شنگھائی تعاون تنظیم کا بڑھتا ہوا خاندان

شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) ایک جامع علاقائی تعاون تنظیم ہے جو دنیا کے سب سے بڑے رقبے اور آبادی کا احاطہ کرتی ہے۔ابھی حال ہی میں ایران باضابطہ طور پر تنظیم کا نواں رکن ملک بن گیا ہے۔اس حوالے سےتنظیم کے سربراہان مملکت کی کونسل کے 23 ویں اجلاس میں ایران کی شمولیت کا باضابطہ اعلان کیا گیا۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چینی صدر شی جن پھنگ نے ایران کو شنگھائی تعاون تنظیم کے خاندان میں خوش آمدید کہا اور شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ اتحاد اور ہم آہنگی سے رہیں تاکہ عالمی امن اور ترقی میں مزید اعتماد اور مثبت توانائی لائی جا سکے۔شی جن پھنگ نے واضح کیا کہ عوام کی خوشحال زندگی کی خواہش ہمارا مقصد ہے اور امن، ترقی اور باہمی تعاون وقت کے ناقابل تسخیر رجحانات ہیں۔دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے پر زور دیتے ہوئے چینی صدر نے شنگھائی تعاون تنظیم کے رہنماؤں کو بتایا کہ چین گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو (جی ڈی آئی)، گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو (جی ایس آئی) اور گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو (جی سی آئی) پر فعال طور پر عمل درآمد کے لیے دیگر رکن ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔دیکھا جائے تو چینی صدر نےافراتفری اور تبدیلیوں کی دنیا میں ، جی ڈی آئی ، جی ایس آئی اور جی سی آئی پیش کیے ہیں ، جنہوں نے عالمی حکمرانی سے وابستہ مسائل کا "چینی حل" فراہم کیا ہے ۔ یہ تینوں اقدامات شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی ضروریات کو بھی پورا کرتے ہیں تاکہ اس کے "تین ستونوں" یعنیٰ سلامتی، معیشت اور عوام کے درمیان تبادلوں کے تین اہم تعاون کے شعبوں کو مضبوط بنایا جا سکے۔

وسیع تناظر میں شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام دو دہائیوں قبل دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کی تین قوتوں کا مقابلہ کرنے کے بنیادی مشن کے ساتھ عمل میں لایا گیا تھا۔ گزشتہ برسوں کے دوران شنگھائی تعاون تنظیم کے فریم ورک کے تحت رکن ممالک کے لیے سیکیورٹی تعاون ایک اہم توجہ کا مرکز رہا ہے۔ان"تین قوتوں" کا مقابلہ کرنے کے لئے شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان نے انٹیلی جنس کے تبادلے اور معلومات کے تبادلے میں توسیع اور انسداد دہشت گردی کی مشترکہ مشقوں میں قابل ذکر پیش رفت کی ہے۔ صرف 2020 میں شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک 40 سے زائد دہشت گرد حملوں کو روکنے اور 50 سے زائد دہشت گرد گروہوں کو ختم کرنے میں کامیاب رہے۔یہ تنظیم منشیات کی اسمگلنگ اور بین الاقوامی منظم جرائم کی روک تھام اور ایس سی او افغانستان رابطہ گروپ جیسے میکانزم کے ذریعے علاقائی ہاٹ اسپاٹس کے بھڑکنے سے نمٹنے کے لئے رکن ممالک کی کوششوں کے ایک اہم کوآرڈینیٹر کے طور پر بھی کام کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ علاقائی امن کو برقرار رکھنے اور مشترکہ سلامتی کے تحفظ پر زور دیتے ہوئے شی جن پھنگ نے نشاندہی کی کہ "اس خطے میں امن اور سلامتی کو برقرار رکھنا ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ چین جی ایس آئی کے نفاذ، بات چیت اور مشاورت کے ذریعے بین الاقوامی تنازعات کے حل کو فروغ دینے اور بین الاقوامی اور علاقائی ہاٹ اسپاٹس کے سیاسی تصفیے کی حوصلہ افزائی کے لئے تمام فریقوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے تیار ہے تاکہ خطے میں ایک مضبوط سلامتی ڈھال بنائی جا سکے۔

