شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف محمد اسلم لودھی - (26ویں قسط )

ملک کی اہم علمی، ادبی ، معاشرتی شخصیات اور پاک فوج کے شہیدوں پر لکھناآپ کا محبوب مشغلہ رہا
غریب گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود آپ نے غربت کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا
آپ دو سال روزنامہ جرات،چھ ماہ روزنامہ دن ، تین سال روزنامہ پاکستان ، دو سال پشاور کے ارود اخبار آج اور چودہ سال نوائے وقت میں ہفتہ وار کالم لکھتے رہے
آپ کا دو مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے نام تجویز کیا گیا لیکن ایوارڈ نہ مل سکا
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے
انٹرویو ۔ شہزاد چودھری

سوال -لودھی صاحب ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ نے مختلف محاذوں پر ہونے والی 65کی پاک بھارت جنگ کے واقعات ہم سے شیئر کیے جو موجودہ نسل کے لیے حیران کن واقعات ہونگے کیونکہ 58سال پرانی جنگ کے حوالے سے قارئین کے دل میں جو تشنگی رہ گئی ہوگی وہ آپ کے انٹرویو کی یہ قسطیں پڑھنے کے بعدیقینا ختم ہوگی ۔میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ہر پاکستانی شہری اپنی فوج سے والہانہ محبت کرتا ہے اور اس کے کارناموں کے بارے میں جاننا کی جستجو بھی رکھتاہے؟مجھے یہ پوچھنے کی اجازت دیجئے کہ کیا 1965ء کی جنگ میں بری فوج اور پاک فضائیہ نے ہی حصہ لیا تھایا پاکستان بحریہ کا بھی اس جنگ میں کوئی کردار رہا ہے ؟

اسلم لودھی ۔ شہزاد صاحب بات کو آگے بڑھانے سے پہلے میں یہ بتاتا چلوں کہ جب دو ملکوں کے مابین جنگ شروع ہوتی ہے تو افواج کے تینوں شعبے حرکت میں آتے ہیں ۔بیشک ہماری بحریہ ، بھارتی بحریہ سے کمزور اور سائز کے اعتبار سے بھی چھوٹی تھی لیکن پاک بحریہ کے افسروں اور جوانوں نے بھی 1965ء کی جنگ میں دفاع وطن کے تقاضے پورے کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔جس کے تفصیل اس قسط میں آرہی ہے۔؟

