شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف محمد اسلم لودھی (25ویں قسط)

ملک کی اہم علمی، ادبی ، معاشرتی شخصیات اور پاک فوج کے شہیدوں پر لکھناآپ کا محبوب مشغلہ رہا
غریب گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود آپ نے غربت کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا
آپ دو سال روزنامہ جرات،چھ ماہ روزنامہ دن ، تین سال روزنامہ پاکستان ، دو سال پشاور کے ارود اخبار آج اور چودہ سال نوائے وقت میں ہفتہ وار کالم لکھتے رہے
آپ کا دو مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے نام تجویز کیا گیا لیکن ایوارڈ نہ مل سکا
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے

سوال۔ لودھی صاحب 1965ء کی پاک بھارت لڑائی تو واقعی ایمان افروز جنگ تھی ۔میں سمجھتا ہوں یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آپ نے مکمل ہوش وحواس سے یہ جنگ دیکھی ہے اور پھر قدرت کا یہ بھی آپ کے لیے انعام ہے کہ پاک فوج کے جن افسروں اورجوانوں نے اس جنگ میں حصہ لیا۔ بعد میں جب اﷲ تعالی نے آپ کواچھا لکھنے کی توفیق عطا فرمائی تو آپ کے ذہن میں جنگ کے حوالے سے جو حقائق اور واقعات موجود تھے ،اﷲ کی دی ہوئی توفیق سے آپ نے 58سال بعد پا کستانی قوم کے سامنے تحریری شکل میں پیش کررہے ہیں ۔یہ سب آپ پر اﷲ کا کرم ہے ۔؟
اسلم لودھی ۔ شہزاد صاحب میرا ایمان ہے کہ کوئی بھی انسان بذات خود کچھ نہیں کرسکتا یہ توفیق اﷲ رب العزت کی جانب ہی سے ملتی ہے ۔ میری کوشش ہے کہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے حوالے سے جوکچھ میرے ذہن میں محفوظ ہے یا جو کچھ میں کتابوں میں پڑھا ہے وہ میں قارئین کے گوش گزار کردوں۔کیونکہ یہی واقعات دنیا کی عسکری تاریخ میں ایک سنہری باب کی حیثیت سے محفوظ ہیں ۔
یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ دوران جنگ ہی ملکی اور غیر ملکی صحافتی نمائندوں کے ایک وفدنے ان بھارتی علاقوں کا دورہ کیا جو پاک فوج کے افسروں اورجوانوں نے 65کی پاک بھارت جنگ کے دوران اپنے قبضے میں لیے تھے ۔انہیں جگہ جگہ امریکی اسلحہ اور گولہ بارود کے ڈھیر بکھیرے دکھا ئی دیے جو بھارتی فوج چھوڑ کر بھاگ گئی تھی ۔میدان جنگ میں تباہ شدہ بھارتی ٹینک ،فو جی گاڑیاں اور توپیں بھی دکھائی دیں اور بھارتی فوج کی بکھری ہوئی نعشوں کو ان کے مورچوں ہی میں دفن کیا جارہا تھا کیونکہ زیر قبضہ جگہوں پر تیزی سے تعفن پھیل رہا تھا ۔جب غیر ملکی صحافیوں کی پاک فوج کے افسروں اور جوانوں سے ملاقات ہوئی توان کی زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے کہ جس ملک میں ایسی بہادر فوج موجود ہو، اسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی ۔شواہد کے مطابق پاکستانی فوجوں نے اکھنور سیکٹر میں دو سو مربع میل علاقہ بھارتی فوج سے چھینا ۔جبکہ کھیم کرن سیکٹر میں بھارت کے 80مربع میل علاقے پر پاک فوج نے قبضہ کیا ۔راجستھان کے علاقے میں بھی 200 مربع میل علاقے پر پاکستان کا قبضہ مضبوط ہو چکاتھا ۔واہگہ اٹاری اور برکی کے محاذ پر دشمن بی آر بی سے آگے ایک قدم بھی نہ بڑھا سکے تھے ۔
