یوکرین ،روس تنازعہ اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے افراط زر کے اثرات !

حالیہ برسوں میں، دنیا نے ایسے واقعات کا سنگم دیکھا ہے جو عالمی استحکام کے لیے اہم چیلنجرز لے کر آئے ہیں۔خاص طور پر یوکرائنی تنازعہ اور موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات ایسے موضوعات ہیں جنہوں نے دنیا کے ماہرین معیشت اور ماہرین اصلاحات کو بھی شعوری طور پر مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ اگرچہ یہ دونوں مسائل غیر متعلق معلوم ہوتے ہیں، لیکن عالمی معیشت پر ان کے مشترکہ اثرات نے افراط زر کی تباہ کاریوں میں اضافہ کیا ہے۔یوکرین میں جاری تنازعہ جغرافیائی سیاسی کشیدگی کا باعث رہا ہے، جس کے علاقائی استحکام پر شدید اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ جنگ نے یوکرین کی صنعتی پیداوار اور زرعی شعبوں کو درہم برہم کر دیا ہے، یہ دونوں ہی ملکی معیشت کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ بنیادی ڈھانچے کی تباہی، آبادیوں کی نقل مکانی، اور فوڈ سپلائی چین میں خلل نے اہم اقتصادی جھٹکے لگائے ہیں، جس کی وجہ سے ملکی پیداوار میں کمی آئی ہے اور درآمدات پر انحصار میں اضافہ ہوا ہے۔

یوکرین اناج، سٹیل اور کیمیکل جیسی اشیاء کا ایک بڑا برآمد کنندہ ہے۔ تنازعات کی وجہ سے اس کی پیداواری صلاحیت محدود ہو گئی ہے، عالمی منڈیوں نے ان ضروری اشیا کی فراہمی میں کمی کا تجربہ کیا ہے۔ نتیجے کے طور پر، ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کی وجہ سے ان ممالک میں افراط زر کا دباؤ بڑھ گیا ہے جو یوکرائن کی برآمدات پر انحصار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ روس سالانہ 35 لاکھ ٹن گندم برآمد کرنے والا دنیا کا واحد بڑا ملک ہے۔ جنگ کی وجہ سے عالمی اقتصادی پابندیوں نے اس تجارت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ قیمتوں میں اس اضافے نے براہ راست صارفین اور کاروباری اداروں کو متاثر کیا ہے، کیونکہ انہیں خام مال اور بنیادی ضروریات کی زیادہ قیمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ماہرین کا تجزیہ ہے کہ آنے والے سالوں میں دنیا بھر کے ممالک کو 37 فیصد سے زائد افراط زر کا سامنا کرنا پڑے گا جو تیسری دنیا کے ممالک میں بڑا معاشی و معاشرتی انقلاب برپا کر سکتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ، موسمیاتی تبدیلی ایک بڑھتی ہوئی عالمی تشویش ہے، جس کے اثرات پوری دنیا میں تیزی سے نظر آ رہے ہیں۔ یوکرین بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے، کیونکہ اس نے شدید موسمی واقعات کا سامنا کیا ہے، بشمول خشک سالی اور سیلاب، جس نے زرعی پیداوار کو نمایاں طور پر متاثر کیا ہے۔ غیر متوقع بارشوں اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے ساتھ موسم کے بے ترتیب نمونوں نے فصلوں کی پیداوار کو کم کیا ہے، جس کی وجہ سے خوراک کی کمی اور قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

روس یوکرین جنگ کا یورپ سمیت پوری دنیا اور خاص طور پر پاکستان کی معیشت پر بھی گہرا اثر پڑا ہے۔ اس جنگ میں پاکستان میں تیل کی قیمتوں میں اضافے، اشیائے خوردونوش کی کمی ، توانائی کی پیداوار اور فراہمی میں بڑا خلل پڑا ہے۔ جب سے روس اور یوکرین کی جنگ شروع ہوئی ہے پاکستان میں گندم کی قیمت میں تین گنا اضافہ ہو گیا ہے۔معاشی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ اس جنگ سے پاکستان کو اس کے جی ڈی پی کے ایک فیصد سے زائد نقصان ہوا ہے جو پاکستان کے لئے کسی طور پر بھی اچھا نہیں ہے۔ یوکرین پاکستان سے ہزاروں میل دور ہے لیکن پھر بھی اس جنگ سے اس کی معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پاکستان کا تیل کا امپورٹ بل اس وقت اس کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے جس سے معیشت اور فارن ریزروز پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔مون سون کی شدید بارشوں اور سیلاب نے پاکستان میں جون 2022 کے وسط سے 33 ملین افراد کو متاثر کیا ہے، اور 897,014 مکانات تباہ جبکہ مزید 1,391,467 کو نقصان پہنچا۔ 1,164,270 مویشی ہلاک ہو ئے، جن میں سے زیادہ تر صوبہ بلوچستان سے تھے، جبکہ 13,115 کلومیٹر (میل) سڑکوں اور 439 پلوں کی تباہی نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں تک رسائی میں رکاوٹ ڈالی تھی۔ 22,000 سے زائد سکولوں کو جزوی یا مکمل نقصان پہنچا۔ اور اب دو بارہ مون سون کے سلسلے کا آغاز ہو چکا ہے۔

