خارجہ تعلقات کا چینی تصور

یکم جولائی سے عوامی جمہوریہ چین کا خارجہ تعلقات سے متعلق قانون نافذ العمل ہو چکا ہے۔یہ قانون بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر کو فروغ دینے میں چین کے پختہ اعتماد، اور قومی اقتدار اعلیٰ، سلامتی اور ترقیاتی مفادات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی شفافیت اور انصاف کے تحفظ کے لئے چین کے عزم اور ذمہ داری کا مظہر ہے ، یہ قانون چین کو بہتر طور پر سمجھنے میں دنیا کی مدد کرے گا۔ماہرین کے نزدیک یہ قانون چین کی خارجہ پالیسی کے اصولوں کی عکاسی کرتا ہے اور قانونی طور پر اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ چین کی حکمراں جماعت خارجہ امور کی رہنمائی کرتی ہے۔اس قانون کے نفاذ کا بنیادی مقصد غیر ملکی تبادلے کے حوالے سے چین کے موقف کی وضاحت کرنا، چین کے خارجہ تعلقات کے متعلقہ نظام کو بہتر بنانا، دنیا کے سامنے امن، ترقی، تعاون اور قانون کی حکمرانی میں سود مند نتائج سے متعلق چین کی پاسداری کو ظاہر کرنا ، چین کے خارجہ تعلقات کی ترقی اور بین الاقوامی تعاون کے فروغ کے لیے بہتر قانونی بنیاد فراہم کرنا ہے۔ یہ خارجہ تعلقات کو فروغ دینے اور بین الاقوامی تعاون کو آسان بنانے میں چین کی کوششوں کی رہنمائی کے لئے ایک بہتر قانونی آلہ فراہم کرے گا۔مثال کے طور پر اس میں کہا گیا ہے کہ چین گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو، گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو اور گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو کو عملی جامہ پہنانے کا مطالبہ کرتا ہے۔چین عالمی ماحولیاتی اور موسمیاتی حکمرانی، غیر ملکی امداد کی فراہمی اور بین الاقوامی انسان دوست تعاون اور معاونت میں فعال کردار ادا کر رہا ہے۔
علاوہ ازیں، یہ قانون بیرونی دنیا کے لئے چین کے کھلے پن کا ایک واضح پیغام ہے. "بیلٹ اینڈ روڈ کی اعلی معیار کی ترقی کو فروغ دینا، کثیر الجہتی تجارتی نظام کا تحفظ، یکطرفہ اور تحفظ پسندی کی مخالفت، اور ایک کھلی عالمی معیشت کی تعمیر کو فروغ دینا" یہ سب ظاہر کرتے ہیں کہ چین کا مسلسل کھلے پن کو وسعت دینے کا عزم پختہ ہے۔قانون میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ "عوامی جمہوریہ چین کو بین الاقوامی قوانین اور بین الاقوامی تعلقات کو چلانے والے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کرنے اور عوامی جمہوریہ چین کے اقتدار اعلیٰ، سلامتی اور ترقیاتی مفادات کو خطرے میں ڈالنے والے اقدامات کے خلاف متعلقہ جوابی اقدامات کا حق حاصل ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ قانون بین الاقوامی شفافیت اور انصاف کے بہتر تحفظ کے لئے بھی سازگار ہے.سیاست کے دائرے میں،یہ قانون ایک جامع فریم ورک کے طور پر کام کرتا ہے جو تمام پہلوؤں سے چین کے خارجہ تعلقات کے طرز عمل کو کنٹرول کرتا ہے. یہ نئی قانون سازی چین کی جانب سے سفارتی طریقوں اور خارجہ تعلقات کو قانونی شکل دینے کی کوششوں کی جامع عکاسی کرتی ہے۔ اس طرح کے قانون کی تشکیل قومی سلامتی کو مضبوط بنانے کے لئے چینی قوم کے عزم کا واضح مظہر ہے۔ جہاں تک انسانی حقوق کا تعلق ہے، اس قانون میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ چین انسانی حقوق کے راستے پر مسلسل قائم رہے گا اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے چینی دانش اور چینی نقطہ نظر فراہم کرے گا۔

حالیہ برسوں میں، چین نے خارجہ امور کی قانون سازی کو مضبوط بنانے کے لئے قابل ذکر کوششیں کی ہیں اور اس دوران خاص طور پر بیرونی چیلنجوں سے نمٹنے کو نمایاں اہمیت دی گئی ہے. اس قانون کے نفاذ سے بین الاقوامی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے چین کے قانونی "دائرہ کار" کو مزید تقویت ملے گی۔نئے قانون کی اہمیت بنیادی طور پر اس کے قانونی مضمرات میں ہے۔ ایک جانب، یہ وسعت اور جامعیت کے لحاظ سے دیگر متعلقہ قانون سازی سے قدرے نمایاں ہے۔دوسری جانب، قانون واضح طور پر بین الاقوامی قانون اور چین کے موجودہ آئین کے درمیان ربط قائم کرتا ہے، جو ملک کے سپریم قانون کے طور پر کام کررہا ہے.اس قانون کے آرٹیکل 30 میں کہا گیا ہے کہ ریاست کی جانب سے کیے گئے معاہدوں اور سمجھوتوں کو آئین سے متصادم نہیں ہونا چاہئے۔ یہ دعویٰ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ چینی آئین بین الاقوامی قانون پر اعلیٰ اختیار رکھتا ہے، جس کی وجہ سے بین الاقوامی قانون کے لیے آئین کی جگہ لینا یا اس کی خلاف ورزی کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہ بہت سے یورپی ممالک کی طرف سے اپنائے جانے والے نقطہ نظر کے برعکس ہے ، جہاں بین الاقوامی قانون ، خاص طور پر یورپی یونین کے قانون کو ملکی قانون پر ترجیح دی جاتی ہے۔وسیع تناظر میں یہ نیا قانون ایک جامع فریم ورک قائم کرنے کے چین کے دیرینہ مقصد کو پورا کرتا ہے جس میں بیرون ملک ملکی مفادات کے تحفظ کے لیے سیاسی، معاشی اور سفارتی اقدامات کو مربوط کرنا شامل ہے۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 962 Articles with 414095 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More