12ستمبر 1965ء کی صبح بھارت نے چونڈہ کے محاذ پر چھ سو ٹینکوں ، ایک ڈویژن بکتربند فوج ، دو ڈویژن پیدل فوج اور فضائیہ کی دفاعی چھتری کے ہمراہ حملہ کردیا ۔یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کا سب سے بڑا حملہ تھا ،بھارتی جنرلو ں کو چونڈہ کے محاذ پر کامیابی کا مکمل یقین تھا ۔لیکن جنگ کا پلڑا اس وقت پاکستانی فوج کے حق میں جھک گیا جب اﷲ تعالی تائید حمایت کے ساتھ انہوں نے بھارتی فوج کے سیالکوٹ کی جانب بڑھتے ہوئے قدم نہ صرف روک دیئے بلکہ آدھے سے زیادہ ٹینک اور بکتربند فوج کو بھی تباہ کرکے بھارتی حکمرانوں کو سوچ میں ڈال دیا کہ پاکستانی فوج کی شکل میں کونسی غیبی طاقت ہے جو ہر بھارتی فوج کے حملے کو پسپا کیے جارہی ہے ۔جب 12 ستمبر 1965ء کی دوپہر تین بجے ریڈیو پاکستان کے نیوز بلیٹن میں اعلان کیا گیا کہ پاکستانی فوج نے چونڈہ کے محاذ پر اپنے تیز رفتار ٹینک دستوں اور ٹینک شکن توپوں کے ذریعے بھارت کی ٹڈی دل فوج کا منہ موڑ دیا ہے تو پورے ملک میں نعرہ تکبیر لگاتے ہوئے لوگ اپنے گھروں سے باہر نکل آئے ۔مسجدوں میں ہر نماز کے بعد پاک فوج کی کامیابی کی دعائیں مانگی گئیں۔
ریڈیو پاکستان کے ذریعے 16ستمبر 1965ء تک بھارتی فوج کو پہنچنے والے نقصان کے اعداد وشمار نشر بھی کیے گئے ۔اب تک بھارتی فضائیہ کے 95 جہاز تباہ کردیئے گئے ۔387ٹینک اور 6889بھارتی فوجیوں کو جہنم واصل کیے ۔اسی روز وائس آف امریکہ کی نشریات میں بتایا گیا کہ اب تک بھارتی فضائیہ کے 140جنگی طیارے پاکستانی فضائیہ کے ہاتھوں تباہ ہوچکے ہیں ۔جبکہ سیالکوٹ کے محاذ پر شدید جنگ بدستور جاری تھی ۔ 18ستمبر کو پاک فوج نے دشمن کے گیارہ مزید ٹینک تباہ کردیئے ۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ مسلسل ناکامی کے باوجود بھارت چونڈہ کے محاذ پر قطار در قطار ٹینک اور بکتر بند دستے جھونکے جارہا تھا ۔جبکہ بھاری تعداد میں تازہ دم فوج بھی ۔غیرملکی صحافی جب چونڈہ کے محاذ پر ہونے والی جنگ کا خود مشاہدہ کرنے کے لیے پہنچے تو انہیں چونڈہ کا محاذ بھارتی فوج کا قبرستان دکھائی دیا ۔انہوں نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ بھارتی فوج کی جانب گدھوں کے جھنڈ منڈلاتے ہوئے دیکھے گئے جن کو بھارتی فوجیوں کی نعشیں کھانے کے لیے مل چکی تھی ۔انسانی گوشت کی سڑاند سے ہرطرف تعفن اور بدبو پھیلی ہوئی تھی۔تا حد نظر استعمال شدہ اسلحہ ، گولوں کے خول ، اسلحے سے بھری اور خالی پیٹیا ں ،تباہ شدہ ٹینک ،توپوں کے تباہ شدہ ڈھانچے ،فوجی گاڑیوں کے ڈھانچے ،انسانی اعضا کے کٹے پھٹے حصے ،شکستہ ہڈیاں،آتشیں اسلحے سے سیاہ زمین اور جلے ہوئے درختوں کی جھاڑیاں بہت ہیبت ناک منظر پیش کررہی تھیں ۔
..............