آب و ہوا سے متعلق رکاوٹوں نے یوکرین میں توانائی کی پیداوار کو بھی متاثر کیا ہے۔ ملک اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے کوئلے اور قدرتی گیس پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، لیکن موسمیاتی تبدیلی نے کان کنی کے کاموں میں خلل ڈالا ہے اور گیس کی قلت پیدا کردی ہے۔ اس کی وجہ سے توانائی کی قیمتیں زیادہ ہوئی ہیں اور دستیابی میں کمی آئی ہے، جس سے معیشت میں مزید تناؤ آیا ہے اور افراط زر میں اضافہ ہوا ہے۔یوکرائنی تنازعہ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے امتزاج نے افراط زر کے لیے ایک بڑا طوفان پیدا کیا ہے۔ تنازعہ نے یوکرین کی پیداواری صلاحیت کو متاثر کیا ہے، عالمی سطح پر سپلائی کو کم کیا ہے اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے شدید موسمی واقعات نے زرعی پیداوار کو نقصان پہنچایا ہے، جس سے خوراک کی کمی اور قیمتیں زیادہ ہیں۔ توانائی کا شعبہ بھی متاثر ہوا ہے، جس سے توانائی کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔تجارت کی عالمی نوعیت کا مطلب یہ ہے کہ افراط زر کایہ دباؤ صرف یوکرین تک محدود نہیں ہے۔ جیسے جیسے ضروری اشیاء کی قیمتیں بڑھتی ہیں، یوکرین کی برآمدات پر انحصار کرنے والے ممالک کو درآمدی لاگت میں اضافہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں افراط زر کے وسیع اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جوپوری عالمی فوڈ سپلائی چین میں کو متاثر کرنے کا ایک سبب ہے، نتیجتاً دنیا بھر میں صارفین، کاروبار اور معیشتیں متاثر ہوئیں ہیں۔

یوکرائنی تنازعہ اور موسمیاتی تبدیلی کے نتائج نے اہم چیلنجز کو جنم دیا ہے، بشمول بڑھتی ہوئی افراط زر کو۔ یوکرین کی پیداواری صلاحیت میں خلل کے ساتھ ساتھ زرعی اور توانائی کے شعبوں میں آب و ہوا سے متعلق رکاوٹیں عالمی سطح پر ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنی ہیں۔ ان مسائل کا باہم مربوط ہونا بین الاقوامی تعاون اور تنازعات اور موسمیاتی تبدیلی کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ صرف پائیدار حل کے ذریعے ہی ہم افراط زر اور عالمی استحکام پر تنازعات اور موسمیاتی تبدیلی دونوں کے منفی اثرات کو کم کرنے کی امید کر سکتے ہیں۔ اس معاشی بحران میں جب امریکہ جیسی بڑی معیشت اور پاکستان خود ڈیفالٹ جیسے چیلنجز سے نبرد آزما ہے صنعتی پیداوار کو بڑھانے اور اشیاء کی برآمدات میں اضافہ کر کے معاشی بحران سے نمٹنے کا خوبصورت موقع ہے۔ جہاں روس ،یوکرائن جنگ معیشت پر اثر انداز ہو رہی ہے وہیں معاشی ترقیوں کیلئے راہیں بھی ہموار کر رہی ہے۔ توانائی، دفاعی اور گندم سمیت دیگر اشیائے خورد و نوش کو افریقہ، ازبکستان ، ترکمانستان ، تاجکستان جیسے دیگر ممالک جو اپنے اناج کاانحصار روس اور یورپی یونین پر کرتے ہیں کو پاکستان اپنی اشیائے خوردونوش کی طرف متوجہ کرے اور برآمدات بڑھائے۔ بھارت نے افریقہ سمیت دیگر ممالک میں صرف ماچس کی برآمدات میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ جبکہ انڈیا یورپی یونین کیلئے ایک بڑی کاروباری منڈی کے طور پر توجہ کا مرکز بنا ہوا۔ پاکستان نے چاہے روس سے بارٹر سسٹم کے تحت تجارت شروع کی ہے لیکن یہ افراط زر اور غذائی قلت پر قابو پانے کیلئے کافی نہیں۔ پاکستان کو یورپی یونین اوور دیگر ان ممالک کے ساتھ بھی تجارت کے فروغ کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جو یوکرائن اور روس پر انحصار کرتے ہیں۔
 

Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 167884 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More