پاک بحریہ نے دوراکا کو کیسے تباہ کیا ؟
کراچی کے لیے 6ستمبر 1965ء کی صبح بھی ماضی کی طرح پرسکون تھی ۔پاک بحریہ کے افسر اور جوان ابھی ناشتہ کرہی رہے تھے کہ تمام بحری جہازوں میں ایکشن الارم بجنے لگا۔اس کے فورا بعد ہوائی حملے سے خبردار کرنے والا الارم بھی سنائی دیا۔چندمنٹوں کے بعد ہی پاک بحریہ کا پہلا جہاز کھلے سمندر کی جانب روانہ ہوگیا جبکہ صبح نو بجے کراچی کی بندرگاہ تمام لڑاکا یونٹوں سے خالی ہوچکی تھی ‘تمام جہاز وں نے کراچی بندرگا ہ کی حفاظت کے لیے آس پاس پٹرولنگ شروع کردی تھی ۔ کموڈور شیخ محمد انور اس بیڑے کی کمان کررہے تھے ۔بابر نامی جہاز اس بحری بیڑے کا قافلہ سالار تھا ۔اگلے دن بھارتی فضائیہ نے کراچی پر حملہ کیا تو پاک بحریہ کے کمانڈر چیف وائس ایڈمرل افضل الرحمن خان نے پاک بحریہ کو دشمن کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا۔7ستمبر کی دوپہر ہمارا بحری بیڑا کراچی سے پچاس میل دور تھا کہ اسے دوارکا کی بندرگار اور فوجی تنصیبات پر حملے کا حکم ملا۔یہ بھارتی بندرگاہ کراچی سے دو سو میل دور جنوب کاٹھیاوار میں تھی ‘جس کا قدیمی نام سومنات کا مندر بھی تھا۔تمام بحری جہازوں کے کمانڈروں کو ٹارگٹ کے بارے میں اطلاع کردی گئی تھی ۔ خیبر نامی جہاز کے کپتان ‘کیپٹن اختر حنیف نے مختلف خطرات کی نشاندھی کرتے ہوئے کہا‘ اﷲ نے چاہا تو ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے ۔ہمارے مقابلے میں دشمن کی نیوی اور بھارتی فضائیہ بھی آسکتی ہے لیکن ہمیں ہر جانب سے چوکنا رہنا ہوگا ۔بحری بیڑے کے کمانڈرز نے اس مہم کو آپریشن دوارکا کا نام دیا کیونکہ یہاں بحری فوج کے ٹھکانے ‘ ساحلی قلعہ ریڈر اسٹیشن اور جنگی طیاروں کے ہوائی اڈے بھی تھے۔یہیں سے بھارتی طیارے پرواز کرکے کراچی پر حملہ آور ہورہے تھے۔رات گیارہ بجے ہمارا بحری بیڑا ‘ دوارکا سے 35میل دور پہنچ چکا تھا۔عالمگیر نامی ہمارے جہاز کے ریڈار پر پہلی مرتبہ بھارتی طیاروں کی روشنی دیکھی گئی۔اس کے باوجود سپاہی سے افسر تک کو یقین تھا کہ اﷲ کی تائید و حمایت ہمیں یقین حاصل ہوگی ۔سات اور آٹھ ستمبر کی درمیانی شب بارہ بج کر تیرہ منٹ پر تمام جہاز کاٹھیاوار کے ساحل سے ذرا دور ‘ دوارکا پر گولہ باری کرنے کے لیے صحیح پوزیشنوں پر پہنچ چکے تھے ۔بارہ بج کر چھبیس منٹ پر بھارتی فضائیہ کاایک طیارہ سب سے اگلے جہاز وعالمگیر پر حملے کی غرض سے آیا‘ عالمگیر جہازکے توپچیوں نے اسے مار گرایا۔طیارے میں آگ لگ گئی اور وہ قلابازیاں کھاتا ہوا سمندر میں جا گرا۔ہمارے جہازوں کے ریڈار پر اب دوارکا کی بندرگاہ نمودار ہورہی تھی گولہ باری شروع کرنے سے پہلے گھڑیوں کو ملالیاگیا ۔جہازوں کو ممکن حد تک قلعہ کے قریب پہنچنا تھا، اس وقت چاند پوری آب و تاب سے چمک رہاتھا۔جبکہ دوارکا کی بندرگاہ تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ دور بینوں کے ذریعے چند دیوہیکل چمنیوں اور دیگر تنصیبات کے بالائی حصے دکھائی دے رہے تھے۔پھر توپوں کے دھانے کھول دیئے گئے اورنشانہ پر گولہ باری شروع کردی گئی ۔بندرگاہ کی تمام تنصیبات پر گولے گرتے اور پھٹتے دکھائی دے رہے تھے۔سب سے پہلے ہمارے گولے بھارتی بندرگاہ کے اسلحہ خانے پر گرے تو زور دار دھماکوں کاایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔فوجی تنصیبات کی تباہی کے بعد وہاں موجود فوجیوں اور سویلین اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے ۔

تباہی کا صحیح منظربھارت کے ایک عینی شاہدنے کچھ اس طرح بیان کیا ہے جو جام نگر کا دوکاندار تھاجس کی بہن دوارکا میں رہتی تھی اور ان دنوں وہ اپنی بہن کے گھر میں مہمان کی حیثیت سے ٹھہرا ہواتھا۔اس نے بتایا کہ جب پاک بحریہ کے پہلے گولوں سے قلعے کے اندر گولہ بارود کا ذخیرہ اس قدر ہیبت ناک دھماکے سے پھٹا کہ شہر اور اردگرد کی آبادی میں تو نفسا نفسی بپا ہوئی تھی ‘ فوجی حکام کی بھگدڑکا عالم یہ تھا کہ وہ نہ آگ بجھانے کے انتظامات کرسکے اور نہ ہی انہوں نے صورت حال قابو پانے کی کوشش کی ‘وہ بھی سویلین کی طرح بھاگ رہے تھے ۔گولہ باری کی دوسری بوچھاڑ نے قلعے کے اندر اور باہر کی فوجی عمارتوں کی بنیادوں تک کو اڑا کے رکھ دیا۔ہر طرف تباہ شدہ عمارتوں کا ملبہ ہی بکھرا ہواتھا ۔ریلوے اسٹیشن کا بھی یہی حال تھا بلکہ ریلوے لائن تین جگہوں سے ٹوٹ چکی تھی ۔

