے ۔میری تمام تر توجہ آپ کی جانب تھی ۔

میں نے ساقی صاحب کو سمجھانے کی کوشش کی ، لیکن ساقی صاحب کی تسلی نہ ہوئی۔ انہوں نے ڈیسک کا ڈنڈا نکال کر مارنا شروع کر دیا۔ خلیل کو تو دو تین ڈنڈے مار کر چھوڑ دیا گیا لیکن میری پٹائی اہتمام سے ہونے لگی۔ میرے اندر غصے سے بھرا ہوا انسان جاگ اٹھا۔ میں نے جذبات میں آتے ہوئے بے ساختہ اور بے ارادہ ساقی صاحب کو دونوں ہاتھوں سے اوپر اٹھا لیا جس پر ساقی صاحب مجھے اور بھی مارنے لگے۔ مجھے غصے کے عالم میں ذرا بھی پتہ نہیں چل رہا تھا کہ مجھے کہاں کہاں مار پڑ رہی ہے۔ جیسے ہی میں نے ساقی صاحب کو زمین پر کھڑا کیا تو انہوں نے مارنا بند کر دیا۔ اس زیادتی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے میں آدھی چھٹی کی گھنٹی بجتے ہی بستہ اٹھا کر گھر پہنچ گیا۔ والدین میری غیرمتوقع آمد دیکھ کر پریشان ہو گئے۔ انہوں نے جلد آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے سارا ماجرا سنادیا۔ چونکہ ہیڈماسٹر والد صاحب کو ذاتی طور پر جانتے تھے، اس لئے وہ میرے ساتھ پیدل ہی چل کر سکول آئے اور ہیڈماسٹرصاحب کے روبرو ساقی صاحب کے رویے کی شکایت کی۔ ہیڈماسٹرصاحب نے ساقی صاحب کو بلوایا اور اس واقعے کے بارے میں دریافت کیا۔ ساقی صاحب جو اب بڑی حد تک نارمل ہو چکے تھے ،ان کا غصہ ختم ہو چکا تھا۔ انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے معذرت کرلی۔ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا مجھے ہیڈماسٹر صاحب نے اپنے کمرے سے باہر بٹھایا ہوا تھا۔ بعد میں مجھے کمرے میں بلوایا گیا ہیڈماسٹر براہ راست مجھ سے سوال کرنے لگے۔ آخری سوال میرے بستے کے بارے میں تھا کہ وہ کہاں ہے؟ میں نے بتایا کہ وہ تو میں گھر چھوڑ آیا ہوں ۔ یہ سنتے ہی وہ مجھ پر برس پڑے اان کا حکم تھا کہ اگر آدھے گھنٹے میں تم بستہ لے کر سکول نہ پہنچے تو میں تمہیں سکول سے نکال دوں گا۔ ہیڈماسٹر صاحب یہ دھمکی والد صاحب کے سامنے اس لئے دے رہے تھے کہ کہیں میں استاد کی معذرت کو اپنی جیت ہی نہ سمجھ لوں۔ چنانچہ میں دوڑتا ہانپتا گھر پہنچا اور بستہ لے کر آدھے گھنٹے سے پہلے سکول پہنچ گیا۔ حالانکہ ان دنوں سکول اور گھر کا فاصلہ آنا جانا کم ازکم دو میل تو ہو گا ۔ اس کے بعد ساقی صاحب نے مجھے کبھی کچھ نہیں کہا بلکہ ہمیشہ پیار اور محبت سے پیش آتے رہے اور میں نے بھی ان کے احترام میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

اسی دوران ایک اور واقعہ رونما ہوا جو ہم سب کے لئے سبق کا باعث تھا۔ بسنت کی آمد آمد تھی ہر جانب پتنگیں اڑرہی تھیں شوقین لڑکے انہیں پکڑنے اور اڑانے میں پیش پیش دکھائی دے رہے تھے۔ والٹن کا ایک خوبصورت نوجوان جو لباس اور جسامت کے اعتبار سے مجھ سے بہتر اور خوبصورت دکھائی دیتا تھا۔ وہ بھی بذریعہ ٹرین روزانہ گلبرگ ہائی سکول میں پڑھنے کے لئے آتا تھا اور واپس بھی بذریعہ ٹرین ہی جاتا تھا۔ اس کو بہترین لباس میں دیکھ کر ہمیں رشک آیا کرتا تھا ۔وہ لڑکا پتنگ بازی کا بہت شوقین تھا۔ ایک دن جب سکول سے چھٹی کے بعد تماملڑکے اپنے اپنے گھروں کو جا رہے تھے ۔تووہ بھی ہمارے ساتھ ساتھ چلتا ہوا ریلوے اسٹیشن لاہور کینٹ کی جانب جارہا تھا اچانک اس کی نگاہ ایک کٹی ہوئی پتنگ پر پڑی جوبے وفا محبوبہ کی طرح ہچکولے کھاتی ہوئی نظر آرہی تھی۔ ان دنوں سکول سے ملحقہ چھوٹی سی بستی موجود تو تھی لیکن اس بستی کے ساتھ ہی صابن بنانے والی ایک فیکٹری ہوا کرتی تھی ۔ صابن فیکٹری کی عمارت تو خاصی پیچھے تھی لیکن اس فیکٹری کے سامنے ایک کشادہ جگہ پر بارش کا پانی کھڑا رہتا تھا جہاں اردگرد کے لوگ انسانی فضلہ پھینک دیا کرتے تھے ۔ فیکٹری والے صابن کی جو میل کچیل بچتی وہ اس جوھڑ میں پھنک دی جاتی تھی ۔ چند دنوں بعد ہی وہ میل خشک ہو کر ایسی دکھائی دیتی جیسے اس کے نیچے اب گندہ پانی اور غلاظت موجود نہیں ہے ۔