پاک فضائیہ کے شاہینوں کے کارنامے
یوں تو پاک فضائیہ کا دن 7 ستمبر کومنایا جاتا ہے لیکن 1965 ء کی سترہ روزہ پاک بھارت جنگ کے دوران نہ صرف پاک فضائیہ کے شاہینوں نے وطن عزیز کے تحفظ اور اپنی بری فوج کو فضائی سپورٹ یقینی بنائے رکھی بلکہ بھارت کے کتنے ہی ہوائی اڈوں کو اپنی بہترین تکنیک اور بہادری سے راکھ کاڈھیر بھی بنادیا ۔6 ستمبر 1965ء کی شام پانچ بج کر بیس منٹ پر سکوارڈن لیڈرسرفراز رفیقی ‘ فلائٹ لیفٹیننٹ یونس حسن اور فلائٹ لیفٹیننٹ سیسل چودھری کو بھارت کے تین ہوائی اڈوں(ہلواڑہ ‘ پٹھان کوٹ‘ جام پور) کو تباہ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ۔جیسے ہی یہ قافلہ اپنے ٹارگٹ پر پہنچا تو بھارت کے دس ہنٹر طیاروں نے ان پر حملہ کردیا جبکہ زمین سے طیارہ شکن گنیں الگ گولہ باری کررہی تھیں۔رات کا اندھیرا پھیل چکا تھا سکوارڈن لیڈر سرفراز رفیقی نے دشمن طیاروں کو دیکھتے ہی ساتھی پائلٹوں کو پٹرول کی ٹینکیاں گرانے کا حکم دے دیالیکن یونس حسن کی پٹرول کی ٹینکی نہ گر سکی جبکہ سرفراز رفیقی کے طیارے کی گنیں جام ہوگئیں۔ان مشکلات کے باوجود پاک فضائیہ کے شاہینوں نے بھارت کے تین جنگی طیارے تباہ کردیئے گئے۔بھارتی طیارے کا ایک گولہ سرفراز رفیقی کے طیارے کو لگا۔ جس سے طیار ے میں آگ لگ گئی اور سرفراز رفیقی موقع پر ہی شہید ہوگئے ۔خواجہ یونس حسن نے ہلواڑہ کا ہوائی اڈہ تباہ تو کردیا لیکن ان کا طیارہ آگ کی لپیٹ میں آچکا تھا ۔خواجہ یونس حسن نے اپنے ساتھی سیسل چودھری کو یہ پیغام دیا کہ اب میری واپسی ناممکن ہے ‘یہ کہتے ہوئے ان کا طیارہ پٹھان کوٹ ہوائی اڈے پر کھڑے تمام جنگی طیاروں سے ٹکرا گیا اور اس طرح ولائٹ لیفٹیننٹ یونس حسن نے جام شہادت نوش کیا لیکن بھارتی فضائیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیا ۔ اس فضائی قافلے سے صرف فلائٹ لیفٹیننٹ سیسل چودھری ہی زندہ سلامت واپس آسکے۔(یادرہے جب سیسل چودھری کی بیٹی سخت بخار میں تپ رہی تھی ‘ بیگم نے کہا آپ کو اپنی بیٹی کی تکلیف کااحساس نہیں۔ سیسل چودھری نے جواب دیا میں اپنی ایک بیٹی کو دیکھو ں یا تین کروڑ بیٹیوں کو دیکھوں جو مجھے اپنے تحفظ کے لیے پکار رہی ہیں۔یہ کہتے ہوئے سیسل چودھری فلائنگ کے لیے گھر سے نکل آئے اور پہلے فضائی قافلے کا حصہ بنے۔ 13ستمبر 1965ء کو ایک اور فضائی قافلہ سکوارڈن لیڈر علاؤ الدین احمد کی قیادت میں بھارتی تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے روانہ ہوا۔ اس قافلے میں فلائٹ لیفٹیننٹ سلیم ‘ فلائٹ لیفٹیننٹ امان اﷲ اور فلائٹ لیفٹیننٹ منظورشامل تھے۔اس سے پہلے یہ فضائی قافلہ چونڈہ کے محاذ پر سینکڑوں کے حساب پر بھارتی ٹینکوں پر کامیاب حملے کرچکا تھا۔جیسے ہی یہ قافلہ گرداسپورپہنچا تو انہیں اسلحے اور فوجیوں سے بھری ریلوے ٹرین اسٹیشن پر کھڑی دکھائی دی ۔سکوارڈن لیڈر علاؤ الدین نے جب راکٹ فائر کیے تویکے بعد دیگرے زور دار دھماکے ہوئے اور فضاکو سیاہ بادلوں نے گھیر لیا ۔جب یہ دیکھنے کے لیے دو بارہ انتہائی نیچی پرواز کرتے ہوئے ٹرین کے اوپر سے گزرے کہ ٹرین کا کوئی ڈبہ تباہ ہونے سے رہ تو نہیں گیا۔ تو ٹرین میں موجود اسلحے کے ٹکڑے آسمان کو چھو رہے تھے ،چند ٹکڑے علاؤ الدین احمد کے طیارے کو جالگے جس سے طیارے کو نقصان پہنچا اور کاک پٹ میں دھواں بھر گیا۔ شواہد کے مطابق آپ چھاتہ کے ذریعے نیچے اترتو گئے لیکن دشمن نے انہیں کو شہید کردیا۔