جب پاک بحریہ کے جہاز دوارکا کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے تھے اس وقت پاک بحریہ کی واحد آبدوز "غازی"ممبئی کی بندرگاہ کے سامنے سمندر کے نیچے کھڑی ہوئی تھی ۔آبدوز کے نڈ ر اوردلیر کمانڈرکرامت رحمن نیاز ی کی نظر بھارت کے بڑے بڑے جنگی بحری جہازوں پر تھی جن کے نام میسور اور رنجیت تھے ۔"غازی"آبدوز کے کمانڈر نیازی کوامید تھی کہ بھارتی بحریہ کے جنگی جہاز دوارکا کو بچانے کے لیے ضرورنکلیں گے اور ہماری آبدوز انہیں بندرگاہ سے نکلتے ہی دبوچ لے گی لیکن بھارتی بحریہ کے جہاز وں کو بندرگاہ سے باہر نکلنے کی جرات نہ ہوئی ۔حالانکہ اس وقت چار فریگیٹ جہاز ممبئی بندرگاہ میں موجود تھے جبکہ آبدوز شکن جہازوں کی بھی کمی نہ تھی ۔

دوارکا کے دفاع کے متعلق بھارتیوں کو بہت غرور تھا کیونکہ یہ بھارت کا ایسا فوجی اڈا تھا جہاں ہوائی حملوں کی قبل از وقت خبر داری کے لیے دور بین اور طاقتور ریڈر بھی نصب تھا۔قریب ہی ایک تارپیڈو سکول بھی تھا ۔اس اہم اور خطرناک فوجی اڈے کی حفاظت کے لیے کاٹھیا واڑ کے ساحل پر بے شمار توپیں نصب تھیں اور فضائی تحفظ کے لیے جام نگر اور گردو نواح کے چھوٹے بڑے تین ہوائی اڈوں پر بھارتی فضائیہ کے بمبار طیاروں کے کئی سکورڈن موجود تھے ۔ان تمام دفاعی انتظامات کے علاوہ بھارتی بحریہ کا پورا بیڑا یہاں موجود تھا جس میں سب سے زیادہ خطرناک طیارہ بردار جہاز "کرانت "بھی تھا جس کے عرشے پر 80لڑاکا بمبار طیارے ہر لمحے کھڑے رہتے تھے ۔اتنی طاقتور بحریہ جسے برطانوی بحریہ نے دو ماہ تک بڑی محنت اور جانفشانی سے جنگی مشقیں بھی کروائی تھیں جو خود کو برطانوی بحریہ کاجانشین سمجھتی تھی ۔ وہ دوارکا کی تباہی کے وقت بزدلوں کی طرح چھپی بیٹھی رہی ۔