وہ خوبصورت لڑکا پتنگ کے پیچھے بھاگتا ہوا اس دلدل میں جا پھنسا اور گردن تک غلاظت میں ڈوب گیا۔ اس کی کتابوں کے اوراق بکھر گئے‘ کپڑے غلاظت سے آلودہ ہو گئے۔ وہ نوجوان غلاظت میں کندھوں تک دھنس چکا تھا اور مدد کے لئے پکار رہا تھا۔ سکول کے لڑکے اس سے تھوڑی دور موجود تو ضرور تھے لیکن آگے جانے کا کوئی رسک نہیں لے رہا تھا۔ کیونکہ جو بھی آگے جاتا وہ دلدل میں پھنس جاتا ۔یہی وجہ تھی کہ کوئی بھی رسک لینے کو تیار نہ تھا۔ چیخ و پکار سن کر قریبی گھروں کے لوگ بھی باہر نکل آئے اور رسے کی مدد سے اسے اس غلاظت بھرے جوہڑ سے نکالنے کی کوشش کرنے لگے۔ کافی تگ و دو کے بعد اسے جوہڑ سے نکال تو لیا گیا لیکن اس خوبصورت لڑکے کے جسم اور کپڑوں سے بدبو کے بھبھو کے اٹھ رہے تھے۔ اسے سرے عام سرِ سے پاؤں تک صاف پانی سے غسل دیا گیا اور کسی خدا ترس انسان نے پہننے کے لئے اپنے کپڑے دیئے جنہیں پہن کر وہ اپنے گھرروانہ ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنی خواری کے باوجود بے وفا محبوبہ کی طرح وہ پتنگ کسی اور کی ہو چکی تھی۔

ہمارے زمانے میں بچوں کی اسمبلی سکول سے باہر ریلوے لائن کے قریب کھلے میدان میں ہوا کرتی تھی جس میں تلاوت کلام پاک‘ ہیڈماسٹر صاحب کا خطاب اور بیک زبان قومی ترانہ بھی پڑھا جاتا تھا۔ انہی دنوں پاکستان ریلوے نئی الیکٹرک ٹرین متعارف کروا ئی جا رہی تھی جس کے بارے میں ہیڈماسٹر صاحب نصیحت آمیز لہجے میں فرمایا کرتے تھے کہ وہ ٹرین اتنی تیز رفتارہو گی کہ پلک جھپکتے ہی قریب آ جائے گی ۔اس لئے بچے ریلوے لائن پر نہ بیٹھا کریں اور نہ ہی لائن کے درمیان پیدل چلا کریں تاکہ کسی بھی متوقع جانی نقصان سے بچا جا سکے۔ ہیڈماسٹر صاحب کی باتیں سن کر اس ٹرین کو دیکھنے کا تجسس اور بڑھ گیا۔ ہم نے دوستوں سے مشورہ کیا کہ آزمائشی طور پر لاہور کینٹ سے رائے ونڈ تک چلانی جانے والی ٹرین پر سفر ضرور کرنا چاہیے۔ چنانچہ ایک دن وقت نکال کر ہم والدین کو بتائے بغیر اس ٹرین میں جا بیٹھے جس میں حفاظتی نقطہ نگاہ سے انسانوں کی بجائے ریت کی بوریاں رکھی ہوئی تھی تاکہ خدانخواستہ یہ ٹرین تیز رفتاری کی وجہ سے پٹڑی سے اتر بھی جائے تو جانی نقصان نہ ہو۔

الیکٹرک ٹرین کی رفتار دیکھ کر ہیڈماسٹر صاحب کی وہ بات تو سو فیصد درست معلوم نہ ہوئی کہ الیکٹرک ٹرین دور سے پلک جھپکتے ہی قریب آ جائے گی لیکن پہلے سے چلنے والی ٹرینوں کی نسبت اس کی رفتار کچھ زیادہ ضرورہوئی۔ رائے ونڈ تک کے سفر کا بہت لطف آیا کیونکہ ہم کافی دوست اس ٹرین میں ہلہ گلہ کرنے کے ساتھ ساتھ خوب انجوائے کر رہے تھے۔ شام چار بجے ہم واپس لاہور کینٹ آ گئے۔ یوں الیکٹرک ٹرین پر سفر کرنے کی حسرت بھی پوری ہو گئی۔