سرگودھا میں پہلے روز فضائی جنگ کا ہیرو مشرقی پاکستان کا ہوا باز محمد محمود عالم رہا ‘ جس کے کارناموں پر تمام پاکستانی سر فخر سے بلند کرسکتے ہیں ۔ قصہ مختصر جب چھ بھارتی طیارے سرگودھا ائیر بیس کی جانب بڑھتے نظر آئے تو ایم ایم عالم اپنا طیارہ فضا کی بلندیوں میں لے گئے ۔دشمن کے طیاروں نے ایم ایم عالم کے طیارے کو تاک لیا تھا ۔ایم ایم عالم کے پیچھے چھ بھارتی طیارے لگ گئے ‘ ایم ایم عالم نے ریڈار پر دیکھا کہ بھارتی طیارے اسے نشانے پر لے چکے ہیں اور گنیں چلنے ہی والی ہیں تو انہوں نے پلک جبکتے ہی ایسی قلا بازی لگائی کہ دشمن کے تمام طیارے اوپر سے گزر گئے ۔اسے ہوا بازی کی اصطلاح میں "لیڈ"کہاجاتاہے ۔ بھارتی طیارے ابھی گزرے ہی تھے کہ ایم ایم عالم ایک سکینڈ میں ان بھارتی طیاروں کے تعاقب میں جا پہنچے اور سب کو اپنی مشین گن کی زد میں لے کر بٹن دبا دیا۔گولیوں کی بوچھاڑ نکلی اورپانچوں بھارتی طیارے آگ کی لپیٹ میں آگئے جو سانگلہ ہل اور پنڈی بھٹیاں کے درمیانی علاقے میں زمین بوس ہوئے۔ جو ایک طیارہ بچا اسے میزائل کا نشانہ بنایا گیا تووہ بھی لڑھکنیاں کھاتا ہوا چنیوٹ کے قریب جاگرا۔سرگودھا پر حملہ کرنے والے چھ بھارتی طیاروں میں سے پانچ کو اکیلے ایم ایم عالم نے تباہ کرکے ایک ایسا عالمی ریکارڈ قائم کردیا جس کو توڑنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔جب ایم ایم عالم فتح یاب ہوکر سرگودھا ایئر بیس پر اترے تو ان کا کہنا تھا کہ مورال کے لیے فتح سے بہتر کوئی ٹانک نہیں ۔ایم ایم عالم ‘ اقبال کے حقیقی شاہین کے روپ میں ابھر کر سامنے آئے۔پاک فضائیہ کے مزید جن شاہینوں نے دشمن پر کاری ضرب لگاکر جام شہادت نوش کیا۔ ان میں سکوارڈن لیڈر سرفراز رفیقی شہید ( ستارہ جرات)‘ سکوارڈن لیڈر علاؤ الدین احمد شہید ( ستارہ جرات )سکوارڈن لیڈر لیڈر ایم ایس عالم صدیقی شہید ( ستارہ حرب) ‘ سکوارڈرن لیڈر اشفاق حسین قریشی شہید ( ستارہ جرات )شامل ہیں ۔جہاں تک اس عظیم جنگ میں روحانیت کے عمل دخل کا تعلق ہے ۔ بھارتی پائلٹوں نے اپنی کتابوں میں لکھا کہ ہم لاہور کے قریب دریائے راوی کا اکلوتا پل تمام تر کوشش کے باوجود نہیں توڑ سکے کہ ہم نے جتنی بار بھی پل توڑنے کی کوشش کی ،ایک سبز لباس والے بزرگ جو دریائے راوی کے اکلوتے پل پر ہر وقت ہمیں کھڑے دکھائی دیتے وہ ہمارے جنگی طیاروں سے گرائے ہوئے بموں کو کرکٹ گیند کی طرح کیچ کرکے اپنے بڑے سے تھیلے میں ڈال لیتے تھے ۔ہم یہ سمجھنے سے قاصررہے کہ وہ بزرگ ہیں کون ۔؟ قصہ مختصر کہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں ہمارے شاہینوں نے اپنے جذبہ ایمانی سے ایسی ایسی داستان شجاعت رقم کیں جن کا تذکرہ تاقیامت دنیا کی عسکری تاریخ میں ہوتا رہے گا ۔ان شاء اﷲ
(جاری ہے )
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 665691 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.