دوارکا کی بندرگاہ تباہ ہوگئی ‘ ساحلی قلعہ ملیا میٹ ہوگیا ‘ساحلی توپیں خاموش ہوگئیں ‘پاکستانی جانباز اپنا مشن مکمل کرکے جب واپس لوٹنے لگے تو بھارتی فضائیہ کے بے شمار جنگی طیارے جوابی حملے کے لیے آپہنچے ۔پاک بحریہ کے جہازوں میں نصب توپیں اپنے بے شمار گولے دوارکا پر فائر کرچکی تھی ۔حالات سازگار نہیں تھے لیکن مشکل کے اس لمحے اﷲ تعالی کی تائید وحمایت مدد کو پہنچی اور بادلوں نے آسمان کو کچھ اس طرح ڈھانپ لیا کہ ہر طرف اندھیرا چھاگیا ۔چاند جو پہلے اپنی چاندنی سمندر کے پانی پر بکھیر رہا تھا وہ بھی بادلوں کی اوٹ چھپ گیا ۔ گویا بھارتی جنگی طیاروں اور پاک بحریہ کے جہازوں کے درمیان سیاہ بادل حائل ہوگئے ۔جب بھارتی طیاروں نے بادلوں کے بہت نیچے پرواز کرکے ہمارے "بدر" نامی جہاز پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی‘ جس کی کمانڈ اکرام الحق کررہے تھے ‘ توپوں نے یکے بعد دیگرے تین حملہ آور بھارتی طیارے گرالیے ۔اسی دوران ہمارا پورا بیڑا ائیر فارمیشن میں آچکا تھا یعنی وہ فضائی حملے کادفاع کرنے کے لیے تیار ہوگیا۔اس صور ت میں دشمن کے کسی بھی جہاز کا ان کی زد سے بچ نکلنا محال تھا۔گہرے بادل اس وقت بھی ہمارے مدد گار تھے اور دشمن کے لیے ان بادلوں سے نیچے آکر بم برسانا ممکن نہ تھا ۔جو چند بم پھینکے گئے وہ ہمارے جہازوں سے بہت دور گرے ۔تھوڑی ہی دیر بعد ہماری مدد کے لیے پاک فضائیہ کے شاہین بھی آپہنچے۔ انہوں نے ریڈیو پر پیغام دیا کہ بادل اس قدر گہرے ہیں کہ ہم کچھ نہیں دیکھ سکتے ‘ پھر وہ یہ پیغام دیتے ہوئے واپس لوٹ گئے کہ اگرہم تمہیں تلاش نہیں کرسکتے تودشمن کے طیارے بھی یقینا تمہیں تلاش نہیں کرسکتے ۔ڈیڑھ گھنٹے کی بحری فضائی جنگ میں پاک بحریہ کے کسی جہاز کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اور تمام بحری جہاز دوارکا کی بندرگاہ اور قلعے کو راکھ کا ڈھیر بنا کر بحفاظت واپس کراچی پہنچ گئے ۔

ان کامیابیوں میں ہمارے تربیت یافتہ ملاحوں کی اعلی جہاز رانی ‘توپچیوں کی موثر اورنشانے پر شاندار نشانہ بازی اور گولہ باری ‘اچانک بھرپور اور مہلک حملے کے تناظر میں تائید ایزدی کابڑا ہاتھ تھا۔جو انتہائی سازگاہ موسم کی صورت میں ہر دم ہمارے ساتھ رہا ۔ کموڈور شیخ محمد انور کو فخر تھا کہ خدا نے انہیں پاکستان بحریہ کی جانب سے بھارت کے خلاف پہلی معرکہ آرائی میں حصہ لینے کی سعادت عطا فرمائی ۔کیپٹن اختر حنیف کا خیال تھا کہ ان کے نزدیک اﷲ تعالی کی سب سے بڑی غائبانہ مدد یہ تھی کہ ہمارے دلوں سے دشمن کا خوف ختم ہوچکا تھا ۔بحریہ کے کمانڈر افضل الرحمن خاں نے دوارکا کی تباہی میں حصہ لینے والے بحریہ کے افسروں اور جوانوں کو اس شاندار کامیابی پر مبارک باد دی ۔علاؤ الدین صدیقی نے پاک بحریہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہماری بحریہ نے دو سو دس میل دور جاکر دوارکا کی بندرگاہ تباہ کردی اگر وہ دو سو دس میل اور دور چلے جاتے تو بھارت کی مکاری اور عیاری ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتی ۔

دوارکا کی تباہی کے ساتھ ساتھ گجرات ‘ کاٹھیاوار ‘ جام نگر اور ممبئی کے شہری آبادی پر دہشت طاری ہوگئی اور مقامی آبادیوں کے لوگ اپناگھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کی جانب کوچ کرگئے ۔ہمارا ایمان قرآن پاک کی اس آیت پر پختہ تھا کہ اگر تم سچے مسلمان ہو تو تم دس کافروں پر بھاری ہو۔بھارتی بحریہ کے پاس اتنی زبردست طاقت تھی اگروہ ذرا سی بھی جرات کا مظاہرہ کرتی تو ہمارے لیے دفاع مشکل ہوجاتا‘جنگی سامان تو امریکہ سے مل جاتا ہے لیکن جرات ‘ہمت ‘ بے خوفی اور مردانگی تو کسی سے نہیں ملتی ۔بھارتی بحریہ کے پاس اسی جذبے کی کمی تھی وگرنہ بھارتی بحریہ کے پاس ایک فلیٹ ٹینکر تھا تو ہمارے پاس بھی ایک ہی تھا۔ پاکستان کے پاس ایک بڑا جنگی جہاز تھا توبھارت کے پاس دو تھے ۔

( جاری ہے )

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 665628 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.