میرے والد ریلوے میں چونکہ کیبن مین تھے اور ہر اسٹیشن کی طرح لاہور کینٹ اسٹیشن پر بھی دو کیبن تھیں۔ ایک کو جنوبی کیبن کے نام سے پکارا جاتا تھا اور دوسری کو شمالی کیبن۔ سکول اور گھر کے راستے میں جنوبی کیبن ہی آتی تھی۔ دوران امتحان میری یہ کوشش ہوتی کہ میں والد صاحب کی نظروں سے بچ کر گھر پنچنے میں کامیاب ہو جاؤں اور والد صاحب مجھ سے پرچے میں آنے والے سوالوں کے جواب نہ پوچھ سکیں لیکن بچہ اپنی طرف سے جتنی بھی چالاکی کرتا ہے باپ تو باپ ہی ہوتا ہے اور وہ بچے کی نفسیات کو مکمل طور پر جانتا بھی ہے۔ اس لئے تمام تر ہوشیاری کے باوجود میں والد صاحب کے قابو آ جاتا اور وہ مجھ سے پرچے کے بارے میں سوال پوچھنے لگتے اور اگر جواب اطمینان بخش نہ ہوتا تو میری کمبختی وہیں شروع ہو جاتی۔ بعض اوقات تو موقع پر ہی تھپڑ بھی کھانے پڑتے۔ لیکن میں خاموشی سے والد صاحب کی ہر بات برداشت کرنے ہی میں عافیت تصور کرتا اگر کبھی کیبن سے بچ کر گھر پہنچ بھی جاتا تو شام چار بجے (جب والد صاحب کی ڈیوٹی سے واپسی ہوتی) کا خوف مجھ پر ہر لمحے طاری رہتا اور میری کوشش ہوتی کہ جتنی دیر تک والد صاحب سے چھپ سکتا ہوں ،چھپا رہوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ انہیں یاد آ جائے اور میری بنی بنائی عزت خطرے میں پڑ جائے۔ جب والد صاحب کو غصہ آتا تو والدہ بھی مجھے بچا نہ سکتی تھی‘ صرف پڑھائی ہی پر مجھے ڈانٹ پڑنے کا ہر لمحے امکان موجود رہتاتھا۔ والد صاحب سب سے زیادہ پیار بھی مجھے ہی کرتے تھے اور میں جتنا پیار اپنی والدہ سے کرتا تھا اس کی تو انتہا نہ تھی ان کے ہاتھ کے پکے ہوئے کھانے میں شوق سے کھاتا۔ بالخصوص ساگ‘گوبھی‘ مٹر گوشت‘ کھیر‘ دلیہ‘ گڑ کے میٹھے چاول‘ گھی شکر سے بنی ہوئی روٹی کی چوری وغیرہ۔لیکن والد سے محبت کا بھی کوئی کنارہ نہیں تھا ۔اگر وہ کہیں چلے جاتے تو میں اداس ہو جاتا ۔

ایک مرتبہ میں اردو کا پرچہ دے کر گھرآ رہا تھا کہ والد صاحب نے آواز دے کر مجھے کیبن پر بلا لیا اور پرچے کو دیکھ کر باقی سوالات کے علاوہ مجھ سے کشمکش کا مطلب پوچھا ۔مجھے نہ آیا تو وہیں پر ایک خاکروب ’’صوبہ مسیح‘‘ جھاڑو پھیر رہا تھا۔ والد صاحب نے اس سے کشمکش کا مطلب پوچھا تو اس نے بالکل صحیح جواب دے دیا۔ والد صاحب نے خوب ڈانٹ پلائی کہ یہ خاکروب ہی اچھا ہے جسے تم سے زیادہ اردو آتی ہے۔اسی جماعت میں کئی اور اساتذہ کرام کی شفقت بھی مجھے حاصل رہی جن میں مشتاق صاحب‘ شہزادہ صاحب‘ کرول کنگ (اصل نام یاد نہیں ان دنوں یہی نام لیا جاتا تھا کیونکہ وہ کلاس میں جب بھی آتے تو جو بھی ان کے ہتھے چڑھتا اسے بہت مارتے تھے اس لیے کلاس کے لڑکے انہیں کرول کنگ کے نام سے پکارا کرتے تھے) مجید صاحب‘ عنایت اﷲ ورک صاحب‘ فیضی صاحب‘ صابر صاحب‘ یعقوب صاحب اور آصف رانجھا (ان کو رانجھا ہم اس لئے کہتے تھے کہ ان کے پاس بانسری نما رنگین ڈنڈا ہر وقت موجود ہوتا تھا جس سے وہ اکثر کلاس کے بچوں پر لاٹھی چارج کیا کرتے تھے)۔ نمایاں ہیں۔
( جاری ہے )
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 665671 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.