یوریشیائی براعظم کے تین پانچویں حصے کا احاطہ کرتے ہوئے شنگھائی تعاون تنظیم دنیا کی تقریباً نصف آبادی اور عالمی جی ڈی پی کے 20 فیصد سے زیادہ کی نمائندگی کرتی ہے ، جس کا مطلب ہے کہ ترقی کے امکانات اور بھی زیادہ ہیں۔ ساتھ ساتھ چین کے مجوزہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) نے شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان کو صلاحیت سے فائدہ اٹھانے اور بنیادی ڈھانچے میں اپنے عملی تعاون کو تیز کرنے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔چین۔کرغزستان۔ازبکستان ریلوے، چین۔وسطی ایشیا قدرتی گیس پائپ لائن اور چین۔یورپ مال بردار ٹرین خدمات کے باقاعدہ آپریشن جیسی نقل و حمل کی خدمات کی تعمیر کے ساتھ، شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے مابین ٹھوس تعلقات مزید قریبی ہوگئے ہیں.اسی باعث شی جن پھنگ نے کہا کہ ہمیں بیلٹ اینڈ روڈ کو "خوشحالی کے راستے" کے طور پر وسیع کرنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے جس سے پوری دنیا کو فائدہ ہو گا اور انہوں نے شنگھائی تعاون تنظیم کے رہنماؤں کو بتایا کہ بی آر آئی کی 10 ویں سالگرہ کے موقع پر چین بین الاقوامی تعاون کے لیے تیسرا بیلٹ اینڈ روڈ فورم منعقد کرے گا۔اسی طرح چین اور شنگھائی تعاون تنظیم کے مقامی اقتصادی اور تجارتی تعاون کے مثالی زون نے بھی مقامی لوگوں کو ٹھوس فوائد فراہم کیے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے ممالک کے ساتھ اس کی تجارت 2019 میں تقریباً 117 ملین ڈالر سے بڑھ کر 2022 میں تقریباً 1.1 بلین ڈالر ہوگئی ہے۔صدر شی جن پھنگ نے سمٹ کے دوران زور دے کر کہا کہ اقتصادی ترقی کو فروغ دینا خطے کے تمام ممالک کے لئے ایک مشترکہ کام ہے۔ انہوں نے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ عملی تعاون پر توجہ دیں اور معاشی بحالی میں تیزی لائیں۔انہوں نے جی ڈی آئی کے نفاذ کے لئے تمام فریقوں کے ساتھ مل کر کام کرنے اور تحفظ پسندی، یکطرفہ پابندیوں اور قومی سلامتی تصور کے غلط استعمال کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے اور رکاوٹیں کھڑی کرنے، سپلائی چین کو الگ کرنے اور ڈی کپلنگ کے اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے سود مند تعاون کی فضا کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک بہت سی قدیم تہذیبوں اور قومیتوں کا گھر ہیں جن کی مذہبی اور ثقافتی وراثت ہے، جو بین الثقافتی تبادلوں اور باہمی تفہیم کو فروغ دینے کی کوششوں کو حقیقی طور پر لازمی بناتے ہیں۔رکن ممالک کے درمیان زبانوں کا سال، ثقافت کا سال اور سیاحت کا سال جیسی ثقافتی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے، جس کا مقصد شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے لوگوں کو ایک دوسرے کو بہتر طور پر جاننے میں مدد کرنا ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم نے یونیورسٹی آف شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (یو ایس سی او) بھی تیار کی ہے جو شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے نوجوانوں کے درمیان ثقافتی اور تعلیمی تبادلوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اس وقت یو ایس سی او کے تعاون پروگرام کے تحت 82 کالج اور یونیورسٹیاں فعال ہیں ۔سمٹ کے دوران چینی صدر شی جن پھنگ نے واضح کیا کہ خطے کے تمام ممالک ، مختلف تہذیبوں کی ہم آہنگ ترقی دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس خاطر چین تمام فریقین کا گلو بل سولائزیشن اینشی ایٹو کے نفاذ، تمام تہذیبوں کے درمیان اشتراک اور بقائے باہمی کو فروغ دینے اور تمام اقوام کے درمیان باہمی تفہیم اور دوستی میں اضافے کے لئے مل کر کام کرنے کا خیرمقدم کرتا ہے۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 962 Articles with 414101 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More